قُلْ لَّنۡ يُّصِيۡبَـنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَـنَا ۚ هُوَ مَوۡلٰٮنَا ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 51
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلْ لَّنۡ يُّصِيۡبَـنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَـنَا ۚ هُوَ مَوۡلٰٮنَا ۚ وَعَلَى اللّٰهِ فَلۡيَتَوَكَّلِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچی ماسوا اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کردی ہے، وہی ہمارا مالک ہے، اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ ہمیں ہرگز کوئی مصیبت نہیں پہنچتی ماسوا اس کے جو اللہ نے ہمارے لیے مقدر کردی ہے، وہی ہمارا مالک ہے اور ایمان والوں کو اللہ ہی پر توکل کرنا چاہیے (التوبہ : ٥١ )
مسئلہ تقدیر :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم کو کوئی خیر یا شر، کوئی رنج یا راحت، کوئی سختی نہیں پہنچتی مگر وہ ہمارے لیے مقدر ہوتی ہے اور اللہ کے پاس لوح محفوظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اور اس کے خلاف ہونا محال ہے، کیونکہ اللہ کو ازل میں علم تھا کہ بندے اپنے اختیار اور ارادہ سے کیا کریں گے اور کیا نہیں کریں گے اور اس نے اس کو لوح محفوظ میں لکھ دیا، اب اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے خلاف ہوسکتا ہے تو گویا وہ یہ کہہ رہا ہے کہ اللہ کے علم کے خلاف ہوسکتا ہے اور علم کے خلاف ہونا جہل ہے اور جہل اللہ کے لیے محال ہے، سو اللہ کے علم اور تقدیر کے خلاف ہونا بھی محال ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اللہ ہمارا مالک ہے، اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کے ارادہ اور اس کے افعال دونوں کو اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے، اب اگر کوئی یہ کہے کہ جب بندہ کا ارادہ بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور اس کا فعل بھی اللہ نے پیدا کیا ہے تو بندے کو برے کاموں پر عذاب اور نیک کاموں پر ثواب کیوں ہوگا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ ہمارا مالک ہے اور ہم اس کے مملوک ہیں اور مالک اپنی ملکیت میں جس طرح چاہے تصرف کرے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا۔ مخلوق کے عام احوال میں یہی ہوتا ہے کہ جو شخص کسی چیز کا مالک ہو وہ اس میں جس طرح تصرف کرے کسی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے۔ تو اللہ عزوجل اپنی مخلوق میں جس طرح تصرف فرمائے اس پر کسی کو اعتراض کا کیا حق ہے۔
ابنِ دیلمی بیان کرتے ہیں کہ میرے دل میں تقدیر کے متعلق ایک شک پید اہوا اور مجھے یہ شک ہوا کہ اس سے میرا دین فاسد ہوجائے گا، میں حضرت ابی بن کعب کے پاس گیا۔ انہوں نے مجھے ایک حدیث سنائی اور کہا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود سے بھی پوچھنا، حضرت عبداللہ نے بھی وہی حدیث سنائی اور کہا کہ حضرت حذیفہ سے بھی پوچھنا۔ انہوں نے بھی جواب میں وہی حدیث سنائی جو ان دونوں نے سنائی تھی اور کہا کہ حضرت زید بن ثابت کے پاس جائو۔ انہوں نے بھی وہی حدیث سنائی کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اگر اللہ تمام آسمان والوں اور تمام زمین والوں کو عذاب دے تو وہ ان کو عذاب دے گا اور یہ اس کا ظلم نہیں ہوگا، اور اگر وہ ان پر رحمت فرمائے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تمہارے پاس احد پہاڑ جتنا سونا ہو جس کو تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو تو اللہ اس کو تم سے اس وقت تک قبول نہیں کرے گا جب تک تم اللہ کی ہر تقدیر پر ایمان نہ لے آئو، اور تم یہ یقین رکھو کہ تم کو جو چیز بھی پہنچی ہے وہ تم سیٹل نہیں سکتی تھی اور جو چیز تم کو نہیں پہنچی وہ تم پر آ نہیں سکتی تھی اور اگر تم اس عقیدہ کے علاوہ کسی اور عقیدہ پر مرے تو دوزخ میں داخل ہوگئے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٧، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٩٩، مسند احمد ج ٨ رقم الحدیث : ٢١٦٦٧ ) ۔
متکلمین نے اس اشکال کو دور کرنے کے لیے یہ کہا ہے کہ ارادہ کو اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کیا بندہ اس کا خودا حداث کرتا ہے، اور معتزلہ نے یہ کہا ہے ارادہ کو بندہ خود پیدا کرتا ہے اور اعمال کو بھی خود پیدا کرتا ہے۔ اس کے بعد فرمایا : اور ایمان والوں کو اللہ پر ہی توکل کرنا چاہیے، اس میں ایک اشارہ یہ ہے کہ منافقین اور کفار دنیاوی اسباب پر توکل کرتے ہیں۔ اس لیے ایمان والوں کو چاہیے کہ صرف اللہ پر توکل کریں، دوسرا اس میں یہ اشارہ ہے کہ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر آس لگائے رکھیں اور ہرچند کہ ہوگا وہی جو تقدیر میں لکھا ہوا ہے لیکن بندوں کو چاہیے کہ وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار رہیں اور اس سے دعا کرنا نہ چھوڑیں کیونکہ دوا اور دوا بھی مقدرات میں سے ہیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 51