وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞- سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 72
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَعَدَ اللّٰهُ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ وَالۡمُؤۡمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجۡرِىۡ مِنۡ تَحۡتِهَا الۡاَنۡهٰرُ خٰلِدِيۡنَ فِيۡهَا وَمَسٰكِنَ طَيِّبَةً فِىۡ جَنّٰتِ عَدۡنٍ ؕ وَرِضۡوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكۡبَرُ ؕ ذٰ لِكَ هُوَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِيۡمُ ۞
ترجمہ:
اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور دائمی جنتوں میں پاکیزہ رہائش گاہوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اور اللہ کی رضا (ان سب سے) بڑی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ نے مومن مردوں اور مومن عورتوں سے ان جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں، جن میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہوں گے اور دائمی جنتوں میں پاکیزہ رہائش گاہوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اور اللہ کی رضا (ان سب سے) بڑی ہے اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے (التوبہ : ٧٢)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کے لیے ان جنتوں (باغات) کا ذکر فرمایا ہے جن کے نیچے سے دریا بہتے ہیں اور ان دائمی جنتوں کا ذکر فرمایا ہے جو مومنوں کی دائمی پاکیزہ رہائش گاہیں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ پہلی قسم کی جنتیں مسلمانوں کی سیر و تفریح اور احباب سے ملاقات کے لیے ہوں اور دوسری قسم کی جنتیں مسلمانوں کی رہائش کے لیے ہوں۔
دائمی جنتوں میں پاکیزہ رہائش گاہیں اور جنت کی نعمتیں :
امام محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت عمران بن حصین اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مسکن طیبۃ فی جنات عدن کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ موتیوں کا ایک محل ہے۔ اس میں سرخ یاقوت کی ستر حویلیاں ہیں۔ ہر حویلی میں سبز زمرد کے ستر گھر ہیں۔ ہر گھر میں ستر تخت ہیں۔ ہر تخت پر ہر رنگ کے ستر بستر ہیں۔ ہر بستر پر بڑی آنکھوں والی ایک گوری بیوی ہے۔ ہر گھر میں ستر دستر خوان ہیں۔ ہر دستر خوان پر ستر قسم کے کھانے ہیں۔ ہر گھر میں ستر خدمت گار ہیں اور مومن کو ہر صبح اتنی قوت دی جائے گی کہ وہ ان تمام چیزوں کو صرف کرسکے۔ (جامع البیان ج ١٠، ص ٢٢٩، تفسیر امام بن ابی حاتم ج ٦ ص ١٨٤٠ ) ۔
حضرت عبداللہ بن قیس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دو جنتیں چاندی کی ہیں۔ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے وہ چاندی کا ہے اور دو جنتیں سونے کی ہیں۔ ان کے برتن اور ان میں جو کچھ ہے وہ سونے کا ہے۔ لوگوں کے اور ان کے رب کے درمیان صرف کبریائی کی چادر ہے جو اللہ کے چہرہ پر جنت عدن میں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٧٨، ٧٤٤٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٦) ۔
حضرت عبداللہ بن قیس اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کے لیے جنت میں کھوکھلے موتیوں کا ایک خیمہ ہے جس کا طول ساٹھ میل ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٣٨، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٢٨، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٨٣٣) ۔
حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنت میں سو درجے ہیں : ہر دو درجوں میں زمین و آسمان جتنا فاصلہ ہے اور فردوس ان میں سب سے بلند درجہ ہے۔ اسی سے جنت کے چار دریا نکلتے ہیں اور اس کے اوپر عرش ہے۔ پس جب تم اللہ سے سوال کرو تو فردوس کا سوال کرو۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٣١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٣١، المستدرک ج ٣ ص ٨٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٢١٩٨٦، ٢٢٥٩٤، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، حافظ شاکر نے کہا اس کی سند صحیح ہے) ۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو پہلا گروہ جنت میں داخل ہوگا اس کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح ہوگی۔ پرھ جو ان کے قریب ہوں گے ان کی صورت چمک دار ستارے کی طرح ہوگی۔ وہ پیشات اور پاخانہ نہیں کریں گے۔ تھوکیں گے نہ ان کی ناک نکلے گی۔ ان کی سونے کی کنگھی ہوگی اور ان کا پسینہ مشک کی طرح ہوگا۔ ان کی انگیٹھیوں میں عود سلگتا ہوگا۔ ان کی بیویاں بڑی آنکھوں والی حوریں ہوں گی۔ ان سب کی تخلیق ایک شخص کی طرح ہوگی۔ وہ سب اپنے باپ (حضرت) آدم (علیہ السلام) کی صورت پر ہوں گے۔ جن کا قد آسمان میں ساٹھ گز کے برابر ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٣٢٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٢٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٣٣، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٨٢٣، شرح السنہ ج ١٥، ص ٢١٢) ۔
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک جنتی شخص کو کھانے پینے، جماع اور شہوت میں سو آدمیوں کی طاقت ہوگی۔ ایک یہودی نے یہ سن کر کہا جو شخص کھائے گا اور پئے گا اس کو قضاء حاجب بھی ہوگی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کے جسم سے پسینہ نکلے گا جس سے اس کا جسم سکڑ جائے گا۔ (سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٨٢٥، مسند احمد رقم الحدیث : ١٩٢١٠، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ)
۔ امام ترمذی نے حضرت انس (رض) سے اس باب کی حدیث کو روایت کیا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٣٦) اور امام احمد نے بھی روایت کیا ہے۔ مسند احمد رقم الحدیث : ١٩٢١٠، مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ) ۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت میں سے ادنیٰ شخص وہ ہوگا جس کے اسی ہزار خادم ہوں گے اور اس کی بہتر بیویاں ہوں گی اور اس کے لیے موتی، زمرد اور یاقوت کا اتنا بڑا گنبد بنایا جائے گا جتنی جابیہ اور صنعاء میں مسافت ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٢ ) ۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) نے ایک مرتبہ منبر پر کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک مرتبہ اللہ تعالیٰ سے پوچھا : جنت میں سب سے کم درجہ کس شخص کا ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہ ایک شخص ہوگا جو تمام جنتیوں کے جنت میں داخل ہونے کے بعد جنت میں جائے گا۔ اس سے کہا جائے گا جنت میں چلے جائو۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب میں جنت میں کہاں جائوں۔ جنت کے محلات اور مناصب پر تو لوگوں نے پہلے ہی قبضہ کرلیا ہے۔ اس سے کہا جائے گا : کیا تم اس بات پر راضی ہو کہ تم کو جنت میں اتنا علاقہ مل جائے جتنا دنیا میں کسی بادشاہ کے ملک کا علاقہ ہوتا ہے۔ وہ شخص عرض کرے گا : اے میرے رب ! میں راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : جائو یہ علاقہ لے لو اور اس کا پانچ گنا علاقہ اور لے لو اور اس کے علاوہ وہ چیز بھی لے لو جو تمہارے دل پسند آئے اور تمہاری آنکھوں کو اچھی لگے۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب ! میں راضی ہوں۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے پوچھا : اور جن لوگوں کا جنت میں سب سے بڑا درجہ ہوگا وہ کون لوگ ہوں گے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ وہ گروہ ہے جس کو میں نے پسند کیا اور ان کی عزت و کرامت پر میں نے مہر لگا دی۔ ان کو وہ نعمتیں ملیں گی جن کو کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی کے ذہن میں اس کا تصور آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان نعمتوں کی تصدیق قرآن مجید کی اس آیت میں ہے :
فلا تعلم نفسٌ مآ اخفی لھم من قرۃ اعینٍ (السجدۃ : ١٧)
ترجمہ : کوئی شخص نہیں جانتا کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے کیا کیا نعمتیں چھپائی ہوئی ہیں۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٩٨، مسند احمد ج ٣ ص ٩٥، ٨٨)
اللہ کی رضا اور اس کے دیدار کا سب سے بڑی نعمت ہونا :
اللہ تعالیٰ نے جنات اور مساکن طیبہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا : ان سب سے بڑی چیز اللہ تعالیٰ کی رضا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اہل جنت سے فرمائے گا : اے اہل جنت ! وہ کہیں گے لبیک اے ہمارے رب ! ہم تیری اطاعت کے لیے حاضر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : کیا تم راضی ہوگئے ؟ وہ کہیں گے : ہم کیوں نہیں راضی ہوں گے، تو نے ہمیں اتنا کچھ عطا فرمایا ہے جو تو نے اپنی مخلوق میں کسی کو عطا نہیں فرمایا : اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں تم کو اس سے افضل چیز عطا فرمائوں گا۔ وہ عرض کریں گے : اس سے افضل چیز اور کیا ہوگی ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میں نے تم پر اپنی رضا حلال کردی ہے۔ میں اب تم سے کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٥١٨، صحیح مسلم الحدیث : ٢٨٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٤ ) ۔
اللہ کی رضاسب سے بڑی نعمت ہے۔ بندہ کو جب یہ علم ہوجائے کہ اس کا مولیٰ اس سے راضی ہے تو اس کو ہر نعمت سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔ جیسا کہ اس کو جسمانی آرام اور آسائش حاصل ہو لیکن اس کو یہ علم ہو کہ اس کا مولیٰ اس سے ناراض ہے تو تمام عیش اور آرام مکدر ہوجاتا ہے اور اس کو پھولوں کی سیج بھی کانٹوں کی طرح چبھتی ہے۔ اور جب اس کو اپنے مولیٰ اور محبوب کی رضا کا علم ہو تو جسمانی تکالیف اور بھوک و پیاس کا بھی احساس نہیں ہوتا۔ چہ جائیکہ جسمانی نعمتوں اور لذتوں کے ساتھ اس کو یہ علم ہو کہ اس کا مالک اور مولیٰ اور محبوب بھی اس سے راضی ہے تو اس کی خوشی اور راحت کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ حسن بصری نے کہا : اللہ کی رضا سے ان کے دلوں میں جو لذت اور خوشی حاصل ہوتی ہے وہ جنت کی تمام نعمتوں سے زیادہ لذیذ ہوتی ہے اور ان کی آنکھیں سب سے زیادہ اس نعمت سے ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ زمحشری نے کہا اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اللہ کی رضا سب سے بڑی ہے۔ اس میں مقربین کے درجات کی طرف اشارہ ہے۔ ہرچند کہ تمام جنتی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوتے ہیں لیکن ان کے درجات مختلف ہوتے ہیں۔ ہر فلاح اور سعادت کا سبب اللہ کی رضا ہے۔ (البحرالمحیط ٥ ص ٤٦٢۔ ٤٦١، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٢ ھ) ۔
اللہ تعالیٰ کی رضا اس وقت حاصل ہوگی جب اہل جنت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے۔ حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چودھویں رات کے چاند کی طرف دیکھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم عنقریب اپنے رب کو اس طرح دیکھو گے جس طرح اس چاند کو دیکھ رہے ہو۔ اگر تم سے ہو سکے تو طلوع شمس سے پہلے اور غروب شمس سے پہلے نمازوں (فجر اور عصر کی نمازوں) سے عاجز نہ ہونا۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کی تلاوت فرمائی :
وسبح بحمد ربک قبل طلوع الشمس وقبل الغروب (ق : ٣٩)
ترجمہ : طلوع شمس سے پہلے اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کیجئے اور غروب سے پہلے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٥٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٣٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥١، سنن ابودئود رقم الحدیث : ٤٧٢٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧٧) ۔
حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا : تم کوئی اور چیز چاہتے ہو جو میں تم کو عطا فرمائوں ! وہ عرض کریں گے : کیا تو نے ہمارا چہرہ سفید نہیں کیا ! کیا تو نے ہم کو جنت میں داخل نہیں کیا ! کیا تو نے ہم کو دوزخ سے نجات نہیں دی ! آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : پھر اللہ تعالیٰ حجاب منکشف کر دے گا۔ اور اہل جنت کو ایسی کوئی چیز نہیں عطا کی گئی ہوگی جو ان کو اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٥٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٧، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٩٦٣، ١٨٩٥٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت) ۔
حضرت عمار بن یاسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز میں یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! اپنے علم غیب سے اور مخلوق پر اپنی قدرت سے مجھے اس وقت تک زندہ رکھنا جب تک میرے لیے زندہ رہنا بہتر ہو اور مجھے اس وقت وفات دینا جب تیرے علم میں میرے لیے وفات بہتر ہو۔ اے اللہ ! میں تجھ سے غیب میں (جب کوئی دیکھ نہ رہا ہو) اور شہادت میں (لوگوں کے سامنے) تیرے خوف کا سوال کرتا ہوں۔ اور میں رضا اور غضب میں کلمہ حق کہنے کا سوال کرتا ہوں۔ اور فقر اور غناء میں میانہ روی کا سوال کرتا ہوں اور میں تجھ سے ختم نہ ہونے والی نعمت کا سوال کرتا ہوں اور زائل نہ ہونے والی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سوال کرتا ہوں اور تقدیر واقع ہونے کے بعد اس پر راضی رہنے کا سوال کرتا ہوں اور موت کے بعد ٹھنڈی زندگی کا سوال کرتا ہوں اور تیرے چہرے کی طرف دیکھنے کی لذت کا اور تجھ سے ملاقات کے شوق کا سوال کرتا ہوں جو بغیر کسی ضرر اور گمراہ کرنے والے فتنہ کے حاصل ہو۔ اے اللہ ! ہمیں ایمان کی زینت کے ساتھ مزین کر اور ہمیں ہدایت یافتہ اور ہدایت دینے والا بنا دے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٠٤، مسند احمد ج ٤، ص ٢٦٤ ) ۔
اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ کے دیدار کرنے اور اس کی ملاقات کے شوق کے حصول کی دعا کی ہے۔ ابویزید نے کہا : اللہ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ اگر اللہ جنت میں اپنے چہرے کو حجاب میں کرے تو وہ جنت میں اس طرح فریاد کریں گے جس طرح دوزخی دوزخ میں فریاد کرتے ہیں۔ بعض حکایات میں ہے کہ کسی نے خواب میں دیکھا کہ معروف کرخی کے متعلق کہا گیا کہ یہ معروف کرخی ہیں۔ جب یہ دنیا سے گئے تو اللہ کی طرف مشتاق تھے تو اللہ عزوجل نے اپنا دیدار ان کے لیے مباح کردیا۔ کہا گیا ہے کہ اللہ عزوجل نے حضرت دائود (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ جو لوگ مجھ سے رو گردانی کیے ہوئے ہیں کاش وہ جانتے کہ مجھ کو ان کا کتنا انتظار ہے اور ان کے لیے کیسی نرمی ہے اور ان کے گناہ ترک کرنے کا مجھ کو کتنا شوق ہے تو وہ میرے اشتیاق میں مرجاتے اور میری محبت میں ان کی رگیں کٹ جائیں۔ اے دائود ! یہ تو مجھ سے رو گردانی کرنے والوں کے لیے میرا ارادہ ہے تو جو میری طرف بڑھنے والے ہیں ان کے متعلق میرا ارادہ کیا ہوگا ! استاذ ابو علی الدقاق یہ کہتے تھے : حضرت شعیب (علیہ السلام) روئے حتٰی کہ نابینا ہوگئے۔ پھر اللہ عزوجل نے ان کو بینائی لوٹا دی۔ وہ پھر روئے حتیٰ کہ نابینا ہوگئے۔ اللہ عزوجل نے پھر ان کی بینائی لوٹا دی۔ وہ پھر روئے حتیٰ کہ نابینا ہوگئے۔ پھر اللہ عزوجل نے ان کی طرف وحی کی اگر تمہارا یہ رونا جنت کے لیے ہے تو میں تمہارے لیے جنت مباح کردیتا ہوں اور اگر تمہارا یہ رونا دوزخ کی وجہ سے ہے تو میں تمہیں دوزخ سے پناہ دے دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا : نہیں بلکہ میں تجھ سے ملاقات کے شوق میں رو رہا ہوں۔ اللہ عزوجل نے ان کی طرف وحی کی : اسی وجہ سے میں نے اپنے نبی اور اپنے کلیم کو دس سال تمہاری خدمت میں رکھا۔ اور کہا گیا ہے کہ جو اللہ کی طرف مشتاق ہو اس کی طرف ہر چیز مشتاق ہوتی ہے۔ اور حدیث میں ہے : حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جنت تین شخصوں کی مشتاق ہے : علی، عمار اور سلمان۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٢٣، تاریخ دمشق ج ٥ ص ٢٥٩ ) ۔ (رسالہ قشیریہ ص ٣٦١۔ ٣٥٩، ملخصا، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)
جنت کی تخفیف نہ کی جائے :
سورة توبہ کی اس آیت کریمہ : ٧٢ اور مذکورہ الصدر احادیث اور اقوال صوفیہ کا یہ تقاضا ہے کہ عذاب نار سے نجات اور جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اللہ تعالیٰ کا دیدار اور اس کی رضا ہے اور یہ بالکل برحق ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عذاب نار سے نجات اور جنت کوئی معمولی نعمت ہے اور جنت کی تخفیف کی جائے یا العیاذ باللہ جنت کی تحقیر کی جائے۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں بہت زیادہ جنت کی تعریف کی گئی ہے اور اس کی طرف رغبت دلائی گئی ہے اور تمام نبیوں اور رسولوں نے دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگی ہے اور جنت کے حصول کی دعا کی ہے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں یہ تلقین کی ہے کہ ہم عذاب نار سے پناہ مانگیں اور جنت الفردوس کے حصول کی دعا کریں اور یہ ذہن میں رکھیں کہ اللہ کی رضا اور اس کا دیدار بھی ہمیں جنت میں ہی حاصل ہوگا۔ اس لیے بھی جنت مقصود ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائمی قیام گاہ بھی جنت ہے اور محبوب کا دیار اور اس کا گھر بھی محبوب ہوتا ہے۔ اس لیے بھی جنت ہمیں مطلوب اور محبوب ہونی چاہیے۔ اے اللہ ! ہمیں دوزخ کے اور ہر قسم کے عذاب سے اپنی پناہ میں رکھ اور ہمیں جنت الفردوس عطا فرما۔ ہم سے راضی ہو ! اور ان کاموں سے بچا جن سے تو ناراض ہو۔
آمین یارب العلمین بحرمۃ نبیک سیدنا محمد خاتم النبیین، قائد المرسلین شفیع المذنبین وعلی الہ الطاہرین و اصحابہ الراشدین وعلی اولیاء امتہ و علماء ملتہ وسائرالمومنین والمسلمین اجمعین۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 9 التوبة آیت نمبر 72