غریبوں سے محبت کیجیے…ان کی خدمت کو شعار بنائیے

غلام مصطفٰی رضوی٭

غریبوں کی زندگی بڑی سادہ ہوتی ہے…وہ کسی کا دل نہیں دُکھاتے… دین کے لیے ان کے جذبات بڑے نیک ہوتے ہیں…وہ دین سے قریب ہوتے ہیں…وہ نیک دل ہوتے ہیں…وہ بڑے ملنسار ہوتے ہیں…اُن سے اظہارِ ہمدردی کر کے دیکھیں؛ وہ فِدا ہو جائیں گے…اُن سے دو میٹھے بول آزمائیں، وہ سِپر ڈال دیں گے…وہ فِدا ہو جائیں گے…ہم نے آزمایا ہے…مشاہدہ کیا ہے…اُن کے خلوص کا بارہا تجربہ کیا…وہ بڑے خوددار ہوتے ہیں…دین کی اشاعت میں بھی وقت دینے میں زیادہ غریب ہی ملیں گے…محنت کشوں کا یہ طبقہ ہر جگہ سرگرمِ عمل دکھائی دے گا…بس! زباں نرم کیجیے؛ حسنِ سلوک کیجیے؛ پھر دیکھیے کہ کیسے اُن کا خلوص اُبھر آتا ہے…بِچھے جاتے ہیں…خلوص کا مظاہرہ کرتے ہیں…

اہلِ حق کی افرادی قوت یہی غریب طبقہ ہے…یہی طبقہ جاں فروشی میں سب سے آگے آگے رہتا ہے…اسلامی تحریکوں کی تاریخ کھنگال ڈالیں…ناموسِ رسالت ﷺ کے تحفظ کی مہمیں تجزیہ کریں…فرقہ پرستوں کے مقابل دین کے لیے ہمہ وقت سرفروشی کو یہی طبقہ آگے آگے رہتا ہے…وقت نے آزمایا ہے…یہ جان ہتھیلیوں پر لیے چلے آتے ہیں…دین داری ان کی فطرت ہے…انھیں رسول اللہ ﷺ نے نوازا… پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد کیسی فکر انگیز بات کہتے ہیں…

’’دُنیا میں امیروں اور کھاتے پیتوں کی پوچھ ہے… غریبوں اور مسکینوں کو کوئی نہیں پوچھتا…مگر آپ (ﷺ)کے دربار میں غریبوں کی پوچھ ہے… مسکینوں کی رسائی ہے… جن کو ساری دُنیا نے دُھتکارا، اور دُھتکار رہی ہے، وہ اس دربار میں نظر آئیں گے…اللہ اکبر! بجھے بجھے چہرے نظر آرہے ہیں اور چمکتے دَمکتے جا رہے ہیں… ہاں! اس دربار میں غریبوں کی بڑی رسائی ہے…وہ غریب… جن کے وسیلوں سے امیروں کو نعمتیں ملتی ہیں… جن کی آہیں عرشِ معلیٰ تک جا پہنچتی ہیں… جن کے آنسو سیلاب بن کر اُمڈ پڑتے ہیں…‘‘ (غریبوں کے غم خوار، مطبوعہ مالیگاؤں،ص۳)

ہاں! اُن کے دل جوئی کیجیے… اُن کی کیفیات کا جائزہ لیجیے… آج دُنیا وبائی مرض سے اضطراب میں مبتلا ہے… کاروبار متاثر ہیں… گھروں میں محصور ہیں… پھر غریبوں کے چولہے کس حال میں ہوں گے؟… اُن کے یہاں روٹی اور دانے کا کیا انتظام ہے… کبھی اِس رُخ سے بھی غور کیجیے… وہ ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں… وہ ہماری توجہ کے طالب ہیں… مجھے یاد آیا… ایک مدت قبل علامہ محمد ارشد مصباحی (بانی و سربراہ اعلیٰ حضرت فاؤنڈیشن انٹرنیشنل یوکے) نے کہا تھا کہ “غریبوں کے لیے غور کیجیے… اُن کی فلاح کے لیے اپنے کام کا دائرہ وسیع کیجیے…”

الحمدللہ! غریبوں سے قریب ہونے کے کئی موقعے ملتے رہتے ہیں… کبھی طبی امداد کے سلسلے میں… کبھی میلادِ مصطفیٰ ﷺ کے موقع پر اُن کی راشن سے معاونت کے لیے… اور ابھی حال ہی میں نوری مشن و تحریک فروغِ اسلام کے اشتراک سے مستحقین کی مدد کے لیے منصوبہ بنایا گیا… ان میں راشن کٹ تقسیم کا اعلان کیا گیا… دور و نزدیک سے غریب و مستحق آنے لگے… تانتا بندھ گیا… یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے… بلکہ ہر روز نیا مشاہدہ، ہر روز نیا تجربہ… اللہ اللہ! وہ آتے ہیں… دُکھوں بھری داستان سُناتے ہیں… دل پسیج جاتا ہے… ہم کیسے غافل ہیں… کبھی اطراف کا جائزہ نہیں لیتے… اُن کے زخموں پر مرہم نہیں رکھتے…اُن کے آنسو نہیں پونچھتے… سیکڑوں مشاہدات اِن چند دنوں(٢٦؍مارچ تا ۲؍اپریل ۲۰۲۰ء) میں سامنے آئے… راقم صرف ۲؍ اپریل کے چند مشاہداتی نکات ذکر کرتا ہے…

۱۔ ایک خاتون نے فون کیا… کہا کچھ کھانے کو نہیں ہے… ہم کبھی طلب نہیں کیے… ایسی گھڑی ہمارا خیال رکھیں…

۲۔ ایک خاتون پتہ پوچھتے پوچھتے ہمارے مستقر آئی… بے ساختہ رو پڑی… کہا کہ طلاق کا صدمہ ہے… غربت سے دوچار ہیں… والد بیمار ہیں… کوئی سہارا نہیں…

۳۔ چند خواتین اناج کی تلاش میں کئی دَر گئیں… ناکامی کے بعد کسی نے ہمارا پتہ دیا… وہ آئیں… تھکی ماندی تھیں… کہا کہ صبح سے دوپہر ہو گئی… ہم اناج کی آس میں یہاں پہنچے…

۴۔ ایک خاتون بیرون شہر کی تھی… والدہ سے ملنے مالیگاؤں پہنچی… کہ لاک ڈاؤن کا اعلان ہوگیا… گھر نہ جا سکی… راقم سے کہا کہ میری والدہ بہت غریب ہے… پھر میرا بوجھ کیسے برداشت کر سکے گی… خدارا میری مدد کریں تا کہ کچھ کھانے کا انتظام ہو…

۵۔ ایک خاتون نے راشن کے لیے ایک دوسرے شہر سے مالیگاؤں کا سفر شروع کیا… وہ کچھ دور تک پہنچی… سپاہی نے روک دیا… ناکہ بندی نے آگے نہیں بڑھنے دیا… ناچار لوٹ گئی… اُمیدوں کا خون ہو گیا…

٦۔ ایک خاتون نے فون کیا … کہا کہ: بیوہ ہوں… بچے زیادہ ہیں… جمع پونجی ختم ہو گئی… لاک ڈاؤن نے رزق ختم کر دیا… کچھ اناج مل جائے تا کہ ان ایام میں گزارا ہو جائے…

اللہ اللہ! کوئی ان غریبوں کا درد محسوس کرے… ان کی مدد تو فی الفور کر دی گئی… لیکن یہ علامت بن گئے ان لاکھوں غریبوں کی… جو اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں… جو ہر شہر، ہر قصبہ میں ہیں… تکالیف اور درد کی منزل سے گزر رہے ہیں… ان کی دل جوئی کریں… ان کی داد رسی کریں… ان کا حال معلوم کریں… ان کے کھانے کا انتظام کریں…ان کے زخموں پر مرہم رکھیں… ہم اگر اپنا مال نہیں دے سکتے… تو ان کا حق (زکوٰۃ) تو دے ہی سکتے ہیں… ان کی خدمت کر سکتے ہیں… ہاں ان کی خدمت کیجیے… لیکن! عزت کے ساتھ… جِھڑک کر نہیں… محبت اور شفقت سے… مروّت سے اور احترام سے…

ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود

ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام


٭نوری مشن مالیگاؤں

٣ اپریل ٢٠٢٠ء