أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ هُوَ الَّذِىۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِىۡ سِتَّةِ اَ يَّامٍ وَّكَانَ عَرۡشُهٗ عَلَى الۡمَآءِ لِيَبۡلُوَكُمۡ اَيُّكُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَلَئِنۡ قُلۡتَ اِنَّكُمۡ مَّبۡعُوۡثُوۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ الۡمَوۡتِ لَيَـقُوۡلَنَّ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡۤا اِنۡ هٰذَاۤ اِلَّا سِحۡرٌ مُّبِيۡنٌ ۞

ترجمہ:

وہی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کسی کا عمل نیک ہے اور اگر آپ ان سے کہیں کہ تم یقینا موت کے بعد اٹھائے جائو گے تو کافر ضرور یہ کہیں گے کہ یہ صرف کھلا ہوا جادو ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہی جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کیا اور اس کا عرش پانی پر تھا تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کس کا عمل نیک ہے اور اگر آپ ان سے کہیں کہ تم یقینا موت کے بعد اٹھائے جائو گے تو کافر ضرور یہ کہیں گے کہ یہ صرف کھلا ہوا جادو ہے۔ (ھود : ٧)

آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کرنا

دنوں کا تحقق افلاک کی حرکت اور سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے اور جب آسمان اور زمین پیدا نہیں ہوئے تھے تو دنوں کا وجود بھی نہ تھا اس لیے چھ دنوں سے مراد چھ دورانیہ یا چھ اطوار ہیں، یا اس سے مراد تقدیراً چھ دن ہیں یعنی اگر اس دورانیہ میں دن ہوتے تو چھ دن لگتے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : اللہ عزوجل نے زمین کو ہفتہ کے دن پیدا کیا اور اتور کے دن اس میں پہاڑ پیدا کیے اور درختوں کو پیر کے دن پیدا کیا اور ناپسندیدہ چیزیں منگل کے دن پیدا کیں اور نور کو بدھ کے دن پیدا کیا اور جمعرات کے دن اس میں حیوانات پھیلائے اور جمعہ کے دن عصر کے بعد حضرت آدم (علیہ السلام) کو پیدا کیا، جمعہ کی ساعات میں سے آخری ساعت میں رات آنے سے پہلے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٨٩، مسند احمد ج ٣ رقم الحدیث : ٨٣٤٩، جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٨٩٦)

آسمانوں اور زمینوں کو چھ دنوں میں پیدا کرنے کی تفصیل الاعراف : ٥٤ میں ملاحظہ فرمائیں۔ 

عرش کے پانی پر ہونے کے متعلق احادیث

 حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے اپنی اونٹنی کو دروازہ پر باندھ دیا۔ آپ کے پاس بنو تمیم کے لوگ آئے آپ نے فرمایا : اے بنو تمیم ! بشارت کو قبول کرو۔ انہوں نے کہا : آپ ہمیں بشارت تو دے چکے ہیں اب ہم کو عطا فرمائیں۔ یہ مکالمہ دو بار ہوا پھر آپ کے پاس اہل یمن آئے آپ نے فرمایا : اے اہل یمن ! بشارت کو قبول کرو اگرچہ بشارت کو بنو تمیم نے قبول نہیں کیا۔ انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ! ہم نے قبول کرلیا ہم آپ کے پاس اس امر (دنیا) کے متعلق پوچھنے کے لیے آئے تھے۔ آپ نے فرمایا : اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے ذکر میں ہر چیز لکھ دی اور آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز لکھ دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣١٩١، ٧٤١٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٩٥١، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٢٠٣، مسند احمد ج ٤ ص ٤٢٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦١٤٢، ٧٢٩٢، المعجم الکبیر ج ١٨ رقم الحدیث : ٤٩٦، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٩ ص ٢، کتاب الاسماء والصفات ج ١ ص ٣٦٤)

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٥٣، مسند احمد ج ٢ ص ١٦٩، کتاب الاسماء والصفات ص ٣٧٥۔ ٣٧٤)

چونکہ دنوں کا تحقق افلاک کی حرکت اور سورج کے طلوع اور غروب سے ہوتا ہے اس لیے اس حدیث میں پچاس ہزار سال سے مراد ہے کافی عرصہ پہلے یا پچاس ہزار سال تقدیراً مراد ہیں یعنی اگر اس وقت دن موجود ہوتے تو جتنا عرصہ پچاس ہزار سال گزرنے میں لگتا زمینوں اور آسمانوں کے بنانے سے اتنا عرصہ پہلے اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا۔ حضرت ابور زین (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اپنی مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہمارا رب کہاں تھا ؟ آپ نے فرمایا : وہ عماء میں تھا۔ (عماء کے معنی ہیں رقیق بادل۔ یزید بن ہارون نے کہا : یعنی اس کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی) اس کے نیچے ہوا تھی نہ اس کے اوپر ہوا تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٢، مسند احمد ج ٤ ص ١١، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٥٥، المعجم الکبیر ج ١٩ رقم الحدیث : ٤٦٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦١٤١، المستدرک ج ٤ ص ٥٦٠) اس حدیث میں مافوقہ ھواء میں مانافیہ ہے اور اگر یہ ما موصولہ ہو تو اس کا معنی ہے اس بادل کے اوپر اور اس کے نیچے ہوا تھی اور ہوا سے مراد ہے فراغ متوھم یعنی خلا اور اس سے مراد یہ ہے کہ اس بادل کے اوپر اور نیچے کچھ بھی نہ تھا۔ امام ابن جریر نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ان سے سوال کیا گیا کہ قرآن مجید میں ہے کہ عرش پانی پر تھا تو پانی کس چیز پر تھا۔ انہوں نے کہا : وہ ہوا کی پشت پر تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٣٩٠٥، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٠٦٩٧، تفسیر امام عبدالرزاق رقم الحدیث : ١١٨٥، تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٤٨٧، المستدرک ج ٢ ص ٣٤١، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام ابن المنذر، امام ابو الشیخ اور امام بیہقی کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے۔ الدر المنثور ج ٤ ص ٣٠٤۔ ٣٠٣) 

عرش کے پانی کے اوپر ہونے کے متعلق علماء کی آراء و نظریات

علامہ نظام الدین حسن بن محمد نیشا پوری متوف ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں : کعب احبار نے کہا اللہ تعالیٰ نے سبز یا قوت پیدا کیا پھر اس کو نظر ہیبت سے دیکھا تو وہ لرزتا ہوا پانی بن گیا پھر ہوا کو پیدا کیا اور اس کی پشت پر پانی رکھا پھر عرش کو پانی پر رکھا۔ ابوبکر اصم نے کہا : اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عرش پانی کے ساتھ ملصق (ملا ہوا) ہے، اس لحاظ سے عرش اب بھی پانی پر ہے۔ (مخشری نے کہا : اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت عرش کے نیچے پانی کے سوا اور کوئی مخلوق نہیں تھی اور اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ عرش اور پانی کو آسمانوں اور زمینوں سے پہلے پیدا فرمایا۔ (غرائب القرآن ور غائب الفرقان ج ٤ ص ٨۔ ٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٦ ھ)

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرانی متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں : حضرت عمران بن حصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ تھا اور اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی اور اس کا عرش پانی پر تھا اور اس نے ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز کو لکھ دیا پھر اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا۔ (صحیح البخاری ٣١٩١)

یہ حدیث اس وقت آسمانوں اور زمینوں، فرشتوں، انسانوں اور جنوں اور تمام مخلوقات کی نفی کرتی ہے۔ سوا عرش کے، اس وجہ سے اکثر متقدمین اور متاخرین کا یہ مسلک ہے کہ عرش، قلم اور لوح پر مقدم ہے اور جس حدیث میں ہے اللہ تعلایٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : ” لکھ ! “ اس نے پوچھا : میں کیا لکھوں ؟ فرمایا : ” قیامت تک جو کچھ ہونے والا ہے وہ سب لکھ دو ۔ “ (امام ترمذی نے کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے، رقم الحدیث : ٣١٠٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٢، مسند احمد ج ٤ ص ١١، ١٢) اس کا معنی یہ ہے کہ قلم کو آسمانوں اور زمینوں سے پہلے پیدا کیا۔ (مجموعۃ الفتاویٰ ج ٢ ص ١٦٨، مطبوعہ دارالجیل بیروت، ١٤١٨ ھ)

حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطیبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں : آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کا عرش پانی پر تھا، کعب احبار سے روایت ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے سبز یا قوت کو پیدا کیا، پھر اس کو نظر ہیبت سے دیکھا تو وہ پانی ہوگیا، پھر اس نے پانی پر اپنا عرش رکھا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : اس وقت آسمان تھا نہ زمین تھی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩ ص ٩، بیروت) میں کہتا ہوں کہ اس مسئلہ میں اقوال مفسرین بہت زیادہ ہیں اور احادیث مرفوعہ متصلہ بہت کم ہیں ان میں سے ہر چیز ممکن ہے اور حقیقت حال کو اللہ تعالیٰ ہی خوب جانتا ہے اور جو چیز ہمیں قطعی طور پر معلوم ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی کے مطابق اپنے ارادہ اور اپنی قدرت سے جو چاہا پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں کہ عرش، کرسی، پانی، ہوا یا زمین یا آسمان، ان میں سے کوئی چیز بھی ازل میں نہیں تھی، کیونکہ ان میں سے ہر چیز ممکن ہے اور ہر ممکن حادث ہے اور حوادث کا ازل میں ہونا محال ہے اور ہم کو یہ معلوم ہے کہ جس طرح تخت اجسام کو اٹھائے ہوئے ہوتے ہیں اس طرح عرش کا اللہ کو اٹھانا محال ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا جسم ہونا لازم آئے گا اور الرحمن علی العرش استوی (طہ : ٥) کے محامل واضح ہیں اور اس کی تاویلات صحیحہ ہیں البتہ شریعت نے کسی تاویل یا کسی محمل کو معین نہیں فرمایا، اس لیے اس میں توقف کرنا چاہیے اور صرف اس پر ایمان رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے۔ (المفہم ج ٦ ص ٦٧٠، مطبوعہ دار ابن کثیر بیروت ١٤١٧ ھ)

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اس کا عرش پانی پر تھا، اللہ تعالیٰ نے یہ اپنی عجیب و غریب قدرت کے اظہار کے لیے فرمایا ہے، کیونکہ کسی عمارت کو بنانے والا اپنی عمارت کو سخت زمین پر پانی سے دور رکھ کر بناتا ہے تاکہ اس کی عمارت منہدم نہ ہوجائے اور اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پانی پر بنایا تاکہ عقل والے اس کی قدرت کے کمال کو جان لیں۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ١٩٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)

نیز امام رازی فرماتے ہیں : اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت پر دلالت ہے کیونکہ عرش تمام آسمانوں اور زمینوں سے زیادہ بڑا ہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس کو پانی پر قائم کیا ہے پس اگر اللہ تعالیٰ بغیر کسی ستون کے کسی وزنی چیز کو رکھنے پر قادر نہ ہوتا تو عرش پانی پر نہ ہوتا اور اللہ تعالیٰ نے پانی کو بھی بغیر کسی سہارے کے قائم کیا نیز عرش کے پانی پر ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ عرش پانی کے ساتھ ملتصق اور متصل ہے، یہ اس طرح ہے جیسے کہا جاتا ہے آسمان زمین کے اوپر ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٢٠۔ ٣١٩، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر البیضاوی المتوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں : عرش اور پانی کے درمیان کوئی حال نہیں تھا، ایسا نہیں ہے کہ عرش پانی کی پیٹھ پر رکھا ہوا تھا۔ (تفسیر البیضاوی مع عنایت القاضی ج ٥ ص ١٢٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ) علامہ ابو السعود محمد بن محمد العمادی الحنفی المتوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں : عرش پانی پر تھا اور پانی کے نیچے کوئی اور چیز نہیں تھی خواہ عرش اور پانی کے درمیان کشادگی ہو یا عرش پانی کے اوپر رکھا ہوا ہو جیسا کہ حدیث میں ہے۔ (تفسیر ابو السعود ج ٣ ص ٢٨٧، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : اس میں کوئی شک نہیں کہ پانی ہے مراد وہی پانی ہے جو عناصر اربعہ میں سے ایک عنصر ہے اور عرش سے مراد وہی عرش معروف ہے اور عرش کے پانی پر ہونے کا معنی عام ہے، خواہ عرش پانی سے متصل ہو یا منفصل۔ (روح المعانی ج ٧ ص ١٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

ہمارے نزدیک یہ بات یقین سے نہیں کہی جاسکتی کہ پانی سے مراد یہی معروف پانی ہے یا اس سے مراد مادے کی مائع حالت ہے جس پر بطور استعارہ پانی کا اطلاق کیا گیا ہے، اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ زمین و آسمان سے پہلے پانی کی تخلیق ہوچکی تھی اور ایک اور آیت سے یہ معلوم ہوا کہ پانی ہی اصل کائنات اور منبع حیات ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : اولم یرا لذین کفرو ان السموات والارض کا نتا رتقا ففتقنھما وجعلنا من الماء کل شیء حی افلا یومنون۔ (الانبیاء : ٣٠) کیا کافروں نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین (پانی برسانے اور سبزہ اگانے سے) بند تھے تو ہم نے (پانی برسا کر اور سبزہ اگا کر) دونوں کو کھول دیا اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے بنایا تو کیا وہ ایمان نہیں لاتے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں : اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اللہ کے ساتھ کوئی چیز نہیں تھی، پانی نہ عرش اور نہ ان کے علاوہ کوئی اور چیز اور نافع بن زید کی روایت میں ہے : اللہ کا عرش پانی پر تھا، پھر اس نے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا : ” لکھ جو کچھ ہونے والا ہے “ اور اس نے ذکر (لوح محفوظ) میں ہر چیز کو لکھ دیا۔ امام مسلم نے حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمینوں اور آسمانوں کو پیدا کرنے سے پچاس ہزار سال پہلے مخلوقات کی تقدیر کو لکھا اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٥٣، ترمذی رقم الحدیث : ٢١٥٦)

علامہ طیبی نے لکھا ہے کہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پانی اور عرش اس عالم کا مبدء ہیں کیونکہ اسن کو آسمانوں اور زمینوں سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور اس وقت عرش کے نیچے صرف پانی تھا اور امام احمد اور امام ترمذی نے سند صحیح کے ساتھ حضرت عبادہ بن الصامت (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اس سے فرمایا : ” لکھ “ تو اس نے قیامت تک کی تمام پیدا ہونے والی چیزوں کو لکھ دیا۔ اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا پھر اس نے سب کچھ لکھا اور اس کے بعد پانی کو اور پھر عرش کو پیدا کیا اور جس حدیث میں ہے کہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے عقل کو پیدا کیا وہ ثابت نہیں ہے۔ علامہ ابو العلاء الہمدانی نے لکھا ہے کہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ پہلے عرش کو پیدا کیا یا پہلے قلم کو، اکثر کے نزدیک پہلے عرش کو پیدا کیا اور امام ابن جریر اور ان کے متبعین نے کہا کہ پہلے قلم کو پیدا کیا۔ امام ابن حازم نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانچ سو سال کی مسافت پر لوح کو پیدا کیا اللہ تعالیٰ عرش پر تھا پھر اس نے مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے قلم سے فرمایا : ” لکھ “ اس نے پوچھا : ” کیا لکھوں ؟ “ فرمایا : قیامت تک مخلوق کے متعلق میرا علم لکھ دو اور سبحان کی تفسیر میں انہوں نے کہا ہے کہ عرش کو قلم سے پہلے پیدا کیا ہے اور امام بیہقی نے کتاب الاسماء و الصفات میں لکھا ہے کہ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا ” لکھ “۔ اس نے پوچھا : ” میں کیا لکھوں ؟ “ فرمایا : ” تقدیر لکھو “ تو اس نے قیامت تک ہونے والی تمام چیزیں لکھ دیں اور امام سعید بن منصور نے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ابتداء عرش، پانی اور ہوا سے کی اور زمین کو پانی سے پیدا کیا اور ان مختلف آثار میں جمع اور تطبیق واضح ہے۔ (فتح الباری ج ٦ ص ٢٩٠۔ ٢٨٩، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ)

علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس پوری بحث کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں : ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نور کو پیدا کیا اور ان تمام روایات میں تطبیق اس طرح ہے کہ ہر چیز کی اولیت اضافی ہے اور ہر وہ چیز جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ اس کو سب سے پہلے پیدا کیا گیا ہے، اس کا معنی ہے کہ اس کو اپنی بعد والی چیزوں کے اعتبار سے پہلے پیدا کیا گیا ہے اور ہر چیز کو ذکر میں لکھ دیا، اس کا معنی ہے کل کائنات کی تقدیر کو لوح محفوظ میں ثابت کردیا۔ (عمدۃ القاری ج ١٥ ص ١٠٩، مطبوعہ عصر، ١٣٤٨ ھ) اس کے بعد فرمایا : تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں سے کس کا عمل نیک ہے۔ یعنی یہ آسمان اور زمین عبث پیدا نہیں کیے گئے بلکہ اس سے مقصود انسانوں اور جنات کی آزمائش ہے کہ ان میں سے کون نیک عمل کرتا ہے، نیک عمل سے مراد یہ ہے کہ قرآن اور سنت کے مطابق اخلاص سے عمل کیے جائیں۔ فرائض، واجبات اور سنتوں پر عمل کیا جائے اور محرمات اور مکروہات کو ترک کیا جائے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک سوئے ہوئے شخص کے پاس سے گزرے، فرمایا : اے سونے والے ! اٹھ اور عبادت کر۔ اس نے کہا : اے روح اللہ ! میں عبادت کرچکا ہوں۔ حضرت عیسیٰ نے پوچھا : تم نے کیا عبادت کی ہے ؟ اس نے کہا : میں نے دنیا کو دنیا والوں کے لیے چھوڑ دیا۔ آپ نے فرمایا : تم سو جائو، تم عابدین پر فائق ہو ! (الجامع لاحکام القرآن جز ٩ ص ١٠)

ضحاک نے کہا : اس آیت کا معن ہے : تاکہ وہ آزمائے کہ تم میں سے کون زیادہ شکر کرنے والا ہے۔ مقاتل نے کہا : تم میں سے کون اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : تم میں سے کون اللہ کی زیادہ اطاعت کرنے والا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے فرمایا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو تلاوت کرنے کے بعد فرمایا : تم میں سے کون زیادہ اچھی عقل والا ہے اور اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں سے زیادہ بچنے والا ہے اور اللہ کی اطاعت میں زیادہ جلدی کرنے والا ہے۔ (جامع البیان جز ١٢ ص ٩، رقم الحدیث : ١٣٩٠٨) یہ حدیث تمام اقوال کو جامع ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 7