باب التشھد

التحیات کا باب ۱؎

الفصل الاول

پہلی فصل

۱؎ لغت میں تشہد کے معنی ہیں گواہ بننا یا گواہی دینا۔عرف میں کلمۂ شہادت پڑھنا، مگر شریعت میں التحیات کو تشہد کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں توحید و رسالت کی گواہی ہوتی ہے۔خیال رہے کہ التحیات اس کلام کا مجموعہ ہے جو معراج کی رات قرب حضوری میں رب و محبوب کے درمیان ہوا،اولًا حضور نے عرض کیا”اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوٰتُ وَالطَّیِّبَاتُ”رب کی طرف سے ارشاد ہوا”اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَۃُ اﷲِ وَبَرَکَاتُہٗ”محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابًا عرض کیا”اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا وَعَلیٰ عِبَادِ اﷲِ الصَّالِحِیْنَ”ان دونوں قسموں کے کلاموں کو نمازی ادا کرکے اﷲ کی توحید حضور کی رسالت کی گواہی دیتا ہے لیکن نمازی التحیات پڑھتے وقت معراج کی اس گفتگو کی نقل کی نیت نہ کرے بلکہ خود بارگاہ الٰہی میں تحیۃً اوربارگاہ رسالت میں سلام عرض کرنے کی نیت کرے(شامی)جیسے تکبیر تشریق حضرت جبریل ،حضرت خلیل،حضرت اسماعیل کے کلاموں کا مجموعہ ہے کہ جب حضرت جبریل جنت سے دنبہ لے کر حاضر ہوئے،ادھر خلیل اپنے لخت جگر کو ذبح کررہے تھے تو اوپر سے پکارا”اَﷲُ اَکْبَرْ اَﷲُ اَکْبَرْ”حضرت خلیل نے اوپر دیکھا تو جبریل کو آتے دیکھ کر فرمایا”لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ وَاﷲُ اَکْبَرُ”پھر بحکم پروردگار حضرت اسماعیل کے ہاتھ پاؤں کھولے اور قبولیت قربانی کی بشارت دی تو آپ نے فرمایا لِلّٰہِ الْحَمْدُ مگر اب تکبیرتشریق کہنے والا وہاں کی نقل کی نیت نہ کرے بلکہ اپنی طرف سے ذکر الٰہی کی نیت کرے۔

حدیث نمبر132

روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب التحیات میں بیٹھتے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر رکھتے اور دایاں ہاتھ دائیں گھٹنے پر ۱؎ اور ترپن(۵۳)کا عقد باندھتے اور کلمے کی انگلی سے اشارہ کرتے ۲؎

شرح

۱؎ اس طرح کہ ہتھیلیاں تو رانوں پر ہوتیں اور انگلیوں کے کنارہ گھٹنوں پر،ہاتھوں سے گھٹنے پکڑنا مراد نہیں کیونکہ التحیات میں تمام انگلیوں کا رخ کعبہ معظمہ کو چاہیے۔خیال رہے کہ نماز کی ہر نشست یوں ہی ہونی چاہیے خواہ سجدوں کے درمیان کا جلسہ ہو یا التحیات کا قعدہ،یہاں التحیات کا ذکر احترازی نہیں لہذا یہ حدیث دیگر احادیث کے خلاف نہیں۔

۲؎ یعنی التحیات میں شہادت توحید کے وقت داہنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ کرتے کہ انگوٹھے کا کنارہ کلمہ کی انگلی کی جڑ میں لگاتے اور تین انگلیاں بند کر لیتے یہ ترپن کا عقد ہوا اور کلمہ کی انگلی اوپر اٹھاتے اِلَّا اﷲ پر گرادیتے،یہ تفصیل دوسری احادیث میں واردہے۔خیال رہے کہ اس اشارے کے متعلق مختلف روایتیں آئیں ہیں یہاں ترپن(۵۳)کاعقد مذکور ہے،بعض میں ہے کہ انگلیاں بندکرلیتے اور انگوٹھے و بیچ کی انگلی کا حلقہ بناتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے۔معلوم ہوتا ہے کہ کبھی اس طرح کرتے اور کبھی اس طرح لہذا احادیث میں تعارض نہیں احناف کے ہاں حلقہ والی حدیث پر عمل ہے جو حضرت وائل ابن حجر سے مروی ہے