قَالَ رَبِّ اِنِّىۡۤ اَعُوۡذُ بِكَ اَنۡ اَسۡـئَلَكَ مَا لَـيۡسَ لِىۡ بِهٖ عِلۡمٌؕ وَاِلَّا تَغۡفِرۡ لِىۡ وَتَرۡحَمۡنِىۡۤ اَكُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 47
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ رَبِّ اِنِّىۡۤ اَعُوۡذُ بِكَ اَنۡ اَسۡـئَلَكَ مَا لَـيۡسَ لِىۡ بِهٖ عِلۡمٌؕ وَاِلَّا تَغۡفِرۡ لِىۡ وَتَرۡحَمۡنِىۡۤ اَكُنۡ مِّنَ الۡخٰسِرِيۡنَ ۞
ترجمہ:
(نوح نے) عرض کیا اے میرے رب ! بیشک میں (اس سے) تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائوں گا۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (نوح نے) عرض کیا : اے میرے رب ! بیشک میں (اس سے) تیری پناہ میں آتا ہوں کہ میں تجھ سے اس چیز کا سوال کروں جس کا مجھے علم نہیں ہے اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے تو میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائوں گا۔ (ھود : ٤٧)
حضرت نوح (علیہ السلام) کے سوال کے متعلق
امام رازی کی تقریر حضرت نوح (علیہ السلام) کی گناہ سے برأت پر امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : جب کہ بکثرت دلائل سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو گناہوں سے منزہ کیا ہوا ہے تو حضرت نوح (علیہ السلام) کے اس سوال کو ترک افضل ہے اور ترک افضل اور ترک اکمل پر محمول کرنا واجب ہے اور ابرار کی نیکیاں بھی مقربین کے نزدیک برائی کا حکم رکھتی ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کو تنبیہ فرمائی اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے استغفار کیا اور ان کا استغفار کرنا اس پر نہیں دلالت کرتا کہ انہوں نے پہلے کوئی گناہ کیا ہو جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :
اذا جاء نصر اللہ والفتح۔ ورایت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا۔ فسبح یحمد ربک واستغفرہ۔ (النصر : ٣۔ ١) جب اللہ کی مدد اور اس کی فتح آجائے۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں کہ وہ اللہ کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح فرمائیں اور اس سے استغفار کریں۔ اور یہ بات واضح ہے کہ اللہ کی مدد کا آنا اور لوگوں کا دین میں داخل ہونا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گناہ نہیں تھا کہ اس پر استغفار کا حکم دیا جاتا، اس سے معلوم ہوگیا کہ استغفار کا حکم دینا یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا استغفار کرنا کسی گناہ پر دلالت نہیں کرتا۔ درحقیقت حضرت نوح (علیہ السلام) کی امت میں تین قسم کے لوگ تھے :
(١) کافر تھے اور اپنے کفر کا اظہار کرتے تھے۔
(٢) مومن تھے اور اپنے ایمان کا اظہار کرتے تھے۔
(٣) منافقین کی جماعت تھی۔ مومنوں کا حکم طوفان سے نجات تھا اور کافروں کا حکم ان کو غرق کرنا تھا اور یہ حضرت نوح کو معلوم تھا اور منافقین کا حکم مخفی تھا۔ حضرت نوح کا بیٹا کنعان منافقین میں سے تھا اور بطاہر وہ مومن تھا۔ حضرت نوح نے اس کے اعمال اور افعال کو کفر پر محمول نہیں کیا، بلکہ وجوہ صحیحہ پر محمول کیا۔ جب آپ نے دیکھا کہ وہ مسلمانوں سے الگ کھڑا ہے تو اس سے کہا کہ وہ کشتی میں داخل ہوجائے۔ اس نے کہا میں عنقریب کسی پہاڑ کی پناہ میں چلا جائوں گا، وہ مجھے پانی سے بچا لے گا اور اس کا یہ کہنا اس کے کفر پر دلالت نہیں کرتا کیونکہ ہوسکتا ہے اس نے یہ گمان کیا ہو کہ پہاڑ پر چڑھنا کشتی میں بیٹھنے کے قائم مقام ہے جس طرح کشتی میں بیٹھنا غرق ہونے سے بچاتا ہے اسی طرح پہاڑ پر چڑھنا بھی غرق ہونے سے بچا لے گا اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو فرمایا تھا : آج اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا سوا اس کے جس پر اللہ رحم فرمائے، اس قول سے وہ اپنے بیٹے کو یہ بتلا رہے تھے کہ ایمان اور اعمال صالحہ کے سوا کوئی چیز نفع آور نہیں ہے اور یہ قول اس پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو فرمایا تھا : آج اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا سوا اس کے جس پر اللہ رحم فرمائے، اس قول سے وہ اپنے بیٹے کو یہ بتلا رہے تھے کہ ایمان اور اعمال صالحہ کے سوا کوئی چیز نفع آور نہیں ہے اور یہ قول اس پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کو یہ علم تھا کہ ان کا بیٹا کافر ہے، ان کو یہی گمان تھا کہ ان کا بیٹا مومن ہے، تب انہوں نے اللہ سے یہ سوال کیا کہ ان کا بیٹا غرق ہونے سے بچ جائے خواہ کشتی میں بیٹھ کر خواہ پہاڑ پر چڑھ کر، تب اللہ تعالیٰ نے انہیں یہ خبر دی کہ وہ منافق ہے اور ان کے اہل دین سے نہیں ہے۔ اس معاملہ میں حضرت نوح (علیہ السلام) سے جو زلت صادر ہوئی وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بیٹے کے متعلق پوری چھان بین نہیں کی کہ وہ کافر ہے یا منافق ہے بلکہ انہوں نے اجتہاد کیا اور اپنے اجتہاد سے انہوں نے یہ سمجھا کہ وہ مومن ہے اور ان کو اس اجتہاد میں خطا ہوئی کیونکہ وہ کافر تھا، سو جس طرح حضرت آدم (علیہ السلام) سے جو زلت صادر ہوئی وہ اجتہادی خطا تھی اسی طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کی یہ زلت بھی اجتہادی خطا ہے اور ان کی عصمت کے منافی نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٥٩۔ ٣٥٨، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت نوح (علیہ السلام) کے سوال پر سید ابو الاعلیٰ مودودی کا تبصرہ
حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو دعا کی تھی : ” اے میرے رب ! میرا بیٹا میرے اہل سے ہے “ اس پر سید ابو الاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ نے حسب ذیل تبصرہ کیا ہے : اس ارشاد کو دیکھ کر کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ حضرت نوح کے اندر روح ایمان کی کمی تھی، یا ان کے ایمان میں جاہلیت کا کوئی شائبہ تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انبیاء بھی انسان ہی ہوتے ہیں اور کوئی انسان بھی اس پر قادر نہیں ہوسکتا کہ ہر وقت اس بلند ترین معیار کمال پر قائم رہے جو مومن کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ بسا اوقات کسی نازک نفسیاتی موقع پر نبی جیسا اعلیٰ و اشرف انسان بھی تھوڑی دیر کے لیے اپنی بشری کمزوری سے مغلوب ہوجاتا ہے لیکن جونہی اسے یہ احساس ہوتا ہے، یا اللہ تعالیٰ کی طرف سے احساس کرا دیا جاتا ہے کہ اس کا قدم معیار مطلوب سے نیچے جارہا ہے، وہ فوراً توبہ کرتا ہے اور اپنی غلطی کی اصلاح کرنے میں اسے ایک لمحہ کے لیے بھی تامل نہیں ہوتا۔ حضرت نوح کی اخلاقی رفعت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ابھی جو ان بیٹا آنکھوں کے سامنے غرق ہوا ہے اور اس نظارہ سے کلیجہ منہ کو آرہا ہے، لیکن جب اللہ تعالیٰ انہیں متنبہ فرماتا ہے کہ جس بیٹے نے حق کو چھوڑ کر باطل کا ساتھ دیا اس کو محض اس لیے اپنا سمجھنا کہ وہ تمہاری صلب سے پیدا ہوا ہے محض ایک جاہلیت کا جذبہ ہے، تو وہ فوراً اپنے دل کے زخم سے بےپروا ہو کر اس طرز فکر کی طرف پلٹ آتے ہیں جو اسلام کا مقتضا ہے۔ پسر نوح کا یہ قصہ بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے نہایت موثر پیرا یہ میں یہ بتایا ہے کہ اس کا انصاف کس قدر بےلاگ اور اس کا فیصلہ کیسا دو ٹوک ہوتا ہے۔ مشرکین مکہ یہ سمجھتے تھے کہ ہم خواہ کیسے ہی کام کریں، مگر ہم پر خدا کا غضب نازل نہیں ہوسکتا کیونکہ ہم حضرت ابراہیم کی اولاد اور فلاں فلاں دیویوں اور دیوتائوں کے متوسل ہیں۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے بھی ایسے ہی کچھ گمان تھے اور ہیں اور بہت سے غلط کار مسلمان بھی اس قسم کے جھوٹے بھروسوں پر تکیہ کیے ہوئے ہیں کہ ہم فلاں حضرت کی اولاد اور فلاں حضرت کے دامن گرفتہ ہیں، ان کی سفارش ہم کو خدا کے انصاف سے بچا لے گی۔ لیکن یہاں یہ منظر دکھایا گیا ہے کہ ایک جلیل القدر پیغمبر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے لخت جگر کو ڈوبتے ہوئے دیکھتا ہے اور تڑپ کر بیٹے کی معافی کے لیے درخواست کرتا ہے لیکن دربار خداوندی سے الٹی اس پر ڈانٹ پڑجاتی ہے اور باپ کی پیغمبری بھی ایک بدعمل بیٹے کو عذاب سے نہیں بچا سکتی۔ (تفہیم القرآن ٢ ص ٣٤٥۔ ٣٤٣، مطبوعہ لاہور، سولہواں ایڈیشن، ١٤٠٢ ھ) ان اقتباسات میں حضرت نوح (علیہ السلام) کے متعلق جو قابل اعتراض الفاظ ہیں وہ یہ ہیں : وہ ہر وقت مومن کے بلند ترین معیار نہ ہوتے تھے، (اگر نبوت کا بلند ترین معیار لکھتے تو اس کی گنجائش تھی) وہ بشری کمزوری سے مغلوب ہوگئے تھے، ان میں جاہلیت کا جذبہ تھا، ان پر دربار خداوندی سے الٹی ڈانٹ پڑی۔ ہم ان الفاظ پر کیا تبصرہ کریں، ہم حضرت نوح (علیہ السلام) کی بارگاہ میں بےادبی کے ان الفاظ سے اللہ تعالیٰ سے پناہ مانگتے ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں تمام انبیاء (علیہم السلام) کے ادب اور ان کی تعظیم کے طریقہ پر قائم رکھے۔ (آمین)
حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا کے متعلق جمہور مفسرین کی توجیہ
علامہ خفاجی متوفی ١٠٦٩ ھ نے لکھا ہے کہ امام ابو منصور ما تریدی نے کہا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا یہ گمان تھا کہ ان کا بیٹا ان کے دین پر ہے ورنہ وہ اس کی نجات کا سوال نہ کرتے۔ (حاشیتہ الشہاب ج ٥ ص ١٧٥)
علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح کا بیٹا کفر کو چھپاتا تھا اور ایمان کا اظہار کرتا تھا، اللہ تعالیٰ جو علام الغیوب ہے اس نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو خبر دی کہ میں تمہارے بیٹے کے اس حال کو جانتا ہوں جس کو تم نہیں جانتے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٩ ص ٤٢)
علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ان کے اہل کو نجات دے گا ماسوا ان کے جن کا غرق ہونا مقدر ہوچکا ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کی نجات کا سوال اس لیے کیا تھا کہ ان کو اس کے کفر کا علم نہیں تھا شیخ زادہ نے امام رازی کی پوری تقریر نقل کی ہے۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٤ ص ٦٥٢)
قاضی شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کا گمان یہ تھا کہ وہ مومن ہے اور وہ دراصل منافق تھا۔ (فتح القدر ج ٢ ص ٦٩٦)
صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ نے لکھا ہے : یہ لڑکا منافق تھا اپنے والد پر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا تھا اور باطن میں کافروں کے ساتھ متفق تھا۔ (خزائن العرفان ص ٣٦٢)
مفتی محمد شفیع متوفی ١٣٩٦ ھ نے لکھا ہے : حضرت نوح (علیہ السلام) کو اس بیٹے کے کفر کا پورا حال معلوم نہ تھا، اس کے نفاق کی وجہ سے اس کو مسلمان ہی جانتے تھے۔ (معارف القرآن ج ٤ ص ٦٣٠)
متقدمین اور متاخرین تمام مفسرین کی تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے بیٹے کنعان کی نجات کے لیے جو دعا کی تھی وہ اس وجہ سے نہ تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے کفر پر مطلع ہونے کے باوجود شفقت پدری سے مغلوب ہوگئے تھے اور بقول سید مودودی وہ اس دعا کے وقت ایمان کے بلند ترین معیار پر نہ تھے اور بشری کمزوری سے مغلوب ہوگئے تھے اور اس دعا کے وقت ان میں جاہلیت کا جذبہ تھا، اسی وجہ سے ان پر بارگاہ خداوندی سے الٹی ڈانٹ پڑی، نعوذ باللہ من تلک الخرافات بلکہ انہوں نے یہ دعا اس لیے کی تھی کہ وہ ان کے گمان میں مومن تھا، اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ وہ مومن نہیں کافر ہے اور یہ تنبیہہ فرمائی کہ جس چیز کا آپ کو مکمل علم نہ ہو اس کے متعلق آپ سوال نہ کریں۔
حرام اور امور مشتبہ کے متعلق دعا کرنے کا عدم جواز
اس آیت سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوا کہ کسی مشتبہ امر کے متعلق دعا نہیں کرنی چاہیے، حدیث صحیح میں ہم کو مشتہات سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے :
حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے : حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ امور مشتبہ ہیں، جن کا بہت سے لوگوں کو علم نہیں ہے، سو جو شخص شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی عزت کو محفوظ کرلیا اور جس شخص نے امور مشتبہ کو اختیار کرلیا وہ حرام میں مبتلا ہوگیا، جس طرح کوئی شخص کسی چراگاہ کے گرد جانور چرائے تو قریب ہے کہ وہ جانور اس چراگاہ میں بھی چر لیں، سنو ہر بادشاہ کی چراگاہ کی ایک حد ہوتی ہے اور یاد رکھو اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سنو ! جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے اگر وہ ٹھیک ہو تو پورا جسم ٹھیک رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جائے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور یاد رکھو وہ گوشت کا ٹکڑا قلب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٣٢٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٢٠٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٤٥٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٨٤، مسند احمد رقم الحدیث : ١٨٥٥٨، عالم الکتب، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٩١٨، سنن دارمی رقم رقم الحدیث : ٢٥٣٤) اور جب کسی مشتبہ امر کے لیے دعا کرنی جائز نہیں ہے، تو کسی حرام کام کے لیے دعا کرنی بطریق اولیٰ ناجائز ہے اور جو حرام قطعی ہو جیسے سود، زنا، شراب، جوا وغیرہ ان کے حصول یا ان میں کامیابی کی دعا کرنا کفر صریح ہے اور جو اس دعا پر آمین کہے وہ بھی کافر ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے لوگ اپنے مقدمات، معاملات، ملازمتوں اور انٹرویوز کی کامیابی کے لیے ائمہ، مشائخ اور بزرگوں سے دعا کراتے ہیں اور بعض لوگوں کے مقدمات کسی ناجائز امر پر مبنی ہوتے ہیں، بعض لوگوں کے معاملات مشتبہ ہوتے ہیں، بعض لوگ بینک یا انشورنس کمپنی کی ملازمت کرتے ہیں یا اس کے لیے انٹرویو دیتے ہیں اسی طرح پولیس اور کسٹم کی نوکری ہے تو ایسے امور میں کامیابی کی دعا کرنا اور کسی سے دعا کرانا جائز نہیں ہے، اگرچہ پولیس اور کسٹم کی نوکری فی نفسہ ناجائز نہیں ہے لیکن ان میں رشوت کا لین دین بہت غالب ہے اور عرف میں غالب احوال پر حکم لگایا جاتا ہے۔
ایمان اور تقویٰ کے بغیر نسلی امتیاز اور نسبی برتری کی کوئی وقت نہیں
حضرت نوح (علیہ السلام) کا بیٹا کنعان نبی زادہ تھا لیکن چونکہ وہ ایمان اور اعمال صالحہ کی دولت سے محروم تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) سے اس کا رشتہ کاٹ دیا اور فرمایا : وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے۔ بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ علم اور تقویٰ کی فضیلت عارضی ہے اور سادات کی فضیلت ذاتی ہے، یہ درست نہیں ہے۔ اگر معاذ اللہ کوئی سید مرتد ہوجائے یا کسی گمراہ فرقے سے متعلق ہوجائے تو کیا اس کی فضیلت زائل نہیں ہوجائے گی۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نسب کی فضیلت اور برتری ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مربوط ہے، اصل چیز ایمان اور تقویٰ ہے، نسب کی فضیلت ثانوی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : یایہا الناس انا خلقنکم من ذکر و انثی وجعلنکم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرامکم عنداللہ اتقکم۔ الحجرات : ١٣) اے لوگو ! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہاری شناخت کے لیے الگ خاندان اور قبیلے بنائے ہیں، بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فتح مکہ کے دن خطبہ میں فرمایا : اے لوگو ! بیشک اللہ تعالیٰ نے تم سے زمانہ جاہلیت کی عیب جوئی اور اپنے باپ دادا پر فخر کرنے کو دور کردیا ہے۔ لوگوں کی دو قسمیں ہیں : مومن، متقی، کریم اور فاجر، درشت خو اور ذلیل، سب لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ تعالیٰ نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔ (شعب الایمان ج ٤ ص ٢٨٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجتہ الوداع کے خطبہ میں فرمایا : اے لوگو ! تمہارا رب ایک ہے، تمہارا باپ ایک ہے، سنو کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت نہیں ہے اور نہ عجمی کی عربی پر کوئی فضیلت ہے، کسی گورے کی کالے پر کوئی فضیلت ہے نہ کسی کالے کی گورے پر کوئی فضیلت ہے مگر تقویٰ سے، بیشک اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔ سنو کیا میں نے تبلیغ کردی ہے ؟ صحابہ نے کہا : کیوں نہیں، یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا : پھر حاضر غائب کو تبلیغ کر دے۔ (شعب الایمان ج ٤ ص ٢٨٩، بیروت ١٤١٠ ھ)
آج دنیا میں کالے اور گورے کی تفریق پر نسلی امتیاز برتے جارہے ہیں اور سفید فام اقوام سیاہ فاموں کو اپنے برابر کے حقوق دینے پر تیار نہیں ہیں، بھارت میں برہمن اونچی ذات کا سپوت ہے اور شودر نیچ ذات کا سمجھا جاتا ہے، گائوں اور دیہاتوں میں زمیندار اور و ڈیرے اپنے مزارعین کو بہت کم درجہ کی مخلوق سمجھتے ہیں، غریب پیشہ ور لوگوں کو کمی کہہ کر حقارت سے بلایا جاتا ہے۔ اسی طرح ایک زمانہ میں غلاموں کو آزاد لوگوں کا درجہ نہیں دیا جاتا تھا۔ آج بھی امیروں اور غریبوں میں تفریق رکھی جاتی ہے۔ آج بھی جولا ہوں، حجاموں اور موچیوں کو نیچ سمجھا جاتا ہے اور یہ نہیں سمجھتے کہ جولا ہے نہ ہوں تو ہم سرعام برہنہ نظر آئیں، موچی نہ ہوں تو ہم اپنے پیروں کو گندگی اور گرمی سے بچا نہ سکیں، حجام نہ ہوں تو ہم اپنے بالوں کی درستگی نہ کراسکیں۔ سلام ہو اس نبی امی پر جس نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جوتیوں کی مرمت کرلی کہ کہی تم جوتی گانٹھنے والوں کو حقیر نہ سمجھ لینا۔ جس نے عرب کے معزز گھرانے میں ایک غلام کا رشتہ کرا کے انسانیت اور مساوات کا جھنڈا بلند کیا، جس نے خود اپنی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم یکے بعد دیگرے ایک غیر ہاشمی، اموی نوجوان کے نکاح میں دیں اور یہ کوئی ضرورت اور اضطرار کا مسئلہ نہ تھا کیونکہ آپ کے سامنے ہاشمی خاندان کے بھی رشتے تھے لیکن وہ انسان کامل اور محسن انسانیت خود اپنی صاحبزادیوں کا رشتہ غیر کفو میں کر کے یہ مثال اور نمونہ قائم کرنا چاہتا تھا کہ جب میں افضل خلق علی الاطلاع ہو کر رشتہ کے معاملہ میں نسب کے مقابلہ میں اسلام اور اعمال صالحہ کو دیکھتا ہوں تو تم بھی نسبی خصوصیات کی بجائے اسلام اور تقویٰ کو ترجیح دینا اور نسب، مال و دولت اور صنعت و حرفت کی بناء پر کسی مسلمان کو حقیر نہ سمجھنا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 47
[…] اور اگر تو میری مغفرت نہ فرمائے اور مجھ پر رحم نہ فرمائے… […]