أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِلٰى عَادٍ اَخَاهُمۡ هُوۡدًا‌ ؕ قَالَ يٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ مَا لَـكُمۡ مِّنۡ اِلٰهٍ غَيۡرُهٗ‌ ؕ اِنۡ اَنۡتُمۡ اِلَّا مُفۡتَرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی (ہم قوم) ہود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا کوئی مستحق نہیں ہے، تم اللہ پر (شریک کا) محض بہتان باندھنے والے ہو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور قوم عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی (ہم قوم) ھود کو بھیجا۔ انہوں نے کہا : اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہاری عبادت کا کوئی مستحق نہیں ہے، تم اللہ پر (شریک کا) محض بہتان باندھنے والے ہو۔ اے میری قوم ! میں تم سے اس تبلیغ پر کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا میری اجرت صرف اس (کے ذمہ کرم) پر ہے جس نے مجھے پیدا کیا ہے کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے ؟ (ھود : ٥١۔ ٥٠) 

حضرت ھود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی کہنے کی توجیہ

حضرت نوح (علیہ السلام) کے بعد اس سورت میں یہ دوسرا حضرت ھود (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا ہے : اس آیت میں فرمایا ہے : والی عادا خاہم ہودا۔ اس کا لفظی ترجمہ ہے : ” ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے بھائی ھود کو بھیجا۔ “ اس میں حضرت ھود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی فرمایا ہے اور یہ بات معلوم تھی کہ حضرت ھود (علیہ السلام) ان کے دینی بھائی نہ تھے اور نہ ہی وہ ان کے نسبی بھائی تھے ان کو قوم عاد کا بھائی صرف اس وجہ سے فرمایا کہ وہ ان کے قبیلہ کا ایک فرد تھے۔ ان کا قبیلہ عرب کا ایک قبیلہ تھا اور وہ لوگ یمن کی جانب رہتے تھے، قوم عاد اور حضرت ھود کے متعلق تمام تفصایل ہم نے الاعراف : ٧٢۔٦٥ میں بیان کردی ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔

اس سورت میں جو فرمایا ہے : ہم نے قوم عاد کی طرف ان کے قبیلہ کے ایک فرد کو نبی بنا کر بھیجا، اسی طرح قوم ثمود کی طرف ان کے قبیلہ کے ایک فرد حضرت صالح (علیہ السلام) کو نبی بنا کر بھیجا، اس سے مکہ والوں پر یہ حجت قائم کرنا مقصود ہے کہ وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی اور رسول بنانا بہت مستبعد سمجھتے تھے کیونکہ آپ ان ہی کے قبیلہ کے ایک فرد تھے۔ اللہ تالیٰ نے یہ ظاہر فرمایا کہ اس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے، حضرت ھود (علیہ السلام) عاد کے قبیلہ کے ایک فرد تھے اور ان کو نبی بنایا گیا اور حضرت صالح (علیہ السلام) ثمود کے قبیلہ کے ایک فرد تھے اور ان کو نبی بنایا گیا تو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی تمہارے قبیلہ کے ایک فرد ہیں اور ان کو نبی بنایا گیا ہے تو اس میں حیرت اور تعجب کی کیا بات ہے اور یہ کون سی نئی بات ہے ! (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٣٦٢، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ) 

امتی کے لیے نبی کو اپنا بھائی کہنے کے جواز پر بعض علماء کے دلائل بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ امتی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ نبی کو اپنا بھائی کہے،

چناچہ شیخ اسماعیل دہلوی متوفی ١٢٤٢ ھ لکھتے ہیں : مشکوۃ کے باب عشرۃ النساء میں لکھا ہے کہ امام احمد نے ذکر کیا کہ بی بی عائشہ نے نقل کیا کہ پیغمبر خدا مہاجرین اور انصار میں بیٹھے تھے کہ آیا ایک اونٹ پھر اس نے سجدہ کیا پیغمبر خدا کو سو ان کے اصحاب کہنے لگے : اے پیغمبر خدا تم کو سجدہ کرتے ہیں جانور اور درخت سو ہم کو ضرور چاہیے کہ تم کو سجدہ کریں، سو فرمایا : بندگی کرو اپنے رب کی اور تعظیم کرو اپنے بھائی کی۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٥٢، مسند احمد ج ٦ ص ٧٦، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٩٧٥، ٢٥٤٥٧، عالم الکتب بیروت، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٣٣٧٠)

شیخ اسماعیل دہلوی اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اس کا عنوان قائم کر کے اس حدیث کا فائدہ لکھتے ہیں : یعنی انسان آپس میں سب بھائی ہیں جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجیے اور مالک سب کا اللہ ہے بندگی اس کی چاہیے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اولیاء و انبیاء، امام و امام زادہ، پیر و شہید یعنی جتنے اللہ کے مقرب بندے ہیں وہ سب انسان ہی ہیں اور بندے عاجز اور ہمارے بھائی مگر ان کو اللہ نے بڑائی دی، وہ بڑے بھائی ہوئے، ہم کو ان کی فرماں برداری کا حکم ہے، ہم ان کے چھوٹے ہیں سو ان کی تعظیم انسانوں کی سی کرنی چاہیے نہ خدا کی سی۔ (تقویت الایمان کلاں ص ٤٢۔ ٤١، مطبوعہ مطبع علیمی لاہور)

شیخ اسماعیل دہلوی کے ایک وکیل شیخ سرفراز احمد صفدر نے اس حدیث کے علاوہ قرآن مجید کی آیات سے بھی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھائی کہنے پر استدلال کیا ہے، لکھتے ہیں : والی عاداخاہم ہودا۔ الایہ، والی ثمود اخاہم صالحا۔ الایہ، والی مدین اخاہم شعیبا۔ الایہ، واخوان لوط۔ الایہ۔ قرآن کریم میں صریح طور پر یہ الفاظ موجود ہیں، کون مسلمان اپنی اپنی قوم کے لیے حضرات انبیاء کرام (علیہ السلام) کی اس اخوت سے انکار کرسکتا ہے۔ الغرض آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اخوت بہ ارشاد خود اور بہ فرمان الٰہی ثابت ہے اور اس کا انکار قرآن اور حدیث کا انکار ہے۔ (عبارت اکابر ص ٦٩، ١٤٠٥ ھ، مطبوعہ گوجرانوالہ)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھائی کہنے کے عدم جواز پر دلائل

اللہ تعالیٰ انبیاء (علیہم السلام) کا مالک اور مولیٰ ہے اور انبیاء (علیہم السلام) اس کے بندے ہیں، وہ انبیاء (علیہم السلام) کو جو کچھ فرمائے وہ اس کو زیبا ہے، اللہ تعالیٰ حضرت آدم (علیہ السلام) کے متعلق فرماتا ہے :

وعصی ادم ربہ فغوی۔ (طہ : ١٢١)

اور آدم نے اپنے رب کی معصیت کی پس وہ بےراہ ہوئے۔ کیا اس آیت کو دیکھ حضرت آدم (علیہ السلام) کو عاصی اور بےراہ یا گمراہ کہنا جائز ہے،

علامہ ابن الحاج مالکی متوفی ٧٣٧ ھ لکھتے ہیں : جس شخص نے اثناء تلاوت یا قرأت حدیث کے علاوہ حضرت آدم کے متعلق کہا کہ انہوں نے معصیت کی وہ کافر ہوگیا۔ (المدخل ج ٢ ص ١٤، دارالفکر بیروت)

اسی طرح حضرات انبیاء (علیہم السلام) تواضع اور انکسار سے اپنے متعلق جو کلمات فرمائیں اس سے یہ جواز نہیں نکلتا کہ امتی بھی ان کے متعلق وہ کلمات کہنے کی جرأت کرے، دیکھئے حضرت آدم (علیہ السلام) نے فرمایا :

فالا ربنا ظلمنا انفسنا۔ (الاعراف : ٢٣)

(آدم اور حوا) دونوں نے عرض کیا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا : قال رب انی ظلمت نفسی۔ (القصص : ١٦) (موسیٰ نے) کہا : اے میرے رب ! میں نے اپنی جان پر ظلم کیا۔

حضرت یونس (علیہ السلام) نے فرمایا : لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین۔ (الانبیاء : ٨٧) تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں تو سبحان ہے، بیشک میں ظالموں میں سے ہوں۔

کیا ان آیتوں کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کو ظالم کہنا قرآن مجید سے ثابت ہے اور ان کو ظالم کہنے کا انکار کرنا قرآن مجید کا انکار کرنا ہے۔ نیز حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن جب لوگ حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس شفاعت کی درخواست لے کر حاضر ہوں گے تو وہ فرمائیں گے کہ آج اللہ تعالیٰ اس قدر غضب میں ہے کہ پہلے کبھی اتنے غضب میں تھا اور نہ آئنہ کبھی اتنے غضب میں ہوگا، اس نے مجھ کو ایک درخت سے کھانے سے منع کیا تھا میں نے اس کی معصیت کی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧١٢، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٠٧ ملخصا)

اب کیا نا آیا تکو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس ظالم تھے اور اس حدیث کی وجہ سے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت آدم عاصی تھے اور یہ کہ ان نبیوں کا ظالم اور عاصی ہونا قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور ان کے ظالم ہونے کا انکار کرنا قرآن اور حدیث کا انکار کرنا ہے، العیاذ باللہ، ہم اس قسم کے استدلال سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی شان کبریائی سے حضرت ھود (علیہ السلام) کو قوم عاد کا بھائی فرمایا، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم بھی انبیاء (علیہم السلام) کو اپنا بھائی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تواضعاً خود کو صحابہ کرام کا بھائی فرمایا، یہ اس کو مستلزم نہیں ہے کہ ہم بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کہیں کہ آپ ہمارے بھائی ہیں، ١ ستدلال اس وقت صحیح ہوتا جب شیخ اسماعیل دہلوی یا ان کے وکیل شیخ سرفراز احمد صاحب یہ ثابت کرتے کہ قرآن مجید کی فلاں آیت یا فلاں صحیح حدیث میں تصریح ہے کہ فلاص صالح امتی نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنا بھائی کہا ہے اور یہ چیز ہرگز ثابت نہیں ہے لہٰذا امتی کے لیے اپنے نبی کو اپنا بھائی کہنا بھی ثابت نہیں ہے۔ 

بڑے بھائی جتنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کی تلقین کرنا غلط ہے

شیخ اسماعیل دہلوی نے اس سیاق میں یہ بھی لکھا ہے جو بڑا بزرگ ہو وہ بڑا بھائی ہے سو اس کی بڑے بھائی کی سی تعظیم کیجیے۔ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق یہ کہنا کہ ان کی تعظیم بڑے بھائی کی سی کی جائے نہ صرف یہ کہ صراحتاً غلط ہے بلکہ بارگاہ نبوت میں اہانت کے مترادف ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے : یایھا الذین امنو الا تقدموا بین یدی اللہ ورسولہ واتقو اللہ ان اللہ سمیع علیم۔ (الحجرات : ١) اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول پر سبقت نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ بہت سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ حسن بیان کرتے ہیں کہ کچھ مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے قربانی کردی تو ان کو دوبارہ قربانی کرنے کا حکم ہوا اور یہ آیت نازل ہوئی۔ (الدرا المنثور ج ٧ ص ٥٤٧، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)

ظاہر ہے کہ اگر بڑے بھائی سے پہلے قربانی کردی تو اس قربانی کا نامقبول ہونا لازم نہیں آتا لیکن اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پہلے قربانی کردی تو وہ قربانی عبث اور رائیگاں ہوگئی۔ یایھا الذین امنو لا ترفعو اصواتکم فوق صوت النبی ولا تجہرو الہ بالقول کجھر یعضکم لبعض ان تحبط اعمالکم وانتم لاتشعرون۔ (الحجرات : ٢) اے ایمان والو ! اس نبی کی آواز پر اپنی آواز اونچی نہ کرنا اور نہ اس کے سامنے اس طرح بلند آواز سے باتیں کرنا جس طرح تم ایک دوسرے کے ساتھ بلند آواز سے باتیں کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتا بھی نہ چلے۔ کیا بڑے بھائی کی آواز پر آواز اونچی ہونے سے بھی اعمال ضائع ہوجاتے ہیں اور ایمان جاتا رہتا ہے۔ بڑے بھائی کو مکان کے باہر سے آواز دے کر بلانا ممنوع نہیں ہے لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکان کے باہر سے آواز دے کر بلانا ممنوع ہے : ان الذین ینادہ نک من وراء الحجرات اکثرہم لا یعقلون۔ (الحجرات : ٤) بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بےعقل ہیں۔ بڑے بھائی کے بلانے پر جانا فرض اور واجب نہیں ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلانے پر جانا فرض ہے اور جو شخص آپ کے بلانے پر نہ جائے اس پر اللہ تعالیٰ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے اور عذاب کی وعید سنائی ہے۔ لا تجعلو دعاء الرسول بینکم کدعاء بعضکم بعضا قد یعلم اللہ الذین یتسللون منکم لواذا فلیحذر الذین یخالفون عن امرہ ان تصیبھم فتنۃ او یصیبھم عذاب الیم۔ (النور : ٦٣) رسول کے بلانے کو ایسا نہ بنائو جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو بیشک اللہ تم میں سے ان لوگوں کو جانتا ہے جو آڑ لے کر چپکے سے نکل جاتے ہیں، سو جو لوگ رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کو اس سے ڈرنا چاہیے کہ ان کو کوئی مصیبت پہنچے یا ان کو دردناک عذاب پہنچ جائے۔ شیخ خلیل احمد سہارنپوری متوفی ١٣٤٦ ھ لکھتے ہیں : جو اس کا قائل ہو کہ نبی کریم (علیہ السلام) کو ہم پر بس اتنی فضیلت ہے جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے تو اس کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ وہ دائرہ ایمان سے خارج ہے (الیٰ قولہ) حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا افضل البشر اور تمام مخلوقات سے اشرف اور جمیع پیغمبروں کا سردار اور سارے نبیوں کا امام ہونا ایسا قطعی امر ہے جس میں ادنیٰ مسلمان بھی تردد نہیں کرسکتا۔ (عقائد علماء دیوبند ص ٢٨، مطبوعہ مطبع سعیدی کراچی) 

حضرت صالح (علیہ السلام) نے دلائل قائم کیے بغیر توحید کی دعوت کیوں دی تھی ؟

حضرت ھود (علیہ السلام) نے قوم عاد کو توحید کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا : ” اے میری قوم ! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاری عبادت کا کوئی مستحق نہیں ہے۔ “ اس جگہ یہ سوال ہوتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے وجود اور ثبوت پر دلائل قائم کیے بغیر اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف کیسے دعوت دی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر دلائل بالکل ظاہر ہیں اور یہ دلائل اس خارجی کائنات میں بھی پھیلے ہوئے ہیں اور خود انسان کے اپنے اندر بھی موجود ہیں : سنریہم ایتنا فی الافاق وفی انفسھم حتی یتبین لھم انہ الحق۔ (حم السجدۃ : ٥٣) ہم عنقریب ان کو اپنی نشانیاں دکھائیں گے اس خارجی کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفسوں میں حتیٰ کہ ان پر منکشف ہوجائے گا کہ وہی حق ہے۔ کچھ لوگ اس کائنات کے نظم اور تسلسل کو دیکھ کر اور اس میں غور و فکر کر کے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدانیت پر ایمان لے آتے ہیں اور کچھ لوگ اپنے جسم کے اعضاء کی منظم کارکردگی کو دیکھ کر اس کی قدرت پر ایمان لے آتے ہیں اور کچھ لوگ اس کی صفات اور اس کے ثمرات سے اس کو پہچان لیتے ہیں، بعض لوگ اللہ تعالیٰ کو اس کے فضل اور احسان اور اس کے جودو عطا سے پہچان لیتے ہیں، بعض لوگ اس کے عفو، اس کے حلم اور اس کے درگزر کرنے سے اس کو پہچان لیتے ہیں، بعض لوگ اس کی گرفت اور اس کے انتقام سے اس کو پہچان لیتے ہیں اور بعض لوگ مشکلوں اور مصیبتوں میں اس کی فریاد رسی سے اور اپنی ضرورتوں میں اس کی حاجت روائی سے اور اپنی دعائوں کے قبول ہونے سے اس کو پہچان لیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اس دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرتے ہوں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولئن سالتھم من خلق السموت والارض وسخر الشمس والقمر لیقولن اللہ فانی یوفکون۔ (العنکبوت : ٦١) اور اگر آپ ان سے (یہ) پوچھیں کہ آسمانوں اور زمینوں کو کس نے پیدا کیا ہے اور سورج اور چاند کو کس نے کام میں لگای اہوا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ! تو وہ کہاں بھٹک رہے ہیں ! حضرات انبیاء (علیہم السلام) ان کو بت پرستی سے روکتے تھے، کافروں نے ماضی میں گزرے ہوئے نیک لوگوں کے مجسمے بنا لیے تھے اور وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کی پرستش کرنے سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور ان کے گناہوں کو معاف کر دے گا، حضرت ھود (علیہ السلام) نے انہیں یہ بتایا کہ یہ محض تمہارا جھوٹ اور افتراء ہے، یہ مجسمے اور مورتیاں جمادات ہیں ، ان میں حس ہے نہ قوت ادراک پھر یہ کس طرح درست ہوگا کہ تم اپنی پیشانی اپنی ہی بنائی ہوئی مورتیوں کے آگے جھکائو۔ حضرت صالح (علیہ السلام) نے ان کو بت پرستی سے منع کیا اور توحید کی دعوت دی پھر فرمایا : اے میری قوم ! میں نے تم سے اس تبلیغ پر کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، کیونکہ جو تبلیغ معاوضہ کی طمع سے خالی اور بےلوث اور بےغرض ہو وہ قلوب میں بہت زیادہ موثر ہوتی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 11 هود آیت نمبر 50