قبولِ اسلام کی داستان

تحریر : محمد اسمٰعیل بدایونی

رات بہت بیت چکی تھی اور مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا “کیا مجھے اسلام قبول کر لینا چاہیے ؟” مینا کماری نے سوچا۔

تمہیں معلوم ہے تمہارے دل کی اس کیفیت کا تمہارے گھر میں کسی کو معلوم بھی ہوگیا تو کہرام مچ جائے گا۔… مینا کماری کے اندر سے ایک آواز آئی ۔۔۔

آخر کچھ دیر ٹہلنے کے بعد مینا کماری گھر کے اس حصے میں گئی جہاں بُت رکھا ہوا تھا. مینا کماری بہت دیر تک اس بُت کے سامنے کھڑی رہی اور پھر اسے مخاطب ہو کر کہنے لگی: عجیب خدا ہو تم! نہ سُن سکتے ہو، نہ دیکھ سکتے ہو اور نہ بول سکتے ہو. پھر بھی تم خدا ہو ۔۔۔کیا اتنا لاچار بھی کبھی خدا ہوا ہے ۔۔۔

کتنے احمق اور بے وقوف ہیں تمہاری پوجا کرنے والے. ایک ایسے کو خدا مان رہے جسے انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے ۔۔۔

کیا کررہی ہو مینا کماری اس وقت؟ ماں کی آواز آئی تو مینا کماری سنبھل گئی… کچھ نہیں ماں بس بھگوان سے کچھ سوالات کررہی تھی۔

کیسے سوالات؟ ماں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا ۔

یہ ہی سوالات ماں! کہ ان خداؤں کو ہم نے خود بنایا اور انہی کو ہم پوج بھی رہے ہیں ۔۔۔

خدا تو وہ ہوتا ہے جو ہر شئے پر قادر ہو تا ہے ۔۔۔خدا بے بس نہیں ہو تا ۔۔۔خدا تو وہ ہے جس نے یہ کائنات بنائی ہے۔۔۔۔جو ہمیں رزق دیتا ہے ۔۔۔۔خدا تو ہو ہے ہم سے محبت کرتا ہے ۔۔۔اپنے بندوں سے ۔۔

یہ تُو کیسی باتیں کرنے لگ گئی ہے ۔۔۔ جا اپنے کمرے میں، اگر تیرے باپ بھائیوں نے سُن لیا نا تو تیرے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ برہمن خاندان کی ناک کٹ جاوے گی۔ ماں نے گھورتے ہوئے میرے کمرے کی جانب دھکیلا ۔

میں واپس کمرے میں آگئی. آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ میں برہمن خاندان کی لڑکی اسلام کی جانب کیسے مائل ہوگئی ۔ ۔

میں نے اسلام کو اپنی سہیلی خدیجہ کی مدد سے پڑھنا شروع کیا. خدیجہ کردار کی ایک مضبوط لڑکی تھی. اس کی عادات نے مجھے بڑا متاثر کیا اس کے گھر کا صالح ماحول مجھےاسلام کے قریب لے گیا جب میں ان کے گھر والوں کو نماز پڑھتے دیکھتی تو مجھے اچھا لگتا تھا ۔۔۔جب میں خدیجہ کا پاکیزہ لباس دیکھتی حیاء دیکھتی اور باہر نکالتے ہوئے عبایا پہنتا دیکھتی تومجھے بہت خوشی ہو تی تھی۔۔۔ میں نے بھی ٹائیٹ جینز اور ٹی شرٹ پہننا ترک کر دی ۔۔۔رمضان میں وہ جس طرح عبادت کرتے تھے ان کے چہروں پر وہ نور نظر آتا تھا جو مجھے کبھی مندر کے پنڈت کے چہرےپر نظر نہیں آیا تھا ۔۔۔میں نے بھی ان کی فیملی کو دیکھ دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا شروع کردئیے ۔۔۔ اس کی خوبیوں کی وجہ سےمجھے اس کا دین اچھا لگنے لگا. وقت کے ساتھ ساتھ مجھے لگا اسلام ہی وہ دین ہےجس کی مجھے تلاش تھی ۔۔۔یہ ہی وہ سائبان ہے جہاں انسانیت بچ سکتی ہے۔۔۔۔ میں نے ہندوستان کی گلیوں میں مسلمانوں کی املاک، ان کے مکانات، ان کی دکانیں، ان کی ریڑھیاں، اور ان کی فیکٹریوں کو جلتے دیکھا ہے۔۔ ان مظلوم مسلمانوں کی لاشیں دیکھی ہیں جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ لاالہ الا اللہ پڑھتے تھے ۔۔۔احمد آباد ، گجرات اور اب دہلی کے سارے مناظر میری آنکھوں کے سامنے تھے۔

میری آنکھوں سےآنسو نکلنا شروع ہوگئے۔… کیا کروں؟

اور پھر میں نے وہی کیا جو میں ایسے حالات میں کرتی ہوں. اپنے کمرے کو لاک کیا اور پیغمبرِ اسلام ﷺ پر درود شریف پڑھنا شروع کر دیا۔۔۔ مجھے خدیجہ کے توسط سے پیغمبر اسلام ﷺ سے بچپن ہی میں عقیدت ہوچکی تھی. میرا کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا جس دن میں پیغمبرِ اسلام پر درود نہ بھیجوں ۔۔۔۔میں جب بھی پریشان ہو تی تو پیغمبرِ اسلام ﷺ پر کثرت سے درود شریف پڑھتی اور میرے کئی مسائل حل ہو جاتے تھے ۔

شاید میں اندر سے بہت پہلے مسلمان ہوچکی تھی. مندر جاتی تو بُتوں کو ہار مالا پہنے دیکھ کر ہنسی آتی تھی اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑے انسانوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا تھا ۔۔۔گائے کا پیشاپ جن لوگوں کے لیے مقدس ہو ان کی عقلوں کا ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔

پھر اس دن کے بعد سے اماں نے مجھے مندر لے جانا ہی چھوڑ دیا، جس دن میں نے کہا کم از کم خدا ہاتھی اور بندر جیسے نہیں ہونے چاہیے۔ آج بہت عجیب سی کیفیت تھی میری۔

خدیجہ کی دی ہوئی ایک کتاب پڑھ رہی تھی جس میں لکھا ہوا تھا کہ ماں باپ کافر بھی ہوں تو ان کی خدمت کی جائے گی۔

ان ماں باپ کی جو اپنے مالک کو ہی نہ پہچانیں، اپنے ہاتھوں سے بنائے بتوں کو اس کا شریک ٹھہرائیں؟

ان ماں باپ کو، میں نے حقارت سے سوچا۔۔۔۔

میں نے ٹیبل کے سامنے رکھی کرسی پر سر رکھ کر آنکھیں موند لیں… کچھ سکون ملا تو موبائل اُٹھایا اور واٹس اپ پر لکھنا شروع کیا…..

السلام علیکم شیخ !

میں عائشہ (میناکماری ہندو نام ) ہندوستان سے مخاطب ہوں. میری داستان آپ نے خدیجہ سے سن ہی لی ہوگی. میں قلبی طور پر اسلام قبول کر چکی ہوں اور اپنے قبولِ اسلام کا اعلان نہیں کیا۔ میرا نام عائشہ بھی خدیجہ نے تجویز کیا تھا. اس وقت ایک بات جاننا چاہتی ہوں، اسلام اس بارے میں کیا حکم دیتا ہے؟ اگر کسی مسلمان کے والدین کافر ہوں؟ کیا مجھ پر ان کی خدمت لازم ہے؟

میں کیا کروں؟ میں سخت پریشان ہوں، میری رہنمائی کیجیے ۔۔۔۔عائشہ (ہندو نام میناکماری )

۔۔۔۔

واٹس اپ کی میسج ٹون بجی. میں نے موبائل اٹھایا اور میسج پڑھا تو عائشہ کا میسج تھا.

برصغیر کیا بلکہ پوری دنیا کی خواتین اسلام کی جانب بڑھ رہی ہیں، اسلام قبول کررہی ہیں۔۔جبکہ ابلیس اور اس کا لشکر چاہتا ہے مسلمان بچیوں کو دین سے دور کر دے ۔۔۔

وعلیکم السلام دخترِ اسلام ! اللہ تعالیٰ تمہیں دینِ اسلام پر استقامت دے.

بے شک اسلام نے والدین کے بہت حقوق بتائے ہیں. شرک کے بعد بڑا گناہ بھی ماں باپ کی نا فرمانی ہے ۔ کافر والدین کی خدمت بھی لازمی ہے لیکن جہاں والدین کسی ایسے کام کا حکم دیں جو اللہ و رسول ﷺ کی اطاعت کے خلاف ہو اس حکم کو نہیں مانا جائے گا۔

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :

میں آپ کی ایمان کی تقویت کے لیےایک واقعہ لکھ رہاہوں ۔

اللہ کے نبی ﷺ نے جب نبوت کا اعلان فرمایا تو حضرت سعد بن ابی وقاص کی عمر اس وقت 19 سال تھی. آپ نے بھی اسلام قبول کرلیا. حضرت سعد بن ابی وقاص اپنے والدین سے بہت محبت کرتے تھے.

لوگوں نے جاکر ان کی ماں سے کہا: تمہارے بیٹے نے اسلام قبول کرلیا ہے.

ماں تو یہ بات سُن کر ہی آگ بگولہ ہوگئی. اس کے لیے یہ بات قابلِ قبول تھی ہی نہیں کہ اس کا بیٹا، اس کے جگر کا ٹکڑا، اس کے خداؤں کے خلاف علم ِ بغاوت بلند کرے.

ماں نے کہا: اگر سعد نے اسلام قبول کرلیا ہے تو میں اسے واپس پرانے مذہب کی طرف لے آؤں گی، ورنہ جان دے دوں گی اور اس نے یہ اعلان کردیا. جب تک سعد واپس اپنے آبائی مذہب کی طرف نہیں لوٹتا، نہ وہ کھائے گی، نہ پیے گی اور نہ سائے میں بیٹھے گی اور اسی طرح بھوکی پیاسی عرب کی تیز دھوپ میں تڑپ تڑپ کر جان دے دےگی ۔۔۔

وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا سعد اس سے بہت محبت کرتا ہے اور وہ اس کی تکلیف کو برداشت نہیں کرسکے گا، اور فوراً اس مذہب کو ترک کر دے گا۔

حضرت سعد آئے تو اس نے کہا: اے سعد یہ تونے کیا کیا؟ خدا کی قسم اگر تو اس سے باز نہ آیا تو نہ میں کچھ کھاؤں گی، نہ پیوں گی، یہاں تک کہ مرجاؤں گی اور دنیا ہمیشہ تجھے ماں کے قاتل کے نام سے یاد رکھے گی۔

پھر اس نے کھانا پینا ترک کردیا اور جاکر دھوپ میں بیٹھ گئی. ایک دن ایسے ہی گزرگیا اور دوسرے دن ماں کے چہرے پر کمزوری کے واضح آثار موجود تھے. دوسرا روز بھی ایسے ہی گزر گیا. کمزور ی میں مزید اضافہ ہوگیا ۔

حضرت سعد نے اپنی ماں کی یہ ضد دیکھی تو ماں کے پاس گئے اور کہا اے ماں! اگر تمہاری 100جانیں ہوں اور ایک ایک کرکے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دین چھوڑنے والا نہیں. تو چاہے کھا، چاہے مت کھا.

ماں جب حضرت سعد کی طرف سے مایوس ہوگئی کہ یہ اپنا دین چھوڑنے والے نہیں تو کھانے پینے لگی. اس پر الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور اگر وہ کفر و شرک کا حکم دیں تو نہ مانا جائے۔

وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًاؕ-وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَاؕ-اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(عنکبوت ۸)

اور ہم نے (ہر) انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی اور (اے بندے!) اگر وہ تجھ سے کوشش کریں کہ توکسی کو میرا شریک ٹھہرائے جس کا تجھے علم نہیں تو تُو ان کی بات نہ مان۔ میری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو میں تمہیں تمہارے اعمال بتادوں گا۔

پیارے بچو ! مجھے امید ہےآپ کا کردار ایسا ہوگا کہ غیر مسلم جب اسے دیکھے تو وہ اسلام قبول کرلے جیسےخدیجہ کو دیکھ کرمینا کماری نے اسلام قبول کرلیا۔