یومِ شک کا روزہ

سب سے پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ فرض عبادت یقین کے ساتھ ادا ہوتی ہے ،شک وشبہے کی کیفیت میں نہیں ،چنانچہ حدیث پاک میں ہے:

(1)صلہ بن زفر بیان کرتے ہیں: ہم عمار بن یاسر کے پاس تھے کہ بھنی ہوئی بکری لائی گئی ،انہوں نے کہا: کھائو، تو کچھ لوگ ایک طرف ہوگئے اور کہا: ہم روزے سے ہیں ،حضرت عمار نے کہا: جس نے شک کے دن روزہ رکھا تو اس نے ابوالقاسم (سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ) کی نافرمانی کی ، (سنن ترمذی:686)۔اس حدیث کے تحت امام ترمذی لکھتے ہیں:’’عمار کی حدیث حسن صحیح ہے اور نبی کریم ﷺ کے اصحاب اور اُن کے تابعین میں سے اکثر کا اس پر عمل ہے ۔سفیانِ ثوری ، مالک بن انس ، عبداللہ بن مبارک ،امام محمد بن ادریس الشافعی ،امام احمد بن حنبل اورامام محمد اسحاق نے یومِ شک کے روزے کو ناپسند کیا ہے اور اکثر کی رائے ہے :اگر (30 شعبان کو)یومِ شک کا روزہ رکھا (اور بعد میں ثابت ہوا کہ وہ رمضان کی پہلی تاریخ تھی تویہ اس کے قائم مقام نہیں ہوگا،بلکہ ) اسے چاہیے کہ رمضان کے ایک روزے کی قضا کرے ‘‘۔

(2)’حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: ماہِ رمضان سے ایک دو دن پہلے روزہ نہ رکھا کرو ،ماسوا اس کے کہ کسی شخص کاکسی خاص دن نفلی روزہ رکھنے کا معمول ہے ،تو وہ رکھ سکتا ہے (کیونکہ اس میں تشکیک نہیں ہے )۔(سنن نسائی:2190)

ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں تیس شعبان کو شک کی کیفیت میں (یعنی اس نیت سے کہ اگر یہ رمضان ہے تو فرض روزہ اور اگر یہ تیس شعبان ہے تو نفل روزہ)روزہ رکھنے سے منع فرمایا ،کیونکہ فرض عبادت تیقّن کے ساتھ ہونی چاہیے ، نہ کہ شک کی کیفیت میں۔

ملک العلماء علامہ علاء الدین ابوبکر کاسانی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں:جن ایام کے روزے رکھنے منع ہیں، ان میں شک کے دن کا روزہ بھی ہے ،خواہ اُسے رمضان کی نیت سے رکھے یا متردّدنیت کے ساتھ رکھے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس دن کے رمضان ہونے کے بارے میں شک ہو، اس دن کا روزہ نہیں رکھا جائے گا سوائے نفلی روزے کے۔ اور حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے منقول ہے : یہ حضرات قدسیہ رمضان کی نیت سے یوم شک کا روزہ رکھنے سے منع فرماتے تھے، کیونکہ اس طرح یہ شخص رمضان کے روزوں میں اضافہ کرنا چاہتا ہے(اورفرض میں اپنی طرف سے اضافہ ممنوع وبدعت ہے)، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: رمضان کے ایک دن کا روزہ چھوڑ کر اس کی قضا کرلینا میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں (رمضان شروع ہونے کا علم نہ ہونے پر )رمضان کا روزہ چھوڑ دوں اور پھر اس کی قضا کروں ،یہ میرے نزدیک اس سے بہتر ہے کہ میں غیرِ رمضان کو رمضان میں شامل کردوں ۔ اور نیت میں تردُّد یہ ہے کہ کوئی یہ نعت کرے کہ اگر آج رمضان ہے تو یہ روزہ رمضان کا ہوجائے اور اگر رمضان نہیں ہے تو نفلی ہوجائے ،اس لیے کہ تردّد کے ساتھ نیت درحقیقت نیت ہے ہی نہیں، کیونکہ نیت عمل کی حیثیت کو متعین کرنے کا نام ہے اور تردّد تعیین سے مانع ہے، (بدائع الصنائع،ج:2،ص:117)

رمضان کے شرعی ثبوت کے بغیر رمضان کی نیت سے روزہ رکھنا مکروہ تحریمی ہے اورگناہ کا سبب ہے۔

درمختار میں ہے: ’’اگر کسی نے یوم شک میں یقینی رمضان ہونے کی نیت سے روزہ رکھا،تو یہ مکروہ تحریمی ہے،‘‘۔ (در مختار مع رد المحتار،ج:3،ص:310)

علامہ سید ابن عابدین شامی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:’’ یہ عمل اہل کتاب کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے روزوں کی تعداد میں اضافہ کرلیا تھا اور رمضان سے ایک یا دو دن قبل روزہ رکھنے کی ممانعت والی حدیث اسی معنی پر محمول ہے، ‘‘۔(رد المحتار،ج:3،ص: 310)

(کتاب ’’رویتِ ہلال ‘‘ ،مصنف مفتی منیب الرحمٰن ، صفحہ 81)