أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّهٗ مِنۡ سُلَيۡمٰنَ وَاِنَّهٗ بِسۡمِ اللّٰهِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِيۡمِۙ ۞

ترجمہ:

بیشک وہ مکتوب سلیمان کی جانب سے ہے اور بیشک وہ اللہ کے نام سے (شروع کیا گیا) ہے جو بہت مہربان نہایت رحم فرمانے والا ہے

حضرت سلیمان نے بسم اللہ الرحمن الرحیم سے پہلے اپنا نام کیوں لکھا 

ملکہ سبا نے اپنے دربار کے سرداروں اور دیگر ارکان مملکت کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا مکتوب پڑھ کر سنتاے ہوئے کہا، بیشک وہ مکتوب سلیمان کی جانب سے ہے اور بیشک وہ اللہ ہی کے نام سے (شروع کیا گیا) ہے جو بہت مبہران نہایت رحم والا ہے۔ (النمل : ٢٩ )

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پہلے اپنا ذکر کیا پھر اللہ کا نام ذکر کیا اور بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو لکھا اس کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ لکھتے ہیں۔

یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے ہی اپنے نام کو بسم اللہ الرحمن الرحیم پر مقدم کیا ہو، تاکہ مکتوب کے شروع میں اللہ کا نام بلقیس کے ہاتھوں بےادبی سے محفوظ رہے کیونکہ اس وقت بلقیس کافرہ تھی، تاکہ ظاہر میں مکتوب کا عنوان حضرت سلیمان کا نام ہو اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے دل میں مکتوب کا عنوان اللہ کا نام ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مکتوب میں پہلے بسم اللہ لکھی ہوئی ہو اور بلقیس نے مکتوب پڑھیتے وقت پہلے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام پڑھ کر لوگوں کو یہ بتایا ہو کہ یہ مکتوب کس کی جانب سے آیا ہے۔

علامہ ابوبکر بن العربی نے کہا ہے کہ رسل متقدمین جب کسی کی طرف کوئی مکتوب لکھتے تھے تو اپنے نام کو پہلے لکھتے تھے اور یوں لکھتے تھے یہ فلاں کی طرف سے فلاں کے نام ہے اور ابواللیث نے (کتاب البستان) میں لکھا ہے کہ اگر لکھنے والا شروع میں مکتوب الیہ کا نام لکھ دے تو یہ جائز ہے کیونج کہ امت کا اس کے جواز پر اجماع ہے اور انہوں نے اس پر عمل کیا ہے۔

ظاہر یہ ہے کہ مکتوب میں صرف اتنا ہی لکھا ہوا تھا جتنا قرآن مجید میں مذکور ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مکتوب عربی میں ہو کیونکہ بادشاہ وے پاس مترجمین ہوتے ہیں جو ایک زبان کو دوسری زبان میں متقل کرتے ہیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے عربی زبان میں مکتوب لکھا تھا کیونکہ بلقیس عربوں کی نسل سے تھی، انبیاء (علیہم السلام) طویل مکتوب نہیں لکھتے تھے، چند جملوں پر مشتمل ضرورت کے مطابق لکھتے تھے۔ یہ بھی روایت ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پہلے کسی نے مکتوب میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو نہیں لکھا تھ۔ (الحبر المحیط ج ٨ ص 234-235 طبو کہ دجارالفکر بیروت، ١٤١٢ ھ)

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مکاتب میں بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنا کب شروع کیا ؟

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

مکاتیب کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کو لکھنا ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ یہ آس آیت کے نزول کے بعد ہے اور کہا گیا ہے کہ اس آیت کے نزول سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی مکتوب کے شروع میں بس ملالہ الرحمٰن الرحیم کو نہیں لکھنا، امام عبدالرزاق وغیرہ نے شعبی سے روایت کیا ہے کہ اہل جاہلیت ماسمک اللھم لکھتے تھے، حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی بسم اللہ مجرلھا و مرسھا ط (ھود : ٤١) پھر آپ نے بسم اللہ لکھا، پھر یہ آیت نازل ہوئی اذعواللہ اوادعوا الرحمٰن (بنو اسرائیل : ١١٠) تب آپ نے لکھا : بسم اللہ الرحمٰن، پھر آپ نے بسم اللہ لکھا پھر یہ آیت نازل ہوئی، ادعوا اللہ ادادعوا الرحمٰن (بن واسرائیل : ١٠٠) تب آپنے لکھا، بس اللہ الرحمٰن، پھر یہ آیت نازل ہوئی انہ من سلیمان وانہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم (النمل : ٣٠) تب آپ نے لکھا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم 

حافظ جلال الدین سیوطی نے الاتفاق میں لکھا ہے کہ اس میں اختلاف ہے کہ سب سے پہلے قرآن مجید کی کون سی آیت نازل ہوئی، اس میں کئی اقوال ہیں، صحیح یہ ہے کہ اقرا باسم ربک (العلق : ١) سب سے پہلے نازل ہوئی، دوسرا قول ہے یایھا المدثر (المدثر : ١) تیسرا قول ہے سورة الفتاحہ، چوتھا قول ہے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، پھر حافظ سیوطی نے کہ کا میرے نزدیک یہ کوئی الگ قول نہیں ہے کیونکہ ہر سورت کے نزول سے پہلے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم نازلہوئی، لہٰذا جو آیت علی الاطلاق سب سے پہلے نازل ہوئی ہے، وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔

اور یہ بات ہمارے موقف کو تقویت دیتی ہے، اللہ کی کتاب بھی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع ہوتی ہے اور یہی آیت سب سے پہلے نازلہوئی ہے لہٰذا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ابتداء نبوت میں ہی بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا علم ہوگیا تھا اس لئے صحیح یہ ہے آپ ابتداء سے ہی مکاتیب سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھواتے تھے اور جس شخص نے یہ کہا کہ آپ کو ابتداء نبوت میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا علم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کو یہ بھی علم ہوگیا ہو کہ آپ کو باتداء نبوت میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کا علم ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کو یہ بھی علم ہوگیا ہو کہ مکاتیب کی ابتداء میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم لکھنا شروع ہے تو وہ شخص ضرور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرتبہ اور مقام سے جاہل ہے۔ (روح المعانی جز 19 ص 291-292 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 30