فلمی دنیا اور مسلمان: چند گزارشات

غلام مصطفےٰ نعیمی

روشن مستقبل دہلی

گذشتہ دنوں ایک “مسلم” اداکار کی موت پر بعض لوگ اسلامی نام اور رمضان المبارک میں موت کی وجہ سے دعائے مغفرت اور خراج عقیدت پیش کرنے اور اپنے عمل کو حق بجانب ٹھہرانے میں مصروف ہیں.اس معاملے پر بعض احباب کے حکم پر چند گزارشات عرض خدمت ہیں اس امید پر کہ ہمیں راہ راست کا عرفان میسر ہو !!

کسی بھی فلمی اداکار کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں:

1- حقیقی زندگی(Real Life)

2-فلمی زندگی(Reel life)

1-حقیقی زندگی

فلم انڈسٹری سے وابستہ مرکزی کردار کرنے والے اداکاروں کا آبائی نام اور آبائی دین کچھ بھی ہو لیکن فلمی دنیا میں شمولیت کے بعد ان کا نام اور دین فلمی مفادات سے وابستہ ہوتا ہے.اسی مفاد کو پورا کرنے کی خاطر “یوسف خان” دلیپ کمار اور “مہ جبین بانو” مِینا کماری ہوجاتی ہے. یہ تو محض نام کا مسئلہ ہے مذہبی شناخت پر اتنا ذہن نشیں رہے کہ کوئی بھی اداکار اپنے آبائی دین سے اتنا ہی سروکار رکھتا ہے کہ زندگی میں کبھی کبھار کچھ مذہبی رسومات ادا کر لیتا ہے اور مرنے کے بعد آبائی دین کے مطابق آخری رسومات ادا کر دی جاتی ہیں.عملی طور پر اداکار اپنے آبائی دین پر اتنا ہی عمل کرتے ہیں جتنا ان کے مداحوں کے لیے ضروری ہوتا ہے جیسے رمضان کی افطار پارٹی میں افغانی سوٹ یا ٹوپی میں ملبوس ہوکر شرکت کرنا اور عید وغیرہ پر مبارکباد پیش کرنا وغیرہ.

اعتقادی طور وہ جملہ مذاہب کو ایک جیسا ہی تصور کرتے ہیں اور اسی تصور پر ایمان ویقین بھی رکھتے ہیں. اسی لیے کسی بھی غیر مسلم/غیر مسلمہ سے ہندو/عیسائی مذہب کے مطابق شادی کرنے اور اور اپنے بچوں کے غیر اسلامی نام رکھنے سے انہیں کوئی پرہیز نہیں ہوتا اسی پر معاملہ ختم نہیں ہوتا بلکہ دیگر مذاہب کی عبادت وبت پرستی سے بھی انہیں کوئی تکلف نہیں ہوتا وہ لوگ ایسے کام برضا و رغبت کرتے ہیں، چھپ کر نہیں علی الاعلان کرتے ہیں. اپنے گھروں میں بتکدے بناتے ہیں،نمازوں کے ساتھ پوجا، آرتی بھی کرتے ہیں اور اپنے طرز عمل کو مثالی زندگی کے طور پر فخریہ بیان بھی کرتے ہیں.ان اداکاروں کی زندگی کی عمومی صورت حال اور اصل سچائی یہی ہے جس سے شاید ہی کوئی شخص ناواقف ہو.

2-فلمی زندگی

اداکاروں کی فلمی زندگی اسکرپٹ اور ڈائریکٹر کے مطابق چلتی ہے. عام طور کہا جاتا ہے کہ فلم انڈسٹری بڑی سیکولر ہے،یہاں کسی خاص مذہب کی اجارہ داری نہیں چلتی. لیکن یہ صرف کہنے کی باتیں ہیں حقیقت میں فلم انڈسٹری ہندو مذہب کی ترجمان ہے اور ہندوؤں میں بھی اعلی ذاتوں کی نمائندگی کرتی ہے. اس انڈسٹری کا ہیرو عموماً ہندو اور اعلی ذات کا ہی ہوتا ہے. کسی مسلم یا عیسائی کا ہیرو ہونا استثنی کے درجے میں ہوتا ہے. یہی حال ملک کی دَلِت اور پچھڑی ذاتوں کا ہے کہ فلم انڈسٹری میں کبھی دلت یا پچھڑے طبقے کا شخص ہیرو نہیں دکھایا جاتا اس لیے فلم انڈسٹری کا ہیرو عموماً بڑی ذات کا ہندو ہوتا ہے. کبھی ٹھاکر صاحب تو کبھی پنڈت جی کی شکل میں!

اسکرپٹ کے مطابق لیڈنگ رول پلے کرنے والے اداکاروں کو وہ سارے کفریہ شرکیہ امور انجام دینا ہوتے ہیں جو مخصوص مذہب کا تقاضا ہوتے ہیں.چاہے بتوں کی عبادت ہو یا کفریہ مکالموں کی ادائیگی، لیڈنگ ایکٹر کو سارے کفریہ کام کرنا ہوتے ہیں. یہاں یہ عذر ہرگز قابل قبول نہیں ہوگا کہ فلمی افعال کا تعلق محض “آرٹ اور فن” سے ہے “اعتقاد” سے کوئی تعلق نہیں ہے.قرآن کریم میں ہے:

وَ تَقُوۡلُوۡنَ بِاَفۡوَاہِکُمۡ مَّا لَیۡسَ لَکُمۡ بِہٖ عِلۡمٌ وَّ تَحۡسَبُوۡنَہٗ ہَیِّنًا ٭ۖ وَّ ہُوَ عِنۡدَ اللّٰہِ عَظِیۡمٌ ﴿سورة النور۱۵﴾

“اور اپنے منہ سے وہ نکالتے تھے جس کا تمہیں علم نہیں اور اسے سہل سمجھتے تھے اور وہ اللہ کے نزدیک بڑی بات(جرم) ہے”

فتاوی قاضی خاں میں ہے:

من تکلم بکلمۃ الکفر ھازلا او لاعبا کفر عند الکل ولا اعتبار باعتقادہ.

(فتاوی قاضی خان 3/362)

“جس نے ہنسی مذاق میں بھی کلمہ کفر کہا تو بالاتفاق کفر ثابت ہے. اب قائل کے اعتقاد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا”

اداکاری کی تعریف کو دور جاہلی کی شاعری کی تعریف پر قیاس کرنا اس لیے لائق اعتنا نہیں ہے کہ شاعری میں پر شکوہ الفاظ ، عمدہ تراکیب ، سرعت خیال حسن تشبیہ پائی جاتی ہے جو معاشرے کی زبان وبیان کی درستی اور افہام وتفہیم کے نئے راستے وا کرتی ہے لیکن اداکاری از اول تا آخر تصنع ، بناوٹ اور سوانگ کرنا ہی سکھاتی ہے جو کسی طور بھی فرد یا معاشرے کے لیے مفید نہیں ہے.

اب اداکاروں کی حقیقی زندگی(Real Life) ہو یا فلمی زندگی (Reel Life) بہر دو صورت ان کی زندگی کفر شرک سے آلودہ ہوتی ہے. ایسے میں ہمارے جذباتی اور روشن خیال افراد کا محض نام کی بنیاد پر ان سے قلبی وابستگی رکھنا، ان کی موت پر کلمہ ترجیع اور دعائے مغفرت کرنا کوری جذباتیت اور انتہائی غلط رواج کی داغ بیل ڈالنا ہے جس کے مستقبل میں بڑے خراب اثرات مرتب ہوسکتے ہیں اور بے راہ روی کا نیا راستہ کھل سکتا ہے. اس لیے عافیت اسی میں ہے کہ ایسے کاموں سے پرہیز کریں اور اسلامی شعائر کے ساتھ کھلواڑ کرنے والوں کو نیکو کار بنانے کے سعی مذموم سے باز رہیں.

6 رمضان المبارک 1441ھ

30 اپریل 2020 بروز جمعرات