حقیقی مؤمن کون ؟

اللہ تبارک و تعالی نے کامل ایمان والوں کے 5 اوصاف ، ان کے حقیقی مؤمن ہونے کا اعلان

اور آخرت میں ان کے اجر و ثواب کو ان آیات میں بیان فرمایا ہے

🌹 إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ (2) الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ (3)أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ (4)

سورة الأنفال

ان سے پہلی آیت نمبر 1 میں اللہ تعالیٰ نے مؤمن ہونے کی نشانی اور شرط یہ بتائی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو ۔ تو گویا کامل ایمان کی پہلی نشانی اللہ جل مجدہ اور اس کے رسول صلى الله تبارك وتعالى عليه وعلى آله وصحبه و بارك و سلم کی غیر مشروط اطاعت ہے۔

جو لوگ اطاعت کی بجائے مخالفت کرتے ہیں یا ویسے ہی مثلا سستی ، غفلت و جہالت کی وجہ سے ان کے احکامات کی اتباع ترک کر دیتے ہیں، ان کے مقررہ حدود وفرائض پر عمل پیرا نہیں ہوتے ، وہ ” المؤمن” کیسے ہو سکتے ہیں؟ کہ اطاعت و اتباع کا مظہر محبت کا فطری تقاضا ہونا تو امر مشاہد ہے ۔

آیت نمبر 2 کا آغاز ” إِنَّمَا ” کلمہ حصر سے کر کے ابتداء ہی میں واضح کر دیا کہ حقیقی مؤمن وہی ہے جس میں یہ صفات ہیں وگرنہ نری باتیں اور خالی دعوے ہیں ۔

(1) إِذَا ذُكِرَ اللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ

🌷جب بھی اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل کانپ کانپ سے جاتے ہیں

😭 ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔ دل ڈرنے کا مطلب ہے سارا جسم ڈر گیا ۔ جو ڈرتا ہے وہ مامورات کو ضرور بجا لاتا اور محرمات و ممنوعات سے کوسوں دور بھاگتا ہے ۔

اللہ تبارک و تعالی کے خوف کی سب سے بڑی نشانی گناہوں سے نفرت ہے۔ سزا اور محبوب کی ناراضگی کا اندیشہ نافرمانیوں سے دامن بچا کر رکھنے پر مجبور رکھتا ہے

📣 دلوں پر ذکر الہی کا یہ اثر کچھ صفات کے پائے جانے کے بعد ہوتا ہے ۔ چند بنیادی صفات یہ ہیں

  • اللہ کی ذات و صفات پر ایمان اور اسی کا عاجز بندہ ہونے کا کامل اعتقاد ہو ۔

  • اپنے حشر اور روز جزآء پر ایمان ہو

اللہ تبارک و تعالی کے ذکر کی عظمت و ہیبت دل میں جاگزیں ہو

اور زبان سے اس جل و علا کے نام کے ذکر کے علاوہ ذکر کی باقی ساری صورتیں بھی یہاں داخل ہیں ۔ مثلا اذان کا سننا ، کسی بندے بشر کا اللہ کا نام لے کر کوئی بات کرنا یا کسی بھی عمل کے وقت اپنے دل میں اللہ کی یاد آ جانا ۔

اور دل کا اتنا سلیم ہونا کہ وہ ان سے متاثر ہو ۔

اپنی خوش گپیوں میں لگے ہوئے ہیں اور اذان کی آواز پر بھی یہ سلسلہ جاری ہی رہتا ہے ، تلاوت و وعظ سنائی دے رہے ہیں لیکن اپنے خیالات کہیں اور بھٹکے ہوئے ہیں ۔ ہیں تو نماز میں لیکن منصوبے کچھ اور سجھائی دے رہے ہیں

تو دل ہرگز سلیم نہیں ۔ اس کے علاج کی ضرورت ہے ۔

♤ ذکر الہی میں تلاوت قرآن مجید داخل ہے لیکن تلاوت قرآن مجید کی عظمت کو اور اس سے ایک خاص کیفیت و اثر کے حاصل کرنے کی ضرورت کو بیان کرنے کے لیئے فرمایا ۔

(2)۔وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ آيَاتُهُ زَادَتْهُمْ إِيمَانًا

🌷اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جائیں تو یہ آیات ان کے ایمان ( کی سابق کیفیات ) میں اضافہ کر دیتی ہیں ۔

آیت کانوں میں رس گھولتی ہے تو اس کا یہ یقین بڑھتا ہے کہ یہ جو میں سن رہا ہوں میرے اللہ کا کلام ہے جو میرے محبوب نبی كريم صلى الله تبارك وتعالى عليه وعلى آله وصحبه و بارك و سلم پر نازل ہوا ہے ، ہر ہر آیت کی دل تصدیق کرتا ہے اور اس تصدیق کا ہر آیت کے ساتھ بڑھنا اس کی کیفیات ایمان کو بڑھاتا جاتا ہے ۔

(3) وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ

🌷اور وہ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں ۔

آیت میں حصر کا اسلوب یہ بتاتا ہے کہ ان کا اعتماد صرف رب پر ہوتا ہے ۔ رب کے علاوہ کسی اور شی کو وہ بالذات اپنا کوئی آسرا ، مداوا اور نافع یا ضرر رساں خیال بھی نہیں کرتے ۔

قرآن و حدیث میں توکل کو اہل ایمان کا اہم اور نمایاں وصف بیان کیا گیا ہے ۔ سلف صالحین کے کلام اور کردار میں بھی اسے خاص اہمیت ہے ۔ ان تمام کی روشنی میں فقیر اسے ایک ایسا وصف سمجھتا ہے جو نہ صرف تمام اعمال صالحہ کی بجا آوری اور جملہ محظورات سے اجتناب پر برانگیختہ کرتا ہے بلکہ مؤمن کو یہ یقین دلاتا ہے کہ اس کا رب اسی کا ہے ۔ اور تقدیر پر راضی رہنے کا یہ داعیہ اسے نڈر ، بے باک ، مطمئن اور حزن و ملال و فکر و اندوہ سے پاک رکھتا ہے ۔ نہ کسی بندے بشر سے کوئی امید اور نہ کسی غیر خدا کا کوئی ڈر ۔

(4)الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ

🌷جو نماز کو قائم کرتے ہیں ۔۔

(5) وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ ۔

🌷اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

قرآن مجید اور احادیث میں نماز کے ذکر ساتھ اسے قائم رکھنے کی بات اور اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی بات بھی ہوتی ہے ۔

اور ان دونوں اوصاف کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث میں کسی بھی اور نیکی کی وہ تاکید نہیں جو ان کی ہے ۔ نماز کو قائم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شرع شریف میں اس کے بتائے گا تمام فرائض ، واجبات ، سنن ، شرائط اور آداب کو بجا لاتے ہوئے خود بھی پڑھے اور معاشرے میں بھی اس کو عام کرے ۔

(” ہم نے جو رزق دیا ” ) کا عموم یہ بتاتا کہ مال اور صرف مادی اشیاء ہی انفاق فی سبیل اللہ میں داخل نہیں بلکہ اپنی ذات ، شخصی اوصاف و کمالات و صلاحیتوں و تجربات سے بھی مخلوق خدا کو نفع پہنچانا بھی مطلوب ہے ۔

🌹أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ۚ لَّهُمْ دَرَجَاتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ

🌷یہی لوگ سچے پکے حقیقی کامل مؤمن ہیں ۔ ان کے لیئے ان کے رب کی جناب میں ڈھیروں عظیم درجات ہیں ۔ مغفرت ہے اور کرامت والا رزق ہے ۔

اللہ اللہ ۔ بتا دیا کہ رزق کے حصول کے لیئے عمومی طور پر جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔ جو محنتیں اور ذلتیں سامنے آتی ہیں، ان سب میں سے کچھ بھی نہیں ہوگا بلکہ عزت و کرامت کے ساتھ رزق دیا جائے گا ۔

اللہ تبارک و تعالی سے دعاء ہے کہ اپنے پسندیدہ مذہب اسلام کی ترویج و اشاعت میں حضرت سیدہ خديجة الكبرى رضى الله تعالى عنها و وأرضاها عنا نے کی بے بہا خدمات و قربانیوں کا تصدق وہ جل و علا اس فقیر خالد محمود، اس کے آباء و اجداد و امھات و بہن بھائیوں، اہل و عیال اور اعزہ و اقارب و احباب کو حقیقی اور کامل مؤمن بنائے رکھے ۔ اس دنیا ، برزخ، اور آخرت میں بلند درجات، مغفرت اور رزق کریم عطاء فرمائے آمین آمین آمین یا رب العالمین ۔

فقیر خالد محمود

ادارہ معارف القرآن کشمیر کالونی کراچی ۔

پیر

10 رمضان المبارک 1441 ھ ۔

4 مئی 2020