حدیث نمبر204

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن مسعود سے فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کہ وہ نماز میں ہوتے سلام کرتے تھے آپ ہمیں جواب دیتے تھے ۱؎ جب ہم نجاشی کے پاس سے لوٹے ۲؎ تو ہم نے آپ کو سلام کیا آپ نے ہمارا جواب نہ دیا ہم نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کو نماز میں سلام کرتے تھے اور آپ جواب دیتے تھے فرمایا نماز میں مشغولیت ہے۳؎ (مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یعنی ہجرت سے پہلے نماز میں کلام و سلام سب جائزتھا اس بنا پرحضور علیہ السلام بحالت نماز سلام کا جواب دیتے تھے ان حضرات کے حبشہ جانے کے بعد کلام منسوخ ہوا۔خیال رہے کہ “وَقُوۡمُوۡا لِلہِ قٰنِتِیۡنَ” سورۂ بقر میں ہے سورۂ بقر مدنی ہے لہذا نسخ کلام بعد ہجرت ہوا۔

۲؎ نجاشی بادشاہ حبشہ کا لقب تھا جیسے فرعون بادشاہ مصر کا،حضور علیہ السلام کے زمانہ کے نجاشی کا نام اصحمہ تھا اس نے مظلوم صحابہ کو اپنے ملک میں امن دی اور انہی کے ذریعہ حضور علیہ السلام پر غائبانہ ایمان لایا اور انہی کی معرفت حضور علیہ السلام کی بارگاہ میں بہت سے تحفے بھیجے،حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان جو ایمان لاکر حبشہ ہجرت کرگئی تھیں،اصحمہ ہی نے ان کا غائبانہ نکاح حضور علیہ السلام سے کیا،جب حضور علیہ السلام مدینہ پاک تشریف لائے تو حبشہ کے مہاجر صحابہ مدینہ منورہ میں آگئے،ان بزرگوں کو صاحبِ ہجرتین کہتے ہیں،انہی اصحمہ اور ان کے ساتھواں کا ذکر قرآن کریم نے بہت شان سے کیا ہے۔”وَ اِذَا سَمِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَی الرَّسُوۡلِ”۔نجاشی کا انتقال ۹ھ؁ فتح مکہ سے پہلے حبشہ میں ہوا،جبریل امین نے انکی لاش حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردی حضور علیہ السلام نے غائبانہ جنازہ پڑھا،بہت عرصہ تک ان کی قبر سے انوار نکلتے تھے جس سے رات میں سارا جنگل جگمگاجاتا تھا رضی اﷲ تعالٰی عنہ۔

۳؎ یعنی اب نماز مناجات،عبودیت،اور استغراق سےگھیردی گئی،اس میں نہ کلام ہے نہ سلام۔فقہاء فرماتے ہیں کہ نمازی اشارے سے بھی سلام کا جواب نہیں دے سکتا۔