کورونا وائرس: احتیاطی تدابیر اور اسلام

تحریر: محمد ہاشم اعظمی مصباحی
آج عالمی حالات اور منظر نامے سبھی کے پیشِ نظر ہیں کورونا وائرس کی وجہ سے پوری دنیااضطرابی کیفیت سے دوچارہے مزید برآں سماجی فاصلوں اور لاک ڈاؤن نے سب کو گھروں میں محصور ومحبوس کررکھا ہے
 کورونا وائرس جس طرح کہ طاعون، ہیضہ اور دیگر وبائی امراض بعض ایام میں وبا کے طور پر ظاہر ہوکر دفعتاً صدہا جانوں کو لقمۂ اجل بنا دیتے ہیں تحقیق جدید سے ثابت ہے کہ نزلہ اور زکام کا حملہ بعض دفعہ وبائی( کورونا وائرس)کے طور پر بھی ہوتا ہے اس مرض کا باعث ہوا میں ایک زہریلے اثر کا پیدا ہونا ہے جو سانس لینے کے ساتھ ہوا کے ہمراہ جسم میں داخل ہوجاتا یے اور یہ مرض جراثیم (وائرس) کے ذریعہ ایک مقام سے پیدا ہو کر فوراً ہی دوسرے مقامات تک پھیل جاتا ہے(حاذق،از حکیم اجمل خان،تلخیص ص 78)ڈاکٹر س اور اطباء کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس طاعون، برص اور جذام کی طرح متعدی بیماری ہے اس کے جراثیم مہلک اور مضر ہوتے ہیں اجتماعیت واختلاط سے انتقال وائرس ہوتا ہے جس کی ضرر رسانی اور ہلاکت خیزی سے پوری دنیا واقف ہے اس لیے ہر شخص ایک دوسرے سے کم از کم ایک میٹر کی دوری بناۓ رکھے تاکہ اگر کسی کو وبائی مرض لاحق ہو تو بات کرتے وقت اس کے جراثیم آپ کو نہ لگ جائیں ماہرین کا مزید کہنا ہے کہ یہ جراثیم (وائرس)ایک میٹر کی دوری تک ہوامیں نہیں رہ سکتے اس سے پہلےہی وہ زمین پرآجاتے ہیں.
 *حکومتی تدابیر* انسانوں کو اجتماعی قرب واختلاط سے روکنے لئے حکومت نے دفعہ 144 اور لاک ڈاؤن کا نفاذ کررکھا ہے سماجی فاصلہ بھی بنا ۓ رکھنے کی ہدایت اس پر مستزاد ہے آپ کو تعجب ہوگا کہ اس معاملے میں حکومت کی جو بھی ہدایات وتدابیرہیں وہ اسلامی تعلیمات کے بالکل مطابق ہیں.
 *لاک ڈاؤن* حدیث شریف میں ہے”اذا سمعتم بالطاعون بارض فلا تد خلو ہا واذا وقع بارض انتم بھا فلا تخر جوا منھا“ترجمہ:جب تمہیں معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ اور جہاں تم ہو وہاں اگر طاعون پھیل جائے تو اسے چھوڑ کر مت جاؤ“(صحیح بخاری 5728 )چونکہ اسکریننگ اور ٹیسٹ کرنے کی لیبارٹریز اس وقت موجود نہیں تھیں۔اس لیے کسی بھی متاثرہ علاقے سے نکلنے اور داخل ہونے پر پابندی لگائی تھی مذکورہ روایت کی روشنی میں آج کے لاک ڈاؤن کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے. 
 *سماجی دوری* رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:فرمن مجزوم کما تفر من الا سد“ ترجمہ:جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو“(صحیح بخاری 5707 )اس زمانے میں جراثیم کی دریافت نہیں ہوئی تھی۔ لیکن معلم کائنات سیدالاطباء صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے علم و مشاہدے میں یہ بات آگئی تھی کہ جو لوگ مریض کے قریب اور رابطے میں رہتے ہیں۔ان کو بھی بیماری لگ جاتی ہے۔ یوں جذامی کو شیر جتنا مضر اور خطرناک بیان کیا گیا ہے۔ جذامیوں کی بیماری سے بچنے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے ان سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔حدیث شریف میں ہے”واذا کلمتمو ہم فلیکن بینکم و بینھم قدر رمح“ ترجمہ:جب تم ان (جذامیوں) سے بات چیت کرو تو تمہارے اور ان کے درمیان ایک نیزہ کا فاصلہ ہونا چاہیے“(مسند احمد)ایک اور روایت میں ہے:عن اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﺃﻭﻓﻰﺃﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﺎﻝﻛﻠﻢ اﻟﻤﺠﺬﻭﻡ ﻭﺑﻴﻨﻚ ﻭﺑﻴﻨﻪ ﻗﻴﺪ ﺭﻣﺢ ﺃﻭ ﺭﻣﺤﻴﻦ                                             (عمدةالقاري ج21ص247) ترجمہ:حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی سےروایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا کہ تم کوڑھی اوراپنے بیچ ایک یادو نیزے کافاصلہ کرکے بات چیت کرو,واضح رہے کہ ایک نیزہ تقریباً چھ سات فٹ کاہوتاہے پھردونیزے کی دوری تودس سے پندرہ فٹ کے قریب ہوجاتی ہے.                                                                                                         آخری بات
 انسان غورتوکرے تو معلوم ہوگا کہ دنیا لاکھ ترقی کر لے ماہرین چاہے جتنے علوم سے آشنا ہو جائیں لیکن جب انسان مشکل میں پھنس جاتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر ہی سہی تعلیمات اسلام کی طرف ہی رجوع ہوتا ہے جس کی مثالیں آج سے پہلے بھی اور آج کے سنگین حالات میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہیں کورونا جیسی وبائی متعدی بیماریوں کے لئے انسانیت کے مذہب اسلام نے چودہ سو سال پہلے ہی رہنما اصول بیان کردیا تھا جس پہ آج پوری دنیا عمل کر رہی ہے کولمبیا کی یونیورسٹی آف برٹش کے کلینیکل ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹرمائیکل کری کہتے ہیں:کورونا وائرس پر قابو پانے کا بہترین حل صفائی ستھرائی کے ساتھ حفظانِ صحت کی مشق کرنااور رَش والی جگہوں پرجانے سے گریز کرنا ہے لہذا ہمیں لاک ڈاؤن اور سماجی دوری کا شوق سے اہتمام کرنا چاہیے کہ یہ عین اسلامی تعلیمات کےمطابق ہے۔