لَعَمۡرُكَ اِنَّهُمۡ لَفِىۡ سَكۡرَتِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 15 الحجر آیت نمبر 72
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَعَمۡرُكَ اِنَّهُمۡ لَفِىۡ سَكۡرَتِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ ۞
ترجمہ:
(اے محمد) آپ کی زندگی کی قسم ! وہ اپنی مستی میں مدہوش ہو رہے تھے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (اے محمد) آپ کی زندگی کی قسم وہ اپنی مستی میں مدہوش ہورہے تھے۔ (الحجر : 72)
رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی قسم
اس آیت کے دو محمل ہیں یاک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قسم کھاکر قوم لوط کے کے متعلق فرمایا وہ اپنی شہوت کی مستی میں مدہوش ہورہے تھے اور حضرت لوط (علیہ السلام) کے سمجھانے اور منع کرنے کے باوجود فرشتوں سے اپنی ہوس پوری کرنا چاہتے تھے جو حسین و جمیل لڑکوں کی صورتوں میں آئے گے اور ان آیات کے سیاق وسباق کے بھی یہی معنی مناسب ہے اور دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کفار مکہ کے متعلق ہے جو کفر وشرک کے نشہ میں مدہوش ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تبلیغ کرنے اور باربار معجزات دکھانے کے باوجود ہدایت کو قبول نہیں کرتے اس صورت میں یہ سیاق وسباق کے نظم اور ربط سے الگ جملہ معترضہ ہے بہرحال ہر صورت میں اللہ تعالیٰ کی قسم نہیں کھائی اور آپ کی زندگی کی قسم کھا کر اللہ تعالیٰ نے آپ کی نہایت تعظیم اور بےحد تکریم فرمائی ہے
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوا کسی نبی کی زندگی کی قسم کھائی گویا کہ فرمایا اے محمد تمہاری زندگی کی قسم اور دنیا میں تمہاری عمر اور بقا کی قسم ! (تفسیر امام ابن ابی حاتم : 14420)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا صفی بنا کر نوازا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اپنا خلیل بنا کر سرفراز کیا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو شرف ہم کلامی عطا کیا حضرت عیسیٰ کے متعلق فرمایا وہ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اور ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنا محبوب بنایا اور آپ کی زندگی کی قسم کھائی اور یہ وہ فضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کے سوا اور نبی اور رسول کو عطا نہیں فرمائی۔
اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے والطور فرما کر پہاڑ طور کی قسم کھائی اور لا اقسم بھذا البلد (البلد : 1) فرما کر شہر مکہ کی قسم کھائی ہے تو اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کی بھی قسم کھائی ہو تو اس میں آپ کی کیا خصوصیت ہے اس کا جواب یہ ہے کہ ہر چیز کا مقابلہ اس کی جنس کے افراد میں ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے پہاڑ طور کی قسم کھا کر یہ ظاہر فرمایا کہ پہاڑوں کی جنس میں جو پہاڑ اللہ کو محبوب ہے وہ پہاڑ طور ہے اور شہر مکہ کی قسم کھا کر یہ ظاہر فرمایا کہ شہر تو دنیا میں بہت ہیں لیکن جو شہر اللہ کو پیارا ہے وہ شہر مکہ ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی کی قسم کھائی تو یہ ظاہر فرمایا کہ زندگیاں تو اور نبیوں اور رسولوں نے بھی گزاری ہیں لیکن جس نبی کی گزاری ہوئی زندگی اللہ کو محبوب ہے وہ اے محمد مصطفیٰ وہ تمہاری زندگی ہے اور جس رسول کی گزاری ہوئی زندگی پر اللہ کو رفخر ہے وہ اے پیارے رسول تمہاری زندگی ہے۔
جن خصوصیات کی وجہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کی قسم کھائی
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں وہ کون سی ایسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی قسم کھائی ہم یہاں ان میں سے چند خصوصیات کا ذکر کررہے ہیں۔ باقی انبیاء (علیہم السلام) نے اپنی نبوت اور رسالت کو خارجی معجزات سے ثابت کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی نبوت اور رسالت کے اثبات کے لیے کسی خارجی دلیل کی احتیاج نہیں تھی
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
قُلْ لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلا أَدْرَاكُمْ بِهِ فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ أَفَلا تَعْقِلُونَ ( یونس : ١٦) آکہئے کہ اگر اللہ چاہتا تو میں تم پر اس قرآن کی تلاوت نہ کرتا اور نہ تم کو اس کی خبر دیتا، سو میں تم میں اس سے پہلے اپنی زندگی کا ایک حصہ گزار چکا ہوں کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے !
یعنی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری نبوت کے اثبات کے لے ان میں تمہاری گزاری ہوئی زندگی کافی ہے۔
حضرت خدیجہ آپ کی بیوی ہیں اور بیوی شوہر کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے اور اس کی تمام عظمتوں اور تمام کمزوریوں سے واقف ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ اور لوگ کسی کے معتقد ہوں تو بیوی کسی کی معتقد نہیں ہوتی لیکن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی کا اعجاز یہ ہے کہ سب سے پہلے جو آپ کی نبوت پر ایمان لائیں وہ آپ کی بیوی حضرت خدیجہ تھیں یا پھر کسی شخص کا دوست اس کے احوال سے واقف ہوتا ہے اور آپ پر مردوں میں میں جو سب سے پہلے ایمان لائے وہ آپ کے دوست حضرت ابوبکر صدیق تھے اور نوکر اور غلام بھی مالک کا معتقد نہیں ہوتا اور آپ پر اپہلے ایمان لانے والوں میں آپ کے غلام زید بن حارثہ (رض) تھے اور وہ آپ کی زندگی سے اس قدر متاثر اور آپ کے اس گرودیدہ تھے کہ جب یمن سے ان کے اعزہ ان کے آپ کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے آئے تو انہوں نے آزادی کے مقابلہ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔
حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :
جمیل بن مرثد الطائی وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ زید بن حارثہ کی والدہ سعدی اپنی قوم سے ملنے گئی زید بھی ان کے ہمراہ تنے بنو القین بن جسر نے زمانہ جاہلیت میں بنو معن کے گھروں پر لوٹ مار کے لیے حملہ کیا اور وہ زید کو بھی اٹھا کرلے گئے زید اس وقت کم عمرلڑکے تھے وہ ان کو لے کر عکاظ کے بازار میں گئے اور ان کو فروخت کرنے لگے حکیم بن حزام نے ان کو اپنی حضرت خدیجہ کے لیے چارسو درہم میں خرید لیا اور جب حضرت خدیجہ (رض) نے آپ سے نکاح کیا تو انہوں نے زید آپ کو بطور ہدیہ دے دیا زید کے والد حارثہ اور چچا زید کو ڈھونڈتے پھر رہے تھے ان کے والد کو بتایا گیا کہ فلاں جگہ زید غلامی کے ایام گزار رہے ہیں پس زید کے والد حارثہ اور ان کے چچا فدیہ کی رقم لے کر مکہ پہنچے انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق دریافت کیا انہیں بتایا کہ آپ مسجد میں ہیں وہ دونوں مسجد میں گئے اور پکار کر کہا اے عبدالمطلب کے بیٹے ! اے سردار قوم کے بیٹے ! آپ لوگ اللہ کے حرم کے رہنے والے ہیں آپ قید یوں کو آزاد کرتے ہیں اور اسیروں کو کھانا کھلاتے ہیں ہم اپنے بیٹے اور آپ کے غلام کے سلسلہ میں آپ کے پاس آئے ہیں آپ ہم پر احسان فرمائیں اور اس کا فدیہ لے کر اس کو آزاد کردیں آپ نے پوچھا وہ کون ہے ؟ انہوں نے کہا زید بن حارثہ ! آپ نے فرمایا اس کو بلاتا ہوں تم اس کو اختیار دینا اگر وہ تمہارے ساتھ جانا پسند کرے تو میں بغیر فدیہ لیے اس کو تمہارے حوالے کردوں گا اور اگر وہ میرے ساتھ رہنا پسند کرے تو جو میرے ساتھ رہنا پسند کرے سو میں اس کو چھوڑنے والا نہیں ہوں، انہوں نے اس تجویز کو منظور کرلیا آپ نے زید کو بلایا اور پوچھا کیا تم ان دونوں کو پہچا نتے ہو ؟ زید نے کہا ہاں یہ میرے باپ ہیں اور یہ میرے چچا ہیں فرمایا : اور مجھے تو تم جانتے ہو اور میری رفاقت کو پہچانتے ہو اب تم مجھے اختیار کرلو یا ان کو اختیار کرلو حضرت زید بن حارثہ نے کہا میں آپ کے مقابلہ میں کسی کو اختیار نہیں کرسکتا آپ ہی میرے باپ اور چچا کے حکم میں ہیں حضرت زید کے والد اور چچا نے کہا اے زید تم پر افسوس ہے ! کیا تم غلامی کو آزادی پر ترجیح دے رہے ہو اور اپنے باپ اپنے چچا اور اپنے گھر اور اپنے گھر والوں پر ان کی ترجیح دے رہے ہو حضرت زید بن حارثہ نے کہا میں نے اس کریم شخص کو زندگی میں وہ چیز دیکھی ہے کہ میں ان کے مقابلہ میں کسی کو اختیار نہیں کرسکتا ! (الاصبا ج 2 ص 495 ۔ 492، رقم :279، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1415 ھ)
خلاصہ یہ ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی زندگی گزاری کہ آپ کی نبوت کے ثبوت کے ثبوت کے لیے کسی اور معجزہ کی ضرورت نہ تھی صرف آپ کی زندگی کافی تھی اور بغیر کسی معجزہ کے صرف اسی زندگی کو دیکھ کر حضرت خدیجہ، حضرت ابوبکر، حضرت علی اور حضرت زید بن حآرثہ ایمان لے آئے اور اس زندگی کو دیکھ کر حضرت زید بن حارثہ نے آزادی کے مقابلہ میں آپ کی غلامی میں رہنے کو پسند کرلیا یہ ایسی باکمال زندگی تھی جو کسی اور نبی اور رسولوں کی نہ تھی اسی لیے اللہ تعالیٰ نے آپ زندگی کی قسم کھائی ہے اور فرمایا لعمرک !
جس شخص نے اپ کے زندگی کو جنتا قریب سے اور جتنی جلدی دیکھا وہ اتنی جلدی مسلمان ہوگیا اور جس نے آپ کی زندگی کو جس قددر دور رہے اور جتنی دیر سے دیکھا وہ اتنی دیر سے مسلمان ہوا۔
آپ نے تمام نبیوں میں سب سے کم زندگی پائی اور سب سے زیادہ متبعین اور پیروکار چھوڑے۔ دیگر نبیوں اور رسولوں کی تبلیغ سے انسان بھی بمشکل مسلمان ہوتے تھے آپ کی تبلیغ سے انسان مسلمان ہوئے جن مسلمان ہوئے دو ختوں پتھروں اور حیوانوں نے کلمہ پڑھا حتی کہ آپ کے ساتھ رہنے والا شیطان بھی آپ کا مطیع اور مسلمان ہوگیا۔
لاکھ ستارے ہر طرف ظلمت شب جہاں جہاں
ایک طلوع آفتاب دشت وجبل سحر سحر
کسی نبی اور کسی رسول کی پوری زندگی اور سیرت محفوظ نہیں ہے یہ صرف آپ کا امتیاز ہے کہ پیدائش سے لے کر وصال تک آپ کی زندگی کا ہر ہر باپ محفوظ ہے آپ کے تمام اور شادات گرامی قلم بند کے لیے گئے آپ نے جو کہا جو کیا اور آپ کے سامنے جو کیا گیا وہ سب صفحات حدیث میں موجود ہے اور آپ کے ہر قول اور ہر فعل سے ہدای حاصل کی جاتی ہے
آپ نے لوگوں جو کام کرنے کا حکم دیا خود اس سے زیادہ کرکے دکھا یا لوگوں کو دن اور رات میں پانچ فرض نمازیں پڑھنے کا حکم دیا اور خود بہ شمول تہجد چھ نمازیں پڑ تھے تھے لوگوں سے کہا چالیسوں حصہ زکوہ اور خود سب کچھ دے دیتے تھے پاس کچھ نہیں رکھتے تھے فرمایا اگر کوئی شخص ترکہ چھوڑ کر مرگیا تو وہ اس کے وارثو ں کا ہے اور اگر وہ قرض چھوڑ کر مرگیا تو اس کو میں ادا کروں گا لوگوں نے کہا : طلوع فجر سے غروب آفتاب تک روزے رکھو اور خودسحر اور افظار کے بغیر مسلسل روزے رکھے لوگوں سے کہا چار بیو یوں میں عدل کرو اور خود بیک وقت نوازواج مطہرات کے درمیان عدل کرکے دکھایا۔
دشمنان جان کو معاف کردینا بھی کمال ہمت اور حوصلہ کی بات ہے لیکن آپ نے دشمنان جان کو انعامات اور احسانات سو نوازا ابو سفیان نے متعدد بار مدینہ پر حملے کیے لیک فتح مکہ کے بعد جب حضرت عباس ان کے لے کر آئے تو نہ صرف یہ کہ آپ نے ان کو معاف فرمادیا بلکہ فرمایا جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگا اس کو بھی امان ہوگی جب مکہ میں قریش قحط سے بھوکے مر رہے تھے تو ابو سفیاب آپ سے ان کے لیے دعا کی درخواسست کی تو آپ نے ان کے لیے دعا کردی، سراقہ بن مالک بن جعشم سوانٹوں کے لالچ میں آپ کو قتل کرنے کے لیے ہجرت کے موقع پر آپ کا پیچھا کر رہا تھا لیکن جب اس کی سواری زمین میں دھنس گئی تو اس نے آپ سے درخواست کی کہ آپ زمین کو حکم دیں کہ مجھے چھوڑ دے تو آپ کے حکم سے زمین نے اس کو چھوڑ دیا پھر اس نے کہا آپ مجھے امان لکھ کر دے دیں تو آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور اس نے ایک چمڑے پر مان لکھ کر دے دی آپ نے فرماما مجھے اس لیے بھیجا گیا ہے کہ مکارم اخلاق کو مکمل کردوں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان (علیہا السلام) کی زندگی شاہانہ زندگی تھی اس میں فقر کا نمونہ نہ تھا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں ازدواجیات کا نمونہ نہ تھا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی زندگی میں جلال تھا جمال کا نمونہ نہ تھا تمام انبیوں اور رسولوں میں صرف آپ کی زندگی ایسی کامل ہے کہ اس میں حیات انسانی کے تمام شعبون کے لیے رہنمائی اور نمونہ ہے آپ نے بکریاں چرائیں اور ان کا دودھ دوہا چرواہوں اور گوالوں کو اعزاز بخشا اپنے کپڑے دھو لیے اپنی جوتی کی مرمت کی خندق کھودی تجارت کی نمازوں میں امامت کی اور اپنے اصحاب کی اقتداء میں نماز پڑھی شوہر کے لیے باپ کے لیے فرما نروائے سلطنت کے لیے تاجر کے لیے حتی کہ زمین کھودنے والے مزدور کے لیے بھی آپ کی زندی گی نمونہ ہے۔ آپ نے انسانیت کے ہر شعبہ کے لیے رہمنائی کی ہے اور بھر پور اور کامل زندگی گزاری اور ایسی زندگی گزاری ہے کہ کسی نبی اور رسول نے ایسی جامع اور محیط زندگی نہیں گزاری اس لیے اللہ تعالیٰ نے کسی نبی اور کس رسول کی زندگی قسم نہیں کھائی صرف آپ کی زندگی کی قسم کھائی اور فرمایا لعمرک اے محمد تمہاری زندگی کی قسم !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 15 الحجر آیت نمبر 72