أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَّالۡخَـيۡلَ وَالۡبِغَالَ وَالۡحَمِيۡرَ لِتَرۡكَبُوۡهَا وَزِيۡنَةً‌ ؕ وَيَخۡلُقُ مَا لَا تَعۡلَمُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تمہاری سواری اور زیبائش کے لیے پیدا کیے، اور وہ ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور گھوڑے اور خچر اور گدھے تمہاری سواری اور زیبائش کے لیے پیدا کیے اور وہ ان چیزوں کو پیدا کرتا ہے جن کو تم نہیں جانتے۔ (النحل : 8)

گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو اونٹوں، گایوں اور بھیڑوں سے علیحدہ ذکر کرنے کی توجیہ :

اللہ تعالیٰ نے مویشی اور چوپائے ہماری ملکیت میں دے دیے اور ان کو ہمارے لیے مسخر کردیا اور ہمارے تابع بنادیا، اور جو شخص جائز اور شرعی طریقہ سے ان جانوروں کا مالک ہوجائے اس کے لیے ان جانوروں کو فروخت کرنا اور ان کو باربرداری کے لیے کرایہ پر دینا جائز ہے، اس سے پہلی آیت میں انعام یعنی اونٹوں، بکریوں اور گایوں کا ذکر فرمایا تھا اور یہ فرمایا تھا ان سے تم گرم کپڑے حاصل کرتے ہو، ان کو کھاتے ہو اور ان پر تم باربرداری کرتے ہو یعنی بوجھ لادتے ہو، اس کے بعد گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا ان سے الگ ایک آیت میں ذکر کیا، اور یہ فرمایا کہ تم ان پر سواری کرتے ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ گھوڑے اور خچر اور گدھے زیادہ تر سواری کے کام آتے ہیں، ان کے جسموں پر اون نہیں ہوتا جس سے لباس بنا جاسکے، نہ ان کا دودھ پیا جاتا ہے، نہ ان کو کھایا جاتا ہے، یہ صرف سواری کے کام آتے ہیں یا بعض اوقات ان پر سامان لاد لیا جاتا ہے، اس کے برخلاف اونٹوں، گایوں اور بھیڑوں سے اون بھی حاصل کیا جاتا ہے، اونٹوں پر سواری بھی کی جاتی ہے، ان پر بوجھ بھی لادا جاتا ہے اور ان کو کھایا بھی جاتا ہے، اس وجہ سے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو ان سے علیحدہ دوسری آیت میں ذکر فرمایا ہے۔

گھوڑوں کا گوشت حرام ہونے کے دلائل :

فقہاء مالکیہ کے نزدیک گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے، ان کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلی آیت میں انعام یعنی اونٹوں، گایوں اور بھیڑوں کا ذکر کر کے فرمایا ان کو تم کھاتے ہو، اور اس کے بعد گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کا ذکر کر کے فرمایا تاکہ تم ان پر سواری کرو اور ان کے ساتھ کھانے کا ذکر نہیں فرمایا، اس سے معلوم ہوا کہ ان کو کھانا جائز نہیں ہے۔

امام علی بن عمر الدار قطنی المتوفی 385 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت خالد بن ولید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے پالتو گدھوں، گھوڑوں اور خچروں کو کھانے سے منع فرمایا۔ (سنن الدار قطنی ج 4، ص 287، رقم الحدیث : 4728، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)

واقدی نے کہا یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ حضرت خالد فتح خیبر کے بعد مسلمان ہوئے تھے۔

امام ابو داؤد اپنی سند کے ساتھ حضرت خالد بن ولید سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے گھوڑوں، خچروں اور گدھوں کو کھانے سے منع فرمایا اور حیوۃ بن شریح نے یہ اضافہ کیا کہ ہر کچلیوں والے درندے کے گوشت کو کھانے سے منع فرمایا۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3790، سنن النسائی رقم الحدیث : 4342، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3198)

امام ابو داؤد متوفی 275 ھ اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں : گھوڑوں کا گوشت کھانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس حدیث پر عمل نہیں ہے۔ نیز امام ابو داؤد نے کہا یہ حدیث منسوخ ہے، رسول اللہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے گھوڑوں کا گوشت کھایا ہے، ان میں سے حضرت عبداللہ بن الزبیر ہیں، فضالہ بن عبید ہیں، انس بن مالک ہیں، اسماء بنت ابی بکر ہیں، سوید بن غفلہ ہیں، اور رسول اللہ کے عہد میں قریش گھوڑوں کو ذبح کیا کرتے تھے۔

مذکورہ دلائل کے جوابات اور گھوڑوں کا گوشت کھانے کے حلال ہونے کے دلائل :

صحیح یہ ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے اور اس آیت سے گھوڑوں کے گوشت کے کھانے کی حرمت پر استدلال کرنا درست نہیں ہے، اور فقہاء مالکیہ نے جو کہا ہے کہ اونٹوں، بکریوں اور گایوں کے بعد فرمایا ہے اور ان کو تم کھاتے ہو اور گھوڑوں اور خچروں کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ تم ان کو کھاتے ہو، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کا کھانا جائز نہیں ہے کیونکہ اس آیت سے پہلے اونٹوں وغیرہ کے بعد ذکر ہے اور تم ان پر سامان لادتے ہو اور گھوڑوں وغیرہ کے ذکر کے بعد سامان لادنے کا ذکر نہیں ہے سو اس طریقہ استدلال سے یہ لازم آئے گا کہ گھوڑوں، خچروں اور گدھوں پر سامان لادنا بھی جائز نہ ہوگا، حالانکہ اس کا وکئی بھی قائل نہیں ہے، نیز سورة النحل مکی ہے اور فتح خیبر تک پالتو گدھوں کا گوشت کھانا حلال تھا اس لیے اس سورت کی آیت سے س کی حرمت پر استدلال صحیح نہیں ہے، اور گھوڑے کے گوشت کھانے کی حرمت میں جو احادیث پیش کی گئی ہیں وہ سب ضعیف ہیں یا منسوخ ہیں، گھوڑوں کے گوشت کھانے کے جواز پر حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ غزوہ خیبر کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا اور گھوڑوں کا گوشت کھانے کی رخصت دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5520، صحیح مسلم رقم الحدیث 1941، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3788، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1793، سنن النسائی رقم الحدیث : 4327، سنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 14839)

حضرت اسماء بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کے عہد میں ہم نے ایک گھوڑے کو نحر کیا (ذبح کیا) پھر ہم نے اس کو کھالیا۔ (صحیح مسلم، قم الحدیث : 1942، صحیح البخاری رقم الحدیث : 5511، 5510، سنن النسائی رقم الحدیث 4406، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3190، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : 6644)

حضرت اسماء بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کے عہد میں ہمارے پاس ایک گھوڑی تھی وہ مرنے لگی تو ہم نے اس کو ذبح کر کے کھالیا۔ (سنن دار قطنی ج ٤، ص 289، رقم الحدیث 4739، دار الکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ) اس کی سند حسن ہے۔

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہمیں گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا اور رسول اللہ نے ہمیں گھوڑوں کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔ (سنن دار قطنی ج 4، ص 289، رقم الحدیث : 4737، مطبوعہ بیروت)

بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جس طرح گدھے کے سم ہوتے ہیں اسی طرح گھوڑے کے بھی سم ہوتے ہیں اس لیے اس کو بھی گدھے کی طرح حرام ہونا چاہیے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ قیاس نص صریح کے مقابلہ میں ہے اس لیے مردود ہے، جس طرح کوئی یہ کہے کہ گائے اور بیل کی طرح خنزیر کے بھی کھر ہوتے ہیں تو اس کو بھی حلال ہونا چاہیے اس سے بھی یہی کہا جائے گا کہ یہ قیاس نص مقابلہ میں ہے اس لیے مردود ہے۔

گھوڑوں کا گوشت کھانے کے متعلق مذاہب فقہاء :

علامہ عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں :

تمام قسم کے گھوڑوں کا گوشت کھانا حلال ہے، خواہ وہ عربی ہوں یا غیر عربی، امام احمد نے اس کی تصریح کی ہے اور یہی ابن سیرین کا قول ہے، حضرت ابن الزبیر، حسن بصری، عطا اور اسود بن یزید سے بھی یہی منقول ہے، حماد بن زید، ابن المبارک، امام شافعی اور ابو ثور کا بھی یہی قول ہے، سعید بن جبیر نے کہا میں نے گھوڑے سے زیادہ پاکیزہ اور لذیذ کوئی گوشت نہیں کھایا، اس کو امام ابوحنیفہ نے حرام کہا ہے اور امام مالک نے مکروہ کہا ہے، اسی طرح اوزاعی اور ابو عبید کا قول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : والخیل ولبغال والحمیر لترکبوھا (النحل : 8) اور خالد سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا : تم پر پالتو گدھے، گھوڑے اور خچر حرام ہیں، نیز یہ سم والا جانور ہے اس لیے گدھوں کے مشابہ ہے۔

ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر نے کہا کہ رسول اللہ نے خیر کے دن پالتو گدھوں کے گوشت سے منع فرما دیا، اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دے دی، اور حضرت اسما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ کے عہد میں ہم نے ایک گھوڑے کو ذبح کر کے کھالیا تھا ہم اس وقت مدینہ میں تھے۔ (صحیح بخاری و مسلم) اور اس لیے بھی کہ وہ ایک پاک اور لذیذ گوشت والا جانور ہے نہ کچلیوں سے کھانے والا ہے نہ ناخنوں اور پنجوں سے شکار کر کے کھانے والا ہے تو وہ اونٹ، گائے اور بکری کی طرح ہے، اور وہ ان آیات اور احادیث کے عموم میں داخل ہے جن میں کچلیوں اور پنجوں سے شکار کرنے والے جانوروں کے غیر کو کھانے کی اجازت دی ہے اور آیت سے استدلال اس طرح ہے کہ گھوڑے، خچر اور گدھے تمہاری سواری کرنے کے لیے ہیں نہ کہ کھانے کے لیے اور یہ مفہوم مخالف سے استدلال ہے اور وہ اس کے قائل نہیں ہیں اور حضرت خالد کی حدیث ضعیف ہے۔ (المغنی ج 9، ص 328، 327، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1405 ھ)

گھوڑوں کا گوشت کھانے کے متعلق فقہاء احناف کا موقف :

علامہ محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک گھوڑے حلال ہیں، اور امام شافعی (اور اسی طرح امام احمد) کے نزدیک بھی حلال ہیں اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑے حلال نہیں ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ وفات سے تین دن پہلے امام ابوحنیفہ نے گھوڑوں کی حرمت سے رجوع کرلیا تھا، اور اسی پر فتوی ہے۔ (عمادیہ) اور گھوڑٰ کا دودھ پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :

الاختیار، قدوری اور ہدایہ میں مذکور ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑے کا گوشت کھانا مکروہ ہے، اور مکروہ تحریمی کا اطلاق اس پر ہوتا ہے جو حلال نہ ہو، (شرنبلالیہ) اس سے معلوم ہوا کہ گھوڑا نجاست کی وجہ سے حرام نہیں ہے، اس لیے غایۃ البیان میں ظاہر الروایہ سے نقل کر کے لکھا ہے کہ گھوڑے کا جھوٹا پاک ہے اور اس کا کھانا اس کے احترام کی وجہ سے حرام ہے، کیونکہ گھوڑوں سے اللہ کے دشمنوں کو ڈرایا جاتا ہے، اور نجاست کی وجہ سے اس کا کھانا حرام نہیں ہے، اسی وجہ سے اس کا جھوٹا بھی نجس نہیں ہے جیسے آدمی کا حال ہے، مصنف نے لکھا ہے اسی پر فتوی ہے لہذا اس کا کھانا مکروہ تنزیہی ہے اور یہی ظاہر الروایہ ہے جیسا کہ کفایۃ البیہقی میں مذکور ہے، اور یہی صحیح ہے جیسا کہ فخر الاسلام وغیرہ نے ذکر کیا ہے۔ (قہستانی) اور الخلاصہ، الھدایہ، المحیط، المغنی، قاضی خاں اور العمادی اور دیگر متون میں لکھا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ اس کا کھانا مکروہ تحریمی ہے، اور اگر یہ کہا جائے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کا کھانا مکروہ تنزیہی ہے تو پھر امام اعظم اور صاحبین میں کوئی اختلاف نہیں رہتا کیونکہ صاحبین اگرچہ گھوڑا کھانے کو حلال کہتے ہیں لیکن وہ اس کو مکروہ تنزیہی کہتے ہیں شرنبلالیہ میں برھان سے اسی طرح منقول ہے اور یہ اختلاف خشکی کے گھوڑے میں ہے اور دریائی گھوڑا بالاتفاق حرام ہے۔ (رد المختار مع الدر المختار ج 9، ص 369، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک گھوڑا کھانے کی کراہت اجتہادی ہے، قرآن اور حدیث کی کسی نص کی بنا پر نہیں ہے، اور کراہت کی وجہ گھوڑے کی تکریم ہے کیونکہ وہ جہاد میں استعمال ہوتا ہے، یعنی اگر لوگوں نے گھوڑوں کو کھا کھا کر ختم کردیا تو جہاد کس پر بیٹھ کر کریں گے لیکن اب چونکہ جہاد میں گھوڑوں کا استعمال کلیتا متروک ہوچکا ہے اور جیب، ٹرک، بکتر بند گاڑی، ٹینک اور توپ وغیرہ کو لڑائی میں استعمال کیا جاتا ہے اس لیے اب گھوڑوں کے گوشت کا کھانا کسی قسم کی کراہت کے بغیر جائز ہے، یہ اور بات ہے کہ ہمارے علاقوں میں گوھڑے کا گوشت کھانے کا رواج نہیں ہے۔

پالتو گدھوں اور خچروں کا گوشت کھانے کے متعلق مذاہب فقہاء :

علامہ علاؤ الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

پالتو گدھوں کا کھانا حلال نہیں ہے اس کے برخلاف جنگلی گدھوں کو کھانا جائز ہے ان کا دودھ بھی حلال ہے، اگر خچر کی ماں گدھی ہو تو اس کا کھانا بھی جائز نہیں ہے، اور اگر اس کی ماں گائے ہو تو اس کا کھانا بالاتفاق جائز ہے، اور اگر اس کی ماں گھوڑی ہو تو پھر وہ اپنی ماں کی طرح حلال ہے۔ علامہ شامی نے لکھا ہے جانوروں میں حلت اور حرمت کا مدار ماں پر ہوتا ہے، گھوڑی کا گوشت کھانے میں اختلاف ہے، آیا اس کا گوشت کھانا مکروہ تحریمی ہے یا مکروہ تنزیہی ہے یا بلا کراہت جائز ہے تو گر خچر کی ماں گھوڑی ہو تو خچر کا گوشت کھانے کا بھی وہی حکم ہے جو اس کی ماں کا ہے۔ (الدر المختار مع رد المختار ج 9، ص 369، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، 1419 ھ)

پالتو گدھوں کی حرمت پر درج ذیل احایث ہیں :

حضرت ابن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خبیر کے دن پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرما دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5521، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 3825، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 561)

حضرت ابو ثعلبہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے پالتو گدھوں کے گوشت کو حرام فرما دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5527، صحیح مسلم رقم الحدیث : 1936، سنن النسائی رقم الحدیث : 4334)

حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کے پاس ایک آنے والا آیا اور کہا گدھوں کا گوشت کھایا گیا، پھر ایک اور آنے والا آیا اور کہا گدھوں کا گوشت کھایا گیا، پھر ایک اور آنے والا آیا اور کہا گدھے ختم ہوگئے۔ تب آپ نے ایک منادی کو حکم دیا کہ وہ لوگوں میں یہ اعلان کرے کہ بیشک اللہ اور اس کا رسول تم کو پالتو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع کرتے ہیں کیونکہ یہ ناپاک ہے، پھر دیگچیاں الٹ دی گئیں حالانکہ اس وقت ان میں گوشت ابل رہا تھا۔ (صحیح البخاری، رقم الحدیث : 5528، سنن الترمذی رقم الحدیث : 3920، مسند احمد رقم الحدیث : 13171، عالم الکتب موطا رقم الحدیث : 290)

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں اس حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ گدھوں کے گوشت کو اس لیے نہیں حرام کیا گیا کہ سواریوں اور مال لادنے میں کمی کا خطرہ تھا، بلکہ آپ نے اس کو اس لیے حرام قرار دیا ہے کہ گدھے نجس ہیں۔ (فتح الباری ج 9، ص 655، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

گھوڑوں میں زکوۃ کے متعلق احادیث :

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکوۃ نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1463، صحیح مسلم رقم الحدیث : 982، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1595، 1594، سنن الترمذی رقم الحدیث : 628، سنن النسائی رقم الحدیث : 2467، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1812)

حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا میں نے گھوڑے اور غلام میں (زکوۃ کو) معاف کردیا ہے، پس تم چاندی کی زکوۃ اد کرو ہر چالیس درہم سے ایک درہم، اور ایک سو نوے درہم تک کوئی چیز لازم نہیں ہے، اور جب دو سو درہم ہوجائیں تو ان پر پانچ درہم زکوۃ ہے۔ ( سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 1693، سنن الترمذی رقم الحدیث : 620، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 1790)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا جنگلوں کی گھاس چرنے والوں گھوڑوں میں سے ہر گھوڑے پر ایک دینار ادا کیا جائے گا۔ (سنن الدار قطنی ج 2، ص 109، رقم الحدیث : 2000، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)

اس کی سند میں غورک بن جعفر منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔

حارثہ بن مضرب بیان کرتے ہیں کہ مصر کے لوگ حضرت عمر بن الخطاب کے پاس آئے اور کہا ہمیں گوھڑے اور غلام ملے ہیں اور ہم ان کی زکوۃ ادا کرنا چاہتے ہیں، حضرت عمر نے کہا مجھ سے پہلے دو صاحبوں نے ایسا نہیں کیا، اور میں بغیر مشورہ کے زکوۃ نہیں لوں گا، پھر انہوں نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا یہ اچھا کام ہے، اور حضرت علی خاموش رہے، حضرت عمر نے کہا اے ابو الحسن ! آپ نے کچھ نہیں کہا، حضرت علی نے کہا آپ کو اصحاب نے یہ مشورہ دے دیا ہے کہ یہ اچھا کام ہے، بشرطیکہ یہ ایسا جزیہ لازمہ نہ بن جائے جو آپ کے بعد وصول کیا جائے، پھر حضرت عمر نے ایک غلام سے دس درہم لیے اور ان کو ہر مہینہ دو جریب (آٹھ بوری) گندم وظیفہ دیا، اور ایک گھوڑے سے دس درہم لئیے اور ان کو ہر مہینہ دس جریب (چالیس بوری) جو دیے اور معمولی گھوڑوں سے آٹھ درہم لیے اور ان کو ہر مہینہ آٹھ جریب (بتیس بوری) جو دیے، اور خچروں سے پانچ درہم فی خچر لیے اور ان کو ہر مہینہ پانچ جریب (بیس پوری) جو دیے۔ (سنن دار قطنی ج 2، ص 110، رقم الحدیث : 2001، مجمع الزوائد ج 2، ص 69) اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

گھوڑوں میں زکوۃ کے متعلق مذاہب فقہاء :

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں :

اکثر اہل علم کے نزدیک اونٹوں، گایوں اور بکریوں کے علاوہ اور کسی مویشی پر زکوۃ واجب نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ نے کہا اگر گھوڑے نر اور مادہ ہوں تو ان پر زکوۃ ہے اور اگر وہ صرف نر ہوں یا صرف مادہ ہوں تو ان میں دو قول ہیں، اور ان کی زکوۃ یہ ہے کہ ہر گھوڑے کی طرف سے ایک دینار دیا جائے، یا اس کی قیمت کا چالیسواں حصہ دیا جائے، اور یہ مالک کی مرضی ہے کہ وہ جو زکوۃ چاہے ادا کرے، کیونکہ حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جنگلوں کی خود رو گھاس چرنے والے گھوڑوں میں سے ہر ایک گھوڑے میں ایک دینار ہے اور حضرت عمر سے مروی ہے کہ وہ ہر غلام سے دس درہم لیتے اور ہر گھوڑے سے دس درہم لیتے اور ہر خچر سے پانچ درہم لیتے، نیز گھوڑا ایک ایسا حیوان ہے جس کو جنگلوں کی خود رو گھاس کھلا کر اس سے بڑھوتری اور افزائش کو طلب کیا جاتا ہے لہذا وہ بکریوں کے مشابہ ہے۔ اور ہماری دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مسلمان کے گھوڑے اور اس کے غلام میں زکوۃ نہیں ہے، اور حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے تمہارے لیے گھوڑوں اور غلام کا صدقہ معاف کردیا، یہ حدیث صحیح ہے اور اس کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ (المغنی ج 2، ص 255، 254 ۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1405 ھ)

علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

امام شافعی، امام مالک، امام احمد، امام ابو یوسف اور امام محمد یہ کہتے ہیں کہ گھوڑوں میں بالکل زکوۃ نہیں ہے، اور ان کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا میں نے گھوڑوں کی زکوۃ کو معاف کردیا ہے، اور امام ابوحنیفہ یہ فرماتے ہیں کہ جب جنگلوں کی گھاس کھانے والے گھوڑے نر اور مادہ ہوں تو ان کے مالک کو اختیار ہے اگر وہ چاہے تو ہر گھوڑے کی طرف سے ایک دینار دے اور اگر وہ چاہے تو ان کی قیمت نکال کر ان کا چالیسوں حصہ زکوۃ نکال دے ہر دو سو درہم سے پانچ درہم ادا کرے۔ امام ابوحنیفہ کا استدلال امام دار قطنی کی روایت سے ہے جس میں مذکور ہے کہ حضرت عمر نے صحابہ کے مشورہ سے ہر گھوڑے سے دس درہم لیے۔ (سنن دار قطنی رقم الحدیث : 2001) نیز امام ابوحنیفہ کا استدلال اس حدیث سے ہے :

امام محمد کتاب الآثار میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں کہ ابراہیم نخعی نے کہا کہ وہ گھوڑے جو جنگلوں کی خود رو گھاس کھاتے ہوں اور ان کی نسل میں افزائش مقصود ہو تو اگر تم چاہ تو ہر گھوڑ؁ سے ایک دینار لو، یا دس درہم لو، اور اگر تم چاہو تو ان کی قیمت سے چالیسواں حصہ لے لو، (کتاب الآثار ص 47) اور حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا جنگلوں کی خود رو گھاس کھانے والے گھوڑوں میں سے ہر گھوڑے میں ایک دینار ہے، امام بیہقی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے کیونکہ اس کی سند میں ابو یوسف ہیں اور وہ مجہول ہیں، علامہ عینی فرماتے ہیں یہ ابو یوسف قاضی یعقوب ہیں جو امام اعظم کے مشہور شاگرد ہیں ان کو مجہول قرار دینا امام بیہقی کا پرلے درجہ کا تعصب ہے۔

اور علامہ عینی نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے گھوڑوں کا ذکر کر کے فرمایا ایک وہ شخص جس نے گھوڑے کو غنا کے لیے اور سوال سے بچنے کے لیے باندھا پھر وہ اس گھوڑے کی گردن اور اس کی پشت میں اللہ کے حق کو نہیں بھولا تو وہ گھوڑا اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کا موجب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 2860، صحیح مسلم رقم الحدیث : 987، مسند احمد رقم الحدیث : 9865، عالم الکتب) اس حدیث میں اللہ کے حق سے مراد زکوۃ ہے۔ (شرح ابو داؤد ج 6، ص 258، 255، مکتبہ الریاض، 1420 ھ)

جن احادیث میں ہے کہ گھوڑے میں زکوۃ نہیں ہے یا فرمایا میں نے گھوڑوں کی زکوۃ کو معاف کردیا اس گھوڑے سے، مراد غازی فی سبیل اللہ اور مجاہد کا گھوڑا ہے ان سے مراد وہ گھوڑے نہیں جن کو افزائش نسل کے لیے رکھا جاتا ہے اور ان کو جنگلوں کی خود رو گھاس کھلائی جاتی ہے۔ (شرح ابو داؤد ج 6، ص 295، مکتبہ الریاض، 1420 ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 8