وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّهُمۡ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً ؕ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 41
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ هَاجَرُوۡا فِى اللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا ظُلِمُوۡا لَـنُبَوِّئَنَّهُمۡ فِى الدُّنۡيَا حَسَنَةً ؕ وَلَاَجۡرُ الۡاٰخِرَةِ اَكۡبَرُۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی، ہم ان کو ضرور دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت میں اجر تو بہت بڑا ہے کاش کہ وہ جانتے۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد اللہ کے لیے ہجرت کی، ہم ان کو ضرور دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے اور آخرت میں اجر تو بہت بڑا ہے کاش کہ وہ جانتے۔ جنہوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔ (النحل : ٤١، ٤٢ )
مہاجرین کی تعریف اور تحسین :
اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ کفار مکہ نے اللہ کی بڑی بڑی قسمیں کھائیں کہ اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد لوگوں کو پیدا نہیں کرے گا اور حشر و نشر کا انکار کیا، اس سے پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی سرکشی، جہالت اور گمراہی میں حد سے تجاوز کرچکے تھے اور جو مسلمان ان کے اس عقیدہ میں ان کے مخالف تھے ان پر طرح طرح کے مظالم کرتے تھے، ان کے اس ظلم و ستم کے نتیجہ میں مسلمانوں نے مکہ سے ہجرت کی سو اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی تعریف اور تحسین فرمائی جنہوں نے اللہ کے دین پر آزادی اور بےخوفی سے عمل کرنے کے لیے مکہ سے ہجرت کی۔
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں : یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اہل مکہ کے ظلم سہنے کے بعد ہجرت کی، ان پر مشرکین نے ظلم کیا تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٦٣٠٨، الدر المنثور ج ٥ ص ١٣١)
امام ابو الحسن علی بن احمد واحدی متوفی ٤٦٨ ھ لکھتے ہیں :
یہ آیت مکہ میں رہنے والے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کے متعلق نازل ہوئی، حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت خباب، حضرت عمار اور حضرت ابو جندل بن سہیل کے متعلق، مشرکین نے ان کو مکہ میں پکڑ کر رکھا ہوا تھا اور ان کو سخت ایذا پہنچاتے تھے اور عذاب دیتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کا مدینہ میں ٹھکانا بنادیا۔ (اسباب نزول القرآن، رقم الحدیث : ٥٥٧، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
حضرت صہیب (رض) کی ہجرت :
حضرت صہیب بن سنان بن مالک رومی کی کنیت ابو یحییٰ ہے ان کی یہ کنیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رکھی تھی، ان کو رومی اس لیے کہتے ہیں کہ صغر سنی میں ان کو رومیوں نے قید کرلیا تھا، انہوں نے روم میں ہی پرورش پائی، ان سے بنو کلب نے ان کو خرید لیا اور مکہ میں لے آئے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو انہوں نے اسلام قبول کرلیا، علامہ واقدی نے ذکر کیا ہے کہ حضرت صہیب اور حضرت عمار ایک دن میں مسلمان ہوئے تھے، ان سے پہلے تیس اور کچھ لوگ مسلمان ہوچکے تھے، یہ ان کمزور لوگوں میں تھے جن کو اسلام لانے کی وجہ سے مکہ میں عذاب دیا جاتا تھا، جن لوگوں نے سب کے بعد ہجرت کی ان میں حضرت علی اور حضرت صہیب تھے، جب حضرت صہیب ہجرت کرنے لگے تو مشرکین کی ایک جماعت نے ان کا پیچھا کیا، حضرت صہیب نے اپنے ترکش میں سے تیر نکال کر کہا : اے قریش کے لوگو ! تم جانتے ہو کہ میں تم سب سے بہترین تیر انداز ہوں، اور اللہ کی قسم ! تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک میرے نزدیک نہیں آسکتا جب تک کہ میرے ترکش کے سارے تیر ختم نہ ہوجائیں، پھر میرے ہاتھ میں تلوار ہے اور میں آخر دم تک تم سے تلوار کے ساتھ مقابلہ کرتا رہوں گا، اور اگر تم میرا مال چاہتے ہو تو میں تمہیں اپنے مال کا پتا بتادیتا ہوں، انہوں نے اس پر معاہدہ کرلیا، اور حضرت صہیب نے ان کو اپنے مال کا پتا بتادیا اور حضرت صہیب رسول اللہ سے جاملے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دیکھ کر فرمایا : ابو یحییٰ نے تجارت میں نفع حاصل کرلیا، اور اللہ عزوجل نے ان کے متعلق یہ آیت نازل فرمائی :
ومن الناس من یشری نفسہ ابتغاء مرضاۃ اللہ۔ (البقرہ : ٢٠٧) اور لوگوں میں سے بعض وہ ہیں جو اپنی جان اللہ کی رضا کے حصول کے لیے فروخت کردیتے ہیں۔
ہجرت کی وجہ سے اسلام کی تقویت :
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہجرت کی عظیم اہمیت بیان فرمائی ہے۔ اور مہاجرین کا مقام بیان فرمایا ہے، کیونکہ ان کی ہجرت کی وجہ سے اسلام کو قوت حاصل ہوئی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا جن لوگوں نے ظلم برداشت کرنے کے بعد ہجرت کی، یہ لوگ کفار کے ہاتھوں عذاب جھیل رہے تھے، اہل مکہ یہ چاہتے تھے کہ یہ اسلام سے نکل کر کفر کی طرف لوٹ آئیں، لیکن ان مسلمانوں نے وطن چھوڑ دیا دین نہیں چھوڑا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم ان کو ضرور دنیا میں اچھا ٹھکانا دیں گے، اچھے ٹھکانے کی تفسیر میں کئی اقوال ہیں۔ ایک یہ ہے کہ ہم ضرور ان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو مکہ کے ان کافروں پر غلبہ عطا فرمائیں گے جو ان پر ظلم کرتے تھے اور پھر تمام جزیرہ عرب پر غلبہ عطا فرمائیں گے۔ حضرت عمر جب مہاجرین میں سے کسی کو وظیفہ عطا فرماتے تو کہتے تھے لو تمہیں اللہ تعالیٰ اس میں برکت دے یہ وہ ہے کہ جس کا اللہ تعالیٰ نے تم سے دنیا میں دینے کا وعدہ کیا تھا اور اللہ نے تمہارے لیے آخرت میں جس اجر اکا ذخیرہ کر رکھا ہے وہ بہت بڑا اجر ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ہم تمہیں دنیا میں اچھا گھر عطا فرمائیں گے، لہذا مدینہ میں انصار نے ان کو اپنے گھروں میں رکھا اور اللہ تعالیٰ نے مکہ کے عوض ان کو مدینہ عطا فرمایا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : کاش کہ وہ جانتے، اس کی بھی دو تفسیریں ہیں۔ ایک یہ ہے کہ اس کی ضمیر مکہ کے کافروں کی طرف لوٹتی ہے یعنی کاش یہ کافرجان لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مظلوم مسلمانوں کے لیے دنیا اور آخرت میں کتنا عظیم اجر تیار کر رکھا ہے تو وہ ان پر ظلم و ستم کرنے سے باز آجاتے اور کفر کے بجائے اسلام اور دنیا کی بجائے آخرت کی طرف رغبت کرتے۔ اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ یہ ضمیر مظلوم مسلمانوں کی طرف لوٹتی ہے یعنی کاش یہ مظلوم مسلمان جان لیتے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت میں ان کے لیے کتنا عظیم اجر تیار کر رکھا ہے تو یہ عبادت میں اور زیادہ کوشش کرتے۔
صبر اور توکل :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جن لوگوں نے صبر کیا اور وہ اپنے رب پر ہی توکل کرتے ہیں۔ اس سے مراد وہی لوگ ہیں نہوں نے کفار کے مظالم برداشت کیے اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، اس آیت میں ان کی مزید مدح فرمائی ہے، یعنی یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفار کی ایذا اور ان کے عذاب پر صبر کیا اور وطن سے جدائی کو برداشت کیا اور اللہ کی راہ میں اپنے مالوں اور جانوں کو خرچ کیا، اس آیت میں صبر اور توکل کا ذکر ہے، صبر کا معنی ہے نفس پر قہر کرنا اور اس کو مغلوب کرنا اور اسے مصائب برداشت کرنے کا عادی بنانا اور توکل کا معنی ہے مخلوق سے بالکلیہ منقطع ہو کر خالق کی طرف بالکلیہ متوجہ ہونا اور صبر اللہ کی طرف سلوک کی پہلی منزل ہے اور توکل اللہ کی طرف سلوک کی انتہائی منزل ہے۔
ہجرت کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور ہجرت کی اقسام :
ان آیتوں میں چونکہ ہجرت کا ذکر آگیا ہے اس لیے ہم چاہتے ہیں کہ ہجرت کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور اس کی اقسام بیان کردیں۔ علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
ہجر اور ہجران کا معنی ہے انسان اپنے غیر سے الگ ہوجائے، خواہ جسمانی طور پر الگ ہو یا زبان سے یا قلب سے۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : ہجرت کی تعریف ہے دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف جانا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ان الذین توفھم الملائکۃ ظالمی انفسھم قالوا فیم کنتم، والوا کنا مستضعفین فی الارض، قالوا الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا فاولئک ماوھم جھنم وسائت مصیرا۔ (النسا : ٩٧) جو لوگ اپنی جانوں پر ظلم کر رہے تھے (یعنی جنہوں نے ہجرت نہیں کی تھی) جب فرشتوں نے ان کی روحوں کو قبض کرتے وقت پوچھا : تم کیا کرتے رہے ؟ انہوں نے کہا ہم زمین میں کمزور اور بےبس تھے، فرشتوں نے کہا : کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرتے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ برا ٹھکانا ہے۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے : انا بری من مسلم بین مشرکین لا تراء انار ھما (ابو داؤد) میں اس مسلمان سے بیزار ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتا ہے، ان دونوں کی آگ (ایک جگہ) دکھائی نہ دے۔ یعنی مسلمان ایسی جگہ نہ رہیں جہاں سے ان کی آگ مشرکوں کو دکھائی دے اور مشرکوں کی آگ مسلمانوں کو دکھائی دے۔ اس موضوع کے متعلق بکثرت احادیث ہیں۔ جمہور فقہاء کے نزدیک قیامت تک ہجرت کا حکم باقی ہے اور بعض فقہاء کا یہ نظریہ ہے کہ اب ہجرت منقطع ہوچکی ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ نیز آپ نے فرمایا : ہجرت منقطع ہوچکی ہے اور جہاد اور نیت باقی ہے۔
روایت ہے کہ جب صفوان بن امیہ اسلام لائے تو ان سے کہا گیا کہ جو شخص ہجرت نہ کرے اس کا دین نہیں ہے، سو وہ مدینہ آئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا : اے ابو وہب تم یہاں کیوں آئے ہو ؟ انہوں نے کہا مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ جو ہجرت نہ کرے اس کا کوئی دین نہیں ہے، آپ نے فرمایا : اے ابو وہب مکہ کی وادیوں میں لوٹ جاؤ اور اپنے گھروں میں رہو کیونکہ اب ہجرت ختم ہوچکی ہے تاہم جہاد اور نیت باقی ہے۔
ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت معاویہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک توبہ منقطع نہیں ہوگی، اور جب تک سورج مغرب سے طلوع نہ ہو توبہ منقطع نہیں ہوگی۔ (ابو داؤد)
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت ہے جب تک جہاد ہے ہجرت منقطع نہیں ہوگی اس کے علاوہ قرآن مجید کی آیات اور حادیث ہجرت کے عموم اور اطلاق پر دلالت کرتی ہیں، جس کا تقاضا یہ ہے کہ ہجرت ہر زمانہ میں مشروع ہے اور جس حدیث میں یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شہر فتح ہوگیا اس سے منتقل ہونا ہجرت نہیں ہے اور صفوان کی جس روایت میں ہے ہجرت منقطع ہوگئی، اس کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے ہجرت منقطع ہوگئی، کیونکہ ہجرت کا معنی ہے کفار کے شہر سے نکلنا اور جب کوئی شہر فتح ہوگیا تو پھر وہ کافروں کا شہر نہیں رہا، اس لیے اب اس شہر سے ہجرت کا حکم باقی نہیں رہا، ہر شہر کا یہی حکم ہے اس لیے ہجرت کے اعتبار سے لوگوں کی تین قسمیں ہیں :
١۔ جو لوگ کفار کے شہر میں ہوں اور اس شہر سے ہجرت پر قادر ہوں، اور ان کے لیے ان کافروں کے ساتھ ہر تے ہوئے دین کا اظہار کرنا اور فرائض و واجبات کو ادا کرنا ممکن نہ ہو، ان لوگوں پر ہجرت کرنا واجب ہے کیونہ قرآن مجید میں : الم تکن ارض اللہ واسعۃ فتھاجروا فیھا فاولئک ماوھم جھننم وسائت مصیرا۔ (النساء : ٩٧) کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کرلیتے، ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور یہ برا ٹھکانا ہے۔ اور یہ بہت شدید وعید ہے جو وجوب پر دلالت کرتی ہے نیز اس لیے کہ واجب کا مقدمہ واجب ہوتا ہے اور واجبات کی ادائیگی ہجرت پر موقوف ہو تو ہجرت واجب ہوجائے گی۔
٢۔ جو شخص کفار کے ملک میں فرائض وغیرہ کے ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور کسی عذر کی بنا پر ہجرت نہ کرسکتا ہو مثلا بیمار ہو، یا اس کو جبرا ٹھہرا یا گیا ہو یا عورتوں اور بچوں کا ضعف ہو، اس پر ہجرت واجب نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے :
الا لمستضعفین من الرجال والنساء والولدان لا یستطیعون حیلۃ ولا یھتدون سبیلا۔ فاولئک عسی اللہ ان یعفوا عنھم وکان اللہ عفوا غفورا۔ (النساء : ٩٨، ٩٩) ہاں ! جو مرد، عورتیں اور بچے واقعی بےبس ہوں اور (کفار کے شہروں سے) نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے، ان سے شاید اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے، اور اللہ تعالیٰ بڑا معاف کرنے والا اور بہت درگزر کرنے والا ہے۔
٣۔ جو لوگ دار الکفر میں رہتے ہیں اور اس شہر سے ہجرت کرنے پر قادر ہوں لیکن وہ دار الکفر میں دین کے اظہار اور فرائض و واجبات کی ادائیگی بھی بخوبی کرسکتے ہوں، ان کے لیے ہجرت کرنا مستحب ہے واجب نہیں ہے اور یہ استحساب اس وجہ سے ہے کہ وہ دار الاسلام میں رہ کر مسلمانوں کے ساتھ جہاد میں شامل ہوسکیں گے، اور مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافہ کا سبب بنیں گے اور دیگر معاملات میں ان کے معاون ہوں گے اور کفار کے ساتھ اختلاط، ان کی عددی قوت میں اضافہ اور ان کے فواحش اور منکرات کو دیکھنے سے بچے رہیں گے اور پر ہجرت کرنا واجب اس لیے نہیں ہے کہ وہ ہجرت کے بغیر بھی فرائض اور واجبات کو ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چچا حضرت سیدنا عباس اسلام لانے کے باوجود مکہ میں مقیم رہے اور روایت ہے کہ حضرت نعیم نحام نے جب ہجرت کا ارادہ کیا تو ان کی قوم (بنو عدی) ان کے پاس گئی اور کہا تم اپنے دین پر قائم رہو اور ہمارے پاس ٹھہرو، اور جو شخص تمہیں اذیت پہنچانے کا ارادہ کرے گا ہم تم کو اس سے محفوظ رکھیں گے اور تم جو ہماری کفالت کیا کرتے تھے وہ کرتے رہنا، (حضرت نعیم بنو عدی کے یتیموں اور بیواؤں کی کفالت کرتے تھے) سو ایک مدت تک انہوں نے ہجرت نہیں کی اور کافی عرسہ کے بعد انہوں نے ہجرت کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا تمہاری قوم میری قوم سے بہتر ہے، میری قوم نے مجھے وطن سے نکال دیا اور مجھے قتل کرنے کا ارادہ کیا، اور تمہاری قوم نے تمہاری حفاظت اور حمایت کی اور تمہیں جانے نہیں دیا۔ حضرت نعیم نے کہا یا رسول اللہ بلکہ آپ کی قوم نے آپ کو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دشمن کے خلاف جہاد کی طرف نکالا اور میری قوم نے مجھے ہجرت اور اللہ کی عبادت سے روک لیا۔ (المغنی ج ٩ ص ٢٣٦، ٢٣٧، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤٠٥ ھ)
علامہ ابن قدامہ نے جو ہجرت کی تیسری قسم بیان کی ہے آج کل اس کا مصداق وہ مسلمان ہیں جو معاشی ضروریات کی بنا پر ترک وطن کر کے انگلینڈ، آسٹریلیا، امریکہ، ہالینڈ، جرمنی اور افریقہ وغیرہ میں سکونت اختیار کرچکے ہیں اور انہوں نے ان علاقوں کی مستقل شہریت اختیار کرلی ہے۔
علامہ ابن قدامہ نے ہجرت کی تین اقسام بیان کی ہیں ان کے علاوہ بھی ہجرت کی اقسام ہیں ایک قسم ہے دار الخوف سے دار الامن کی طرف ہجرت کرنا اگرچہ وہ دونوں دار الکفر ہوں، جیسے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے پہلے مسلمانوں نے مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کی مکہ اور حبشہ اس وقت دونوں دار الکفر تھے لیکن مکہ میں مسلمانوں کو کفار کے مظالم کا خوف تھا اور حبشہ میں یہ خوف نہیں تھا، سو انہوں نے دار الخوف سے دار الامن کی طرف ہجرت کی، اور آج کل اس کی مثال یہ ہے جیسے مسلمان بھارت سے افریقی ملکوں میں، برطانیہ، ہالینڈ، امریکا اور جرمنی وغیرہ چلے جاتے ہیں، حالانکہ بھارت بھی کافر ملکے ہ اور یہ ممالک بھی دار الکفر ہیں مگر بھار میں آئے دن ہندو مسلم فسادات ہوتے رہتے ہیں، مسلمانوں کی مساجد کو مسمار کردیا جاتا ہے، اجو دھیا کی بابری مسجد اس کی تازہ مثال ہے، عیدگاہوں میں عین نماز عید کے وقت وہ میدان میں خنزیر چھوڑ دیتے ہیں، مسلمان گائے کی قربانی نہیں کرسکتے، اگر کہیں پتا چل جائے کہ مسلمانوں نے گائے زبح کی کی ہے تو بڑے پیمانہ پر مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوجاتا ہے، ہندوؤں کے ان مظالم سے تنگ آکر مسلمان افریقی ممالک، برطانیہ، امریکا، جرمنی وغیرہ ہجرت کر جاتے ہیں اور یہ دار الخوف سے دار الامن کی طرف ہجرت ہے، ہرچند کہ دونوں ملک دار الکفر ہیں۔
ہجرت کی دوسری قسمیہ ہے کہ انسان اپنی زبان اور اپنے تمام اعضا کو اللہ تعالیٰ کی معصیت سے الگ کرلے اور تمام قسم کے گناہوں کو ترک کر کے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی طرف منتقل ہوجائے، گویا شیطان کی سلطنت سے اللہ کی سلطنت کی طرف منتقل ہوجائے اور اس نے اپنے تمام اعضا کو جو شیطان کا محکوم اور مطیع بنایا ہوا ہے تو وہ اس کی اطاعت کو ترک کر کے اللہ کی اطاعت کی طرف منتقل ہوجائے اور وہ اپنے تمام اعضا کو اللہ کا محکوم اور مطیع بنا لے تو یہ کامل ہجرت سے حدیث میں ہے : حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (کامل) مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور اس کے ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں اور (کامل) مہاجر وہ ہے جو ان چیزوں سے ہجرت کرے (ان کو ترک کر دے) جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠، ٦٤٨٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٨٣٥، ٦٨٠٦، ٦٥١٥، مطبوعہ عالم الکتب بیروت)
اور ہجرت کی تیسری قسم یہ ہے کہ انسان ان تمام چیزوں کو ترک کردے اور ان سے الگ ہوجائے جو یاد الہی اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے غافل کرتی ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان اپنی عائلی اور معاشرتی زمہ داریوں کو ترک کر کے جنگل میں یا کسی غار میں لوٹا، مصلی اور تسبیح لے کر چلا جائے، بوڑھے ماں باپ کی خدمت کرے نہ اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرے اور ان کے حقوق ادا کرے، نہ رزق حلال کے حصول کے لیے سعی اور جدوجہد کرے اور نہ اسلامی معاشرہ میں اپنے حصہ کا رول ادا کرے، یہ محض رہبانیت ہے اور اسلام میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
لوگوں کی زبان پر یہ حدیث مشہور ہے : لا رھبانیۃ فی الاسلام۔ حافظ ابن حجر نے کہا میں نے ان لفظوں کے ساتھ حدیث نہیں دیکھی لیکن امام بیہقی نے حضرت سعد بن ابی وقاص سے روایت کیا ہے :
ان اللہ ابدلنا بالرھبانیۃ الحنیفۃ السمحۃ۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں رہبانیت کے بدلہ میں سہل اور آسان دین عطا فرمایا ہے۔ (کشف الخفا للجعلونی رقم الحدیث : ٣١٥٤، مکتبہ الغزالی دمشق)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے عائلی حقوق اور ماں باپ کی خدمت اور بیوی بچوں کی کفالت او نادار رشتہ داروں اور پڑوسویں کی اعانت کے لیے بہ قدر ضرورت حصول رزق کی کوشش کرے، یہ نہ کرے کہ کاروبار کی وسعت اور تجارت کو بڑھانے کی جدوجہد میں اس طرح مشغول ہوجائے اور اس میں ایسا انہماک ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ کے فرائض اور اس کے احکام سے غافل ہوجائے یا دنیا کی زیب وزینت، عیش و آرام اور دوسرے اللوں تللوں رنگ رلیوں اور عیاشیوں میں اس طرح گم ہوجائے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے احکام بھول جائیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ وہ خلق اور خالق دونوں سے کامل رابطہ رکھے اور ہر ایسی چیز کو ترک کردے اور اس سے الگ ہوجائے جو اس کو اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل کرے اور یہ حقیقی ہجرت ہے، علامہ ابن قدامہ نے ہجرت کی تین قسمیں بیان کی ہیں اور تین یہ اقسام ہیں اس طرح ہجرت کی کل چھ اقسام ہوگئیںَ
بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت قیامت تک باقی ہے، ہم پہلے وہ احادیث بیان کر رہے ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت منسوخ ہوگئی :
ہجرت منقطع ہونے کے متعلق احادیث :
حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فتح (مکہ) کے بعد ہجرت نہیں ہے، لیکن جہاد اور نیت ہے اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو تم جہاد کے لیے روانہ ہوجاؤ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٨٣، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٩٥٩ )
حضرت عبید بن عمر لیثی بیان کرتے ہیں کہ ہم نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت کے متعلق سوال کیا، آپ نے فرمایا آج کل ہجرت نہیں ہے، پہلے مومنین اپنے دین کی حفاظت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھاگ کر آتے تھے اس خوف سے کہ کہیں وہ دین کی وجہ سے کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائیں، لیکن آج اللہ تعالیٰ نے اسلام کو غلبہ عطا فرما دیا ہے آج وہ جہاں چاہے اپنے رب کی عبادت کرے لیکن جہاد اور اس کی نیت باقی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٠٠)
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک اعرابی آیا اور اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہجرت کے متعلق سوال کیا، آپ نے فرمایا : تم پر افسوس ہے ہجرت کا معاملہ تو بہت سخت ہے کیا تمہارے اونٹ ہیں ؟ اس نے کہا جی، آپ نے فرمایا تم ان کی زکوۃ دیتے ہو ؟ اس نے کہا جی، آپ نے فرمایا کیا تم لوگوں کو ان کا دودھ پلاتے ہو، اس نے کہا جی، آپ نے فرمایا جس دن تم اونٹنیوں کو پانی پلانے لے جاتے ہو اس دن تم ان کا دودھ دوہ کر لوگوں کو پلاتے ہو ؟ اس نے کہا جی، آپ نے فرمایا تم سمندروں کے پار عمل کرو، بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال میں سے کسی چیز کو (قبول کے بغیر) ترک نہیں کرے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٢٩، صحیح مسلم، رقم الحدیث : ١٨٦٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٤٧٧، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧٧٨٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٦٤ )
حضرت مجاشع بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے حاضر ہوا، آپ نے فرمایا ہجرت تو اصحاب ہجرت کے لیے گزر چکی لیکن تم اسلام، جہاد اور خیر پر بیعت کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣٠٧، ٤٣٠٥، ٢٩٦٢، صحیح مسلم، رقم الحدیث : ١٨٦٣ )
حضرت یعلی بیان کرتے ہیں کہ میں فتح مکہ کے دن اپنے والد کو لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! میرے والد کو ہجرت پر بیعت کرلیجیے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو جہاد پر بیعت کروں گا، ہجرت تو منقطع ہوچکی ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٧١، ٤١٧٩)
نعیم بن دجاجہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطاب کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد ہجرت نہیں ہے۔ (سنن النسائی، رقم الحدیث : ٤١٨٢)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک اعرابی آیا جو بہت نڈر اور بےپاک تھا اس نے پوچھا، یا رسول اللہ ! آپ کی طرف ہجرت کرنے کی کون سی جگہ ہے ؟ وہ کوئی خاص جگہ ہے یا کسی خاص قوم کا علاقہ یا آپ کی وفات کے بعد ہجرت منقطع ہوجائے گی ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑٰ دیر خاموش رہے، پھر آپ نے فرمایا ہجرت کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے ؟ اس نے کہا میں یہاں ہوں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا جب تم نماز پڑھو اور زکوۃ ادا کرو تو تم مہاجر ہو، خواہ تم حضرموت میں فوت ہو، یعنی یمامہ کی سرزمین میں۔ الحدیث۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٦٨٩٠، مطبوعہ عالم الکتب بیروت، ١٤١٩ ھ)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک نڈر اور بےباک اعرابی آیا اور کہا یا رسول اللہ آپ کی طرف ہجرت کس جگہ ہے ؟ آپ جہاں بھی ہوں، یا کسی خاص سرزمین کی طرف، یا کسی خاص قوم کی طرف، یا جب آپ وفات پاجائیں گے تو ہجرت منقطع ہوجائے گی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھوڑی دیر خاموش رہے، پھر آپ نے فرمایا، وہ ہجرت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں گیا ؟ اس نے کہا میں یہاں ہوں یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا ہجرت یہ ہے کہ تم بےحیائی کے کاموں کو ترک کرو اخواہ وہ کام ظاہر ہو یا پوشیدہ، اور تم نماز پڑھو اور زکوۃ ادا کرو تو تم مہاجر ہو، خواہ تم حضرموت میں فوت ہو۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٧٠٩٥، مطبوعہ عالم الکتب ١٤١٩ ھ)
ان احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ہجرت باقی نہیں ہے اور بعض احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت قیامت تک باقی رہے گی۔ اب ہم ان احادیث کو ذکر کر رہے ہیں :
ہجرت باقی رہنے کے متعلق احادیث :
حضرت معاویہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہجرت اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ توبہ منقطع نہ ہو اور توبہ اس وقت تک منقطع نہیں ہوگی جب تک کہ سورج مغرب سے طلوع نہ ہو۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٤٧٩، مسند احمد ج ١ ص ١٩٢، ج ٤ ص ٩٩، مشکوۃ رقم الحدیث : ٢٣٤٦، تہذیب تاریخ دمشق ج ٢ ص ٢٠٢، کنز العمال رقم الحدیث : ٤٦٢٤٩، شرح السنہ رقم الحدیث : ٢٦٣٦)
حضرت عبداللہ بن واقد السعدی بیان کرتے ہیں کہ میں ایک وفد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ہم اپنی کوئی حاجت طلب کر ہے تھے، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں سب سے آخرت میں پیش ہوا، میں نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اپنے پیچھے کچھ لوگوں کو چھوڑا ہوا ہے اور ان کا یہ گمان ہے کہ اب ہجرت منقطع ہوچکی ہے، آپ نے فرمایا جب تک کفار سے قتال کیا جاتا رہے گا ہجرت منقطع نہیں ہوگی۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٨٣، ٢١٨٤)
ہجرت کی متعارض حدیثوں میں تطبیق :
بہ ظاہر ان دونوں قسم کی حدیثوں میں یہ تعارض ہے پہلی قسم کی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اب ہجرت ختم ہوچکی ہے اور دوسری قسم کی احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت قیامت تک باقی رہے گی، علامہ حمد بن محمد خطابی متوفی ٣٨٨ ھ ان میں تطبیق دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
ابتدا اسلام میں ہجرت مستحب تھی فرض نہیں تھی، جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے :
ومن یھاجر فی سبیل اللہ یجد فی الارض مراغما کثیرا و سعۃ۔ (النساء : ١٠٠) جو شخص اللہ کی راہ میں ہجرت کرے گا وہ زمین میں بہت جگہ اور وسعت پائے گا۔
پھر جب مشرکین کی ایذا رسانی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت بڑھ گئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ چلے گئے اور مسلمانوں کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفار کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا، تاکہ وہ آپ کے ساتھ رہیں اور جہاد میں آپ کی مدد کریں تو اس وقت ہجرت فرض کردی گئی تاکہ مسلمان آپ سے دین سیکھیں اور شریعت کا عالم ھاصل کریں، اور اللہ تعالیٰ نے متعدد آیات میں ہجرت کا حکم موکد فرمایا ہے حتی کہ جن مسلمانوں نے ہجرت نہیں کی ان کی دوسرے مسلمان کے ساتھ حمایت، نصرت اور ولایت کو منقطع کردیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
والذین امنوا ولم یھاجروا مالکم من ولا یتھم من شیء حتی یھاجرو۔ (الانفا : ٧٢) اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت نہیں کی، تمہارے لیے ان کی حمایت جائز نہیں ہے حتی کہ وہ ہجرت کرلیں۔
اس زمانہ میں سب سے زیادہ خطرہ قریش مکہ سے تھا جب مکہ فتح ہوگیا اور اہل مکہ نے اطاعت کرلی تو ہجرت کے فرض ہونے کی علت زائل ہوگئی اور ہجرت کا حکم پھر ندب اور استحباب کی طرف لوٹ آیا، پس یہاں دو ہجرتیں ہیں جو ہجرت منقطع ہوچکی ہے یہ وہ ہجرت ہے فرض تھی اور جو ہجرت باقی ہے یہ وہ ہجرت ہے جس مستحب ہے۔ (معالم السنن مع مختصر سنن ابو داؤد ج ٣ ص ٣٥٢، دار المعرفہ بیروت)
امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٥١٦ ھ علامہ خطابی کا مذکورہ جواب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
ان دونوں حدیثوں کو ایک اور طریقے سے بھی جمع کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، اس سے مراد خاص ہجرت ہے یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف منتقل ہونا اب ہجرت نہیں ہے کیونکہ اب مکہ بھی دار السلام ہے اور جس حدیث میں ہے کہ ہجرت منقطع نہیں ہوگی، اس سے مراد یہ ہے کہ جو آدمی دار الکفر میں مسلمان ہوا اس پر واجب ہے کہ وہ دار الکفر سے دار الاسلام کی طرف منتقل ہوجائے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں ہر اس مسلمان سے بری ہوں جو مشرکین کے درمیان رہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٦٤٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٠٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٣٦) اور حضرت سمرہ بن جندب بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مشرک کے ساتھ جمع ہیں اور اس نے ان کے ساتھ سکونت کی وہ اس کی مثل ہے۔ (سنن السنہ ج ١٠، ص ٣٧٣، ٣٧٤، مکتب اسلامی بیروت ١٤٠٣ ھ)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ، علامہ خطابی اور امام بغوی کے جوابوں کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
زیادہ ظاہر یہ ہے کہ جس حدیث میں ہے کہ فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے اس سے مراد یہ ہے کہ جس شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی اور آپ کی اجازت کے بغیر اس کا اپنے وطن کی طرف جانا جائز نہ ہو ایسی ہجرت فتح مکہ بعد نہیں ہے، او جس حدیث میں ہے کہ ہجرت منقطع نہیں ہوگی اس سے مراد وہ ہجرت ہے جو اس طرح نہ ہو جیسا کہ مختلف علاقوں سے ہجرت کر کے اعرابی آتے تھے، اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے کہ اسماعیلی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے کہا فتح مکہ کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت منقطع ہوگئی اور جب تک کفار کے ساتھ جہاد کیا جاتا رہے گا ہجرت منقطع نہیں ہوگی، یعنی جب تک دنیا میں کفر ہے تو ان لوگوں پر ہجرت کرنا واجب ہے جو دار الکفر میں مسلمان ہوئے اور ان کو یہ خطرہ ہو کہ وہ اپنے دین کی وجہ سے فتنہ میں مبتلا ہوجائیں گے اور اس کا مفہوم مخالف یہ کہ اگر وہ دار الکفر میں بغیر فتنہ کے رہ سکیں تو ان پر وہاں سے ہجرت کرنا واجب نہیں ہے۔ (فتح الباری ج ٧ ص ٢٣٠، مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ)
النساء : ٩٧میں بھی ہم نے ہجرت پر بحث کی ہے اس موضوع پر مکمل واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس بحث کا بھی مطالعہ کرلینا چاہیے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 41