وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞- سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 26
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاٰتِ ذَا الۡقُرۡبٰى حَقَّهٗ وَالۡمِسۡكِيۡنَ وَابۡنَ السَّبِيۡلِ وَلَا تُبَذِّرۡ تَبۡذِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اور رشتہ داروں، اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ان کو دیتے رہو، اور اسراف اور فضول خرچ کرنے سے بچو۔
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور رشتہ داروں، اور مسکینوں اور مسافروں کا حق ان کو دیتے رہو، اور اسراف اور فضول خرچ کرنے سے بچو۔ (بنی اسرائیل : ٢٦ )
جن لوگوں پر خرچ کرنا انسان پر واجب ہے اس کے متعلق مذاہب فقہاء :
اس آیت میں کس سے خطاب کیا گیا ہے اس میں بھی دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خطاب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ مال فی اور مال غنیمت میں سے جو مال آپ کو حاصل ہو اس میں سے آپ اپنے قرابت داروں کے حقوق ادا کریں اور مسکینوں اور مسافروں کو بھی عطا کریں، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس آیت میں تمام انسانوں سے خطاب ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ جب تم ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے فارغ ہوگئے تو اب تم پر واجب ہے کہ تم باقی اقارب سے بھی نیک سلوک کرو اور جو زیادہ قریب ہو اس کا حق پہلے ادا کرو، پھر درجہ بہ درجہ اور پھر مسکینوں اور مسافروں کی اصلاح میں مال خرچ کرو۔
علامہ عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی حنبلی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور قرابت داروں کو ان کا حق دیتے رہو، اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ؛
١۔ اس سے انسان کے قرابت دار مراد ہیں خواہ وہ باپ کی طرف سے قرابت دار ہوں یا ماں کی طرف سے، یہ حضرت ابن عباس اور حسن کا قول ہے اور اس بنا پر ان کے حق کی تین تفسیریں ہیں : (ا) ان کے ساتھ نیکی اور صلہ رحم کیا جائے۔ (ب) ضرور کے وقت ان کے جو اخراجات واجب ہیں وہ ادا کیے جائیں۔ (ج) وفات کے وقت ان کے متعلق وصیت کی جائے۔
٢۔ حضرت علی بن حسین نے کہا اس سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرابت دار ہیں اور اس بنا پر ان کا حق یہ ہے کہ ان کو خمس دیا جائے اور یہ خطاب حکام کی طرف متوجہ ہے۔
اور مسکینوں اور مسافروں کے متعلق قاضی ابو یعلی نے کہا اس سے مراد صدقات واجبہ ہیں یعنی ان کی زکوۃ ادا کی جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حق سے مراد یہ ہو کہ جب ان کو کسی چیز کی ضرورت ہو تو وہ ان کو دی جائے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسکین کا حق صدقہ ہے اور مسافر کا حق اس کو کھانا کھلانا ہے۔ (زاد المسیر ج ٥، ص ٢٧، مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ١٤٠٧ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قرابت داروں کو ان کا حق ادا کرو، یہ آیت مجمل ہے اس میں یہ بیان نہیں ہے کہ وہ حق کیا ہے ؟ امام شافعی کے نزدیک صرف اولاد اور والدین پر خرچ کرنا واجب ہے، اور بعض علماء نے کہا کہ محارم پر بھی بقدر ضرورت خرچ کرنا واجب ہے اور اس پر اتفاق ہے کہ جو رشتہ دار محارم نہیں ہیں جیسے چچازاد ماموں زاد وغیرہ ان کا صرف یہ حق ہے کہ ان سے تعلق رکھا جائے اور ان سے ملاقات کی جائے، اور ان سے حسن معاشرت رکھی جائے اور تنگی اور خوشی میں ان سے میل جول برقرار رکھا جائے، اور مسکینوں اور مسافروں کو زکوۃ میں سے حصہ دیا جائے، مسکینوں کو اتنا دینا واجب ہے جو ان کی اور ان کے بچوں کی خوارک کے لیے کافی ہو اور مسافر کو اتنا دینا واجب ہے جو اس کی سفر کی دیگر ضروریات کے لیے کافی ہو۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٣٢٨، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ)
علامہ ابو البرکات نسفی حنفی متوفی ٧١٠ ھ لکھتے ہیں :
اپنے ان قرابت داروں کو ان کا خرچ دو جو تمہارے محرم ہوں اور فقرا ہوں اور مسکینوں اور مسافروں کو زکوۃ سے ان کا حق ادا کرو۔ (مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ٣ ص ١٧٣، مطبوعہ دار الکتب العربیہ پشاور)
قاضی ابو سعود محمد بن محمد حنفی متوفی ٩٨٢ ھ لکھتے ہیں :
قرابت دار سے مراد محارم ہیں اور ان کے حق سے مراد ان کا خرچ ہے۔ (تفسیر ابو سعود ج ٤ ص ١٢٥، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٩ ھ)
علامہ محمد بن مصلح الدین مصطفیٰ القوجوی الحنفی المتوفی ٩٥١ ھ لکھتے ہیں :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم والدین کے ساتھ نیکی کرنے سے فارغ ہوگئے تو اب تم پر واجب ہے کہ باقی رشتہ داروں کے ساتھ درجہ بہ درجہ نیکی کرو پھر مسکینوں اور مسافروں کے احوال کی اصلاح کرو اور قرابت داروں کو دو بشرطیکہ وہ محرم ہوں تنگ دست ہوں اور کمانے سے عاجز ہوں، اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک امیر اور خوشحال پر واجب ہے کہ وہ اپنے تنگ دست قرابت داروں پر بقدر ضرورت خرچ کرے۔ (حاشیہ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٥ ص ٣٧٥، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ)
فقہاء احناف کے نزدیک انسان پر جن لوگوں کا خرچ واجب ہے اس کی تفصیل کتب فقہ میں ہے، علامہ عبداللہ بن محمود حنفی متوفی ٦٨٣ ھ نے جو اس کی تفصیل لکھی ہے میں اس کو اختصار کے ساتھ لکھ رہا ہوں :
انسان پر اس کی بیوی کے کھانے، کپڑوں اور رہائش کا خرچ واجب ہے، اسی طرح نابالغ بچوں کے بھی کھانے، کپڑوں اور رہائش کا خرچ اس پر واجب ہے، اور آبا و اجداد کا خرچ بھی اس پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ ضرورت مند ہوں اور ماں باپ اولاد کے علاوہ دیگر قرابت داروں کا خرچ بھی اس پر واجب ہے، بشرطیکہ وہ محارم ہوں اور تنگ دست ہوں اور کمانے پر قادرنہ ہوں یا کوئی محرم عورت ہو جو تنگ دست ہو۔ (الاختیار جز ٤، ص ١٢۔ ٣، ملخصا، مطبوعہ دار فراس للنشر والتوزیع)
تبذیر کا معنی :
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور تبذیر نہ کرو۔
تبذیر کا معنی ہے تفریق، اس کی اصل ہے زمین میں بذر (بیج) کو پھینک دینا اور پھر اس کا استعارہ ہر اس شخص کے لیے کیا گیا جو اپنے مال جو ضائع کرنے والا ہو، بظاہر بذر (بیج) کو زمین میں متفرق جگہ پھینک دینا بھی اس شخص کے نزدیک مال کو ضائع کرنا ہے جو بیجوں کو زمین میں ڈالنے کے نتیجہ سے ناواقف ہو۔ (المفردات ج ١ ص ٥١، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
امام عبدالرحمن بن علی بن محمد جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : تبذیر کے متعلق دو قول ہیں :
١۔ حضرت ابن مسعود نے کہا اس کا معنی ہے مال کو باطل اور ناجائز جگہوں میں خرچ کرنا، مجاہد نے کہا اگر کوئی شخص اپنے تمام مال کو حق کی راہ میں خرچ کرے تو وہ مبذر نہیں ہے اور اگر وہ ایک کلو چیز بھی ناحق جگہ میں خرچ کرے تو وہ مبذر ہے، زجاج نے کہا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کے علاوہ میں خرچ کرنا تبذیر ہے، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کو دکھانے اور سنانے کے لیے اونٹوں کو ذبح کیا جاتا تھا اور مالوں کو خرچ کیا جاتا تھا تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ صرف اللہ کا تقرب حاصل کرنے کے لیے مال کو خرچ کیا جائے۔
ماوردی نے زکر کیا ہے کہ مال کو بےفائدہ اور فضول خرچ کرنا اور مال کو ضائع کرنا تبذیر ہے۔ (زاد المسیر ج ٥ ص ٢٧، ٢٨، مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٧ ھ)
امام فخر الدین محمد بن عمر رازی لکھتے ہیں :
مال کو ضائع کرنا اور اس کو فضول اور بےفائدہ خرچ کرنا تبزیر ہے، عثمان بن اسود نے کہا میں مجاہد کے ساتھ کعبہ کے گرد طواف کر رہا تھا، انہوں نے ابو قیس پہاڑ کی طرف دیکھ کر کہا اگر کوئی شخص اس پہاڑ کے برابر بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں خرچ کرے تو وہ مسرفین میں سے نہیں ہے اور اگر وہ ایک درہم بھی اللہ تعالیٰ کی معصیت میں خرچ کرے تو وہ مسرفین میں سے ہے، ایک شخص نے کسی نیک کام میں بہت زیادہ مال خرچ کیا تو اس سے کہا گیا کہ اسراف میں کوئی خیر نہیں ہے اس نے کہا خیر میں کوئی اسراف نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص ٣٢٨، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت ١٤١٥ ھ)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت سعد کے پاس سے گزر ہوا وہ اس وقت وضو کر رہے تھے، آپ نے فرمایا : اے سعد یہ کیا اسراف کر رہے ہو ؟ انہوں نے کہا کیا وضو میں بھی اسراف ہے، آپ نے فرمایا ہاں خواہ تم دریا کے بہتے ہوئے پانی سے وضو کر رہے ہو۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٥، مسند احمد ج ٢ ص ٢٢١، مسند حمد رقم الحدیث : ٧٠٦٥، عالم الکتب بیروت)
اس صورت میں اگرچہ پانی ضائع نہیں ہورہا، لیکن تین بار سے زیادہ اعضا وضو کو دھونے میں مومن کے عمل اور وقت کا ضیاع ہورہا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 26