أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَنُنَزِّلُ مِنَ الۡـقُرۡاٰنِ مَا هُوَ شِفَآءٌ وَّرَحۡمَةٌ لِّـلۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۙ وَلَا يَزِيۡدُ الظّٰلِمِيۡنَ اِلَّا خَسَارًا‏ ۞

ترجمہ:

اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرماتے ہیں جو مومنین کے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لیے سوا نقصان کے اور کچھ زیادتی نہیں ہوتی۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم قرآن میں وہ چیز نازل فرماتے ہیں جو مومنین کے شفا اور رحمت ہے، اور ظالموں کے لیے سوا نقصان کے اور کچھ زیادتی نہیں ہوتی۔ (بنی اسرائیل : ٨٢)

قرآن مجید کا روحانی امراض کے لیے شفا ہونا :

قرآن مجید روحانی امراض کے لیے بھی شفا ہے اور جسمانی امراض کے لیے بھی شفا ہے۔

قرآن مجید کا روحانی امراض کے لیے شفا ہو ان اس طور پر ہے کہ روحانی امراض یا تو عقائد فاسدہ ہیں یا اعمال فاسدہ ہیں، عقائد فاسدہ میں سے دہریت کا عقیدہ ہے کہ اس جہان کا کوئی پیدا کرنے والا نہ ہو، اور شرک کا عقیدہ ہے کہ اس جہان کے بہت پیدا کرنے والے ہوں، اور بت پرستی کا عقیدہ ہے اور انکار نبوت کا عقیدہ ہے، اور اللہ تعالیٰ کے لیے اولاد ماننے کا عقیدہ ہے یہ تمام عقائد خراب اور فاسد ہیں اور قرآن مجید میں ان کے خلاف قوی دلائل قائم کیے ہیں جس سے شرک اور بت پرستی کی بیخ کنی ہوجاتی ہے، اسی طرح خراب اور فاسد اعمال ہیں۔ مثلا زنا کرنا، عمل قوم لوط کرنا، شراب پینا، جوا کھیلنا، قرآن مجید نے ایسے تمام کاموں کی خرابی اور قباحت بیان کی، ان کاموں پر دنیا اور آخرت کا خسارہ بیان کیا اور ان کے مقابلہ میں نیک کاموں کی دنیا اور آخرت میں فضیلت بیان کی ہے، اسی طرح روحانی بیماریوں میں غیر اخلاقی کاموں کی عادت اور ان سے محبت ہے، جیسے تکبر، حسد، حرص، بخل، اور ظلم وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ نے ان اخلاقی عیوب کی برائی کو واضح کیا ہے اور ان کے مقابلہ میں تواضع، لوگوں کی بھلائی چاہنا، قناعت، سخاوت اور عدل وغیرہ کی دنیا اور آخرت میں فضیلت بیان فرمائی ہے، اور اس طرح وعظ اور نصیحت فرمائی ہے اور دلوں میں اس طرح خوف خدا بٹھایا ہے جس سے دلوں پر جو معصیت کا زنگ چڑھا ہوا ہے وہ دھل کر صاف ہوجاتا ہے اور گناہوں سے محبت جاتی رہتی ہے، اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص کے دل میں نورانیت ہے اس کا معیار یہ ہے کہ جس انسان کے دل میں نیک کام کرنے کے خیال آئیں اور برے کاموں سے اس کا دل متنفر ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں نورانیت ہے اور اس کا دل اور دماغ صحت مند ہے اور بیمار نہیں ہے اور اس میں روحانی امراض نہیں ہیں۔

قرآن مجید کا جسمانی امراض کے لیے شفا ہونا :

جسمانی امراض کے لیے قرآن مجید کے شفا ہونے پر حسب ذیل احادیث دلالت کرتی ہیں :

حضرت ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض اصحاب عرب کے کسی قبیلہ میں گئے، اس قبیلہ کے لوگوں نے ان کی ضیافت نہیں کی، اسی دوران اس قبیلہ کے سردارو کو بچھو نے ڈنک مار دیا، ان لوگوں نے ان صحابہ سے کہا کیا تم لوگوں میں سے کسی کے پاس دوا ہے یا کوئی دم کرنے والا ہے ؟ صحابہ نے کہا تم لوگوں نے ہماری ضیافت نہیں کی تھی، ہم اس وقت تک دم نہیں کریں گے جب تک کہ تم اس کی اجرت نہیں دو گے، تو انہوں نے صحابہ کے لیے بکریوں کا ایک ریوڑ طے کیا، پھر (ایک صحابی نے) سورة فاتحہ پڑھ رک دم کیا اور اس پر اپنے تھوک کی چھینٹیں ڈالیں وہ تندرست ہوگیا پھر وہ (طے شدہ) بکریاں لے آئے، صحابہ نے کہا ہم اس وقت تک یہ بکریاں نہیں لیں گے جب تک کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھ نہ لیں، انہوں نے آپ سے پوچھا تو ہنسے اور فرمایا تمہیں کس نے بتایا کہ یہ دم ہے ان بکریوں کو لے لو اور اس میں سے میرا حصہ بھی نکالو۔ دوسری روایت رقم الحدیث : ٥٧٣٧ میں یہ الفاظ ہیں : صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! اس شخص نے کتاب اللہ کی اجرت لی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ اجرت کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٧٣٦، سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٣٩٠٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٦٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٥٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٠١)

حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کرلی گئی تھی اس مرض میں آپ اپنے اوپر قل اعوذ برب الفلق اور قل اعوذ برب الناس پڑھ کر دم فرماتے تھے، اور جب آپ زیادہ بیماری ہوگئے تو میں پڑھ کر دم کرتی تھی، اور آپ کے ہاتھ کو آپ کے جسم پر پھیرتی تاکہ آپ کے ہاتھ کی برکت حاصل ہو، ابن شہاب نے کہا آپ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر دم فرماتے پھر اپنے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر پھیرتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٧٥١، موطا امام مالک رقم الحدیث : ٥٨٥، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٢٩٠٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٥٢٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٩٦٣ )

نشرہ اور مریضوں پر دم کرنے کا حکم :

نشرہ کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کو لکھا جائے یا قرآن کریم کی کوئی آیت لکھی جائے پھر اس کو پانی سے دھو لیا جائے، پھر وہ دھو ون مریض کو پلایا جائے یا مریض کے جسم پر لگایا جائے، سعید بن مسیب نے اس کو جائز کہا اور مجاہد اس کو جائز نہیں سمجھتے تھے، حضرت عائشہ معوذتین کو پانی پر پڑھتیں پھر مریض پر وہ پانی انڈیل دیتیں۔

حضرت جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نشرہ کے متعلق پوچھا گیا آپ نے فرمایا یہ عمل شیطان سے ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٨٦٨ )

حافظ ابن عبدالبر نے کہا یہ حدیث ضعیف ہے اور اس کی تاویل یہ ہے کہ اگر ایسی چیز کو پڑھ کر دم کیا جائے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خارج ہو اور اس میں غیر شرعی کلمات ہوں تو پھر وہ عمل شطیان سے ہے۔

حضرت عوف بن مالک اشجعی بیان کرتے ہیں کہ ہم زمانہ جاہلیت میں دم کرتے تھے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا تم جو دم کرتے وہ مجھ پر پیش کرو، دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک کہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ (صحیح مسلم، رقم الحدیث : ٢٢٠٠، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٨٨٦)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں دم کرنے سے منع فرما دیا پھر عمرو بن حزم کی آل کے لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا یا رسول اللہ ! ہمیں ایک دم آتا ہے جس سے ہم بچھو کے ڈنک کا علاج کرتے تھے، اور اب آپ نے دم کرنے سے منع فرما دیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے دم پر مجھ پر پیش کرو، پھر آپ نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، تم میں سے جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو وہ اپنے بھائی کو نفع پہنچائے۔

تعویذ لٹکانے کا حکم :

امام مالک نے کہا جب تعویذ لٹکانے سے یہ ارادہ نہ ہو کہ اس سے نظر نہیں لگے گی یا کوئی بیماری نہیں ہوگی تو تعویذ لٹکانا جائز ہے، کسی بھی تندرست آدمی کے گلے میں تعویذ لٹکانا جائز نہیں ہے، اور کسی مصیبت کے نازل ہونے کے بعد گلے میں تعویذ لٹکانا جائز ہے، جبکہ اس تعویذ میں اللہ تعالیٰ کے اسماء لکھے ہوئے ہوں اور اس توقع پر تعویذ لٹکایا جائے کہ اس سے مصیبت ٹل جائے گی اور شفا حاصل ہوگی۔

حضرت عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص نیند میں ڈر جاتا ہو تو وہ یہ کہے :

اعوذ بکلمات اللہ التامۃ من غضبہ وسوء عقابہ ومن شر الشیاطین وان یحضرون۔ میں اللہ کے غضب اور اس کی بری سزا سے اور شیاطین کے شر سے اور ان کے حاضر ہونے سے اللہ کے کلمات تامہ کی پناہ میں آتا ہوں۔

حضرت عبداللہ بن عمرو اپنے سمجھ دار بچوں کو یہ کلمات سکھاتے تھے اور ناسمجھ بچوں کے گلے میں یہ کلمات لکھ کر لٹکا دیتے تھے۔ (سنن ابو داؤد، رقم الحدیث : ٣٨٩٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٥٢٨، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٣٩، مسند احمد ج ٢ ص ١٨١، کتاب الدعا للفربانی رقم الحدیث : ١٠٨٦، المستدرک ج ١ ص ٥٤٨، کتاب الاسماء والصفات ج ١ ص ٣٠٤)

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے گلے میں کسی چیز کو لٹکا یا وہ اسی کے سپرد کیا جائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٧٢) اور حضرت ابن مسعود نے اپنی ام ولد کے گلے میں ایک تعویذ لٹکا ہوا دیکھا تو سختی سے پکڑ کر اس کو کھینچا اور کاٹ دیا اور کہا ابن مسعود کی آل شرک سے مستغنی ہے اور کہا تعویذ، دم اور تولہ شرک ہیں۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : ٣٨٨٩) ان سے پوچھا تو لہ کیا ہے انہوں نے کہا عورت کا اپنے خاوند کی محبت حاصل کرنے کے لیے دم کرانا، ان تمام کا جواب یہ ہے کہ یہ ایسے دم اور تعویذ پر محمول ہیں جو زمانہ جاہلیت میں کیے جاتے تھے اور ان کا اعتقاد ہوتا تھا کہ یہ ان کو بچا لیں گے اور بلا اور مصیبت کو ان سے دور کردیں گے، اور حضرت ابن مسعود نے اس تعویذ پر رد کیا ہے جس میں قرآن کریم کے الفاظ نہ ہوں اور وہ کاہنوں اور جادوگروں کے الفاظ سے ماخوذ ہوں، کیونکہ قرآن مجید سے شفا حاصل کرنا خواہ اس کے گلے میں لٹکایا جائے یا نہ لٹکایا جائے شرک نہیں ہے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا ہے جس نے کسی چیز کو لٹکایا وہ اسی کے سپرد کردیا جائے گا تو جس نے قرآن مجیدکو اپنے گلے میں لٹکایا تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی حفاظت فرمائے گا اور اس کو کسی اور کے سپرد نہیں کرے گا کیونکہ قرآن سے شفا حاصل کرنے میں اللہ تعالیٰ پر توکل ہوتا ہے اور اسی کی طرف رغبت ہوتی ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٠، ص ٢٨٨۔ ٢٨٧، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

قرآن مجید کی آیات سے دم کرنے اور تعویذ لٹکانے کے جواز میں ہم نے یونس : ٥٧ میں بہت تفصیل سے بحث کی ہے۔

ظالموں کے لیے قرآن مجید کا مزید گمراہی کا سبب ہونا :

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ظالموں کے لیے سوا نقصان کے اور کچھ زیادتی نہیں ہوتی۔

چونکہ مرض کا زائل کرنا اس پر موقوف ہے کہ انسان صحت اور تندرستی کے اسباب کو حاصل کرے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے شفا کا اور پھر رحمت کا ذکر فرمایا اور یہ بتایا کہ شفا اور رحمت کا قوی سبب قرآن مجید ہے، پھر فرمایا کہ قرآن مجید صرف مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے اور کافروں اور ظالموں کے لیے قرآن مجید مزید گمراہی اور نقصان کا سبب ہے، کیونکہ جب مشرکین قرآن مجید سنتے ہیں تو ان کے غیظ و غضب اور کینہ اور حسد میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف طرح طرح کی سازشیں کرتے ہیں اور شر اور فساد کی کارروائیاں کرتے ہیں، اور یوں ان کی گمراہی اور دین اور دنیا کے خسارہ میں اور اضافہ ہوجاتا ہے۔

تبیان القرآن- سورۃ نمبر 17 الإسراء آیت نمبر 82