أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ تَحۡسَبُهُمۡ اَيۡقَاظًا وَّهُمۡ رُقُوۡدٌ ‌‌ۖ وَنُـقَلِّبُهُمۡ ذَاتَ الۡيَمِيۡنِ وَ ذَاتَ الشِّمَالِ‌‌ ۖ وَكَلۡبُهُمۡ بَاسِطٌ ذِرَاعَيۡهِ بِالۡوَصِيۡدِ‌ ؕ لَوِ اطَّلَعۡتَ عَلَيۡهِمۡ لَوَلَّيۡتَ مِنۡهُمۡ فِرَارًا وَّلَمُلِئۡتَ مِنۡهُمۡ رُعۡبًا ۞

ترجمہ:

اور (اے مخاطب ! اگر تو انہیں دیکھے تو) تو گمان کرے گا کہ وہ بیدار ہیں، حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم خود ہی ان کی دائیں اور بائیں کروٹیں بدلتے ہیں، اور ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے، اگر تو انہیں دیکھتا تو ضرور خوف اور دہشت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (اے مخاطب ! اگر تو انہیں دیکھے تو) تو گمان کرے گا کہ وہ بیدار ہیں حالانکہ وہ سوئے ہوئے ہیں اور ہم خود ہی ان کی دائیں اور بائیں کروٹیں بدلتے ہیں اور ان کا کتنا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے اگر تو انہیں دیکھتا تو ضرور خوف اور دہشت سے پیٹھ پھیر کر بھاگ جاتا ہے۔ (الکھف 18)

اصحاب کہف کا کروٹیں بدلنا 

اس آیت میں ایقاظ کا لفظ ہے، یہ یقظ کی جمع ہے، اس کا معنی ہے جاگنے والا، بیدار۔ ان کو بیدار گمان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں یا اس وجہ سے کہ وہ کروٹیں بدلتے رہتے تھے اور رقود کے معنی ہیں سونے والے۔

ان کے دائیں اور بائیں کروٹیں بدلنے کے متعلق حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا وہ ہر سال دو مرتبہ کروٹیں بدلتے تھے، چھ ماہ ایک جانب اور چھ ماہ دوسری جانب تاکہ زمین ان کا گوشت نہ کھا سکے، اور مجاہد نے کہا وہ تین سو سال تک ایک کروٹ پر لیٹے رہے پھر نو سال بعد ان کو دوسری کروٹ پر لٹایا گیا۔ قرآن مجید میں کروٹیں تبدیل کرنے کی مدت کو بیان نہیں کیا گیا اور نہ کسی صحیح حدیث میں اس کی مدت اور تعداد کا بیان ہے اور نہ اس تعداد کے ساتھ کوئی دینی غرض وابستہ ہے۔ 

ان کی کروٹیں تبدیل کرانے کے متعلق بھی کئی اقوال ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خود اپنی قدرت کاملہ سے ان کی کروٹیں تبدیل کراتا تھا۔ دوسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے فرشتے ان کی کروٹیں تبدیل کراتے تھے، اور تیسرا قول یہ ہے کہ جس طرح زندگی میں سویا ہوا شخص نیند میں خود بخود کروٹیں بدلتا رہتا ہے اور اس کو شعور نہیں ہوتا، اسی طرح وہ بھی نیند میں خودبخود کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔

الوصید کا معنی 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کا کتا بھی چوکھٹ پر اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے ہے، قرآن مجید میں الوصید کا لفظ ہے اور اس کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن عباس (رض) ، سعید بن جبیر، مجاہد ضحاک، قتادہ اور فرانے کہا، اہل حجاز الوصید کہتے ہیں اور اہل نجد الاسید کہتے ہیں اور اس کا معنی ہے حائل اور صحن۔

(٢) عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس کا معنی دروازہ ہے۔

(٣) عطا نے کہا اس کا معنی ہے دروازہ کی چوکھٹ۔ ابن قتیبہ نے کہا، میرے نزدیک یہ معنی عمدہ ہیں کیونکہ عرب کہتے ہیں اوصد بابک اپنے دروازہ کو بند کردو۔ قرآن مجید میں ہے :

انھا علیھم مئوصدۃ (الحجرۃ 8) بیشک دوزخ کی آگ ان پر بند کی ہوئی ہوگی۔

صالحین کی مجلس کے ثمرات 

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اصحاب کہف رات کے وقت اپنے ملک سے فرار ہوئے تھے۔ ان کا ایک چرواہے کے پاس سے گزر ہوا، اس کے ساتھ اس کا کتا تھا، چرواہا بھی ان کے دین میں تابع ہو کر ان کے ساتھ چل پڑا۔ کعب نے کہا وہ ایک کتے کے پاس سے گزرے وہ ان پر بھونکنے لگا۔ انہوں نے اس کو بھگا دیا وہ پھر آ کر بھونکنے لگا۔ انہوں نے اس کو پھر بھگادیا، کئی بار اس طرح ہوا۔ آخر کتنے کہا تمہارا کیا ارادہ ہے، میری طرف سے مت ڈرو، میں اللہ کے دوستوں سے محبت کرتا ہوں، تم سو جاتا میں تمہاری حفاظت کروں گا۔

علامہ قرطبی نے کہا اس پر غور کرنا چاہیے کہ جب نیک لوگوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ایک کتے کو یہ مرتبہ حاصل ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے تو ان مومنین کا کیا مقام ہوگا جو اولیاء اللہ اور صالحین سے محبت کرتے ہیں، بلکہ اس میں ان مومنین کو تسلی دی گئی ہے جس کے اعمال میں تقصیر ہے اور وہ درجہ کمال تک نہیں پہنچ سکے لیکن وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی آل اور اصحاب سے محبت رکھتے ہیں۔ (مصنف کے نزدیک یہ استدلال ضعیف ہے)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کب ہوگی ؟ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، جب آپ نے نماز پڑھ لی تو دریافت فرمایا قیامت کے متعلق سوال کرنے والا کہاں گیا ؟ اس ظخص نے کہا میں حاضر ہوں یا رسول اللہ ! آپ نے اس سے پوچھا : تم نے قیامت کے لئے کیا تیاری کی ہے ؟ اس نے کہا میں نے قیامت کے لئے بہت (نقلی) نمازوں اور (نفلی) روزوں کی تیاریں نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہوں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انسان اسی کے ساتھ رہتا ہے جس سے محبت کرے اور تم بھی اسی کے ساتھ رہو گے جس سے تم محبت کرتے ہو۔ حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ مسلمان اسلام کے بعد کسی اور بات سے اس سے زیادہ خوش نہیں ہوئے۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث :2385 مسند احمد ج ٣ ص 104 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :105، 7348، شرح السنتہ رقم الحدیث 3479، مسند ابویعلی رقم الحدیث 3023)

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا ایک شخص کسی قوم سے محبت رکھتا ہے اور ان سے ملا نہیں، آپ نے فرمایا انسان اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس کے ساتھ محبت رکھے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث :2641 شرح السنتہ رقم الحدیث 3478)

ارتکاب معصیت اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے خلاف نہیں ہے 

حضرت عمر بن الخاطب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک شخص تھا جس کا نام عبداللہ تھا اور لوگ اس کو حمار کہتے تھے۔ (وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہنسایا کرتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو شراب پینے کی وجہ سے کوڑے مارے تھیے یہ ایسے کوڑے نہیں تھے جیسے کوڑے آج کل معروف ہیں، اس سے مراد درخت کی ایسی شاخ ہے جس میں گرہ نہ ہو) ایک دفعہ وہ آپ کے پاس لایا گیا اور آپ کے حکم سے اس کو کوڑے لگائے گئے، قوم میں سے ایک شخص نے کہا اے اللہ ! اس پر لعنت فرما، اس کو کتنی بار سزا کے لئے لایا گیا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس پر لعنت نہ کرو، اللہ کی قسم ! جو چیز میں جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6780)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو کہتے ہیں کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب کافر ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لعنت کرنے سے منع فرمایا ہے۔ نیز اس سے معلوم ہوا کہ کسی گناہ کا کرنا اس کو مستلزم نہیں ہے کہ اس شخص کے دل میں اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت نہ ہو، کیونکہ وہ شخص بار بار شراب پیتا تھا اس کے باوجود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ نیز بعض روایات میں آتا ہے کہ جو شخص جس وقت شراب پیتا ہے، اس وقت اس کے دل سے ایمان نکل جاتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5578، صحیح مسلم رقم الحدیث :57) اس سے مراد یہ ہے کہ اس وقت اس کا ایمان کامل نہیں رہتا۔ نیز اس حدیث میں جو یہ فرمایا ہے کہ گناہگار کے دل میں بھی اللہ اور اس کے رسول کی محبت ہوتی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ جو شخص گناہ کر کے اس پر یشیمان یا نادم ہوتا ہو اور اس پر توبہ کرتا ہو خواہ پھر شامت نفس سے پھر اس گناہ میں مبتلا ہوجاتا ہو، یا اس سے وہ شخص مراد ہے جس پر گناہ کے بعد حد لگ جاتی ہو اور وہ اس پر توبہ کرلیتا ہو، اس کے برخلاف جو شخص بار بار گناہ کرے اور اس گناہ پر نادم اور تائب نہ ہو اور جو شخص اس گناہ پر اس کو ملامت کرے وہ اس سے بغض اور دشمنی رکھے، ایسے شخص کے متعلق یہ خطرہ ہے کہ اس کے دل پر مہر لگا دی جائے گی۔ (فتح الباری ج ١٢ ص 78، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ)

حضرت معاویہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص شراب پیے، اس کو کوڑے لگائو اگر وہ چوتھی بار شراب پیے تو اس کو قتل کردو۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث :1444، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث :17087، مسند احمد ج ٤ ص 95 سنن ابودائود رقم الحدیث : 4482، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2573، مسند ابویعلی رقم الحدیث 7363، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :4446 المعجم الکبیرج ٩ ١ رقم الحدیث :767، المستدرک ج ٤ ص 372 سنن کبری اللبیہقی ج ٨ ص 313)

تمام ائمہ مذاہب کے نزدیک اس حدیث پر بہ طور حد عمل نہیں ہے، اس لئے حافظ ابن حجر عسقلانی نے کہا یہ حدیث حضرت عبداللہ (حمار) کی حدیث سے منسوخ ہے، لیکن میرے نزدیک اس کا صحیح جواب یہ ہے کہ چوتھی بار شراب پینے پر اس کو قتل کرنا اس کی حد نہیں ہے، اس کی تعزیر ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تعزیر میں قتل کرنا بھی جائز ہے۔

کتوں کو رکھنے کا شرعی حکم 

اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ اصحاب کہف کی حافظت کے لئے غار کے منہ پر کتا بیٹھا رہا، حفاظت کے لئے کتا رکھنے کے متعلق یہ حدیثب ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کتا رکھا اس کے اجر میں ہر روز دو ، قیراط کم ہوتے رہیں گے ماسوا اس شخص کے جس نے مویشیوں کی حفاظت کے لئے کتا رکھا ہو یا شکار کرنے کے لئے یا کھیت کی حفاظت کے لئے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث 1575 سنن النسائی رقم الحدیث 1290 سنن ابودائود رقم الحدیث :2844 سنن الترمذی رقم الحدیث 1492) 

علامہ کمال الدین ابن ہمام حنفی متوفی 861 ھ فرماتے ہیں :

شکار کے لئے مویشیوں، گھروں اور کھیتوں کی حفاظت کے لئے کتا رکھنا بالا جماع جائز ہے۔ بلا ضرورت گھروں میں کتا رکھنا جائز نہیں۔ البتہ اگر چوروں اور دشمنوں سے خطرہ ہو تو پھر جائز ہے۔ اجناس میں بھی اسی طرح مذکور ہے۔ (فتح القدیر ج ٦ ص 246، مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 18