لوک ڈاؤن: اور شب قدر کی اہمیت و عبادت

تحریر: مفتی محمد شاکرالقادری فیضی
خدائے تعالیٰ کا بے پناہ شکر ہے کہ اس نے ہمیں ماہ رمضان المبارک کے احکام کی پابندی و لحاظ رکھتے ہو ئے ایسی بابرکات اورعظمت ورفعت  رات کے قریب کردیا, جس اہم رات کا ذکر خود خدائے ذوالجلال والاکرام نے اپنے کلام خاص قرآن  کریم میں خود فرمایا اور اس رات کی اہمیت کے بارے میں پوری ایک سورت,سورۂ قدر نازل فرمائی.
جیسا کہ ارشاد ہے.
 بسم اللہ الرحمن الرحیم:
اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚ(۱)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا لَیْلَةُ الْقَدْرِؕ(۲)لَیْلَةُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍؕ(۳)تَنَزَّلُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ الرُّوْحُ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْۚ-مِنْ كُلِّ اَمْرٍۙ(۴)سَلٰمٌ ﱡ هِیَ حَتّٰى مَطْلَعِ الْفَجْرِ۠(۵)
بیشک ہم نے اسے(قرآن کو) شب ِقدر میں  اتارا۔ اور تم نےکیاجانا کیا شب ِقدر, شب ِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ,اس(رات)
 میں فرشتے اور جبریل اترتے اپنے رب کے حکم سے پرکام کیلئے, وہ سلامتی ہے صبح چمکنے تک۔(کنزالایمان)
اللہ رب العزت نے اس رات کا” لیلۃ القدر”  رکھا یعنی عظمت والی, بلندی والی رات ہے کیونکہ اس رات میں عظمت والے رب کا کلام , عظمت والے رسول پر نازل ہوا,  جوبھی اس رات کی عظمت  وقدر کا لحاظ کرتا ہے اس میں اعمال خیر کرتا ہے, گناہوں سے توبہ کرتا ہے, قرآن کریم کے مطابق عزم و ارادہ کرتاہے. اور پوری طرح صاحب قرآن حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ و سلم کا فدائی وشیدائی بن جاتاہے وہ بہت ہی بلند مرتبہ عظمت والا ہوسکتاہے. یہ رات کتنی عظمت ورفعت والی ہے بس اس کا اندازہ اس سے کرلیں کہ کہ اس رات کی عبادت ہزار مہینوں کی  عبادت سے افضل ہے, اس ایک رات میں خدا عزوجل کی جو رحمتیں نازل ہوتی ہیں وہ ہزار مہینوں سے بھی زیادہ ہیں.
*لیکن موجودہ حالات میں جب کہ ملک ہی نہیں پوری دنیا میں دنیا میں لوک ڈاؤن ہے اور مسجد میں عمومی جماعت و اجتماعی عبادت پہ پابندی ہے. اور اختتام ماہ تک اس پابندی کے برقرار رہنے قوی ظن ہے. اس لئے ایک بات بکثرت معلوم کئے جارہے ہیں کہ جس طرح گھر میں جمعہ کے دن ظہر, اور جماعت کا انتظام قائم ہے اسی طرح شب بیداری لیلۃ القدر کے سلسلے میں رہے گی کیا ہم مسجد سے دور ہیں تو شب بیداری کیسے کریں*؟
تو اس بارے عرض ہیکہ لیلۃ القدر میں عبادات وشب بیداری مسجد میں ہونا شرط نہیں ہے. بلکہ اللہ عزوجل کابندہ کہیں سے بھی رہ کر خلوص دل سے نوافل, ذکر واذکار, تلاوت درود شریف کی کثرت, عصیاں شعاری سے معافی’ حالات سازگار ہونے امن وامان وغیرہ کی دعا کرسکتاہے, اس معاملہ میں خدا عزوجل مکمل آزادی دی ہے جہاں پہ دل و ذہن حاضر رہے وہاں پہ قیام کرکے شب بیداری و عبادت لگائے رکھیں. آب کچھ خاص روایت اس مبارک و مسعود رات کے بارے میں پیش کرتے ہیں.
سورۃ القدر کی پہلی آیت مبارکہ
(اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚ(۱)
بیشک ہم نے اسے  شب ِقدر میں اتارا۔
                  (ترجمہ کنزالایمان)
   (لفظ قدر کے معنی ومفہوم)
شب قدر  کے لفظ”قدر” کے علماء نے دو معنی بیان کئے ہیں : ایک یہ کہ قدر کے معنی وہ رات کہ جس میں تقدیروں  کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس  رات میں افراد، قوموں انجمنوں  اور ملکوں کی قسمتوں کے سنوارنے  اور بگاڑنے کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔ اس رات میں کتاب اللہ کا نزول ہے اور محض نزول ہی نہیں بلکہ یہ وہ کام ہے جو پوری دنیا کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔(تفسیرخازن، ٦/سورہ القدر، تحت الآیۃ، التفسیر الجیلانی،٦/سورۃ القد، تحت الآیۃ)
 اس کی تائید  قرآن کریم کے پارہ نمبر ٢٥سورۃ الدخان کی آیت نمبر. ٤-٥ کرتی ہیں“ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
فِیْهَا یُفْرَقُ كُلُّ اَمْرٍ حَكِیْمٍۙ(۴)اَمْرًا مِّنْ عِنْدِنَاؕ-اِنَّا كُنَّا مُرْسِلِیْنَۚ(۵) (سورۃ الدخان)
یعنی اس رات میں ہر حکمت والا کام بانٹ دیا جاتا ہے۔ ہمارے پاس کے حکم سے ،بیشک ہم ہی بھیجنے والے ہیں ۔
{  فِیْهَا یُفْرَقُ  : اس رات میں بانٹ دیا جاتا ہے۔}اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اس برکت والی رات میں  سال بھر میں  ہونے والاہر حکمت والا کام جیسے رزق،زندگی،موت ,ولادت ,وصال,ترقی تنزلی  اور دیگر احکام ان فرشتوں  کے درمیان بانٹ دیئے جاتے ہیں جو انہیں پورے سال سرانجام  دینے ہیں اور یہ تقسیم ہمارے حکم سے ہوتی ہے۔ بیشک ہم ہی سَیِّدُ المرسلین ، حضرت محمد مصطفٰی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان سے پہلے انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام     کو بھیجنے والے ہیں۔
(جلالین، الدخان، تحت الآیۃ: ۴-۵، ص۴۱۰، روح البیان، الدخان، تحت الآیۃ:   ۴-۵ ،۸ /۴۰۴،ملتقطاً صراط الجنان،الدخان، تحت الآیۃ)
اس رات شب قدر میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کردیا جاتا ہے ۔دوسرےمعنی یہ کہ شب قدر بڑی قدر و منزلت اور عظمت و شرف رکھنے والی رات ہے  جس کی تائید خود سورۃ القدرکی آیت نمبر ٣ کرتی ہے ۔یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر اور افضل ہے۔ (سورہ قدر،٣)
     *شبِ قدر کہنے کی وجہ* 
شبِ قدر شرف و برکت والی رات ہے، اس کو شبِ قدر اس لئے کہتے ہیں  کہ اس شب میں  سال بھر کے اَحکام نافذ کئے جاتے ہیں  اور فرشتوں  کو سال بھر کے کاموں اورخدمات پر مامور کیا جاتا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس رات کی دیگر راتوں  پر شرافت و قدر کے باعث اس کو شبِ قدر کہتے ہیں  اور یہ بھی منقول ہے کہ چونکہ اس شب میں  نیک اعمال مقبول ہوتے ہیں  اور بارگاہِ الہٰی میں  ان کی قدر کی جاتی ہے اس لئے اس کو شبِ قدر کہتے ہیں۔
(خازن، القدر، تحت الآیۃ:۱ ،۴/ ۳۹۵، صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)
*شب قدر کی فضیلت*
اَحادیث کریمہ میں اس شب کی بہت فضیلتیں وارد ہوئی ہیں، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول ُاللّٰہ     صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا ’’ جس نے اس رات میں  ایمان اور اخلاص کے ساتھ شب بیداری کرکے عبادت کی تواللّٰہ تعالیٰ اس کے سابقہ (صغیرہ)گناہ بخش دیتا ہے ۔   (  بخاری شریف، کتاب الایمان، باب قیام لیلۃ القدر من الایمان،   ۱/ ۲۵، الحدیث: ۳۵)
اورحضرت انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا توحضور پُرنور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’بے شک تمہارے پاس یہ مہینہ آیا ہے اور اس میں  ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں  سے بہتر ہے،جو شخص اس رات سے محروم رہ گیاوہ تمام نیکیوں سے محروم رہااور محروم وہی رہے گا جس کی قسمت میں محرومی ہے۔ (ابن ماجہ، کتاب الصیام، باب ما جاء فی فضل شہر رمضان، ٢/ ٢٩٨،الحدیث:۱۶۴۴)
لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ یہ رات عبادت میں  گزارے اور اس رات میں کثرت سے اِستغفار کرے، جیسا کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَافرماتی ہیں:،میں نے عرض کی:یارسولَ اللّٰہ!صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ،اگر مجھے معلوم ہو جائے کہ لیلۃ القدر کون سی رات ہے تو ا س رات میں  مَیں کیا کہوں؟ارشاد فرمایا: تم کہو
’’ *اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ*‘‘
اے اللّٰہ!بے شک تو معاف فرمانے والا،کرم کرنے والا ہے،تو معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے تو میرے گناہوں کو بھی معاف فرمادے۔  (ترمذی شریف، کتاب الدعوات،   ۸۴-باب،۵/ ۳۰۶،الحدیث: ٣٥٢٤) یہ ہی شب قدر کی خاص دعا ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ والہ و صحبہ وسلم  نے خود تعلیم فرمائی ہے۔
نیزام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا     فرماتی ہیں: ’’اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ کونسی رات لیلۃ القدر ہے تو میں  اس رات میں  یہ دعا بکثرت مانگوں گی’’اے اللّٰہ میں تجھ سے مغفرت اور عافیت کا سوال کرتی ہوں۔
(مصنف ابن ابی شیبہ، کتاب الدعاء، الدعاء با العافیۃ،٧/ ٢٧،الحدیث: ۸)
سورۂ قدر مکمل مدنی بقولِ دیگر  مکی سورہ ہے سورة القدر اس رات کی اور اس میں نازل کردیئے جانے والے کلام اللہ کی قدرو قیمت اور اہمیت واضح کردیتا ہے۔ امام ابن ابی حاتم نے  حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ الباری سے مرسلا روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس سیدنا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک مجاہد کا ذکر فرمایا جس نے ہزار مہینوں تک اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہ سن کرصحابہ کو اس شخص پر بڑا ہی رشک آیا اور انھوں نے تمنائیں کیں کہ کاش ہمارے نصیب میں بھی عمر دراز ہونا ہوگاتو ہم بھی اللہ کی عبادت میں اپنی جان گنوائیں گے۔ یہی وہ وقت تھا کہ سورہ القدر نازل ہوئی۔( تفسیر الخازن ،۴:۳۹۷)
 حضرت امام ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ نے بھی حضرت امام مجاہد رحمۃ اللہ الباری سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ   صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بنی اسرائیل کے ایک عابد و زاہد شخص کا ذکر فرمایا جو رات کو اللہ کی عبادت  کرتا تھا اور دن کو ایک روایت کے مطابق روزہ رکھتا تھا اور،دوسری روایت کے مطابق اللہ کی راہ میں جدوجہد اور کوشش کرتا تھا۔ یہ سن کرصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو اس شخص پر بڑا ہی تعجب ہوا،اور انھوں نے آرزوئیں کیں کہ کاش ہمیں بھی  اتنا موقعہ مل جاتا کہ ہم بھی اللہ کی رضا جوئی کی خاطر اپنا دن رات کھپا دیتے، اللہ تعالٰی کی یاد میں گزاردیتے۔ یہی وہ وقت تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم پر سورۃ القدر نازل ہوئی۔ (تفسیر مظہری ، القدر)۔
 اسی طرح کی ایک اور روایت کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مختلف پیغمبروں (حضرت  ایوب علیہ السلام،حضرت زکریا  علیہ السلام،حضرت یوشع علیہ السلام )کے بارے میں تذکرہ کیا جنھوں نے اسی (80) اسی (80) سال اللہ کی عبادت  میں صرف کرکے ایک لمحہ کے لئے بھی نافرمانی نہیں کیں۔ سب نے کم عمری کو عبادت کم کرنے کا ذمہ دار مانا اور سب نے اپنی عمر درازی کے لئے اللہ سے دعا کی تو اللہ نےبذریعہ حضرت جبرائیل امین علیہ السلام حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ القدر نازل  فرمائی۔(تفسیر القرطبی، القدر،۲۰/۱۳۲)
اس سورہ مبارکہ کے نازل ہونے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین  کو تسکین قلب  ملا اور وہ خوشی و مسرت سے جھوم اٹھے۔ حضرت امام مالک علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ لیلةالقدر اللہ کی طرف سے امت کے لئے ایک اہم تحفہ ہے جو امت محمدی صلی اللہ علیہ و سلم کو خاص ہونے کی دلالت کرتا ہے۔
(الدر المنثور ،القدر،۶:۳۷۱)
یہ رات تحفہ اس لئے تھی کہ اس رات  قابل قدر کتاب،قابل قدر امت کے لئے صاحب قدر رسولِ کریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت نازل فرمائی۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں لفظ “قدر”  تین مرتبہ آیا ہے۔(تفسیر کبیر، القدر،۳۲:۲۸)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا  کہ جو شخص اس رات کو ایمان اور احتساب کے ساتھہ قیام کرے گا تو  اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ (متفق علیہ)
*شبِ قدر کون سی رات ہے*
یاد رہے کہ سال بھر میں  شبِ قدر ایک مرتبہ ہی آتی ہے اور کثیر روایات سے ثابت ہے کہ وہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ہوتی ہے اور اکثر اس کی بھی طاق راتوں میں سے کسی ایک رات میں  ہوتی ہے۔ بعض اکابرو علماء کے نزدیک  رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شبِ قدر ہوتی ہے .
جیسا کہ حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے شب قدر کے متعلق حلف اٹھاکر(یعنی قسم کھا کر) کہا کہ وہ (یعنی شب قدر) ستائیسویں شب ہے. حضرت زرین تابعی رضی اللہ عنہ نے پوچھا کس دلیل سے آپ کہہ رہے ہیں کہ وہ (یعنی شب قدر)  ستائیسویں رات ہے. تو صحابی رسول حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمارے آقا و مولا صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ و سلم نے جو اس کی علامت بنان فرمائی ہیں وہ اسی رات میں پائی جاتی ہے(مشکوۃ )
 امام الائمہ کاشف الغمہ   حضرتِ سیدنا امام اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا موقف بھی یہی ہے. کہ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات شب قدر ہے اورالفاظ قرآن سے بھی اس طرف اشارہ ملتاہے. مثلا سورۂ قدر میں لیلۃ القدر تین جگہ ارشاد ہوا ہے اورلیلۃ القدر میں نو(9)حروف ہیں. تو نو(9)کو تین سے ضرب دینے میں حاصل ضرب ستائیس(27) ہوتاہے.
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما, حضور سیدنا غوث اعظم سید شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور بیشمار علمائے دین رضی اللہ تعالی عنہم اجمعین فرماتے ہیں کہ شب قدر ماہ رمضان المبارک کی ستائیسویں رات کوہی ہوتی ہے. (ملخص تفسیر عزیزی)
شب قدر کے تعین کے بارے میں تقریباً پچاس سے بھی زائداقوال موجود ہیں جن میں اکثر روایات  شب قدر کا رمضان المبارک  کی ستائیسویں شب میں ہونے کے حق میں ہیں۔
*شب قدر کا تعین سورۃ القدر کی روشنی میں*
اس سورت مبارکہ کا جب بنظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شب قدر رمضان المبارک کےآخری عشرہ میں ہے اور زیادہ راجح 27 ویں شب کو ہے جیسے کہ ہمارے امام الائمہ سراج الامۃ کاشف الغمہ  حضرت سیدنا امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی ایک تحقیق اس طرح کہ
سورہ قدر ،کہ جس میں شب قدر کا ذکر کیا گیا ہے ،قرآن کریم کے 30 پاروں و رمضان المبارک کے تیس روزوں کی طرح پوری سورت میں کل 30 الفاظ ہیں اور  شب قدر  کی طرف اشارہ لفظ “ھی” سے کیا گیا جو کہ ستائیسواں لفظ ہے۔ گویا کہ شب قدر رمضان المبارک میں اور لفظ ھی کی روشنی میں 27 کو ہے۔ (تفسیر قرطبی،۳۲:۳۰/تفسیرالقرطبی،۱:۱۳۶)۔
اسی طرح امیرالمومنین حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے شب قدر کے تعین کے بارے میں معلوم کیا تو حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ عزوجل کو طاق عدد پسند ہے اور اس میں بھی سات کے عد د کو ترجیح دیتا ہے۔ اپنی کائنات کی تخلیق میں اس نے سات کے عدد کو نمایاں کیا ہے ،مثلا سات آسمان، سات زمین،سات چکر طواف کے،ہفتہ کے سات دن،وغیرہ۔(تفسیر کبیر،۳۲:۳۰)۔
جبکہ علماء کی بڑی اکثریت کی رائے یہ ہے کہ شب قدر رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک رات ہے۔
 حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ شب قدر رمضان المبارک کی آخری دس راتوں میں طاق رات ہے۔۔۔(مسند احمد)۔
*شبِ قدر کو پوشیدہ رکھے جانے کی وجوہات*
حضرت سیدنا امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں،  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نےشب ِقدر کو چند وجوہ کی بناء پر پوشیدہ رکھا ہے۔
(1)… جس طرح دیگر اَشیاء کو پوشیدہ رکھا،مثلاً اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  نے اپنی رضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رغبت حاصل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔اپنے ولی کو لوگوں  میں  پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں۔ دعاء کی قبولیت کو دعاؤں میں  پوشیدہ رکھاتا کہ وہ سب دعاؤں  میں  مبالغہ کریں۔ اسمِ اعظم کو اَسماء میں  پوشیدہ رکھا تاکہ وہ سب اَسماء کی تعظیم کریں ۔اورنمازِ وُسطیٰ کو نمازوں  میں  پوشیدہ رکھا تاکہ تمام نمازوں  کی پابندی کریں ۔تو بہ کی قبولیت کوپوشیدہ رکھاتاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے اور موت کا وقت پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ خوف کھاتا رہے، اسی طرح شب ِقدر کوبھی پوشیدہ رکھاتا کہ لوگ رمضان کی تمام راتوں کی تعظیم کریں ۔ (تفسیر صراط الجنان، القدر)
(2)…گویا کہ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ،’’اگر میں  شبِ قدر کو مُعَیَّن کردیتا اور یہ کہ میں  گناہ پر تیری جرأت کو بھی جانتا ہوں  تواگرکبھی شہوت تجھے اس رات میں  گناہ کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجاتا تو تیرا اس رات کو جاننے کے باوجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے زیادہ سخت ہوتا۔ پس اِس وجہ سے میں  نے اسے پوشیدہ رکھا ۔
(3)…گویا کہ ارشاد فرمایا میں  نے اس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ شرعی احکام کا پابند بندہ اس رات کی طلب میں  محنت کرے اور اس محنت کا ثواب کمائے ۔
(4)…جب بندے کو شبِ قدر کا یقین حاصل نہ ہوگا تووہ رمضان کی ہر رات میں  اس امید پر   اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں  کوشش کرے گا کہ ہوسکتا ہے کہ یہی رات شب ِقدر ہو۔
  (  تفسیر کبیر، القدر، تحت الآیۃ: ۱، ۱۱/   ۲۲۹- ۲۳۰)
(5).. اس رات کا تعین دو آدمیوں کے جھگڑے کی وجہ سے اٹھا لیا گیا۔ (صحیح بخاری شریف)
(6).. اللہ کو اپنے بندوں کا رات میں صرف اسی کی رضا جوئی کے لئے بیدار رہنا بہت پسند ہے۔ (7)..عمل کی راہ مسدود نہ ہو اور  لوگ زیادہ سے زیادہ عبادت کریں اور صرف ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔
(8).. اس رات کا متعین نہ ہونا گنہگاروں کے لئے شفقت ہے ۔ (9)۔۔اس رات کے چھوٹ جانے سے ایک بندہ پورے سال پچھتاوے کا شکار نہ ہو۔
(تفسیر کبیر ،۳۲:۲۸)
 شبِ قدر کی ایک فضیلت یہ ہے کہ شب ِ قدر ان ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شبِ قدر سے خالی ہوں اور اس ایک رات میں نیک عمل کرنا ہزار راتوں کے عمل سے بہتر ہے۔
 (خازن، القدر، تحت الآیۃ: ۳ ، ۴/ ۳۹۷، مدارک، القدر، تحت الآیۃ:  ۳، ص۱۳۶۴، ملتقطاً  صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)
حضرت  امام مجاہد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے بنی اسرائیل کے ایک شخص کا ذکر فرمایا جس نے ایک ہزار مہینے راہِ خدا عَزَّوَجَلَّ   میں جہاد کیا ،مسلمانوں کو اس سے تعجب ہوا تواللّٰہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
حضرت سیدنا انس بن مالک رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللّٰہ تعالیٰ نے میری امت کو شبِ قدر کا تحفہ عطا فرمایا اور ان سے پہلے اور کسی کو یہ رات عطا نہیں   فرمائی۔
(مسند فردوس،باب الالف،۱/ ۱۷۳، الحدیث: ۶۴۷)
 امام المفسرین والمحدثین و المفتیین حضرت صدر الافاضل مفتی سید نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں   ’’یہ اللّٰہ تعالیٰ کا اپنے حبیب  (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ)پر کرم ہے کہ آپ(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ) کے اُمتی شبِ قدر کی ایک رات عبادت کریں تو ان کا ثواب پچھلی اُمت کے ہزار ماہ عبادت کرنے والوں   سے زیادہ ہو۔
(خزائن العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳،ص۱۱۱۳، صراط الجنان، القدر، تحت الآیۃ)
اور شاگرد حضور صدر الافاضل سلطان المفسرین محسن اھل سنت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں’’ اس آیت سے دو فائدے حاصل ہوئے، ایک یہ کہ بزرگ چیزوں سے نسبت بڑی ہی مفید ہے کہ شبِ قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے، اصحابِ کہف کے کتے کو ان بزرگوں سے منسوب ہو کر دائمی زندگی، عزت نصیب ہوئی، دوسرا یہ کہ تمام آسمانی کتابوں سے قرآن شریف افضل ہے کیونکہ تورات و انجیل کی تاریخِ نزول کو یہ عظمت نہ ملی-
(نور العرفان، القدر، تحت الآیۃ: ۳،ص ۹۹۰)
اس رات میں فرشتے اور جبریل اپنے رب کے حکم سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں ۔ یہ رات صبح طلوع ہونے تک سلامتی ہے ۔
اور حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضوراقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’جب شبِ قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام فرشتوں  کی جماعت میں اترتےہیں اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے کو دعائیں دیتے ہیں جواللّٰہ تعالیٰ کا ذکر کررہا ہو۔
(شعب الایمان، الباب الثالث والعشرون من شعب الایمان…الخ، فی لیلۃ العید و یومہا،۳/ ۳۴۳، الحدیث: ٣٧١٧)
شبِ قدر میں سیدنا حضرت جبرائیل علیہ السلام بمع دیگر فرشتوں کے زمین پر اترتے ہیں ۔ اور وہ چار جھنڈے گاڑتے ہیں۔ ایک روضۂ اطہر پر، ایک کعبہ معظمہ کی چھت پر، ایک بیت المقدس پر، اور ایک آسمان اور زمین کے درمیان۔ پھر وہ فرشتے تمام اطراف میں پھیل جاتے ہیں۔ اور کوئی ایسا گھر باقی نہیں رہتا ۔ جہاں وہ داخل نہ ہوں۔ جو شخص عبادت میں مشغول ہوتا ہے فرشتے اس کو سلام کرتے ہیں اور یہ نقشہ طلوع فجر تک باقی رہتا ہے ۔ اس رات میں نوافل پڑھنا، قرآن مجید کی تلاوت کرنا، اور تسبیح و تہلیل اور استغفار پڑھنا چاہئے۔
 شب قدر میں جتنے نفل پڑھے جاسکیں بڑی سعادت ہے۔ مگر جو کتابوں میں لکھے گئے ہیں وہ یہ ہیں:
*شب قدر کی تیاری کیسے کریں*
اس رات کی تیاری یہ ہے کہ اس رات کے لئے ہم اپنے ظاہر و باطن کو صاف و پاک کرلیں,غسل کریں, صاف کپڑے پہنیں,خوشبو استعمال کریں, اس لئے کہ آج تو فرشتوں سے بھی ملاقات کی رات ہے-
جسمانی ظاہری صفائی کے ساتھ اپنے دلوں کو بھی صاف کرلیں اگر کسی کم نصیب کے والدین ناراض ہیں تو ان سے ملاقات کر کے اس رات کی آمد سے پہلے معافی مانگ لیں اگر وصال کر چکے ہوں تو ایصال ثواب کر کے دعا طلب کریں-اگر کسی کا حق مارا ہو تو اس کو ادا کرنے کی کوشش کریں,خلاف شرع کاموں سے توبہ کریں اور عہد کریں کہ خلاف شرع کام کبھی نہ کریں گے اپنے دلوں میں مسلمانوں کی محبت و الفت اور ان کے ایثار و مدد کا جذبہ پیدا کریں گے – ہر قسم کی نفرت بغض و کینہ حسد کی گندگیوں سے دل کو پاک کر لیں اور اتنا صاف کرلیں کہ فرشتے خداۓ تعالیٰ کے یہاں ہمارے دلوں کی صفائی,ستھرائ کے بھی گواہ بنیں,اور دل کی گہرائیوں سے دعائیں مانگیں کیونکہ یہی رات دعا کے قبولیت کی رات ہے,  مکمل طور پر اس رات سے فائدہ حاصل کریں خود خوب عبادت و ریاضت کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال اور دوست و احباب کو بھی عبادت پر آمادہ کریں اس طرح  لیلۃ القدر میں جاگنا قسمت کو جگانے کآ ذریعہ بن جائے گا
(ان شاء المولی تعالی )
*27ستائیسویں  شب کے نوافل*
ماہِ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب قدر کی بڑی فضیلت ہے ۔ اس میں رات بھر جاگ کر عبادت میں مشغول رہیں  نوافل نماز اور قرآن شریف کی تلاوت اور درود شریف کثرت سے پڑھنے میں اپنے آپ کو مشغول رکھیں۔ اس رات کی عبادت کا ثواب شمار ہی نہیں۔
 (1)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح 12 بارہ رکعت نفل نماز تین (3) سلام سے پڑھیں۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص پندرہ مرتبہ پڑھیں ۔
*فضیلت*: بعد سلام 70ستر مرتبہ استغفار پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ اس نفل نماز پڑھنے والے کو ان شاء اللہ العزیز انبیاء کرام علیہم السلام کی عبادت کا  صدقہ عطا فرمائے  گا۔
(2) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھیں.  ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ قدر تین مرتبہ اور سورۂ اخلاص پانچ مرتبہ پڑھیں۔
*فضیلت*: بعد سلام کے سورۂ اخلاص ستائیس مرتبہ پڑھ کر اپنے گناہوں کی مغفرت مانگے ان شاء اللہ العزیز اس کے تمام پچھلے گناہ اللہ تعالیٰ معاف فرمادے گا۔
(3) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز دو سلام سے پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ الہکمتکاثر ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھیں ۔
*فضیلت*: باری تعالیٰ اس نفل نماز پڑھنے والے پر سے موت کی سختی آسان کرے گا۔ انشاء اللہ العزیز اس پر سے عذاب قبر بھی معاف ہو جائے گا۔
(4)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھیں ۔ ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۂ اخلاص سات مرتبہ پڑھیں ۔ *فضیلت*: بعد سلام ستر مرتبہ یہ تسبیح استغفار پڑھے:
اَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ الْعَظِیْمَ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ وَاَتُوْبُ اَلَیْہِ۔
ان شاء اللہ العزیز اس نفل نماز کو پڑھنے والا اپنے مصلے سے اٹھنے بھی نہ پائے گا کہ باری تعالیٰ عزوجل اس کے اور اس کے والدین کے گناہ معاف فرما کر مغفرت عطا فرمائے گا۔ مغفرت کیلئے یہ نماز افضل ہے۔
(5) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح دو رکعت نفل نماز پڑھیں- ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الم نشرح ایک مرتبہ اور سورۂ اخلاص تین مرتبہ پڑھیں ۔
*فضیلت* دارین کی نعمتوں سے مالا مال ہو
(6) ۔ محبوب یزدانی حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں ، دو رکعت نماز کی دونوں رکعتوں میں فاتحہ کے بعد تین بار اخلاص پڑھے، سلام کے بعد یہ دعا پڑھے،
سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ سُبْحَانَکَ یَا عَظِیْمُ یَا عَظِیْمَُ اِغْفِرْلِیْ الذُّنُوْبِ الْعَظِیْمِ  ۔
*فضیلت:* بعدسلام ستائیس مرتبہ سورۂ قدر پڑھیں، یہ نماز بے شمار عبادات کے ثواب کیلئے افضل ہے۔ (: فتاویٰ شامی، فتاویٰ رضویہ، بہار شریعت)
(7)۔ ستائیسویں شب کو بعد نماز عشاء و تراویح چار رکعت نفل نماز پڑھیں-  ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۃ القدر تین مرتبہ سورۃ الاخلاص پچاس مرتبہ پڑھیں۔
*فضیلت*: بعد سلام سجدہ میں ایک مرتبہ یہ کلمات پڑھے:۔ سُبْحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ ط اس کے بعد جو حاجت دنیاوی یا دینی مانگے انشاء اللہ تعالیٰ بار گاہِ الٰہی میں قبول ہوگی۔
(8) ۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تراویح سورۂ حٰمٓ پڑھے۔ یہ عذابِ قبر سے نجات اور مغفرت گناہ کیلئے افضل ہے۔
(9)۔ ستائیسویں شب قدر کو بعد نماز عشاء و تروایح سات مرتبہ سورۃ الملک کا پڑھنا مغفرت گناہ کیلئے نہایت افضل ہے۔
(10)۔ ستاتئیسویں شب قدر کو اس دعا کو کثرت سے پڑھیں۔
اَللّٰہُمَ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَا عْفُ عَنِّیْ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا غَفُوْرُ یَا کَرِیْمُ
( *نوٹ شب قدر میں صلوٰۃ التسبیح پڑھنی فائدہ سے خالی نہیں*
*جن کے ذمہ قضا نمازیں ہیں وہ نوافل کی جگہ قضائے عمری پڑھیں تفصیلی معلومات اپنے علاقہ عالم دین و امام صاحبان سے رابطہ کریں*)
اللہ تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وصحبہ و سلم کے صدقہ وطفیل ہم سبھی کو اس رات برکتوں سے مالامال فرمائے۔
أمین ثم آمین بجاہ سیدالمرسلین نائب رب العالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وصحبہ و سلم