وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(۹۴)

جب قافلہ مصر سے جدا ہوا (ف۲۱۱) یہاں ان کے باپ نے (ف۲۱۲) کہا بےشک میں یوسف کی خوشبو پاتا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سَٹھ(بہک) گیا

(ف211)

اور کنعان کی طرف روانہ ہوا ۔

(ف212)

اپنے پو توں اور پاس والوں سے ۔

قَالُوْا تَاللّٰهِ اِنَّكَ لَفِیْ ضَلٰلِكَ الْقَدِیْمِ(۹۵)

بیٹے بولے خدا کی قسم آپ اپنی اسی پرانی خود رفتگی(محبت) میں ہیں (ف۲۱۳)

(ف213)

کیونکہ وہ اس گمان میں تھے کہ اب حضرت یوسف (علیہ السلام ) کہاں ، ان کی وفات بھی ہو چکی ہوگی ۔

فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ فَارْتَدَّ بَصِیْرًاۚ-قَالَ اَلَمْ اَقُلْ لَّكُمْ ﳐ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۹۶)

پھر جب خوشی سنانے والا آیا (ف۲۱۴) اس نے وہ کُرتا یعقوب کے منہ پر ڈالا اسی وقت اس کی آنکھیں پھر آئیں(روشن ہو گئیں) کہا میں نہ کہتا تھا کہ مجھے اللہ کی وہ شانیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (ف۲۱۵)

(ف214)

لشکر کے آگے آگے وہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی یہودا تھے ، انہوں نے کہا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے پاس خون آلودہ قمیص بھی میں ہی لے کر گیا تھا ، میں نے ہی کہا تھا کہ یوسف (علیہ السلام ) کو بھیڑیا کھا گیا ، میں نے ہی انہیں غمگین کیا تھا ، آج کُرتا بھی میں ہی لے کر جاؤں گا اور حضرت یوسف (علیہ السلام )کی زندگانی کی فرحت انگیز خبر بھی میں ہی سناؤں گا ، تو یہودا بَرَہۡنہ سر ، بَرَہۡنہ پا ، کُرتا لے کر اسّی۸۰ فرسنگ دوڑتے آئے ، راستہ میں کھانے کے لئے سات روٹیاں ساتھ لائے تھے ، فرطِ شوق کا یہ عالَم تھا کہ ان کو بھی راستہ میں کھا کر تمام نہ کر سکے ۔

(ف215)

حضرت یعقوب علیہ السلام نے دریافت فرمایا یوسف کیسے ہیں ؟ یہودا نے عرض کیا حضور وہ مِصر کے بادشاہ ہیں ۔ فرمایا میں بادشاہی کو کیا کروں ، یہ بتاؤ کس دین پر ہیں ؟ عرض کیا دینِ اسلام پر ، فرمایا الحمد للہِ اللہ کی نعمت پوری ہوئی ۔ برادرانِ حضرتِ یوسف علیہ السلام ۔

قَالُوْا یٰۤاَبَانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَاۤ اِنَّا كُنَّا خٰطِـٕیْنَ(۹۷)

بولے اے ہمارے باپ ہمارے گناہوں کی معافی مانگئے بےشک ہم خطاوار ہیں

قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّیْؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۹۸)

کہا جلد میں تمہاری بخشش اپنے رب سے چاہو ں گا بےشک وہی بخشنے والا مہربان ہے (ف۲۱۶)

(ف216)

حضرت یعقوب علیہ الصلٰوۃ و السلام نے وقتِ سحر بعدِ نماز ہاتھ اٹھا کر اللہ تعالٰی کے دربار میں اپنے صاحبزادوں کے لئے دعا کی ، وہ قبول ہوئی اور حضرت یعقوب علیہ السلام کو وحی فرمائی گئی کہ صاحبزادوں کی خطا بخش دی گئی ۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد کو مع ان کے اہل و اولاد کے بلانے کے لئے اپنے بھائیوں کے ساتھ دو سو سواریاں اور کثیر سامان بھیجا تھا ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام نے مِصر کا ارادہ فرمایا اور اپنے اہل کو جمع کیا ، کل مرد و زن بہتّر یا تہتّر تن تھے ۔ اللہ تعالٰی نے ان میں یہ برکت فرمائی کہ ان کی نسل اتنی بڑھی کہ جب حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام کے ساتھ بنی اسرائیل مِصر سے نکلے تو چھ لاکھ سے زیادہ تھے باوجود یکہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا زمانہ اس سے صرف چار سو سال بعد ہے ۔ الحاصل جب حضرت یعقوب علیہ السلام مِصر کے قریب پہنچے تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مِصر کے بادشاہِ اعظم کو اپنے والد ماجد کی تشریف آوری کی اطلاع دی اور چار ہزار لشکر ی اور بہت سے مِصری سواروں کو ہمراہ لے کر آپ اپنے والد صاحب کے استقبال کے لئے صدہا ریشمی پھریرے اڑاتے ، قطاریں باندھے روانہ ہوئے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند یہودا کے ہاتھ پر ٹیک لگائے تشریف لا رہے تھے جب آپ کی نظر لشکر پر پڑ ی اور آپ نے دیکھا کہ صحرا زرق برق سواروں سے پر ہو رہا ہے ، فرمایا اے یہودا کیا یہ فرعونِ مِصر ہے جس کا لشکر اس شوکت و شکوہ سے آ رہا ہے ؟ عرض کیا نہیں یہ حضور کے فرزند یوسف ہیں علیہم السلام ۔ حضرت جبریل نے آپ کو متعجب دیکھ کر عرض کیا ، ہوا کی طرف نظر فرمایئے ، آپ کے سرور میں شرکت کے لئے ملائکہ حاضر ہوئے ہیں جو مدّتوں آپ کے غم کے سبب روتے رہے ہیں ، ملائکہ کی تسبیح نے اور گھوڑوں کے ہنہنانے نے اور طبل و بوق کی آوازوں نے عجیب کیفیت پیدا کر دی تھی ۔ یہ محرّم کی دسویں تاریخ تھی جب دونوں حضرات والد و ولد ، پدر و پسر قریب ہوئے ۔ حضرت یوسف علیہ الصلٰوۃ و السلام نے سلام عرض کرنے کا ارادہ ظاہرکیا ، جبریل علیہ السلام نے عرض کیا کہ آپ توقُّف کیجئے اور والد صاحب کو ابتداء بسلام کا موقع دیجئے چنانچہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے ” اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یَامُذْھِبَ الْاَحْزَانِ ” ( یعنی اے غم و اندو ہ کے دور کرنے والے سلام ) اور دونوں صاحبوں نے اُتر کر معانقہ کیا اور مل کر خوب روئے پھر اس مزین فرود گاہ میں داخل ہوئے جو پہلے سے آپ کے استقبال کے لئے نفیس خیمے وغیرہ نصب کر کے آراستہ کی گئی تھی ، یہ دخول حدودِ مِصر میں تھا اس کے بعد دوسرا دخول خاص شہر میں ہے جس کا بیان اگلی آیت میں ہے ۔

فَلَمَّا دَخَلُوْا عَلٰى یُوْسُفَ اٰوٰۤى اِلَیْهِ اَبَوَیْهِ وَ قَالَ ادْخُلُوْا مِصْرَ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ اٰمِنِیْنَؕ(۹۹)

پھر جب وہ سب یوسف کے پاس پہنچے اس نے اپنے ماں (ف۲۱۷) باپ کو اپنے پاس جگہ دی اور کہا مصر میں (ف۲۱۸) داخل ہو اللہ چاہے تو امان کے ساتھ(ف۲۱۹)

(ف217)

ماں سے یا خاص والدہ مراد ہیں اگر اس وقت تک زندہ ہوں یا خالہ ۔ مفسِّرین کے اس باب میں کئی اقوال ہیں ۔

(ف218)

یعنی خاص شہر میں ۔

(ف219)

جب مِصر میں داخل ہوئے اور حضرت یوسف اپنے تخت پر جلوہ افروز ہوئے آپ نے اپنے والدین کا اکرام فرمایا ۔

وَ رَفَعَ اَبَوَیْهِ عَلَى الْعَرْشِ وَ خَرُّوْا لَهٗ سُجَّدًاۚ-وَ قَالَ یٰۤاَبَتِ هٰذَا تَاْوِیْلُ رُءْیَایَ مِنْ قَبْلُ٘-قَدْ جَعَلَهَا رَبِّیْ حَقًّاؕ-وَ قَدْ اَحْسَنَ بِیْۤ اِذْ اَخْرَجَنِیْ مِنَ السِّجْنِ وَ جَآءَ بِكُمْ مِّنَ الْبَدْوِ مِنْۢ بَعْدِ اَنْ نَّزَغَ الشَّیْطٰنُ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ اِخْوَتِیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْفٌ لِّمَا یَشَآءُؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۱۰۰)

اور اپنے ماں باپ کو تخت پر بٹھایا اور وہ سب (ف۲۲۰) اس کے لیے سجدے میں گرے (ف۲۲۱) اور یوسف نے کہا اے میرے باپ یہ میرے پہلے خواب کی تعبیر ہے (ف۲۲۲) بےشک اسے میرے رب نے سچا کیا اور بےشک اس نے مجھ پر احسان کیا کہ مجھے قید سے نکالا (ف۲۲۳) اور آپ سب کو گاؤں سے لے آیا بعد اس کے کہ شیطان نے مجھ میں اور میرے بھائیوں میں ناچاقی کرادی تھی بےشک میرا رب جس بات کو چاہے آسان کردے بےشک وہی علم و حکمت والا ہے (ف۲۲۴)

(ف220)

یعنی والدین اور سب بھائی ۔

(ف221)

یہ سجدہ تحیّت و تواضُع کا تھا جو ان کی شریعت میں جائز تھا جیسے کہ ہماری شریعت میں کسی معظّم کی تعظیم کے لئے قیام اور مصافحہ اور دست بوسی جائز ہے ۔ سجدۂ عبادت اللہ تعالٰی کے سوا اورکسی کے لئے کبھی جائز نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ شرک ہے اور سجدۂ تحیّت و تعظیم بھی ہماری شریعت میں جائز نہیں ۔

(ف222)

جو میں نے صِغر سنی یعنی بچپن کی حالت میں دیکھا تھا ۔

(ف223)

اس موقع پر آپ نے کنوئیں کا ذکر نہ کیا تاکہ بھائیوں کو شرمندگی نہ ہو ۔

(ف224)

اصحابِ تواریخ کا بیان ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے فرزند حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس مِصر میں چوبیس سال بہترین عیش و آرام میں خوش حالی کے ساتھ رہے ، قریبِ وفات آپ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وصیّت کی کہ آپ کا جنازہ مُلکِ شام میں لے جا کر ارضِ مقدسہ میں آپ کے والد حضرت اسحٰق علیہ السلام کی قبر شریف کے پاس دفن کیا جائے ، اس وصیت کی تعمیل کی گئی اور بعدِ وفات سال کی لکڑی کے تابوت میں آپ کا جسدِ اطہر شام میں لایا گیا ، اسی وقت آپ کے بھائی عیص کی وفات ہوئی اور آپ دونوں بھائیوں کی ولادت بھی ساتھ ہوئی تھی اور دفن بھی ایک ہی قبر میں کئے گئے اور دونوں صاحبوں کی عمر ایک سو پینتالیس ۱۴۵ سال تھی جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد اور چچا کو دفن کر کے مِصر کی طرف واپس روانہ ہوئے تو آپ نے یہ دعا کی جو اگلی آیت میں مذکور ہے ۔

رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ(۱۰۱)

اے میرے رب بےشک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں(ف۲۲۵)

(ف225)

یعنی حضرت ابراہیم و اسحٰق و حضرت یعقوب علیہم السلام ، انبیاء سب معصوم ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی یہ دعا تعلیمِ امّت کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام اپنے والد ماجد کے بعدتیٔس سال رہے اس کے بعد آپ کی وفات ہوئی ۔ آپ کے مقامِ دفن میں اہلِ مِصر کے اندر سخت اختلاف واقع ہوا ، ہر محلہ والے حصولِ برکت کے لئے اپنے ہی محلہ میں دفن کرنے پر مُصِر تھے ، آخر یہ رائےقرار پائی کہ آپ کو دریائے نیل میں دفن کیا جائے تاکہ پانی آپ کی قبر سے چھوتا ہوا گزرے اور اس کی برکت سے تمام اہلِ مِصر فیضیاب ہوں چنانچہ آپ کو سنگِ رخام یا سنگِ مرمر کے صندوق میں دریائے نیل کے اندر دفن کیا گیا اور آپ وہیں رہے یہانتک کہ چار سو برس کے بعد حضرت موسٰی علیہ الصلٰوۃ و السلام نے آپ کا تابوت شریف نکالا اور آپ کو آپ کے آبائے کرام کے پاس مُلکِ شام میں دفن کیا ۔

ذٰلِكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَیْبِ نُوْحِیْهِ اِلَیْكَۚ-وَ مَا كُنْتَ لَدَیْهِمْ اِذْ اَجْمَعُوْۤا اَمْرَهُمْ وَ هُمْ یَمْكُرُوْنَ(۱۰۲)

یہ کچھ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں اور تم ان کے پاس نہ تھے (ف۲۲۶) جب انہوں نے اپنا کام پکا کیا تھا اور وہ داؤں چل رہے تھے (ف۲۲۷)

(ف226)

یعنی برادرانِ یوسف علیہ السلام کے ۔

(ف227)

باوجود اس کے اے سیدِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کا ان تمام واقعات کو اس تفصیل سے بیان فرمانا غیبی خبر اور معجِزہ ہے ۔

وَ مَاۤ اَكْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ(۱۰۳)

اور اکثر آدمی تم کتنا ہی چاہو ایمان نہ لائیں گے

وَ مَا تَسْــٴَـلُهُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍؕ-اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۠(۱۰۴)

اور تم اس پر ان سے کچھ اجرت نہیں مانگتے یہ (ف۲۲۸) تو نہیں مگر سارے جہان کو نصیحت

(ف228)

قرآن شریف ۔