أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَـقَدۡ قَالَ لَهُمۡ هٰرُوۡنُ مِنۡ قَبۡلُ يٰقَوۡمِ اِنَّمَا فُتِنۡتُمۡ بِهٖ‌ۚ وَاِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحۡمٰنُ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ وَاَطِيۡعُوۡۤا اَمۡرِىْ‏ ۞

ترجمہ:

اور ہارون ان سے پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ اے میری قوم ! اس بچھڑے کی وجہ سے تم کو صرف آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور بیشک تمہارا رب رحمٰن ہی ہے، سو تم میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہارون ان سے پہلے ہی یہ کہہ چکے تھے کہ اے میری قوم اس بچھڑے کی وجہ سے تم کو صرف آزمائش میں ڈالا گیا ہے اور بیشک تمہارا رب رحمٰن ہی ہے سو تم میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو انہوں نے جواب دیا کہ موسیٰ کے واپس آنے تک ہم اسی کی عبادت پر جمے رہیں گے (طہ :90-91)

ان آیتوں کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی طور سے واپسی سے پہلے ہارون (علیہ السلام) نے بچھڑے کی پرستش کرنے والوں کو سر زنش کی اور ان کو سمجھایا کہ اس بچھڑے سے جو خلاف عادت آواز آرہی ہے یہ صرف تمہاری آزمائش ہے کہ تم اپنے ایمان اور عقیدہ توحید پر قائم رہتے ہو یا اس آواز سے دھوکا کھا کر اور سامری کے کہنے میں آ کر اس بچھڑے کو خدا بنا لیتے ہو۔ تمہارا رب یہ بچھڑا نہیں ہے رحمٰن ہے جس کا فضل اور اس کی رحمت، اس بچھڑے کو بنانے سے پہلے بھی ہر نیک اور بد پر عام تھی اور سب کو شامل تھی اور اس کے فنا ہونے کے بعد اس کی رحمت سب کو شامل رہے گی سو تم پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ میری اور سب کو شامل تھی اور اس کے فنا ہونے کے بعد اس کی رحمت سب کو شامل رہے گی سو تم پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ میری پیروی کرو اور میرے حکم کو مانو اور پوری لگن کے ساتھ صرف اللہ کی عبادت کرتے رہو وہی تم سے نقصان اور ضرور کو دور کرنے والا ہے اور تم کو خیر اور نفع پہنچانے والا ہے، یا تم میرے ساتھ حضرت موسیٰ کے پاس چلو اور اس بچھڑے کی عبادت چھوڑ دو ۔ انہوں نے کہا جب تک حضرت موسیٰ واپس نہیں آتے ہم اس بچھڑے کی پرستش پر ڈٹے رہیں گے۔ پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ بھی ہمارے ساتھ اس بچھڑے کی عبادت کرتے ہیں یا نہیں۔ ان کا یہ زعم تھا کہ حضرت موسیٰ بھی ان کے ساتھ بچھڑے کی عبادت کریں گے۔

بارہ ہزار بنی اسرائیل کو چھوڑ کر چھ لاکھ میں سے باقی بنی اسرائیل بچھڑے کی عبادت اختایر کرچکے تھے۔ حضرت ہارون (علیہ السلام) کا قوت سے ساتھ دینے والا کوئی تھا نہیں۔ اگر انہوں نے اس قتال اور جہاد کیا تو دوسرے اپنی رشت ہداری کی وجہ سے ان کا ساتھ دیں گے اور اس طرح بنی اسرائیل میں دو فرقے ہوجائیں گے جب کہ حضرت موسیٰ ، حضرت ہارون کو ان کے خلاف جہاد کرنے کا حکم دے کر نہیں گئے تھے۔ اس لئے حضرت ہارون ان سے علیحدہ ہوگئے اور بارہ ہزار ساتھیوں کے ساتھ رہے جو اس فتنہ سے محفوظ تھے اور انہوں نے بچھڑے کی عبادت نہیں کی تھی۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے متعلق احادیث 

حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو نیکی کا حکم دیا اور ان کو برائی سے روکا کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ نیکی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو اور برائی سے روکو اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کو یہ کہہ کر گئے تھے کہ :

(الاعراف :142) اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا میرے بعد میری قوم میں میر نیابت کرنا اور ان کی اصلاح کرتے رہنا اور فساد کرنے والوں کے راستہ کی پیروی نہ کرنا۔

نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے سلسلہ میں بہت احادیث ہیں :

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے مٹا دے اور اگر اس کی طاقت نہ رکھے تو زبان سے اس کو بدلنے کی کوشش کرے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھے تو دل سے اس کو برا جانے اور یہ سب سے کمزور درجہ کا ایمان ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :49)

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے تم ضرور نیکی کا علم دیتے رہنا اور تم ضرور برائی سیر وکتے رہنا ورنہ اللہ عنقریب تم پر اپنے پاس سے عذاب نازل فرمائے گا۔ پھر تم ضرور اللہ سے دعائیں کرو گے اور تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2169)

حضرت ابوبکر صدیق (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ کسی برائی کو دیکھیں اور اس کو نہ مٹائیں تو عنقریب اللہ ان سب پر عذاب نازل فرمائے گا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :4339، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4009)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل نے جبریل (علیہ السلام) کی طرف وحی کی کہ فلاں شہر اور اس میں رہنے والوں کو الٹ دو ۔ حضرت جبریل نے کہا اے رب ! اس میں تیرا فلاں بندہ ہے جس نے پلک جھپکنے میں بھی تیری نافرمانی نہیں کی۔ اللہ عزو جل نے فرمایا اس شہر کو اور شہر والوں پلٹ دو اس شخص کا چہرہ ایک ساعت کے لئے بھی میری نافرمانی سے متغیر نہیں ہوا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث :7575)

بے عمل عالم اور واعظ کے متعلق احادیث 

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایک شخص کو بلایا جائے گا اور اس کو آگ میں ڈال دیا جائے گا اس کی انتڑیاں بکھر جائیں گی وہ دوزخ میں اس طرح چکر کھائے گا جس طرح گدھا چکی کے چکر کاٹتا ہے۔ دوزخ والے اس کے گرد جمع ہو کر کہیں گے : اے فلاں شخص تجھے کیا ہوا ؟ کیا تو ہم کو نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور ہم کو برائی سے نہیں روکتا تھا ! وہ کہے گا ہاں ! میں تم کو نیکی کا حکم دیتا تھا اور خود نیک کام نہیں کرتا تھا اور میں تم کو برے کاموں سے منع کرتا تھا اور خود برے کام کرتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2267، صحیح مسلم رقم الحدیث :2989)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تم پر ہر اس شخص کا خطرہ ہے جو منافق عالم ہو، وہ حکمت کی بایں کرے گا اور گناہ کے کام کرے گا۔ (کنزالعمال رقم الحدیث :29044، اتحاف السادۃ المھرۃ رقم الحدیث :7963)

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اپنے بعد تم پر کسی یقین کرنے والے مومن سے خطرہ نہیں ہے اور نہ کسی ظاہر کافر سے خطرہ ہے۔ رہا یقین کرنے والا مومن تو اس کو اس کا ایمان روکے گا اور رہا ظاہر کافر تو اس کو اس کا کفر روکے گا، مجھے اپنے بعد اس شخص سے خطرہ ہے جس کی زبان عالم ہوگی اور اس کا دل جاہل ہوگا۔ وہ باتیں نیکی کرے گا اور عمل جاہلوں کے کرے گا۔ (المطالب العالیہ رقم الحدیث :2968، اتحاف السادۃ المھرۃ رقم الحدیث :7964)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس رات مجھے معراج کر ئی گئی میں نے کچھ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جا رہے تھے، میں نے پوچھا اے جبریل یہ کون لوگ ہیں کہا یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے تھے اور خود کو بھول جاتے تھے۔ ایک اور روایت ہے کہ یہ آپ کی امت کے وہ خطباء ہیں جو وہ کہتے تھے کرتے نہیں تھے اور اللہ کی کتاب پڑھتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے۔ (شرح السنتہ رقم الحدیث :4159، شعب الایمان رقم الحدیث :1773)

حضرت علی مظہر ہارون تھے اور تقیہ نہیں کرتے تھے 

شیعہ اور رواقض حضرت علی (رض) کی فضیلت میں اس حدیث کا ذکر کرتے ہیں :

ابراہیم بن سعد اپنے والدرضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) سے فرمایا کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسے ہو جیسے ہارون موسیٰ کے لئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3706، صحیح مسلم رقم الحدیث :3731، مسند احمد رقم الحدیث :11292، عالم الکتب السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث 8435)

پس معلوم ہوا کہ حضرت علی حضرت ہارن کی صفات کے مظہر تھے، جب کہ شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے تقیہ کیا اور خلفاء ثلاثہ کے ہاتھ پر تقیہ سے بیعت کی اور تقیہ سے ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھتے رہے اور صحیح قرآن مجید انہوں نے لکھا اور تقیہ کی وجہ سے اس کو چھپالیا اور تقیہ کی وجہ سے اپنی خلافت کا استحقاق ظاہر نہیں کیا۔ جب کہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کی صفات کا مظہر ہونے کی وجہ سے ان پر لازم تھا کہ وہ تقیہ نہ کرتے۔ کیونکہ حضرت ہارون (علیہ السلام) کے سامنے چھ لاکھ کے قریب بنی اسرائیل تھے جو بچھڑے کے پرستش کر رہے تھے اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی مخالفت کررہے تھے لیکن حضرت ہارون (علیہ السلام) نے تقیہ نہیں کیا اور یہ بانگ دہل ان کو بچھڑے کی پرستش سے روکا اور فرمایا اے میری قوم اس بچھڑے کی وجہ سے تم کو صرف آزمائش میں مبتلا کیا گیا ہے۔ بیشک تمہارا رب رحمان ہی ہے سو تم میری پیروی کرو اور میرا حکم مانو۔ سو اگر خلفاء ثلاثہ اور مسلمانوں کی جماعت خطا پر تھی تو حضرت علی پر الزم تھا کہ وہ منبر پر چڑھ کر حق کا اعلان کرتے اور واشگاف الفاظ میں اپنے خلیفہ بلا فصل ہونے کا اعلان کرتے اور خلفاء ثلاثہ کی اطاعت سے روکتے اور منع کرتے، سو اگر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت خطاء پر تھی تو حضرت علی (رض) پر واجب تھا کہ وہ اس طرح کرتے جس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کیا تھا اور بغیر خطاء پر تھی تو حضرت علی (رض) پر واجب تھا کہ وہ اس طرح کرتے جس طرح حضرت ہارون (علیہ السلام) نے کیا تھا اور بغیر تقیہ اور خوف کے یہ کہتے کہ میری اطاعت کرو اور میرا حکم مانو، اور جب حضرت علی نے ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ مسلمان خطا پر نہ تھی اور خلفاء ثلاثہ کی خلافت برحق تھی کیونکہ حضرت علی (رض) نے ان کی بیعت کی، ان کی اطاعت کی، ان کے احکام سنی اور مانے اور مسلسل ان سے تعاون کرتے رہے۔

ہم نے نیکی کا حکم دینے کے سلسلہ میں جو احادیث بیان کی ہیں ان میں یہ حدیث بھی ہے :

حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تم میں سے جس شخص نے کوئی برائی دیکھی تو وہ اپنے ہاتھ سے اس کا انکار کرے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ اپنی زبان سے اس کا انکار کرے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے وہ اس کو دل سے برا جانے اور یہ سب کمزور درجے کا ایمان ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2172، سنن ابودائود رقم الحدیث :1140، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1275، سنن النسائی رقم الحدیث :5024، مسند احمد ج ٣ ص 10)

اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ جو برائی کو اپنے ہاتھ سے بدلے وہ ایمان کے پہلے درجہ میں ہے اور جو اس کی طاقت نہ رکھے برائی کو صرل دس سے برا جانے اس کا ایمان سب سے کمزور ہے۔ شیعہ کہتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ کی خلافت باطل تھی لیکن حضرت علی نے تقیہ کیا اور اس کو صرف دل سے برا جانا لہٰذا وہ حضرت علی (رض) کے لئے سب سے کمزور درجہ کا ایمان ثابت کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ حضرت علی تقیہ نہیں کرتے تھے وہ برے کام کو اپنے ہاتھ اور اپنی طاقت سے مٹاتے تھے جیسا کہ انہوں نے خوارج سے قتال کیا سو ہم حضرت علی (رض) کے لئے ایمان کا پہلا درجہ ثابت کرتے ہیں اور شیعہ حضرت علی کے لئے ایمان کا تیسرا درجہ ثابت کرتے ہیں جو سب سے کمزور درجہ کا ایمان ہے اب باتئیں کہ حضرت علی (رض) کے محب وہ ہیں یا ہم ہیں۔

حضرت ہارون (علیہ السلام) کی تبلیغ کا بہترین طریقہ 

حضرت ہارون (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو بہترین طریقہ سے وعظ فرمایا تھا، کیونکہ انہوں نے س سے پہلے ان کو شرک اور کفر سے منع کیا اور فرمایا تم بچھڑے کی وجہ سے آزمائش میں مبتلا کئے گئے ہو۔ پھر دوسری بار ان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کی طرف دعوت دی اور فرمایا تمہارا رب تو صرف رحمٰن ہی ہے۔ پھر تیسری بار ان کو نبوت اور رسالت کی معرفت کی دعوت دی پس تم میری اتباع کرو، اور چوتھی مرتبہ احکام شرعیہ پر عمل کرنے کی دعوت دی اور فرمایا میرے احکام کی اطاعت کرو اور یہ بہت عمدہ ترتیب ہے۔ کیونکہ سب سے پہلے راستہ سے گندگی اور تکلیف دہ چیز دور کرنی چاہیے اور آخرت کے راستہ میں گندگی اور تکلیف دہ چیز توحید کے متعلق شکوک و شبہات ہیں سو پہلے حضرت ہارون نے ان کے شکوک زائل کئے اور فرمایا : گو سالہ کے منہ سے جو بیل کی سی آواز آرہی ہے اس سے تم دھوکا نہیں کھائو یہ تو صرف تمہاری آزمائش کے لئے ہے اور تمہارا امتحان ہے کہ تم عقیدہ توحید پر کتنے راسخ ہو۔ پھر ان کو اللہ تعالیٰ کی معرفت کرائی۔ پھر نبوت اور شریعت کی معرفت کرائی، اللہ تعالیٰ کے اوصاف میں سے خصوصیت کے ساتھ صفت رحمن کا ذکر کیا کیونکہ رحمٰن ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ وہ مومن اور کافر اور نیک اور بدسب پر رحم فرماتا ہے اور تمہارے بچھڑے کو معبود بنانے سے پہلے بھی اس نے تم پر رحم فرمایا تھا جب اس نے تم کو فرعون سے نجات دی تھی اور اگر تم نے توبہ کرلی تو بعد میں بھی وہی رحم فرمائے گا اور جب اول آخر تمہاری ضروریات کو پورا کرنے والا اور تم پر رحم فرمانے والا وہی ہے تو پھر یہ بچھڑا تمہاری عبادت کا مستحق کیسے ہوگیا ! سو یہ وہ عمدہ اور بہترین طریقہ ہے جس سے حضرت ہارون (علیہ السلام) نے بنو اسرائیل کو تبلیغ فرمائی تھی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 90