يَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَـهُ الرَّحۡمٰنُ وَرَضِىَ لَـهٗ قَوۡلًا ۞- سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 109
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَوۡمَئِذٍ لَّا تَنۡفَعُ الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنۡ اَذِنَ لَـهُ الرَّحۡمٰنُ وَرَضِىَ لَـهٗ قَوۡلًا ۞
ترجمہ:
اس دن اس کے سوا کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی جس کے لئے رحمٰن نے اجازت دی ہو اور جس کے قول سے وہ راضی ہو
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اس دن اس کے سوا کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی جس کے لئے رحمٰن نے اجازت دی ہو اور جس کے قول سے وہ راضی ہو۔ اس کو وہ سب معلوم ہے جو لوگوں کے آگے ہے اور لوگوں کے پیچھے ہے اور لوگ اس کے علم کا احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس ہمیشہ سے زندہ اور ہمیشہ قائم رہنے والے کے سامنے سب ذلت سے اطاعت کر رہے ہیں اور بیشک وہ شخص ناکام اور نامراد ہوگا جو ظلم کا بوجھ لاد کر لائے گا۔ اور جو شخص ایمان کی حالت میں نیک اعمال کے گا اسے نہ کسی ظلم کا خوف ہوگا اور نہ کسی نقصان کا۔ (طہ :109-112)
شفاعت کی تحقیق
علامہ زمخشری متوفی 538 ھ نے کہا ہے کہ اس آیت میں الشفاعتہ پر رفع علی البدلیت ہے اور مضاف مقدر ہے اور اس آیت کا معنی اس طرح ہے کہ کوئی شفاعت فائدہ نہیں پہنچائے گی مگر اس کی شفاعت جس کو رحمٰن نے اذن دیا ہو اور اس کے قول سے راضی ہو، خلاصہ یہ ہے کہ اس شخص کی شفاعت نفع دے گی جس کو رحمٰن نے شفاعت کی اجازت دی ہو اور وہ اس کے قول سے راضی بھی ہو۔ (الکشاف ج ٣ ص 89 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1417 ھ)
معتزلہ یہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص کو شفاعت فائدہ نہیں پہنچائے گی مگر اس شخص کو جس کے لئے اللہ تعالیٰ شفاعت کا اذن دے گا اور جس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوگا اور فاسق اور گناہ کبیرہ کے مرتکب سے اللہ راضی نہیں ہے اور اللہ اس کے لئے شفاعت کا اذن نہیں دے گا لہٰذا اس کو شفاعت فائدہ نہیں پہنچائے گی۔
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ فاسق اور مرتکب کبیرہ کی شفاعت کے ثبوت میں یہ آیت بہت قوی ہے کیونکہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ شفاعت اسی کو فائدہ دے گی جس کے کسی قول سے اللہ راضی ہو اور سج کے ایک قول سے بھی اللہ راضی ہو اس کو شفاعت فائدہ دے گی اور فاسق کے کم از کم اس قول سے اللہ راضی ہے لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء :28) وہ اسی کی شفاعت کرتے ہیں جس سے اللہ راضی ہ۔
اور جس سے اللہ راضی ہوگا اس کے لئے شفاعت کرنے کا اذن بھی دے گا۔ سو اس آیت سے واضح ہوگیا کہ فاسق اور گناہ کبیرہ کے مرتکب کے لئے اللہ تعالیٰ شفاعت کا اذن بھی دے گا اور وہ اس کے لئے شفاعت کرنے پر راضی بھی ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 101-102 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
ہم نے البقرہ :48 (تبیان القرآن ج ١ ص 410-415) کی تفسیر میں شفاعت میں مذاہب، شفاعت کے ثبوت میں قرآن مجید کی پچاس سے زیادہ آیات اور پندرہ حدیثیں ذکر کی ہیں۔ اس جگہ ہم تفصیل سے شفاعت پر بحث کرنا چاہتے ہیں ہم شفاعت کا لغوی اور اصطلاحی معنی بیان کریں گے۔ شفاعت میں مذاہب کا ذکر کریں گے۔ شفاعت کے ثبوت میں قرآن مجید کی آیات پیش کریں گے اور شفاعت کے ثبوت میں تفصیل سے احادیث کا ذکر کریں گے، قنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستغانہ یلیق
شفاعت کا لغوی معنی
امام خلیل بن احمد الفراھیدی المتوفی 175 ھ لکھتے ہیں :
شفاعت کا لفظ شفع سے بنا ہے شفع کا معنی ہے جفت، کہا جاتا ہے کہ فلاں چیز طاق تھی میں نے اس کے ساتھ دوسری چیز ملا کر اس کو جفت کردیا۔ قرآن مجید میں ہے والشفع والوتر (الفجر : ٣) اور قسم ہے جفت اور طاق کی۔ الشفع یوم اضحیٰ کو کہتے ہیں الوتر یوم عرفہ کو کہتے ہیں۔ میں نے فلاں کی شفاعت طلب کی۔ اس نے میری اس کی طرف شفاعت کی۔ اس کا اسم شفاعت ہے اور شفاعت کرنے والے کو شافع اور شفیع کہتے ہیں۔ (کتاب العین ج ٢ ص 927-928 مطبوعہ تیزھوش قم، ایران، 1414 ھ)
امام ابوالحسن علی بن اسماعیل بن سیدہ المتوفی 458 ھ لکھتے ہیں :
کسی فرد عدد کو زوج بنانا شفع ہے شفع کا معنی ہے طلب کیا یا حاجت پوری کی۔ (المحکم و المحیط الاعظم ج ۃ ص 379، مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت، 1421 ھ)
علامہ جمال الدین محمد بن مکرم افریقی مصری متوفی 711 ھ لکھتے ہیں :
کسی دوسرے کی حاجت پوری کرنے کے لئے بادشاہ سے کلام کرنا شفاعت ہے، شفع الیہ کا معنی ہے اس سے طلب کیا، الشافع اس شخص کو کہتے ہیں جو دوسرے کے لئے کسی چیز کو طلب کرے۔ استشفع تہ الی فلان کا معنی ہے میں نے اس سے یہ سوال کیا کہ وہ فلاں شخص سے میری شفاعت کرے اور حدود کی حدیث میں ہے جب حد سلطان کے پاس پہنچ جائے تو شفاعت کرنے والے اور جس کی شفاعت کی گئی ہو ان پر اللہ کی لعنت ہو۔ (لسان العرب ج ٨ ص 184 مطبوعہ نشر ادب الحوذۃ ایران، 1405 ھ)
میں کہتا ہوں اصل میں حدیث اس طرح ہے :
عروہ بن النزبیر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت زبیر سے ایک چور ملا، ان سے کہا گیا کہ جب ہم اس کو امام کے پاس پہنچا دیں تو پھر آپ اس کی شفاعت کریں، انہوں نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب (مجرم) امام کے پاس پہنچ جائے پھر شفاعت کرنے والے پر اور جس کی شفاعت کی گئی ہے۔ اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ (لامعجم الصغیر رقم الحدیث :158، المعجم الاوسط رقم الحدیث :2305، مطبوعہ ریاض، مجمع الزوائد ج ٦ ص 259)
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :
شفع کا معنی ہے ایک چیز کو اس کی مثل کی طرف ملانا، کہا جاتا ہے کہ تمام مخلوقات شفع ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر چیز سے زوج (جوڑے) پیدا کئے ہیں، ومن کل شی خلقنا زوجین (الذاریات :49) اور اللہ تعالیٰ وتر ہے کیونکہ وہ ہر جہت سے واحد ہے اور تمام اولاد آدم شفع ہیں اور حضرت آدم وتر ہیں اور شفاعت کا معنی ہے ایک شخص کا دور سے کے ساتھ ملنا، بایں طور کہ وہ اس کا ناصر ہو اور اس کے متعلق سائل ہو، اس کا اکثر استعمال اس صورت میں ہوتا ہے کہ کم رتبہ اور کم حیثیت والا شخص زیادہ مرتبہ اور زیادہ حیثیت والے شخص سے سوال کرے اور مدد کرنے کے لئے کہے۔ قیامت میں جو شفاعت ہوگی وہ بھی اسی معنی میں ہے، قرآن مجید میں شفاعت کے متعلق حسب ذیل آیات ہیں :
لایملیکون الشفا عۃ الامن اتخذ عند الرحمٰن عھداً (مریم :87) ان کے سوا کسی کو شفاعت کرنے کا اختیار نہیں ہوگا مگر جنہوں نے اللہ سے کوئی عہد لے رکھا ہے۔
یومئذ لاتنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمٰن و رضی لہ قولاً (طہ :109) اس دن اس کے سوا کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی جس کو رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس کی بات سے وہ راضی ہو۔
ولا یشفعون الا لمن ارتضی (الانبیاء :28) اور وہ صرف اسی کی شفاعت کریں گے جس سے وہ راضی ہے۔
فساتنفعھم شفاعۃ الشافعین (المدثر :48) سو ان (مجرموں) کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ پہنچائے گی۔
ولا یملک الذین یدعون من دونہ الشفاعۃ (الزخروف 86) اور جن کی یہ لوگ اللہ کے سوا عبادت کرتے ہیں وہ شفاعت کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
مامن شفیع الا من بعداذنہ (یونس ٣) اس کی اجازت کے بغیر کوئی اس کے پاس شفاعت کنے والا نہیں۔
یعنی اللہ واحد تمام امور کی تدبیر فرماتا ہے اور کسی چیز کے فیصلہ میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے، ہاں اگر وہ تدبیر اور تقسیم کرنے والے فرشتوں کو اجازت دے تو وہ اس کی اجازت کے بعد کرتے ہیں جو کچھ وہ کرتے ہیں۔
اور الشفعتہ کا معنی یہ ہے کہ ایک شخص کسی مکان یا زمین کو فروخت کر رہا ہو تو اس کا شریک یا اس کا پڑوسی اس مکان یا زمین کو اپنے کان یا زمین کے ساتھ ملائے اور اس سے کہے کہ تم کسی اور کو فروخت کرنے بجائے مجھے فروخت کرو۔ ہر وہ مال جو تقسیم نہیں کیا گیا اس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفعہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :2213، سنن ابودائود رقم الحدیث :3514) (المفردات ج ١ ص 346-347 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفی، 1418 ھ)
شفاعت کا اصلاحی معنی
علامہ مجد الدین المبارزک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
دنیا اور آخرت سے متعلق امور میں شفاعت کا ذکر احادیث میں بار بار آیا ہے اور شفاعت کی تعریف یہ ہے کہ گناہوں اور بندوں کے آپس کے جرائم کے بارے میں تجاوز اور درگزر کرنے کا سوال کرنا۔ (النہایہ ج ٢ ص 434، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ) جس شخص کا جرم کیا ہے اس سے اس جرم کے معاف کرنے کا سوال کرنا شفاعت ہے۔ (التعریفات ص 92 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1418 ھ)
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :
شفاعت کی تعریف یہ ہے : کسی دوسرے کے لئے گڑ گڑا کر اس دوسرے سے ضرر کو ترک کرنے یا اس کے لئے فعل خیز کرنے کا سوال کرنا۔ مبردا اور ثعلث نے کہا ہے کہ شفاعت دعا ہے اور دور سے کی حاجت پوری کرنے کے لئے شفع کا بادشاہ سے کلام کرنا شفاعت ہے اور الجامع میں مذکور ہے شفیع کے ذریعے جزم کی معانی طلب کرنا شفاعت ہی اور جب کوئی شخص تم سے وسیلہ پکڑے اور تم اس کی شفاعت کرو تم اس کے لئے شفاع اور شفیع ہو، حضرت جابر بن عبداللہ (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو لوگ دوزخ کے مستحق ہوچکے تھے ان کو دوزخ میں داخل نہ کرنے کی شفاعت مراد ہے، چھٹا قول یہ ہے بعض مسلمانوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کرنے کی شفاعت مراد ہے اور یہ شفاعت بھی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مخصوص ہے۔ (عمدۃ القاری جز ٤ ص 10، مطبوعہ ادارۃ الطباعتہ المنیر یہ مصر، 1348 ھ)
علامہ محمد طاہر پٹنی گجراتی متوفی 986 ھ لکھتے ہیں :
ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنت میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والے ہیں۔ علامہ طبی نے اس کی شرح میں کہا یعنی گنہگاروں کو جنت میں داخل کرنے کے لئے یا جنت میں بلند درجات کے لئے، علامہ نووی نے کہا آپ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور یہی مقام محمود ہے یعنی اہل محشر کو خوف اور گھبراہٹ سے راحت پہنچانے کے لئے آپ کو شفاعت کی اجازت دی جائے گی اور حساب کو جلد شروع کرنے کے لئے، اس شفاعت کا معتزلہ انکار نہیں کرتے اور نہ وہ بلند درجات کے لئے شفاعت کا انکار کرتے ہیں۔ پھر آپ کی امت میں شفاعت شروع ہوگی اور انبیاء اور ملائکہ صراط پر شفاعت کریں گے، پھر دوزخ میں داخل ہونے والے گنہ گاروں کی شفاعت کریں گے اور ابو طالب کی حدیث میں ہے اس کو میری شفاعت نفع پہنچائے گی یعنی اس کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی کیونکہ اس نے نیک عمل کئے تھے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا دفاع کیا تھا اور آپ کی حفاظت کی تھی اور آپ کی حمایت کی تھی، جیسا کہ پیر کی رات کو ابولہب کے عذاب میں تخفیف کی جائے گی کیونکہ جب اس کی باندی ثوبیہ نے اس کو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ولادت کی بشارت دی تھی تو ابولہب نے اس کو آزاد کردیا تھا اور جو علماء کافر کے عذاب میں تخفیف کا انکار کرتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اس کو آپ کی صحبت سے یہ نفع پہنچا کہ وہ بہت سارے گناہوں سے بچ گیا نیز حدیث میں ہے جو شخص مدینہ کے مصائب کے باوجود مدینہ میں ثابت قدم رہے گا میں اس کی شفاعت کروں گا۔ یہ شفاعت درجات کی بلندی کے عالوہ ہے اور یہ بھی فرمایا یا میں ان کی شہادت دوں گا یعنی بعض کی شفاعت فرمائیں گے اور بعض کی شہادت دیں گے یا گنہ گاروں کی شفاعت فرمائیں گے اور نیکو کاروں کی شہادت دیں گے، یا جو آپ کے بعد فوت ہوئے ان کی شفاعت کریں گے اور جو آپ کی حیات مبارکہ میں فوتہ وئے ان کی شہادت دیں گے۔ (مجمع بحار الانوارج ٣ ص 236-237 مطبوعہ مکتبتہ دارالایمان المدینہ المنورہ، 1415 ھ)
شفاعت کے متعقل معتزلہ کا نظریہ
مشہور معتزلی عالم محمود بن عمرزمخشری الخوارزمی متوفی 538 ھ البقرہ :48 کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اگر تم یہ پوچھو کہ آیا اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ گنہ گاروں کے لئے شفاعت کو قبول نہیں کیا جائے گا ؟ تو میں کہوں گا کہ ہاں ! کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے لایقبل منھا شفاعۃ (البقرہ :48) اور کسی کی طرف سے کوئی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی، کیونکہ جس شخص نے بھی کسی فعل یا ترک میں کوئی تقصیر کی ہو تو کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے کسی قسم کی کوئی تلافی نہیں کرسکتا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اس کی شفاعت کے قبول کرنے کی نفی کی اس سے معلوم ہوا کہ گنہگار مسلمانوں کے لئے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔ (الکشاف ج ١ ص 165، مطبوعہ داراحیائا لتراث العربی بیروت، 1417 ھ) جس آیت سے علامہ زمخشری نے استدلال کیا ہے وہ بنی اسرایئل کے کافروں کے ساتھ مخصوص ہے۔
شفاعت کے متعلق شیخ ابن تیمیہ کا نظریہ
شیخ تقی الدین حمد بن تیمیہ الحرانی المتوفی 728 لکھت یہیں :
تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قیامت کے دن تمام مخلوق کی شفاعت کریں گے، جب لوگ آپ سے اس کا سوال کریں گے تو اللہ تعالیٰ سے شفاعت کا اذن حاصل کرنے کے بعد آپ شفاعت کریں گے۔ پھر اہل سنت و جماعت اس پر متفق ہیں، جس پر صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین متفق تھے اور اسی کے موافق احادیث مشہعور ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے کبیرہ گناہ کرنے والے مسلمانوں کے لئے شفاعت کریں گے اور عام مخلوق کے لئے بھی شفاعت کریں گے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی کئی ایسی شفاعتیں ہیں جو آپ کے ساتھ مخصوص ہیں اور جن میں آپ کا کوئی شریک نہیں ہے اور کئی ایسی شفاعات ہیں جن میں در سے انبیاء اور صالحین بھی آپ کے شریک ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افضل الخلق ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے اکرم ہیں، ان خصوصی شفاعات میں سے ایک مقام محمود ہے جس پر تمام اولین اور آخرین رشک کریں گے اور شفاعت کی احادیث بہ کثرت ہیں اور متواتر ہیں، صحیحین، سنن اور مسانید میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور خوارج اور معتزلہ کا یہ زعم ہے کہ شفاعت صرف مومنین کے درجات بلند کرنے کے لئے ہوگی اور ان میں سے بعض نے مطلقاً شفاعت کا انکار کیا ہے۔ (مجموعتہ الفتاویٰ ج ١ 219، مطبوعہ دارالجیل، 1418 ھ)
شفاعت کے متعلق غیر مقلدین کا نظریہ
مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خاں بھوپالی متوفی 1307 ھ طہ :109 کی تفسیر میں لکھتے ہیں
اس آیت کا معنی یہ ہے شفاعت صرف اس شخص کو نفع دے گی جس کی شفاعت کرنے کے لئے رحمٰن نے اذن دیا ہو اور اس کے قول سے وہ راضی ہو، اس قسم کی اور آیات بھی ہیں اور ان میں یہ دلیل ہے کہ کوئی شخص کسی کے لئے اس وقت تک شفاعت نہیں کرسکتا جب تک اللہ اس کی جازت نہ دے اور یہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ مومنین کے سوا اور کسی کے لئے شفاعت نہیں ہے اور یہ آیت فاسقوں کے حق میں شفاعت کے ثبوت پر قوی ترین دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ورضی لہ قولا اللہ اس کے قول سے راضی ہو اور اس کے صدق کے لئے یہ کافی ہے کہ اللہ اس کے اقوال میں سے کسی ایک قول سے راضی ہوجائے اور فاسق جب لا الہ الا اللہ کی شہادت دیتا ہے تو اللہ اس کے اس قول سے راضی ہے پس واجب ہے کہ اذن کے بعد اس کے لئے شفاعت نفع دینے والی ہو۔ (فتح البیان ج ر ص 373، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)
شفاعت کے متعلق شیعہ کا نظریہ
شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی متوفی 460 ھ لکھتے ہیں :
البقرہ :48 میں ہے کسی نفس کے لئے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی ہمارے نزدیک یہ آیت کفار کے ساتھ مخصوص بنے کیونکہ ہمارے نزدیک شفاعت کی حقیقت یہ ہے کہ اس سے ضرر ساقط کیا جائے بجائے اس کے کہ اس کے منافع زیادہ کئے جائیں اور ہمارے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مومنین کے لئے شفاعت کریں گے اور جو مسلمان عذاب کے متعلق ہوں گے ان کی شفاعت کر کے ان سے عذاب کو ساقط کریں گے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں نے گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے لئے اپنی شفاعت کو ذخیرہ کر رکھا ہے۔ (التبیان تفسیر القرآن ج ١ ص 213، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
شیخ ابوالفضل بن الحسن الطبرسی لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کسی نفس کے لئے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی مفسرین نے کہا ہے کہ یہ حکم یہود کے ساتھ مخصوص ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ اگرچہ اس کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ ہمارے نزدیک اس کی کیفیت عذاب کو ساقط کرنے کے ساتھ مخصوص ہے یعنی ان مومنین سے جو عذاب کے مستحق ہیں، معتزلہ نے کہا شفاعت اطاعت گزاروں اور توبہ کرنے والوں کو زیادہ ثواب پہنچانے کے لئے کی جاتی ہے۔ گنہ گاروں کے لئے شفاعت نہیں کی جاتی اور ہمارے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کے اصحاب، ائمہ اہل بیت اور نیک مسلمانوں کی گنہگار مسلمانوں کے لئے شفاعت ثابت ہے اور ان کی شفاعت سے بہت خطا کاروں کو اللہ تعالیٰ نجات دے گا اور اس کی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس کو تمام امت نے قبول کرلیا کہ میں نے اپنی شفاعت کو کبیرہ گناہ کرنے والوں کے لئے محفوظ رکھا ہے اور ہمارے اصحاب نے یہ حدیث روایت کی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ میں شفاعت کروں گا سو میری شفاعت قبول کی جائے گی اور علی شفاعت کریں گے سو ان کی شفاعت قبول کی جائے گی اور اہل بیت شفاعت کریں گے سو ان کی شفاعت قبول کی جائے گی اور مومنین میں سے ادنیٰ شخص اپنے ایسے چلایس بھائیوں کی شفاعت کرے گا جن پر دوزخ واجب ہوچ کی ہوگی۔ (مجمع البیان ج ١ ص 223-224 مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت 1406 ھ)
شیخ محمد بن عبدالوہاب کا شفاعت کے متعلق نظریہ
شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی متوفی 1206 ھ لکھتے ہیں :
تم کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ ان کا توحید ربوبیت کا اقرار کرنا انک واسلام میں داخل نہیں کرتا اور وہ جو ملائکہ اور انبیاء کا قصد کرتے ہیں اور ان کی شفاعت کا ارادہ کرتے ہیں اور اس سے اللہ کا تقرب چاہتے ہیں یہی وہ چیز ہے جس نے ان کی جانوں اور مالوں کو حلال کردیا ہے اور اب تم نے اس توحید کو جان لیا ہوگا جس کی رسولوں نے دعوت دی ہے، خواہ اس کا انکار کرنے سے مشرکوں نے انکار کیا ہو۔ (کشف الشبہات ص ٩ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ مدینہ منورہ، 1389 ھ)
اس جارحانہ عبارت کا باطل ہونا کسی دلیل اور تبصرہ کا محتاج نہیں ہے۔
شفاعت کے متعقل شیخ اسماعیل دہلوی کا نظریہ
شیخ اسماعیل دہلوی متوفی 1246 ھ لکھتے ہیں :
پھر بات الٹنے کا تو کیا ذکر اور کسی کی وکالت اور حمایت کرنے کی کیا طاقت اس جگہ ایک بات بڑے کام کی ہے اس کو کان رکھ کر سن لینا چاہیے کہ اگر لوگ انبیاء اولیاء کی شفاعت پر پھول رہے ہیں اور اس کے معنی غلط سمجھ کر اللہ کو بھول گئے ہیں سو شفاعت کی حقیقت سمجھ لینا چاہیے۔ سو سننا چاہیے کہ شفاعت کہتے ہیں سفارش کو اور دنیا میں سفارش کئی طرح کی ہوتی ہے جیسے ظاہر کے بادشاہ کے یہاں کسی شخص کی چوری ثابت ہوجاوے اور کوئی امیر وزیر اس کو اپنی سفارش سے بچا لیوے تو ایک توبہ صورت ہے کہ بادشاہ کا جی تو اس چور کو پکڑنے ہی کو چاہتا ہے اور اس کے آئین کے موافق اس کو سزا پہنچتی ہے مگر اس امیر سے دب کر اس کی سفارش مان لیتا ہے اور اس چور کی تقصیر معاف کردیتا ہے کیونکہ وہ امیر اس سلطنت کا بڑا رکن ہے اور اس کی بادشاہت کو بڑی رونق دے رہا ہے سو بادشاہ یہ سمجھ رہا ہے کہ ایک جگہ اپنے غصہ کو تھام لینا اور ایک چور سے درگزر جانا بہتر ہے اس سے کہ اتنے بڑے امیر کو ناخوش کردیجیے کہ بڑے بڑے کام خراب ہوجائیں اور سلطنت کی رونق گھٹ جائے اس کو شفاعت وجاہت کہتے ہیں یعنی اس امیر کی وجاہت کے سبب سے اس کی سفارش قبول کی، سو اس قسم کی سفارش اللہ کی جناب میں ہرگز ہرگز نہیں ہوسکتی اور جو کوئی کسی نبی و ولی کو یا امام و شہید کو یا کسے فرشتے کو یا کسی پیر کو اللہ کی جناب میں اس قسم کا شفیع سمجھے سو وہ اصل مشرک ہے اور بڑا جاہل ہے کہ اس نے خدا کے معنی کچھ بھی نہیں سمجھے اور اس مالک الملک کی قدر کچھ بھی نہ پہچانی، اس شہنشاہ کی تو یہ شان ہے کہ ایک آن میں ایک حکم کن سے چاہے تو کروڑوں نبی اور ولی اور جن و فرشتہ جبرئیل اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے برابر پیدا کر ڈالے اور ایک دم میں سارا عالم عرش تک الٹ پلٹ کر ڈالے اور ایک اور ہی عالم اس جگہ قائم کرے کہ اس کے تو محض ارادے ہی سے ہر چیز ہوجاتی ہے کسی کام کے واسطے کچھ اسباب اور سامان جمع کرنے کی حاجت نہیں اور جو سب لوگ پہلے اور پچھلے اور آدمی اور جن بھی سب مل کر جبرئیل اور پیغمبر ہی سے ہوجاویں تو اس مالک الملک کی سلطنت میں ان کے سبب سے کچھ رونق بڑھ نہ جائے گی اور جو سب شیطان اور دجال ہی سے ہوجاویں تو اس کی کچھ رونق گھنٹے کی نہیں وہ ہر صورت سے بڑوں کا بڑا ہے اور بادشاہوں کا بادشاہ اس کا نہ کوئی کچھ بگاڑ سکے نہ کچھ سنوار سکے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی بادشاہ زادوں میں سے یا بیگماتوں میں سے یا کوئی بادشاہ کا معشوق اس کا چور کا سفارشی ہو کر کھڑا ہوجاوے اور چوری کی سزا نہ دینے دیوے اور بادشاہ اس کی محبت سے لاچار ہو کر اس چور کی تقصیر معاف کر دے تو اس کو شفاعت محبت کہتے ہیں یعنی بادشاہ نے محبت کے سبب سے سفارش قبول کرلی اور یہ بات سمجھی کہ ایک بار غصہ پی جانا اور ایک چور کو معاف کردینا بہت رہے اس رنج سے کہ جو اس محبوب کے روٹھ جانے سے مجھ کو ہوگا اس قسم کی شفاعت بھی اس دربار میں کسی طرح ممکن نہیں اور جو کوئی کسی کو اس جناب میں اس قسم کا شفیع سمھے وہ بھی ویسا ہی مشرک ہے اور اہل جیسا کہ مذکور اول ہوچکا وہ مالک الملک اپنے بندوں کو بہترا ہی نوازے اور کسی کو حبیب کا اور کسی کو خلیل اور کسی کو کلیم کا اور کسی کو روح اللہ وجیہہ کا خطاب بخشے اور کسی کو رسول کریم اور مکین اور روح القدس اور روح الامین فرما دے مگر پھر مالک مالک ہے اور غلام غلام کوئی بندگی کے رتبے سے قدم باہر نہیں رکھ سکتا اور غلامی کی حد سے زیادہ بڑھ نہیں سکتا جیسا اس کی رحمت سے ہر دم خوشی سے جھکنا ہے ویسا ہی اس کی ہیبت سے رات دن زہرہ پھٹتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ چور پر چوری ثابت ہوگئی مگر وہ ہمیشہ کا چور نہیں اور چوری کو اس نے کچھ اپنا پیشہ نہیں ٹھہرایا مگر نفس کی شامت سے قصور ہوگیا اس پر شرمندہ ہے اور رات دن ڈرتا ہے اور بادشاہ کی آئین کو سرو آنکھوں پر رکھ کر اپنے تئیں تقصیر دار سمجھتا ہے اور لائق سزا کے جانتا ہے اور بادشاہ سے بھاگ کر کسی امیر و وزیر کی پناہ نہیں ڈھونڈھتا اور اس کے مقابلہ میں کسی کی حمایت نہیں جتاتا اور رات دن اسی کا منہ دیکھ رہا ہے کہ دیکھیے میرے حق میں کیا حکم فرماوے سو اس کا یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے دل میں اس پر ترس آتا ہے مگر آئین بادشاہت کا خیال کر کے بےسبب درگزر نہیں کرتا کہ کہیں لوگوں کے دلوں میں اس آئین کی قدر گھٹ نہ جاوے سو کوئی امیر وزیر اس کی مرضی پا کر اس تقصیر دار کی سفارش کرتا ہے اور بادشاہ اس امیر کی عزت بڑھانے کو ظاہر میں اس کی سفارش کا نام کر کے اس چور کی تقصیر معاف کردیتا ہے سو اس امیر نے اس چور کی سفارش اس لئے نہیں کی کہ اس کا قرابتی ہے یا آشنا یا اس کی حمایت اس نے اٹھائی بلکہ محض بادشاہ کی مرضی سمجھ کر کیونکہ وہ تو بادشاہ کا امیر ہے نہ چوروں کا، جو چور کا حمایتی بن کر اس کی سفارش کرتا ہے تو آپ بھی چور ہوجاتا ہے اس کو شفاعت بالاذن کہتے ہیں یعنی یہ سفارش خود مالک کی پروانگی سے ہوتی ہے سو اللہ کی جناب میں ایسی قسم کی شفاعت ہوسکتی ہے اور جس نبی و ولی کی شفاعت کا قرآن و حدیث میں مذکور ہے سو اس کے معنی یہی ہیں۔ (تقویت الایمان کال ص 21-22 مطبوعہ مطبع علیمی لاہور)
شفاعت بالوجاہت کا صحیح معنی
علمہ فضل حق خیر آبادی متوفی 1861 ھ لکھتے ہیں :
جس کے پاس سفارش کی گئی ہے اس نے سفارش کرنے والے کو اپنی بارگاہ میں قرب عطا کیا ہے اور اپنے متعلقین میں اسے عزت و امتیاز بخشا ہے ان عزتوں میں سے ایک یہ ہے کہ دیگر ماتحت افراد کے مراتب کی بلندی اور گناہگاروں کی معافی کے لئے اسے بات کرنے کی اجازت ہے، اس کی عرض قبول کی جاتی ہے اور اس کی سفارش مانی جاتی ہے اگر اس معزز شخصیت کی عرض اور سفارش کو نہ مانا جائے تو اس کے رنجیدہ ہونے سے اس شخص کو (جس کی بارگاہ میں سفارش کی گئی ہے) کوئی رنج یا نقصان نہیں پہنچے گا لیکن اس کی عرض کو نہ ماننا اور اس کی بات کو اہمیت نہ دینا اس عزت افزائی اور بندہ نوازی کے خلاف ہے جو اس شخص کو دی گئی ہے، یہ شفاعت وجاہت ہے۔ اس میں یہ شرط نہیں ہے کہ جس کے پاس سفارش کی گئی ہے، اسے شفاعت کرنے والے کی ناخوشی سے خطرہ ہو اور سفارش قبول نہ کرنے کی صورت میں نقصان کا خوف ہو کیونکہ شفاعت کا معنی سفارش ہے اور وجاہت کے معنی لحاظ اور عزت ہے، کسی لفظ سے ڈر اور فکر نہیں سمجھا جاتا ہے۔
بایں ہمہ ہر شخص جانتا ہے کہ شفاعت اور سینہ زوری الگ الگ ہیں۔ سفارش میں سینہ زوری نہیں ہوتی، اگر کوئی شخص کسی کی بات نقصان یا ضرر کے ڈر سے مانتا ہے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس نے سفارش مان لی، یہ سفارش کا ماننا نہیں بلکہ اسے نقصان اور ضرر کو دور کرنا ہے، اسے اطاعت کہا جاسکتا ہے کیونکہ نافرمانی کی صورت میں نقصان کا خوف ہوتا ہے، سفارش قبول کرنے میں کوئی خوف شامل نہیں ہوتا مثلاً ایک صاحب اقتدار بادشاہ اپنے ہم نشینوں میں سے کسی کو اتنا مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے کہ اسے حاجت مندوں کی حاجتیں پیش کرنے اور مجرموں کے لئے معافی چاہیے کی اجازت ہے، اسے دوسروں کی نسبت یہ خصوصیت حاصل ہے وہ شخص بادشاہ سے کسی ایسے گناہ کے بخشنے کی درخواست کرتا ہے جسے بخش دینا بادشاہ سے بعیدن ہیں ہے، بادشاہ اس کے جاہ و منزلت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ گناہ معاف کردیتا ہے اور اس مقرب کی سفارش قبول کر کے اس کی عزت افزائی کرتا ہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ بادشاہ نے اپنے کارخانہ سلطنت میں خلل کے خوف سے سفارش قبول کی ہے، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ بادشاہ نے اپنے مقرب ترین خادم کے مقام کی رعایت اور اس کی دلداری کے لئے اس کی سفارش قبول کی ہے اور مجرموں کے گناہ معاف کردیئے ہیں اور اگر کوئی شخص برائے نام بادشاہ ہو اور امور مملکت کے بست و کشاد اور قوانین سلطنت کے نفاذ کی صلاحیت معاف کردیئے ہیں اور اگر کوئی شخص برائے نام بادشاہ ہو اور امور مملکت کے بست و کشاد اور قوانین سلطنت کے نفاذ کی صلاحیت نہ رکھتا ہو، دوسرے لوگ حکومت کے تمام شعبوں پر مسلط ہوں، ملک کے بست و کشاد اور نظم و ضبط پر مکمل اختیار رکھتے ہوں۔ ان ارباب اقتدار میں سے کوئی شخص برائے نام بادشاہ سے کسی جرم کی معافی کا مطالبہ کرتا ہے اور بادشاہ اس خوف سے کہ اگر اس کے کہنے پر عمل نہ کیا تو اس سے ضرر پہنچے گا یعنی ظاہری حکومت بھی جاتی رہے گی، اس کے کہنے پر عمل کرتا ہے اور مجرم کا گناہ معاف کردیتا ہے تو نہیں کہا جاسکتا کہ بادشاہ نے اس کی شفاعت قبول کرلی ہے بلکہ بادشاہ فی الواقع ان لوگوں کا تابع اور پابند ہے اور انکی بات ماننے پر مجبور ہے۔ اسی فرمانبرداری اور طاعت تو کہا جاسکتا ہے قبول شفاعت نہیں کہا جاسکتا۔ اس تقریر سے واضح ہوگیا کہ وجاہت و عزت، خوف اور اندیشہ کے بغیر بول شفاعت کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ تو ہوئی عقلی دلیل اب سنئے نقلی دلیل۔ اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی شان میں فرماتا ہے اور دنیا و آخرت کی وجاہت سے ان کی تعریف فرماتا ہے :
وجیھا فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین۔ (آل عمران :45) دنیا اور آخرت میں وجاہت (عزت) والے اور مقربین میں سے ہیں۔ مفسرین اخروی وجاہت کو شفاعت پر محمول فرماتے ہیں۔ علامہ یضاوی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں :
الوجاھۃ فی الدین النبوۃ وفی الاخرۃ الشفاعۃ یعنی وجاہت دنیا میں نبوت ہے اور آخرت میں شفاعت۔ (تفسیر بیضاوی مع عنایت القاضی ج ٣ ص 51 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)
(٢) شفاعت محبت
جس کے پاس سفارش کی گئی ہے اسے سفاشری سے محبت ہو، محبت کا تقاضایہ ہے کہ محبوب کی رضا جوئی اور ہر طرح اس کے دل کو خوش کرنا منظور ہوتا ہے۔ دل شکنی اور رنج کے اسباب اس سے دور رکھے جاتے ہیں کیونکہ محب، محبوب کی دل شکنی بلکہ دوست دوستوں کا دل دکھانے کے روادار نہیں ہوتے۔ اہل محبت محبوبوں کی دل آزاری گوارا نہیں کرتے، ان کی فرمائش قبول کرتے ہیں اور ان کی سفارش قبول کرتے ہیں اور اکثر ان کی سفارش قبول کرنے میں یہ امر محلوظ نہیں ہوتا کہ اگر ان کی سفارش قبول نہ کی گئی تو غیظ و غضب میں آ کر ان کو رنجیدہ کرسکتے ہیں یا غصہ میں آ کر ان کے دلوں کو صدمہ پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ دلداری، محبت کا تقاضا ہے اور محبوب کی بات مان لینا اس صفت کو لازم ہے۔ یہ حال اس شخص سے پوچھا جاسکتا ہے جو محبت رکھتا ہو یہ حقیقت عقلاً اور نقلاً ثابت ہے۔
عقلی ثبوت تو بیان ہوچکا۔ نقلی ثبوت ملا حظہ ہو، حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں :
کم اشعت اغبر ذی طمرین لایوبہ لہ لواقسم علی اللہ لابرہ۔ بہت سے گرد آلودہ بالوں والے، خاکسار، جن کے پاس دو پرانی چادروں کے علاوہ کچھ نہ ہو اور جنہیں کوئی اہمیت نہ دی جاتی ہو ایسے ہوتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے حق میں قسم کھائیں تو اللہ تعالیٰ ان کی قسم پور کر دے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3854، مسند احمد ج ٣ ص 145، مسند ابویعلی رقم الحدیث :3987 المستدر ج ٣ ص 391)
یعنی اللہ تعالیٰ ان کی دلداری کرے گا اور جس بات کی انہوں نے قسم کھائی ہے اسے پورا کر دے گا اور ان کی خواہش رو نہیں فرمائے گا۔
غور کیجیے ! یہ تمام تقاضائے محبت ہے ورنہ یہ خاکسار اللہ تعالیٰ کو کونسا رنج یا نقصان پہنچ است کے ہیں ؟
ہاں بارگاہ ایزوی کے محبوبوں کی شان وہ ہے جو حدیث قدس میں وارد ہوئی ہے :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” جب میں اس بندے کو محبوب بنا لیتا ہوں تو اس کا کان ہوتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ ہوتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ ہوتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پائوں ہوتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے (اور ایک روایت میں ہے) اس کی زبان ہوتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے (یعنی ان کے اعضاء میری قدرت کے مظہر اور میری رضا کے پابند ہوتے ہیں) اور اگر وہ بندہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ طلب کرے تو میں اس کو ضرور پناہ دیتا ہوں اور میں جس کام کو کرنے والا ہوں اس میں کبھی اتنی تاخیر نہیں کرتی جتنی بندہ مومن کی روح قبض کرنے میں تاخیر کرتا ہوں کیونکہ وہ (بشری تقاضے سے) موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنا، ناپسند کرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6502، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3989، سنن بیہقی ج ٣ ص 364، کنز العمال رقم الدیث :1161)
اس حدیث قدسی کی بنا کر محبوبان الٰہی کے قرب، عزت اور ان کی محبوبیت کے آثار پر ایمان لانا چاہیے۔ شفاعت کی مقبولیت کی دیگر وجوہ بھی ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ سفارش کرنے والے کو مستشفع الیہ (جس کے سامنے سفارش کی گئی) کے نزدیک عزت اور امتیازی مقام حاصل ہوتا ہے چونکہ ان وجوہ کا تعلق اس مقام سے نہیں ہے اس لئے اسی بیان پر اکتفا کیا جاتا ہے۔
اس تمہید کے بعد سنیے !
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تمام مخلوق انسان ہو یا فرشتے، نبی ہوں یا امتی، بادشاہ ہوں یا خدام، جہاں تک بندگی کا تعلق ہے یکساں نسبت رکھتی ہے کسی کو کسی لحاظ سے اس کے ملک و اقتدار میں شرکت یا اس کے ارادہ و اختیار میں مزاحمت یا اس کے حکم اور فعل میں تاب مقابلہ نہیں ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے جو چاہتا ہے اس کے مطابق فیصلہ فرماتا ہے اور جس طرح اس کا ارادہ ہوتا ہے، کائنات میں تصرف فرماتا ہے۔ اس کا نہ کوئی شریک ہے نہ ہمسر، نہ مددگار ہے نہ کار ساز، اسے کسی وزیر کی امداد اور کسی مددگار کے تعاون کی حاجت نہیں ہے، کسی کی رضا اور خوشنودی سے اس کی مملکت میں رونق کا اضافہ نہیں ہوتا، نہ ہی کسی کی ناراضگی سے اس کے کارخانہ حکمت میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
ہاں اس نے اپنی مخلوق کو مختلف مراتب اور مقامات دے کر پیدا کیا ہے۔ ان کے مراتب و درجات میں بہت فرق رکھا ہے۔ بعض کو برگزیدہ اور بارگاہ قدس کا مقرب بنایا اور بعض کو مرد و ذلیل اور گمراہ کیا، دونوں قسموں میں مختلف مراتب اور متفرق درجات رکھے اور اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے درجات کے مطابق مقام و مرتبہ عطا فرمایا ان میں سے ہر ایک کو اس کے مرتبہ کے مطابق عزت و کرامت عطا فرمائی۔ ان میں سے ہر ایک کو بارگاہ الٰہی میں جتنی عزت اور خداوندی محبت ہے، اس کے مطابق ان کے وابستگان اور متوسلین کی دینی اور دنیاوی حاجتوں کے بارے میں ان کی سفاشر قبول فرماتا ہے اور اپنی بارگاہ کے مقربین کو ان کے مرتاب کے مطباق اجازت عطا فرماتا ہے کہ اپنے متعلقین اور متوسلین کے لئے دنیا و آخرت میں مصیبت اور عذاب کو انکے مراتب کے مطابق اجازت عطا فرماتا ہے کہ اپنے متعلقین اور متوسلین کے لئے دنیا و آخرت میں مصیبت اور عذاب کے دفع کرنے اور منافع کے حصول کے لئے سفارش کریں، اس عزت وافزائی کے ذریعے انہیں مخلوق میں ممتاز فرماتا ہے۔
اسی لئے اکثر لوگ ہر دو جہان کی حاجتوں میں ان سے شفاعت اور سفارش کے طلب گار ہوتے ہیں اور ان مقربین کی شفاعت کے فی سے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے اور ہوتے ہیں اور ہوں گے، ان کی شفاعت اکثر مقبول ہوتی ہے اور قول و فعل سے ان کی ایذاء رسانی اور بےادبی کے در پے ہونے والے اکثر لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہو کر دین و دنیا کو برباد کرچکے اور کرتے ہیں اور کریں گے، چونکہ بارگاہ الٰہی میں مقربین کی عزت و وجاہت ان کی شفاعت اور ان کے سوال کی قبولیت کا سبب ہے اسی لئے دوسروں کی نسبت صالحین کی دعائیں زیادہ قمبول ہوتی ہیں۔ اگر کوئی شخص ازراہ عنادیہ بات نہ مانے یا بدعقیدگی کی بنا پر اسے شک لاحق ہو تو اسے کتب صحاح میں حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہیے ات کہ اسے معلوم ہو کہ جن حضرات نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعا کی گزاشر کی یا شفاعت کی درخواست کی وہ دنیا و آخرت میں خیرات و برکات سے مالا مال ہوئے اور جو لوگ در پئے ایذاء اور بےادبی ہوئے وہ ہلاکتوں میں گرفتار ہوئے اور جہنم کے نچلے طبقوں میں داخل ہوئے۔
جب شفاعت کا معنی سفارش ہے اور بارگاہ الٰہی میں شفاعت کے منظور ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی کو اس کے کارخانہ تقدیر پر تسلط حاصل ہو، یا سفاشر کرن والے کی دل شکنی کے سبب اس کی مملکت میں خلل کا احتمال ہو یا اسے ضرر کے لاحق ہونے، منافع کے فوت ہونے یا رنج و ملال عارض ہونے کا اندیشہ ہو (حاشا وکلایہ کسی کا عقیدہ نہیں ہے) بلکہ شفاعت کے مقبول ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اہل محبت و اطاعت کو بیش از بیش انعام و اکرام سے نوازا ہے اور ان کے درجات دوسری مخلوق سے بلند فرما کر انہیں اپنی بارگاہ کا مقرب بنایا ہے۔
شفاعت اور دعا
اب شفاعت کے ثبوت اور بارگاہ الٰہی میں مقبول ہونے کی دلیل سنیے :
بارگاہ الٰہی میں ایک شخص کے دوسرے شخص کے لئے شفاعت کرنے اور دعا کرنے میں کوئی فرقن ہیں۔ یہ دو لفظ ہیں جن کا معنی ایک ہے اور دعا دو حال سے خالی نہیں، یا تو کہا جائے کہ دعا لغو اور بےفائدہ فعل ہے۔ کارخانہ قضاء و قدر میں کسی انسان کی دعا کسی نفع کے حصول یا کسی نقصان کے دور کرنے میں اثر نہیں رکھتی، دعا کرنا اور نہ کرنا برابر ہے، یا کہا جائے کہ دعا کرنے سے اللہ تعالیٰ مقصد پورا کردیتا ہے۔ مطالب عطا کردیئے جاتے ہیں اور مصیبتیں دور کردی جاتی ہیں، پہلی صورت باطل اور کتاب و سنت کی نصوص کے مخالف ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے :
وصل علیھم ان صلوتک سکن لھم (التوبہ :103) اے حبیب ! ان کے لئے دعا کیجیے بیشک تمہاری دعا ان کے اطمینان و سکون کا سبب ہے۔ اس کے علاوہ بیشمار آیات ہیں۔
حضور سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ارشاد فرماتے ہیں :
لایردالقضاء الا الدعاء قضا کو صرف دعا لوٹا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ بہت سی حدیثیں وارد ہیں۔ علماء دنی کی تصانیف، حصن حصین وغیرہ جو ہر جگہ اہل علم کے پاس موجود ہیں۔ انہیں دعائوں کے جمع کرنے کے لے لکھی گئی ہیں۔ دعا کی فضیلت، اللہ تعالیٰ کی عبادت ہونے اور بارگاہ الٰہی میں اس کی مقبولیت کا انکار صریح کفر ہے جس سے نصوص قرآن و حدیث کا انکار لازم آتا ہے۔ ثابت ہوا کہ دعا حصول مقصد کا ذریعہ ہے اور یہ بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوتی ہے۔
انبیاء و اولیاء کی دعائوں کی قبولیت
اب غور فرمایئے ! (١) کہ کیا انبیاء اور عوام الناس اور اشقیاء، نیکیوں اور بدکاروں، مقربان حضرت باری تعالیٰ اور مرد و دان بارگاہ، مومنین صالحین اور بدبخت کافروں کی دعائیں مقبولیت کی کمی اور زیادتی میں برابر ہیں یا (٢) انبیاء و اولیاء ابرار اور مومنین صالحین کی دعائیں عوام، اشقیاء، اشرار و کفار کی دعائوں سے زیادہ مقبول ہوتی ہیں اور اکثر طور پر حصول مراد کا ذریعہ ہوتی ہیں۔
پہلی شق باطل ہے چند دلیلیں ملاحظہ ہوں :
(١) دلیل عقلی کہ دعا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مقبول ہوتی ہے اور اس کی رحمت نیکوں کے قریب اور بدکاروں سے بعید وتی ہے۔ انبیاء و اولیاء ابرار و صالحین کو رحمت الٰہیہ کے قرب و بعد میں عوام الناس، اشقیاء، اشرار اور مفسدہ پروازوں کے برابر جاننا کفر اور الحاد ہے۔
(٢) دلیل سمعی : احادیث کثیرہ سے ثابت ہے کہ انیاء و صالحین کی دعائیں، عامتہ الناس اور خطا کاروں کی نسبت زیادہ قبول ہوتی ہیں اور حصول مدعا کا اکثر سبب بنتی ہیں اس امر کی حقیقت کا انکار بھی کفر اور زندقہ کی طرف لے جائے گا اور درحقیقت نبوت و ولایت کے انکار تک پہنچا دے گا۔
لہٰذا دوسری شق متعین ہوگئی اور واضح ہوگیا کہ دعا کی قبولیت، قرب اور نیکی کی علامت ہے۔ ہر شخص کو اجازت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے اپنی ذات کے لئے اپنوں اور بیگانوں کے لئے دعا کرسکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مومنوں کو اس کے لیء دعا سے منع نہ فرمایا ہو جیسے کہ مشرکین کے لئے دعا کرنے سے ممانعت فرمائی ہے۔
ارشاد ربانی ہے :
(التوبتہ :113) اور نبی اور مسلمانوں کو جائز نہیں کہ وہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں اگرچہ وہ قریبی رشتہ دار ہوں جبکہ ان پر ظاہر ہوچکا کہ وہ جہنمی ہیں۔ اس بیان سے ظاہر ہوگیا کہ قبول شفاعت کی دو شرطیں ہیں :
(١) ایسے شخص کی سفارش کی گئی ہو جس کے لئے سفارش کرنے سے اللہ تعالیٰ نے ممانتع نہ فرمائی۔
(٢) سفارش کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ کا قرب حاصل ہو لہٰذا اگر مقرب دربار الٰہی کسی ایسے شخص کی شفاعت کرے جس کی سفاعش سے ممانعت وارد نہ ہو تو اس کی شفاعت مقبول ہوگی جیسے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(طہ :109) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہاں صرف اس شخص شفاعت فائدہ دے گی جس کے لئے اس نے اجازت دی ہوگی اور جس کا قول اس کو پسند ہوگا۔ (یعنی بلند مقام اور پسندیدہ گفتگو والے کی شفاعت ہی فائدہ دے گی)
(٣) شفاعت بالاذن
شفاعت بالاذن کا معنی اس طرح سمجھنا چاہیے کہ مثلاً اگر بادشاہ کے دربار میں ایسے مجرم کو پکڑ کر پیش کیا جائے کہ اس جیسے اکثر جرائم بادشاہ نے معاف کردیئے ہیں۔ کچھ مقرب جو بادشاہ کے سامنے بات کرسکتے ہیں اور اپنے ہم مرتبہ افراد میں عزت و مرتبہ کی زیادتی کے اعتبار سے ممتاز ہیں اس مجرم کی شفاعت کرنا چاہتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اس کے دربار میں شفاعت کے لئے اب کشائی کریں کیونکہ انہیں بادشاہ کے سامنے ایسے جرائم کی معافی طلب کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور جرم ایسا نہیں ہے کہ لب کشائی کریں کیونکہ انہیں بادشاہ کے سامنے ایسے جرائم کی معافی طلب کرنے کی اجازت ہوتی ہے اور جرم ایسا نہیں ہے کہ بادشاہ نے عہد کیا ہو کہ اس جرم کے مرتب کو ضرور سزا دے گا۔ ہوسکتا ہے کہ بادشاہ ان مقربین کے مقام اور مرتبہ کے پیش نظر جو اسی کا عطا کردہ ہے سفارش قبول کرلے اور اس مجرم کو سزا نہ دے۔
ہاں ہر کس و ناکس جو بادشاہ کے سامنے بات کرنا تو کجا اونچا سانس تک نہیں لے سکتا، اس کی یہ مجال نہیں کہ مجرم کی طرف دیکھیے وہ خود کسی حیثیت کا مالک نہیں اس کی بات کی کیا وقعت ہوگی شفاعت تو دور کی بات ہے۔
اگر جرم ایسا ہے کہ بادشاہ کی عادت ہے کہ اس کے بدلے ضرور سزا دیتا ہے تو کسی کو ہمت نہیں پڑے گی کہ اس کی معافی کی درخواست کرے اور اس کی بخشش چاہے کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ بادشاہ نے عہد کر رکھا ہے کہ اس جرم پر ضرور سزا دی جائے گی لہٰذا کسی کی طاقت نہیں کہ سر اٹھا کر بادشاہ کو دیکھے اور اس مجرم کو چھڑا لے۔
شفاعت بالان کی صورت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بادشاہ خود بخود از راہ مہربانی اس مجرم کے گناہ بخشنا چاہتا تھا۔ مقربین کی سفارش لغو اور بےفائدہ ہے کیونکہ بادشاہ نے خود رحم نہیں کیا بلکہ سفارشی کی سفارش بخشش کا سبب بنی ہے لہٰذا اگر مجرم کہے کہ بادشاہ نے از خود رحم فرما کر مجھے بخش دیا ہے اور شفاعت کا کوئی دخل نہیں ہے تو وہ نعمت شفاعت کا ناشکرا ہوگا۔ (تحقیق الفتویٰ ص 72-83، مطبوعہ بندیال، 1399 ھ)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجاہت کے متعلق قرآن مجید کی آیات
ہم اس سے پہلے علامہ فضل حق خیر آبادی سے شفاعت بابو جاہت کا معنی نقل کرچکے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کو عموماً اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خصوصاً بہت عزت اور فضیلت عطا فرمائی ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دی ہوئی عزت اور فضیلت کو ظاہر کرنے کے لئے ہم یہاں چند آیات پیش کر رہے ہیں :
(١) وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین۔ (الانبیاء :107) اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہی بنا کر بھیجا ہے۔
(٢) ماکان اللہ لیعذبھم وانت فیھم (الانفال : ٣٣) اللہ تعالیٰ کی یہ شان نہیں کہ وہ کفار پر عذاب نازل کرے درآں حالیکہ آپ ان کے درمیان ہوں۔
(٣) قلنولینک قبلۃ ترضھا۔ (البقرۃ : ١٤٤) ہم آپ کا قبلہ وہی بنادیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔
(٤) فسبح و اطراف النھار لعلک ترضی۔ (طہ :130) آپ دن کے اطراف میں نماز پڑھیے تاکہ آپ (اللہ سے) راضی ہوں۔
(٥) ولسوف یعطیک ربک فترضی۔ (الضحیٰ ٥) آپ کا رب آپ کو عنقریب اس قدر دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
(٦) عسی ان یعثک ربک مقاماً محموداً ۔ (بنی اسرائیل :79) اللہ تعالیٰ آپ کو عنقریب مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔
(٧) الذی یراک حین تقوم۔ وتقلبک فی الساجدین۔ (الشعراء :218-219) وہ جو آپ کو دیکھتا رہتا ہے خواہ آپ قایم میں ہوں، یا سجدہ کرنے والوں میں پلٹ رہے ہں۔
(٨) وما ارسلناک الا کآفۃ للناس بشیراً و نذیراً ولکن اکثر الناس لایعلمون۔ (سبا :28) ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے لئے بشارت دینے والا اور عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔
(٩) قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحبیکم اللہ ویغفرلکم ذنوبکم واللہ غفور رحیم۔ (آل عمران :31) آپ کہیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کردیا اللہ خود تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہوں کو بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
(١٠) انا فتحنالک فتحا مبیناً ۔ لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتا خرویتم نعمتہ علیک ویھدیک صراط مستقیماً ۔ وینصرک اللہ نصراً عزیزاً ۔ (الفتح 1-3) بیشک ہم نے آپ کو روشن فتح عطا فرمائی۔ تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ سب کام معاف فرما دے اور آپ پر اپنی نعمت پوری کر دے اور آپ کو صراط مستقیم پر برقرار رکھے۔ اور اللہ آپ کی غالب مدد فرمائے۔۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجاہت کے متعلق احادیث
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجاہت کے متعق حسب ذیل احادیث ہیں :
(١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں میں ان عورتوں پر غیرت کرتی تھی جنہوں نے اپنا نفس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہبہ کردیا تھا اور میں کہتی تھی کیا عورت بھی اپنا نفس ہبہ کرسکتی ہے ؟ پھر جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔
ترجی من تشآء منھن وتوی الیک من تشآء ومن ابتغیث ممن عزلت فلاح جناح علیک (الاحزاب :51) آپ کو اپنی ازواج کے متعلق اختیار ہے کہ آپ ان میں سے کس کو چاہیں مئوخر کردیں اور جس کو چایں اپنے پاس جگہ دیں اور جس زوجہ کو آپ نے موخر کیا تھا اگر آپ اس کو (پھر) طلب کرلیں تو آپ پر کوئی حرج نہیں ہے۔
(یعنی آپ پر ازواج کے پاس باری باری جانا واجب نہیں ہے۔ آپ جس کے پاس چاہیں پہلے جائیں اور جس کے پاس چاہیں بعد میں جائیں اور چاہیں تو بعد والی کے پاس پہلے چلے جائیں۔ ) تو میں نے کہا میں اس کے سوا کچھ نہیں دیکھتی کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں بہت جلدی فرماتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4788: صحیح مسلم رقم الحدیث :1464، سنن النسائی رقم الحدیث :3199، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2000، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6367، مسند احمد رقم الدیث :25765، عالم الکتب)
(٢) حضرت ابوہریرہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں گا، سب سے پہلے میری قبرشق ہوگی اور میں سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2278، سنن ابودائود رقم الحدیث :2276)
(٣) حضرت واثلہ بن الاسقع (رض) کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی اولاد میں سے حضرت اسماعیل کو چن لیا اور حضرت اسماعیل کی اولاد میں سے بنو کنانہ کو چن لیا، اور بنو کنانہ میں سے قریش کو چن لیا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو چن لیا اور بنوہاشم میں سے مجھ کو چن لیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2276، سنن الترمذی رقم الحدیث :3605، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث :7485 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6422، المعجم الکبیر ج ٢ ہ رقم الحدیث :161، دلائل النبوۃ ج ١ ص 166، شرح السنتہ رقم الحدیث :3613)
(٤) المطلب بن ابی وداعتہ نے کہا کہ حضرت عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا : میں ون ہوں، صحابہ نے کہا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں۔ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن المطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور مجھے ان کے بہتر گروہ میں رکھا، پھر ان کے دو گروہ کئے اور مجھے سب سے اچھے گروہ میں رکھا، پھر اس گروہ کے قبائل بنائے اور مجھے سب سے اچھے قبیلہ میں رکھا، پھر ان کے گھر بنائے اور مجھے سب سے اچھے گھر میں رکھا اور میں ان میں سے سب سے اچھا شخص ہوں۔ یہ حدیث حسن ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث 3608، مسند احمد ج ١ ص 101 دلائل النبوۃ ج ١ ص 171)
(٥) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو میں سب سے پہلے نکلوں گا اور جب وہ وفد بنائیں گے تو میں ان کا خطیب ہوں گا اور جب وہ مایوس ہوں گے تو میں ان کو بشارت دوں گا، اس دن حمد کا جھنڈا میرے ہاتھ میں ہوگا اور میں اللہ کے نزدیک اولاد آدم میں سب سے مکرم ہوں گا اور فخر نہیں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3610، سنن الدارمی رقم الحدیث 49، دلائل النبوۃ ج ٥ ص 484، شرح السنتہ رقم الحدیث :3664)
(٦) حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میں اولاد آدم کا سردار ہوں گا اور فخر نہیں اور حمد کا جھنڈا میرے ہی ہاتھ میں ہوگا اور فخر نہیں، حضرت آدم ہوں یا انکے سوا جو نبی بھی ہو وہ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہوگا اور میں سب سے پہلے (قبر کی) زمین سے نکلوں گا اور فخر نہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3615)
(٧) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ باہر نکلے حتیٰ کہ ان کے قریب پہنچ کر ان کی باتیں سننے لگے۔ ان میں سے بعض نے کہا تعجب ہے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے خ لیل بنایا تو حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا۔ دوسرے نے کہا اس سے زیادہ کیا تعجب ہوگا کہ حضرت موسیٰ کو کلیم بنایا۔ ایک اور نے کہا حضرت عیسیٰ اللہ کا کلمہ اور اس کی روح ہیں، ایک اور نے کہا حضرت آدم کو اللہ نے چن لیا، پھر ان کے پاس آپ آئے اور ان کو سلام کر کے فرمایا : میں نے تمہاری باتیں اور تمہارا تعجب سنا کر ابراہیم اللہ کے خلیل ہیں اور وہ اسی طرح ہیں اور موسیٰ اللہ سے کلام کرنے والے ہیں وہ اسی طرح ہیں اور عیسیٰ اللہ تعالیٰ کا کلمہ اور اس کی روح میں وہ اسی طرح ہیں اور آدم کو اللہ نے چن لیا ہے وہ اسی طرح ہیں۔ سنو ! میں اللہ کا حبیب ہوں اور فخر نہیں ہے اور میں ہی قیامت کے دن حمد کا جھنڈا اٹھانے والا ہوں اور فخر نہیں ہے اور قیامت کے دن میں ہی سب سے پہلے شفاعت کروں گا اور میری ہی شفاعت سب سے پہلے قبول ہوگی اور فخر نہیں ہے اور میں ہی سب سے پہلے جنت کی کنڈی کھٹکھٹانے والا ہوں پس جنت کو میرے لئے کھول دیا جائے گا اور مجھ کو اس میں داخل کیا جائے گا اور میرے ساتھ فقراء مومنین ہوں گے اور فخر نہیں ہے اور میں تمام اولین اور آخرین سے زیادہ مکرم ہوں اور فخر نہیں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3616)
(٨) حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں تمام رسولوں کا قائد ہوں اور فخر نہیں اور میں خاتم النبین ہوں اور فخر نہیں اور میں سب سے پہلے شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے میری شفاعت قبول کی جائے گی اور فخر نہیں (سنن داری رقم الحدیث : 49، مشکوۃ رقم الحدیث :5764، المعجم الاوسط رقم الحدیث :172، مجمع الزوائد ج ٨، ص 254 کنز العمال رقم الحدیث 32055-31883)
(٩) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں قیامت کے دن جنت کے دروازہ کے پاس آ کر اس کو کھلوائوں گا جنت کا محافظ کہے گا آپ کون ہیں میں کہوں گا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہے گا مجھے آپ ہی کے لئے حکم دیا گیا تھا کہ آپ سے پہلے میں کسی کے لئے دروازہ نہیں کھولوں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :197)
(١٠) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید سے حضرت ابراہیم علیہالسلام کے اس قول کی تلاوت کی :
(ابراہیم :36) اے میرے رب ! ان بتوں نے بہت سے لوگوں کو گم راہ کردیا ہے سو جس شخص نے میری پیروی کی وہ میرے طریقہ (محمودہ) پر ہے، اور جس نے میری نافرمانی کی تو تو بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے کہا :
ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم (المائدہ :118) اگر تو ان کو عذاب دے تو بیشک وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو بیشک تو بہت غالب بہت حکمت والا ہے۔
پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی : اے اللہ ! میری امت، میری امت اور آپ رو پڑے، پھر اللہ عزوجل نے فرمایا : اے جبریل ! محمد کے پاس جائو، اور آپ کا رب خوب جاننے والا ہے، سو ان سے سوال کرو کہ ان کو کیا چیز رلاتی ہے ؟ پس آپ کے پاس جبریل (علیہ السلام) گئے اور آپ سے سوال کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو بتایا جو انہوں نے دعا کی تھی، تب اللہ عزوجل نے فرمایا : اے جبریل ! محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو اور کہو ہم آپ کو آپ کی امت کے متعق راضی کردیں گے اور ہم آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔ (صحیح مسم رقم الحدیث :202، النسن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11269)
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وجاہت کے متعلق علامہ نووی، علامہ آلوسی اور شیخ ابن تیمیہ کی تصریحات
علاموہ نووی نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے اس حدیث میں آپ کی امت کے لئے عظیم بشارت ہے اور آپ کی امت کے لئے اس حدیث میں تمام احادیث سے زیادہ امید افزا کلمات ہیں اور اس حدیث میں یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بہت بڑا رتبہ ہے اور اللہ سبحانہ کا آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بہت لطف و کرم ہے اور جبریل (علیہ السلام) کو بھیج کر سوال کرنے کی حکمت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے شرف کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ آپ بہت بلند مقام پر ہیں آپ کو راضی کیا جاتا ہے اور آپ کی وہ تکریم کی جاتی ہے جس سے آپ راضی ہوں اور یہ حدیث اللہ عزوجل کے اس قول کے موافق ہے :
وتسوف یعطیک ربک قترضی۔ (الضحیٰ : ٥) اور ضرور عنقریب آپ کا رب آپ کو (اتنا) عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔
اور اللہ تعالیٰ نے یہ جو فرمایا ہے اور ہم آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ بعض گنہگار مسلمانوں کو معاف کردیتا اور باقی مسلمانوں کو دوزخ میں ڈال دیتا تو بعض کو معاض کردینے سے آپ راضی تو ہوجاتے لیکن باقی مسلمانوں کو دوزخ میں داخل کرنے سے آپ رنجیدہ ہوتے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے بلکہ تمام مسلمانوں کو نجات دے دیں گے۔ واللہ اعلم
علامہ سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ ” لسوف یعطیک ربک فترضیٰ “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
یہ اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ کریمہ ہے جو ان چیزوں کو شامل ہے جو اس نے آپ کو دنیا میں عطا فرمائی ہیں کہ آپ کی ذات کو کامل بنایا ہے اور آپ کو اولین اور آخرین کے علوم عطا فرمائے ہیں آپ کے زمانہ اور آپ کے خلفاء کے زمانہ کی فتوحات سے آپ کے دین کو ظہور اور غلبہ عطا فرمایا ہے اور آپ کی دعوت کو زمین کے مشارق اور مغارب میں پھیلا دیا ہے اور آخرت میں اللہ عزوجل نے آپ کے لئے ان عزتوں اور کرامتوں کو ذخیرہ کیا ہوا ہے جن کی تفصیل کو وہ خود ہی جانتا ہے۔
امام ابن المنذر، امام ابن مردویہ اور امام ابونعیم روایت کرتے ہیں کہ حرب بن شریح نے امام ابوجعفر محمد بن علی بن الحسن (علیہ السلام) سے پوچھا کہ یہ بتائے شفاعت کی جو حدیث اہل عراق بیان کرتے ہیں کیا وہ برحق ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں خدا کی قسم ! مجھے محمد بن حنفیہ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے یہ حدیث بیان کی ہے : کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنی امت کے لئے شفاعت کروں گا حتیٰ کہ میرا رب ندا کرے گا اے محمد ! کیا آپ راضی ہوگئے میں کہوں گا ہاں اے میرے رب ! میں راضی ہوگیا۔
علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی 754 ھ نے کہا ہے کہ اس آیت میں دنیا اور آخرت کی رضا کا عموم مراد لینا زیادہ بہتر ہے۔ ہرچند کہ آخرت کی نعمتوں کا متربہ دنیا کی نعمتوں سے بہت زیادہ ہے۔
امام ابن جریر متوفی 310 ھ نے حضرت ابن عباس سے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا یہ ہے کہ آپ کے اہل بیت میں سے کوئی دوزخ میں داخل نہیں ہو۔ (جامع البیان رقم الحدیث :29054)
امام بیہقی نے حضرت ابن عباس سیر وایت کیا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا یہ ہے کہ آپ کی کل امت جنت میں داخل ہو۔ (شعب الایمان ج ٢ ص 164، رقم الدیث :1445)
خطیب بغدادی نے تلخیص المتشابہ میں ایک اور سند سے روایت کی ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) راضی نہیں ہوں گے اگر آپ کا ایک امتی بھی دوزخ میں ہو۔
یہ وہ احادیث ہیں جن سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اپنی امت پر عظیم شفقت، رحمت اور ان کی مغفرت کی حرص معلوم ہوتی ہے۔ (روح المعانی جز 30 ص 287-289 ملحضاً البحر المحیط ج 10 ص 496، الدر المثورج ٨ ص 542-543)
شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرافی المتوفی 728 ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :
وکان عند اللہ وجیھاً (الاحزاب :69) وہ اللہ کے نزدیک وجاہت اور عزت والے تھے۔ اور حضرت (علیہ السلام) کے متعلق فرمایا :
وجیھاً فی الدنیا والاخرۃ ومن المقربین۔ (آل عمران :45) وہ دنیا اور آخرت میں وجاہت والے اور مقربین میں سے تھے۔
اور جب حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) اللہ تعالیٰ کے نزدیک وجاہت والے تھے تو وہ صاحب وجاہت کیوں نہ ہوں گے جو تمام اولاد آدم کے سردار ہیں اور مقام محمود والے ہیں، جن پر الوین اور آخرین رشک کریں گے، حوض کوثر کے وارث ہیں، وہ قیامت کے دن اس وقت شفاعت کریں گے جب حضرت آدم اور الولوالعزم بنی، حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ شفاعت سے پیچھے ہٹ جائیں گے اور آپ آگے بڑھ کر شفاعت کریں گے اور آپ ہی صاحب اللواء ہیں۔ حضرت آدم اور ان کے ماسوا سب آپ کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور آپ ہی تمام ابیناء کے امام ہیں اور ان کے وفد کے خطیب ہیں۔ (مجموعتہ الفتاویٰ ج ١ ص 223 مطبوعہ دارالجیل، 1418 ھ)
شفاعت کے متعلق سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نظریہ
سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی 1399 ھ لکھتے یہیں۔
یہاں وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ شفاعت پر یہ پابندی کیوں ہے فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء، کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہے اور نہیں ہوسکتا کہ کس کا ریکارڈ کیا ہے۔ کون دنیا میں کیا کرتا رہا ہے اور اللہ کی عدالت میں کس سیرت و کردار اور کیسی کیسی ذمہ دار یوں کے بارے لے کر آیا ہے۔ اس کے برعکس اللہ کو ہر ایک کے پچھلے کارناموں اور کرتوتوں کا بھی علم ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آپ اس کا موقف کیا ہے۔ نیک ہے تو کیسا نیک ہے اور مجرم ہے تو کس درجے کا مجرم ہے۔ معافی کے قابل ہے یا نہیں۔ پوری سزا کا مستحق ہے یا تخفیف اور رعایت بھی اس کے ساتھ کی جاسکتی ہے۔ ایسی حالت میں یہ کیونکر صحیح ہوسکتا ہے کہ ملائکہ اور انبیاء اور صلحاء کو سفارش کی کھلی چھٹی دے دی جائے اور ہر ایک جس کے حق میں جو سفارش چاہے کر دے۔ ایک معملوی افسر اپنے ذرا سے محکمے میں اگر اپنے ہر دوست یا عزیز کی سفارشیں سننے لگے تو چار دن میں سارے محکمے کا ستیانسا کر کے رکھ دے گا۔ پھر بھلا زمین و آسان کے فرمانروا سے یہ کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ اس کے ہاں سفارشوں کا بازار گرم ہوگا اور ہر بزرگ جا جا کر جس کو چاہیں گے بخشو لائیں گے، درآنحالیکہ ان میں سے کسی بزرگ کو بھی یہ معلوم نہیں ہے کہ جن لوگوں کی سفارش وہ کر رہے ہیں ان اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کرجاتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس، رشوت خوار اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے، میں اس کے کر تتوں سے واقف ہوں۔ اس لئے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ اسی چھوٹی سی مثال پر قیاس کر کے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں شفاعت کے متعلق جو قاعدہ بیان کیا گیا ہے وہ کس قدر صحیح، معقول اور مبنی بر انصاف ہے۔ خدا کے ہاں شفاعت کا دروازہ بند نہ ہوگا۔ نیک بندے جو دنیا میں خلق خدا کے ساتھ ہمدردی کا برتائو کرنے کے عادی تھے انہیں آخرت میں بھی ہمدردی کا حق ادا کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ لیکن وہ سفارش کرنے سے پہلے اجازت طلب کریں گے اور جس کے حق میں اللہ تعالیٰ انہیں بولنے کی اجازت دے گا صرف اسی کے حق میں وہ سفارش کرسکیں گے۔ پھر سفارش کے لئے بھی شرط یہ ہوگی کہ وہ مناسب اور مبنی برحق ہو۔ جیسا کہ وقال صوابا (اور بات ٹھیک کہے) کا ارشاد بانی صاف بتارہا ہے بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہوگی کہ ایک شخص دنیا میں سینکڑوں، ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کردیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص 126-128، مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور، 1983 ء)
سید ابوالاعلی مودودی کے نظریہ شفاعت پر بحث و نظر اور قیامت کے دن انبیاء (علیہم السلام) کا علم
قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں سید ابوالاعلی مودودی نے شفاعت کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے، اس اقتباس میں سید مودودی نے تین باتیں غلط لکھی ہیں ایک یہ کہ انبیاء (علیہم السلام) جن کی شفاعت کریں گے انہیں ان کے ایمان اور اعمال کا علم نہیں ہوگا۔ دوسری یہ کہ انہوں نے فرض کرلیا ہے کہ ہر شخص کی شفاعت کے لئے اس کے متعلق اذن مخصوص لینا ضروری ہے اور تیسری یہ کہ جو شخص غلط کا ربد کار اور گہنگار ہوگا اس کی شفاعت نہیں کی جائے گی۔
سید مودودی نے اللہ تعالیٰ کو سرکاری افسر پر اور انبیاء کرام کو اس کے دوستوں پر قیاس کیا ہے اور یہ فرض کرلیا ہے کہ انبیاء کرام اور خصوصاً سید الانبیاء و سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ علم نہیں ہوگا کہ جن کی وہ شفاعت کر رہے ہیں انہوں نے کیسی زندگی گزاری تھی اور ان کا کیا عقیدہ تھا اور یہ عقیدہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی روشنی میں باطل ہے۔ قرآن مجید میں یہ تصریح سے کہ قیامت کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت کے نیک ہونے اور ان کی شہادت کے برحق اور صادق ہونے کی شہادت دیں گے اور ظاہر ہے کہ بغیر علم کے شہادت دینا صحیح نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
(البقرہ :143) اور اسی طرح ہم نے تمہیں بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جائو اور یہ رسول تمہارے حق میں گواہ ہوجائیں۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن نوح کو بلایا جائے گا وہ کہیں گے اے میرے رب ! میں حاضر ہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے تبلیغ کی تھی وہ کہیں گے ہاں، پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا آی انہوں نے تم کو تبلیغ کی تھی ؟ وہ کہیں گے ہمارے پاس کوئی عذاب سے ڈرانے والا نہیں آیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نوح سے فرمائے گا تمہارے حق میں کون گواہی دے گا وہ کہیں گے (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی امت۔ پھر وہ گواہی دیں گے کہ نوح نے تبلیغ کی تھی اور اس کی تصدیق اس آیت میں ہے : وکذلک جعلنکم امۃ وسطاً لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیداً (لبقرہ :143) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4487 سنن الترمذی رقم الحدیث :2961، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4282، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص 454، مسند احمد ج ٣ ص 9 مسند ابویعلی رقم الحدیبث :1173، کتاب الاسماء و الصفات ص 216)
مشہور مفسر قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 686 ھ اس اشکال کا جواب دیتے ہیں کہ جب شہادت کے بعد ” علی “ کا ذکر ہو تو اس کا معنی عربی قواعد کے مطابق کسی کے خلاف گواہی دینا ہوتا ہے اور یہاں مقصود یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امت کے حق میں ان کے نیک ہونے اور ان کی شہادت کے صادق اور برحق ہونے کی شہادت دیں۔ پس قاضی بیضاوی لکھتے ہیں :
اس آیت میں شہید کا لفظ رقیب اور مہیمن (نگہبان) کے معنی کو مضمن ہے اور ” علی “ کا لفظ شہادت کا صلہ نہیں ہے بلکہ رقیہ کا صلہ ہے اور اس کا معنی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی امت پر نگہبان اور ان کے احوال پر مطلع ہیں۔
علامہ احمد بن محمد خفاجی حفنی متوفی 1069 ھ قاضی بیضاوی کی اس عبارت کی شرح میں لکھتے ہیں :
جب شہادت کا صلہ ” علی “ ہو تو اس کا معنی کسی کے خلاف شہادت دینا ہوتا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت امت کے حق میں ہوگی کیونکہ آپ ان کی شہادت کا تزکیہ کریں گے یعنی ان کی شہادت کو برحق قرار دیں گے۔ علامہ بیضاوی نے اس کا یہ جواب دیا کہ یہاں شہید کا لفظ رقیب اور مھیمن کے معنی کو متضمن ہے کیونکہ جو شخص کسی کا تزکیہ کرتا ہے وہ اس کے احوال کو جاننے الا ہوتا ہے۔ صعنایتہ القاضی علی تفسیر البیضاوی ج ٢ ص 412، مطبوعہ دارلاکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی متوفی 1239 ھ آیت کی تفسیر لکھتے ہیں :
یعنی تمہارے رسول تمہارے اوپر گواہ ہیں کیونکہ وہ نور نبوت سے ہر دیندار کے دین پر مطلع ہیں کہ وہ میرے دین کے کس درجہ پر پہنچا ہوا ہے اور اس کے ایمان کی حقیقت کیا ہے اور جس حجاب کی وجہ سے وہ دین میں ترقی نہ کرسکا وہ کون سا ہے پس وہ تمہارے گناہوں اور ایمان کے درجات اور تمہارے اچھے اور برے اعمال اور اخلاص و نفاق کو پہچانتے ہیں اس لئے امت کے دنیاوی امور میں آپ کی گواہی بہ حق شرع مقبول اور واجب العمل ہے، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنے زمانہ کے حاضرین دنیاوی امور میں آپ کی گواہی بہ حق شرع مقبول اور واجب العمل ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو اپنے زمانہ کے حاضرین مثلاً اصحاب و ازواج و اہل بیت (رض) اجمعین یا غائبین مثلاً اویس و مہدی اور مفتون دجال کے فضائل و مناقب بیان فرمائے ہیں یا اپنے زمانہ کے حاضر و غائب لوگوں کے عیوب و قبائح بیان فرمائے ہیں، ان پر اعتقاد رکھنا واجب ہے۔ اور اسی قبیل سے ہے جو روایات میں آیا ہے کہ ہر نبی کو اپنی امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے کہ فلاں آج یہ کرتا ہے اور فلاں یہ تاکہ قیامت کے دن ان پر گواہی دے سکیں۔ (تفسیر عزیزی (فارسی) ج ١ ص 636، مطبوعہ ہند)
قرآن مجید کی اس آیت کریمہ اور مستند اور مسلم مفسرین نے جو اس کی تفسیر کی ہے اس سے یہ واضح ہوگیا کہ قیامت کے دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی امت کے ایمان اور اس کے درجات کا اور ان کے اعمال کا علم ہوگا۔ اس کے علاوہ بہ کثرت احادیث میں بھی اس پر دلیل ہے :
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کئے گئے نیک اور بد میں نے نیک اعمال میں یہ (عمل) پایا کہ راستہ سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دی جائے اور برے اعمال میں یہ پایا کہ مسجد میں ناک کی رینٹ ڈال دی جائے اور اس کو دفن نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :553 سنن ابی ماجہ رقم الحدیث :3683، مسند حمد ج ٥ ص 178-180 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :1308)
حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک جب اللہ اپنے بندوں میں سے کسی امت پر رحمت کا ارادہ فرماتا ہے تو اس امت سے پہلے اس کے نبی کی روح کو قض فرما لیات ہے اور اس کو ان کے لئے صالح پیش رو اور ان کی خیر اور فلاح کا منتظم بنا دیتا ہے اور وہ ان کے حق میں نیکی کی گواہی دیتا ہے اور جب اللہ کسی امت کی ہلاکت کا ارادہ فرماتا ہے تو نبی کی زندگی میں اس امت کو عذاب میں مبتلا کر کے ہلاک کردیتا ہے اور اس کو ہلاک کر کے نبی کی آنکھیں ٹھنڈی کردیتا ہے کیونکہ انہوں نے نبی کی تکذیب کی تھی اور اس کی نافرمانی کی تھی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2288، المسند الجامع رقم الحدیث :8928، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 256-257)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری حیات تمہاری لئے بہتر ہے تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لئے احادیث بیان کی جاتی ہیں اور میری وفات (بھی) تمہارے لئے بہتر ہے، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں میں جو نیک عمل دیکھتا ہوں اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور میں جو برا عمل دیکھتا ہوں اس پر تمہارے لئے استغفار کرتا ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 149، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418، مسند البزار رقم الحدیث :845، الوفاص 810، مجمع الزوائد ج ٩ ص 24، البدانیہ والنہایہ ج ٤ ص 257، الجامع الصغیر رقم الحدیث :3771)
ان کے علاوہ بعض دیگر احادیث میں ایسے واقعات مذکور ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کو اتم کے حاوال اور اعمال کا علم ہوتا ہے، حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ یا مکہ کے باغات میں سے ایک باغ میں سے گزرے۔ آپ نے دو ایسے انسانوں کی آواز سنی جن کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا تھا آپ نے فرمایا ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور کسی ایسے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا جس سے بچنا بہت دشوار ہو، پھر فرمایا کیوں نہیں ! ان میں ایک پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔ پھر آپ نے درخت کی ایک شاخ مہنگائی پھر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ٹکڑا نصب کردیا۔ آپ سے کہا گیا : یا رسول اللہ ! آپ نے ایسا کیوں کیا ؟ آپ نے فرمایا جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :216، صحیح مسلم رقم الحدیث :292، سنن ابودائود رقم الحدیث :20، سنن الترمذی رقم الحدیث :70، سنن النسائی رقم الحدیث 31، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :347)
ہر شخص کی شفاعت کے لئے مخصوص اذن لینا ضروری نہیں
یہ دونوں قبر والے مسلمان تھے اور اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو علم تھا کہ ان کے کیا گناہ ہیں اور ان کو کسی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے اور آپ نے اپنے عمل سے ان کی شفاعت کی اور آپ کی اس شفاعت سے ان کے عذاب میں تخفیف ہوئی اور اس یے یہ بھی معلوم ہوا کہ جس طرح عذاب کو بالکیہ ساقط کرنے کے لئے شفاعت کی جاتی ہے اسی طرح عذاب میں تخفیف کے لئے بھی شفاعت کی جاتی ہے اور اس حدیث سے نہایت اہم چیز یہ معلوم ہوئی کہ ہر شخص کی شفاعت کے لئے مخصوص اذن لینا ضروری نہیں ہے۔
علامہ ابوالحیان محمد بن یوسف اندلسی متوفی 754 ھ، من ذا الذی یشفع عندہ الا باذنہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اذن سے یہاں مراد شفاعت کرنے کا حکم دینا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا اشفع تشفع آپ شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، یا علم ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کے علم کے بغیر کوئی شفاعت نہیں کرے گا) یا شفاعت پر قدرت دینا ہے خواہ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بغیر شفاعت کریں (یعنی اللہ تعالیٰ نے انبیاء، اولیاء اور صلحاء کو گہنگار کی شفاعت پر قادر کردیا ہے۔ ) (البحر المحیط ج ٢ ص 110 مطبوعہ دارالفکر بیروت)
اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شفاعت کرنے کا حکم دیا ہے اس کی مثال قرآن مجید کی ان آیات میں ہے۔
واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات (محمد 19) اور آپ اپنے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کا موں کی بخشش طلب کریں اور مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کے لئے استغفار کریں۔
جنگ احد میں جو صحابہ آپ کے منع کرنے کے باوجود احد پہاڑ کے درہ سے ہٹ گئے تھے ان کے متعلق عمومی حکم فرمایا :
فاعف عنھم واستغفر لھم (آل عمران :159) سو آپ انہیں معاف کردیں اور ان کے لئے بخشش طلب کریں واستغفرلھم اللہ (النور 62) اور ان مسلمانوں کے لئے اللہ سے بخشش طلب کیجیے۔
واستغفرلھن اللہ (المتحنہ :12) اور ان مسلمان عورتوں کے لئے اللہ سے بخشش طلب کیجیے۔
اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مسلمان گنہگاروں کی شفاعت کرنے کا حکم دیا ہے اس لئے ہر ایک کے لئے مخصوص اذن کی ضرورت نہیں ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر امتیں پیش کی گئیں۔ پھر بنی اپنی امتوں کے ساتھ گزر رہے تھے ایک نبی کے ساتھ ایک گروہ تھا۔ ایک نبی کے ساتھ دس نفر تھے۔ ایک نبی کے ساتھ پانچ تھے اور ایک نبی کے ساتھ صرف ایک امتی تھا۔ پھر میں نے دیکھا تو بہت لوگ نظر آئے میں نے کہا اے جبریل یہ میری امت ہے ؟ انہوں نے کہا لیکن آپ آسمان کے کناروں کو دیکھیے۔ میں نے دیکھا تو بہت بڑی جماعت تھی۔ جبریل نخ کہا یہ آپ کی امت ہے اور ان کے آگے ستر ہزار ایسے لوگ ہیں جنن پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب ہوگا، میں نے پوچھا کیوں تو کہا یہ وہ لوگ ہیں جو نہ داغ لگوائیں گے نہ دم کر ئیاں گے نہ فال نکالیں گے یہ صرف اپنے رب پر ہی توکل کریں گے۔ پھر آپ کی طرف عکا شربن محصن کھڑے ہوئے اور کہا آپ اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ مجھے ان میں سے کر دے آپ نے کہا اے اللہ اس کو ان میں سے کر دے۔ (الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث :6541، صحیح مسلم رقم الحدیث :220 مسند احمد رقم الحدیث 3819، عالم الکتب)
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غبیر اذن مخصوص کے حضرت عکاشہ کی شفاعت کی۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرت یہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جب تم مئوذن (کی اذان) کو سنو تو اس کی مثل (کلمات اذان) کہو، پھر مجھ پر صلوۃ پڑھو۔ کیونکہ جو مجھ پر ایک لوۃ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس صلاحیتیں پڑھتا ہے۔ پھر میرے لئے اللہ سے سویلہ کا سوال کرو کیونکہ سویلہ جنت میں ایک بلند مقام ہے جو اللہ کے بندوں میں سے کسی ایک بندہ کو ملے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہوں، سو جس نے میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا اس کے لئے میری شفاعت حلال ہوجائے گی۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :383، سنن ابودائود رقم الحدیث :523، سنن الترمذی رقم الحدیث :3614، سنن النسائی رقم الحدیث :678)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میری شفاعت کے ساتھ سب سے زیادہ کامیاب وہ شخص ہوگا جس نے اخلاص قلب کے ساتھ لا الہ الا اللہ کہا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :99 مسند احمد رقم الحدیث :8845)
اس حدیث میں یہ بیان فرمایا ہے کہ انسان کلمہ پڑھتے ہی شفاعت کا مستحق ہوجاتا ہے۔ اس میں بھی اذن مخصوص حاصل کرنے کا ذکر نہیں ہے۔ درحقیقت اللہ تعالیٰ نے کلمہ پڑھنے والوں اور موحدین کے لئے انبیاء (علیہم السلام) کو شفاعت کا اذن بلکہ حکم دیا ہے اور کسی کلمہ پڑھنے والے موحد کے لئے الگ سے اذنذ شفاعت حاصل کرنا ضرویر نہیں ہے تاہم بعض احادیث میں اذن لینے کا بھی ذکر ہے۔ حضرت انس (رض) سے ایک طویل حدیث کے آخر میں ہے، قیامت کے دن سب نبیوں کے پاس جانے کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے سو میں اپنے رب سے اذن طلب کروں گا پھر میں سجدہ میں گر جائوں گا اللہ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں چھوڑے رکھے گا پھر فرمائے گا اپنا سر اٹھایئے، سوال کیجیے عطا کیا جائے گا کہیے سنا جائے گا شفاعت کیجیے، شفاعت قبول کی جائے گی۔ (الحدیث) (صحیح البخاری رقم الحدیث :6565، صحیح مسلم رقم الحدیث 193)
گناہ کبیرہ کی شفاعت کے جواز اور وقوع پر قرآن اور حدیث سے دلائل
اس میں تو تو سب کا اتفاق ہے کہ کافر اور مشرک کی شفاعت نہیں کی جائے گی لیکن گناہ کبیرہ کرنے والوں کی شفاعت میں اختلاف ہے۔ معتزلہ اور خوارج کے نزدیک ان کی شفاعت نہیں کی جائے گی اور اہل سنت کے نزدیک ان کی شفاعت کی جائے گی۔ سید ابوالاعلیٰ نے لکھا ہے :
دنیا میں جو افسر کچھ بھی احساس ذمہ داری رکھتا ہے اس کی یہ روش ہوتی ہے کہ اگر اس کا کوئی دوست اس کے کسی قصور وار ماتحت کی سفارش لے کرجاتا ہے تو وہ اس سے کہتا ہے کہ آپ کو خبر نہیں ہے کہ یہ شخص کتنا کام چور، نافرض شناس، رشوت خور اور خلق خدا کو تنگ کرنے والا ہے میں اس کے کرتوتوں سے واقف ہوں اس لئے آپ براہ کرم مجھ سے اس کی سفارش نہ فرمائیں۔ الخ (تفہیم القرآن ج ٣ ص 127)
سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جتنے گناہ گنوائے ہیں وہ سب گناہ کبیرہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے کبیرہ کی شفاعت سے منع نہیں فرمایا بلکہ گناہ کبیرہ کی سفاعت قبول کرنے کی بشارت دی ہے، فرمایا :
(النساء :64) اور اگر وہ کبھی اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے تو آپ کے پاس آجاتے پھر وہ اللہ سے بخشش طلب کرتے اور رسول بھی ان کے لئے بخشش طلب کرتے تو وہ ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا بہت رحم فرمانے والا پاتے۔
واضح رہے کہ اپنی جان پر ظلم کرنا گناہ کبیرہ ہے جیسے نماز نہ پھڑنا، رشوت لینا اور دیگر حرام کام کرنا اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان کی شفاعت قبول کرنے کی بشارت دی ہے اور حدیث میں ہے :
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر (کبیرہ گناہ کرنے والوں) کے لئے ہوگی۔ امام ترمذی نے کہا اس سند سے یہ حیدث حسن صحیح غریب ہے۔ (صنعائر نیک کام کرنے اور کبائر سے بچنے کی وجہ سے بغیر شفاعت کے محض اللہ کے فضل سے معاف ہوجاتے ہیں) (سنن ترمذی رقم الحدیث :2445، سنن ابودائود رقم الحدیث :4739، مسند البز اور رقم الحدیث :3469، مسند احمد ج ٣ ص 213)
گناہ کبیرہ کے مرتکب کی شفاعت کی نفی پر سید ابوالاعلیٰ مودودی نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے۔
یوم یفوم الروح والملائکۃ صفاً لایکلمون الا من اذن لہ الرحمٰن وقال صواباً ۔ (النباء :38) جس دن جبریل کھڑے ہوں گے اور فرشتے صف باندھے ہوئے اس دن صرف وہی بات کرسکے گا جسے رحمٰن نے اذن دیا ہو اور اس نے درست بات کہی ہو۔
سید مودودی لکھتے ہیں :
پھر سفارش کے لئے بھی یہ شرط ہوگی کہ وہ مناسب اور مبنی برحق ہو جیسا کہ وقال صواباً (اور بات ٹھیک کہے) کا ارشاد ربانی صاحب بتارہا ہے بونگی سفارشیں کرنے کی وہاں اجازت نہ ہوگی، کہ ایک شخص دنیا میں ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو اور کوئی بزرگ اٹھ کر سفارش کردیں کہ حضور اسے انعام سے سرفراز فرمائیں یہ میرا خاص آدمی ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص 127)
سفارش کی صرف ایک ہی شرط ہے اور وہ یہ ہے کہ کافر اور مشرک کی سفاشر نہیں ہوگی اور جو شخص دنیا میں ہزاروں بندگان خدا کے حقوق مار آیا ہو وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہے اس کی سفارش ہوسکتی ہے۔ امام رازی اور علامہ آلوسی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ وہ صرف اس کی شفاعت کریں گے جس کی شفاعت کی رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس نے درست بات کہی ہو۔ اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ ہو گنہ گاروں کی شفاعت کریں گے کیونکہ انہوں نے درست بات کہی ہے اور وہ ہے لا الہ الا اللہ کی شہادت دینا اور یہ سب سے زیادہ درست اور سب سے زیادہ سچی بات ہے۔ (تفسیر کبیرج ١ ص 25 علامہ الٓوسی نے یہی تقریر حضرت ابن عباس اور عکرمہ کے حوالہ سے کی ہے، روح المعانی جز 30، ص 35)
جو شخص ہزاروں آدمیوں کے حقوق مار آیا ہو اس کی شفاعت کو سید ابوالاعلیٰ نے بونگی شفاعت کہا ہے، ان کے اس قول کے خلاف یہ حدیث ہے :
حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ تم سے پہلی امتوں میں سے ایک شخص نے ننانوے قتل کئے، پھر اس نے زمین والوں سے پوچھا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے اسے ایک بڑا راہب (عیسائیوں میں تارک الدنیا عبادت گزار) کا پتا بتایا گیا وہ شخص اس راہب کے پاس گیا اور یہ کہا کہ اس نے نانوے قتل کئے ہیں۔ کیا اس کی توبہ ہوسکتی ہے ؟ اس نے کہا نہیں، اس شخص نے اس رابہ کو بھی قتل کر کے پورے سو قتل کردیئے، پھر اس نے سوال کیا کہ روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے تو اس کو ایک عالم کا پتا دیا گیا۔ اس شخص نے کہا کہ اس نے سو قتل کئے ہیں کیا اس کی توبہ ہوسکتی ہے ؟ عالم نے کہا : ہاں توبہ کی قوبلیت میں کیا چیز حائل ہوسکتی ہے ! جائو، فلاں فلاں جگہ پر جائو، وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی عابدت کر رہے ہیں، تم ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو، اور اپنی زمین کی طرف واپس نہ جائو کیونکہ وہ بری جگہ ہے، وہ شخص روانہ ہوا، جب وہ آدھے راستہ پر پہنچا تو اس کو موت نے آلیا، اور اس کے متعق رحمت اور عذاب کے فرشتوں میں اختلاف ہوگیا، رحمت کے فرشتوں نے کہا یہ شخص توبہ کرتا ہوا اور دل سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہوا آیا تھا اور عذاب کے فرشتوں نے کہا اس نے بالکل کوئی نیک عمل نہیں کیا، پھر انکے پاس آدمی کی صورت میں ایک فرشتہ آیا، انہوں نے اس کو اپنے درمیان حکم بن الیا اس نے کہا دونوں زمینوں کی پیمائش کرو، وہ جس زمین کے زیادہ قریب ہو اسی کے مطابق اس کا حکم ہوگا۔ جب انہوں نے پیمئاش کی تو وہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جہاں اس نے جانے کا ارادہ کیا تھا، پھر رحمت کے فرشتوں نے اس پر قبضہ کرلیا، حسن نے بیان کیا ہے کہ جب اس پر موتی آئی تو اس نے اپنا سینہ پہلی جگہ سے دور کرلیا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :3470 صحیح مسلم رقم الحدیث :2766، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2623)
اور جب سو آدمیوں کے قاتل کی مغفرت ہوسکتی ہے تو سو آدمیوں کے قاتل کی شفاعت بھی ہوسکتی ہے اور اس شفاعت کو بونگی شہادت کہنا قرآن مجید کی آیات اور احادیث صحیحہ کا مذاق اڑنے کے مترادف ہے۔
امام مسلم نے اس حدیث کی ایک اور سند بیان کی ہے اس میں مذکر ہے اللہ تعالیٰ نے اس زمین سے (جہاں سے وہ روانہ ہوا تھا) فرمایا ” تو دور ہوجا “ اور اس زمین سے (جہاں اللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں کی بستی تھی) فرمایا ” تو قریب ہوجا۔ “
اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ الویاء اللہ کا خود شفاعت کرنا تو بڑی چیز ہے، اگر سو آدمیوں کا ق اتل صرف ان کی بستی کا رخ بھی کرے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان اولیاء اللہ کی اس قدر وجاہت ہے کہ وہ اس قاتل کو معاف فرما دیتا ہے، اللہ تعالیٰ نے بستی کی جانب کی زمین کو قریب ہونے اور اس کے مقابل زمین کو دور ہونے کا حکم دیا تاکہ یہ ظاہر ہوجائے کہ زمین کی واقعی پیمئاش اور فاصلوں کو تبدیل کیا جاسکتا ہے لیکن اولایء اللہ کی طرف جانے والوں کو محروم نہیں کیا جاسکتا، ابھی تو سو آدمیوں کے قاتل نے اللہ کے دوستوں کی شفاعت بالفعل حاصل نہیں کی تھی صرف ان کی شفاعت کے حصول کا قصد کیا تھا تو بخش دیا گیا اگر وہ عبادت گزار نیک بندے اس کی شفاعت کردیتے تو اس کی بخشش کا کیا ٹھکانا ہوتا اور جب سو آدمیوں کے قاتل کی مغفرت کی شفاعت ہوسکتی ہے تو ہزار آدمیوں کے قاتل کی مغفرت کی بھی شفاعت ہوسکتی ہے اور یہی وہ شفاعت ہے جسکو سید مودودی نے لکھا ہے کہ یہ بونگی شفاعت ہے اور اس شفاعت کو بونگی شفاعت کہنا قرآن مجید کی آیات اور احادیث صحیحہ کا مذاق اڑانا ہے، بہرحال آفتاب سے زیادہ روشن ہوگیا کہ شفاعت کے متعقل سید ابوالاعلیٰ مودودی کا نظریہ وہی ہے جو خوارج اور معتزلہ کا نظریہ تھا اور یہ نظریہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کے خلاف ہے اور باطل اور مردود نظریہ ہے۔
شفاعت کے متعلق علماء اہل سنت کا نظریہ
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 793 ھ لکھتے ہیں :
ہمارے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتبک کی شفاعت کرنا جائز ہے کیونکہ دلائل سے ثابت ہے کہ گناہ کبیرہ معاف ہوجاتے ہیں نیز تواتر سے منقول ہے کہ اہل کبائر کی شفاعت ہوگی اور شفاعت کے عموم پر اس آی سے استدلال کیا جاتا ہے :
واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات (محمد :19) اور آپ اپنے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کاموں کی بخشش چاہیں اور ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کے گناہوں کی معافی طلب کریں۔
اور اصل شفاعت نص اور اجماع سے ثابت ہے اور معتزلہ کے نزدیک توبہ کے بعد عذاب نہیں ہوتا، اور کبریہ سے اجتناب کے بعد کوئی صغیرہ نہیں رہتا پس متعین ہوگیا کہ شفاعت کبائر کو ساقط کرنے کے لئے ہوتی ہے، معتزلہ نے شفاعت کی نفی پر اس قسم کی آیات سے استدلال کیا ہے :
لایقبل منھا شفاعۃ (البقرہ :48) اس دن کسی نفس سے شفاعت قبول نہیں کی جائے گی۔
وما للظلامین من حمیم ولاشفیع یطاع (المومن :18) ان ظالموں کا نہ کوئی دوست ہوگا نہ کوئی سفارشی جسکی بات مانی جائے۔
وما للظلامن من انصار (آل عمران :192) اور ظالموں کا کوئی دوست نہیں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں کفار کی شفاعت کی نفی کی گئی ہے، ثانیاً اگر ان کو مرتکب کبیرہ کے لئے بھی فرض کیا جائے تو ہوسکتا ہے کہ دنیا میں ان کی شفاعت قبول نہ ہو اور آخرت میں قبول ہو، اور محشر میں کئی احوال ہوں گے ہوسکتا ہے جس وقت اللہ تعالیٰ جلال میں ہو اس وقت ان کی شفاعت قبول نہ ہو اور بعد میں قبول ہوجائے۔
ولایشفعون الالمن ارتضیٰ (الانبیاء :28) وہ صرف ان کی شفاعت کریں گے جن سے اللہ راضی ہے اور اللہ گناہ کبیرہ کرنے والے سے رضاین ہیں ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے بھی ایمان اور کلمہ سے اللہ تعالیٰ راضی ہے۔
مرتکب کبیرہ کے لئے شفاعت نہ ہونے پر دوسری دلیل یہ ہے :
فاغفرللذین تابوا (المومن :7) ان کے لئے بخشش کی دعا کیجیے جنہوں نے توبہ کی ہے۔
اور جو فاسق بغیر توبہ کے مرگیا، اس آیت میں اس کے لئے شفاعت کی نفی کی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ان کے لئے شفاعت کیجیے جنہوں نے شرک اور کفر سے توبہ کی ہے اور اس آیت میں گناہ کبیرہ سے توبہ مراد نہیں ہے، کیونکہ دوسری آیات سے ان کے لئے شفاعت ثابت ہے۔
معتزلہ کے نزدیک شفاعت کے ثبوت کی جو آیات ہیں وہ اطاعت کرنے والوں اور توبہ کرنے والوں کے درجات بلند کرنے کے ساتھ مخصوص ہیں اور ہمارے نزدیک گناہ کبیرہ کے مرتکبین کے گناہ ساقط کرنے کے لئے شفاعت کرنا جائز ہے۔ خواہ یہ شفاعت میدان محشر میں ہو یا دوزخ میں دخول کے بعد ہو، کیونکہ مشہور بلکہ متواتر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرتکبین کبیرہ کی شفاعت فرمائیں گے۔
حضرت انس (رض) کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر (کبیرہ گناہ کرنے والوں) کے لئے ہوگی۔ امام ترمذی نے کہا اس سند سے یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث 2435، سنن ابودائود، رقم الحدیث :4739، مسند البز اور رقم، الحدیث 3469 مسند ابویعلی رقم الحدیث :3884 صحیح ابن حبان رقم الحدیث 6484 المعجم الاوسط رقم الحدیث :8513 المسترک ج ١ ص 69، مسند حمد ج ٣ ص 213)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر کے لئے ہے (اس حدیث کے راوی) محمد بن علی بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت جابر نے کہا اے محمد ! جو شخص اہل کبائر سے نہ ہو اس کا شفاعت سے کیا تعلق ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2436، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4310، مسند ابودائود الطیالسی رقم الحدیث :1669، الشریعتہ للآجری ص 338، حلیتہ الاولیاء ج ٣ ص 200)
اور توبہ کے بعد عذاب کو ترک کردینا معتزلہ کے نزدیک واجب ہے، پھر جن آیات میں شفاعت کا ذکر کیا ہے ان کا کوئی زیادہ فائدہ نہیں ہوگا، کیو کہ درجات کی بلندی کوئی خاص فائدہ نہیں ہے اور صغائر ویسے ہی معاف ہوجاتے ہیں اس لئے شفاعت کی آیات کو کبائر کی معافی پر محمول کرنا ہی لائق ہے۔
ہر چند کہ ہم تبیان القرآن کی اس جلد میں الہکف :49 کی تفسیر میں گناہ کبیرہ کے متعلق تفصیل سے لکھ چکے ہیں لیکن علامہ تفتازانی نے اس بحث میں کبائر کا بھی ذکر کیا ہے اس لئے ہم اس کو بھی نقل کر رہے ہیں۔
گناہ کبیرہ اس معصیت کو کہتے ہیں جو دین کے ساتھ بےپرواہی برتنے کی خبر دیتی ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ جس معصیت پر شارع نے خصوصیت کے ساتھ وعید سنائی ہو وہ گناہ کبیرہ ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ شرک، قتل ناحق، پاک دامن کو تہمت لگانا، زانا، میدان جہاد سے بھاگنا، جادو کرنا، یتیم کا مال کھانا، ماں باپ کی نافرمانی کرنا، حرم میں کوئی گناہ کرنا، سود کھانا، چوری کرنا اور شراب پینا یہ تمام کام گناہ کبیرہ ہیں۔ (ہمارے نزدیک مختار تعریف یہ ہے کہ فرض کو ترک کرنا اور حرام کا ارتکاب کرنا گناہ بکیرہ ہے اور واجب کو ترک کرنا اور مکروہ تحریمی کا ارتکاب کرنا گناہ صغیرہ ہے۔ ) (شرح المقاصد ج ٥ ص 157-161 ملحضاً و موضحاً مطبوعہ منشورات الشریف قم ایران 1409 ھ)
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی 676 ھ لکھتے ہیں :
قاضی عیاض (رح) نے کہا ہے کہ شفاعت کرنا عقلاً جائز ہے اور دلائل سمعیہ کے اعتبار سے شفاعت کا عقیدہ رکھنا اجب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یومئذ لاتنفع الشفاعۃ الا من اذن لہ الرحمٰن و رضی لہ قولاً ۔ (طہ، 109)
اس دن اس کے سوا کسی کی شفاعت نفع نہیں پہنچائے گی جس کو رحمٰن نے اجازت دی ہو اور اس کے قول سے وہ راضی ہ۔
ولایشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء 28) اور وہ صرف اس کی شفاعت کریں گے جس سے وہ راضی ہوگا۔
اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شفاعت کے متعق اس کثرت سے احادیث فرمائی ہیں جو معنی متواتر ہیں اور آثار صحابہ اور انکے بعد تمام متقدمین اور متاخرین کا اس پر اجماع ہے کہ میدان حشر میں مسلمان گنہ گاروں کی شفاعت کی جائے گی۔ خوارج اور معتزلہ نے شفاعت کا انکار کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ مسلمان گنہ گار دائما دوزخ میں رہیں گے اور ان کا استدلال ان آیات سے ہے : فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین (المدثر :48) اللظلالمین من حمیم ولا شفیع یطاع (المومن :18) حالانکہ یہ آیات کفار کے متعلق ہیں۔ وہ شفاعت کی احادیث کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ شفاعت درجات میں بلندی کے لئے ہوگی لیکن ان کی یہ تاویل باطل ہے اور شفاعت کی آیات اور احادیث میں یہ صراحت ہے کہ جو مسلمان دوزخ کا مستحق ہوچکا ہوگا اس کے لئے شفاعت کی جائے گی۔ تاہم شفاعت کی پانچ اقسام ہیں :
(١) ایک شفاعت ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے اور یہ میدان محشر کے خوف اور دہشت سے راحت پہنچانے اور حساب اور کتاب جلد شروع کرانے کے لئے ہوگی۔
(٢) مسلمانوں کے ایک گروہ کو بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل کرنے کے لئے آپ شفاعت کریں گے اور یہ شفاعت بھی ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خاص ہے۔
(٣) جو گنہگار مسلمان دوزخ میں داخل کردیئے گئے ہوں گے، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے ان کو دوزخ سے نکالا جائے گا اور ملائکہ کی شفاعت سے اور ان کے مسلمان بھائیوں کی شفاعت سے، پھر اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو دوزخ سے نکال لے گا جس نے لا الہ الا اللہ کہا ہو، حدیث میں ہے کفار کے سوا دوزخ میں کوئی نہیں رہے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤ )
(٥) اہل جنت کے درجات کی بلندی کے لئے شفاعت کی جائے گی۔ معتزلہ اس قسم کا اور پہلی قسم کا انکار نہیں کرتے۔
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ نقل متواتر سے یہ ثابت ہے کہ سلف صلاحین (رض) ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت کا سوال کرتے تھے اور آپ کی شفاعت کے حصول میں رغبت کرتے تھے، اس لئے ان لوگوں کے قول کی طرف توجہ نہ کی جائے جو شفاعت کا سوال کرنے سے منع کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ شفاعت تو گناہگاروں کے لئے کی جائے گی سو جو شخص اپنے لئے شفاعت کا سوال کرتا ہے وہ درحقیقت اپنے آپ کو گناہگار قرار دیتا ہے، ان لوگوں کا اس دلیل سے شفاعت کے سوال کو منع کرنا اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جس طرح شفاعت گناہگاروں کے لئے کی جائے گی اسی طرح شفاعت تخفیف حساب کے لیء بھی کی جائے گی اور درجات کی بلندی کے لئے بھی کی جائے گی، پھر ہر صاحب عقل اپنی تقصیر کا اعتراف کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا محتاج ہوتا ہے اور اپنے اعمال پر مغرور نہیں ہوتا اور ان کو لائق شمار نہیں گردانتا، اور اس سے ڈرتا ہے کہ وہ عذاب میں مبتلا ہوجائے اور جو شخص اس وجہ سے شفاعت کے حصول کی دعا سے منع کرتا ہے کہ جب وہ کہے گا : اے اللہ ! مجھے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت عطا فرما تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو گناہگار قرار دے رہا ہے تو پھر اس شخص کو چاہیے کہ وہ اپنے لئے مغفرت اور رحمت کی دعا بھی نہ کیا کرے۔ (صحیح مسلم بشرح النواوی ج ١ ص 1023-1025 مطبوعہ مکتبہ نزارمصطفی الباز مکہ مکرمہ 1417 ھ)
شفاعت کے متعلق قرآن مجید کی آیات
انبیاء (علیہم السلام) کی شفاعت
حضرت نوح (علیہ السلام)
(١) رب اغفرلی ولوالدی ولمن دخل بیتی مومنا (نوح 28) اے میرے رب ! میری میرے والدین کی اور جو مومن میرے گھر میں داخل ہوں ان کی مغفرت فرما۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام)
(٢) ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب۔ (ابراہیم :41) اے ہمارے رب ! روز حشر میری، میرے والدین کی تمام مومنوں کی مغفرت فرما۔
(٣) ساستغفرلک ربی انہ کان بی حقیقاً ۔ (مریم 47) میں عنقریب اپنے رب سے تیری شفاعت کروں گا، وہ مجھ پر مہربان ہے۔
(٤) الا قول ابراہیم لابہ لاستغفرن لک (المتحنہ : ٤) مگر ابراہیم کا قول اپنے باپ کے لئے کہ میں تیری شفاعت کروں گا۔
(٥) فمن تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور رحیم۔ (ابراہیم :36) جو میرا پیروکار ہے، وہ میرا ہے اور جس نے میرے کہنے پر عمل نہیں کیا تو اس کے لئے تو بخشنے والا اور مہربان ہے۔
(٦) رب اغفرلی ولاخی وادخلنا فی رحمتک (الاع عراف :151) اے میرے رب ! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی حمت میں داخل کر دے۔
حضرت یعقوب (علیہ السلام)
(٧) سوف استغفرلکم ربی انہ ھو الغفور الرحیم (یوسف :98) میں عنقرب اپنے رب سے تمہاری شفاعت کروں گا، لاریب وہ بخشنے والا مہربان ہے۔
حضرت یوسف (علیہ السلام)
(٨) لاتشریب علیکم الیوم، یغفر اللہ لکم (یوسف :92) آج تم پر کوئی ملامت نہیں اللہ تعالیٰ تہاری مغفرت فرمائے۔
حضرت عیسیٰ (علیہ السلام)
(٩) ان تعذبھم فانھم عبادک وان تغفرلھم فانک انت العزیز الحکیم۔ (ائمادہ :118) اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو، تو غالب اور حکمت والا ہے۔
حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے طلب شفاعت
(10) (النساء :64) آپ انکی شفاعت کردیں تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں گے۔
(١١) واستغفر لذنبک وللمومنین والمومنات (محمد :19) اپنے (بظاہر خلاف اولیٰ کاموں اور مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں کے لئے مغفرت طلب کیجیے۔
(١٢) فاعف عنھم واستغفرلھم (آل عمران :159) ان کو معاف کردیجیے اور ان کے لئے شفاعت کیجیے۔
صالحین کی شفاعت مومنین کے لئے
(١٣) ربنا اغفرلنا ولا خواننا الذین سبقونا بالایمان (الحشر :10) اے ہمارے رب ! ہماری مغفرت فرما اور ہم سے پہلے گزرے ہوئے مسلمان بھائیوں کی۔
فرشتوں کی شفاعت
(١٤) الذین یحملون العرش ومن حولہ، یسبحون بحمد ربھم ویومنون بہ ویستغفرون للذین امنوا۔ (المومن :7) وہ فرشتے جو عرش الٰہی کو اٹھائے ہئے ہیں اور جو اس کے اردگرد ہیں وہ اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے لئے بخشش طلب کرتے ہیں۔
(١٥) یوم یقوم الروح والملائکۃ صقاً لایستکلمون الا من اذن لہ الرحمٰن وقال صواباً ۔ (النباء :38) جس دن جبرئیل اور عام فرشتے صف باندھے کھڑے ہوں گے اس دن اللہ تعالیٰ کے حضور وہی بات کرسکے گا جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے گا اور وہ صحیح بات کرے گا۔
(١٦) ولا یشفعون الا لمن ارتضیٰ (الانبیاء :28) اور فرشتے اسی کی شفاعت کریں گے جس کی شفاعت پر اللہ تعالیٰ راضی ہوگا۔
(١٧) فاغفر للذین تابوا واتبعوا سبلک رفھم عذاب الجحیم۔ (المومن :7) اے اللہ ! ان لوگوں کو معاف کر جنہوں نے توبہ کی اور تیری راہ پر چلے اور ان کو جہنم کے عذاب سے بچا۔
(١٨) ربنا وادخلھم جنات عدن التی وعدتھم ومن صلح من ابآئھم وازواجھم وذریتھم انک انت العزیز الحکیم۔ (المومن :8) اے ہمارے رب ! مسلمانوں کو دائمی جنت میں داخل فرما جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہے اور جو ان کے آباء، ازواج اور اولاد میں سے صالح ہوں ان کو بھی جنت میں داخل فرما، لاریب تو غالب اور حکمت والا ہے۔
(١٩) وقھم السیات ومن تق السیات یومئذ فقد رحمتہ وذلک ھو الفوز العظیم۔ (المومن :9) اے اللہ ! ان لوگوں کو گناہوں کے عذاب سے بچا اور جس شخص کو تو نے اس دن گناہوں کے عذاب سے بچا لیا اس پر تو نے رحم کیا اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔
کفار کا شفاعت سے محروم ہونا، شفاعت کا ان کے لئے نفع آور نہ ہونا اور ان کا کوئی مددگار نہ ہونا اور اس محرومی پر ان حسرت (اگر مسلمانوں کو بھی کسی کی نصرت اور شفاعت حاصل نہ ہو تو کفار کے لئے محرومی باعث حسرت نہ ہوگی کیوں کہ وہ دیکھیں گے کہ مسلمان بھی اس محرومی میں ان کے ساتھ ہیں۔ )
(٢٠) فما تنفعھم شفاعۃ الشافعین۔ (المدثر :48) کفار کو شفاعت کرنے والوں کی شفاعت نفع نہ دے گی۔
(٢١) فا لنامن شفعآء فیشفعوا لنا (الاعراف 53) تو کیا ہماری شفاعت کرنے والے کوئی ہیں ؟ جو ہماری شفاعت کریں۔
(٢٢) فھمل لناس شافعین۔ (الشعراء :100) تو کیا ہمارے لئے شفاعت کرنے والے ہیں ؟
(٢٣) لیس لھم من دونہ ولی ولا شفع (الا انعام :51) تو اللہ سے ہٹ کر کفار کا کوئی مددگار ہے نہ کوئی شفاعت کرنے والا۔
(٢٤) ماللظلمین من حمیم ولا شفع یطاع۔ (الغافر :18) کفار کے لئے کوئی ایسا مددگار اور شفاعت کرنے والا نہ ہوگا جس کی بات مانی جائے۔
شفاعت کے متعلق چالیس احادیث
(١) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سوال کیا کہ قیامت کے دن آپ میرے لئے شفاعت کریں، آپ نے فرمایا میں کرنے والا ہوں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں آپ کو کہاں تلاش کروں ؟ آپ نے فرمایا تم سب سے پہلے مجھے صراط پر تلاش کرنا، میں نے عرض کیا اگر میں صراط پر آپ سے ملاقات نہ کرسکوں ۔ آپ نے فرمایا : پھر تم مجھے میزان کے پاس طلب کرنا، میں نے رض کیا اگر میں میزان کے پاس آپ سے ملاقات نہ کرسکوں، فرمایا پھر تم مجھے حوض کے پاس طلب کرنا کیو کہ میں ان تین مقامتا سے تجاوز نہیں کروں گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2433، مسند احمد ج و ص 178)
(٢) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر نبی کی ایک دعا قبول ہوتی ہے۔ پس ہر نبی نے وہ دعا جلد مانگ لی اور میں نے اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھا ہوا ہے اور یہ انشاء اللہ میری امت میں سے ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو اس حال میں مرا کہ اس نے اللہ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6304 صحیح مسلم رقم الحدیث :199، مسند احمد ج ٢ ص 486، مئوطا امام مالک رقم الحدی :149، سنن داری رقم الحدیث :2809 سنن الترمذی رقم الحدیث :3602، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4307)
(٣) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت میری امت کے اہل کبائر (کبیرہ گناہ کرنے والوں) کے لئے ہوگی (صغائر کی مغفرت، کبائر سے اجتناب اور نیک کام کرنے کی وجہ سے بغیر شفاعت کے محض اللہ کے فضل سے ہوجائے گی۔ ) (سنن ابودائود رقم الحدیث :4739، سنن الترمذی رقم الحدیث :2445، مسند احمد ج ٣ ص 213)
(٤) حضرت جابر نے کہا جس شخص کے کبیرہ گناہ نہ ہوں اس کا شفاعت سے کیا تعلق ہے ! (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :431، سنن الترمذی رقم الحدیث :2436)
(٥) حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرے رب کی طرف سے میرے پاس ایک آنے والا اور اس نے مجھے شفاعت کے درمیان اور اس میں اختیار دیا کہ میری نصف امت جنت میں داخل کردی جائے، تو میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا، اور یہ ہر اس شخص کو حاصل ہوگی جو اس حال میں مرا ہو کہ اس نے شرک نہ کیا ہو۔ (مسند احمد ج ٦ ص 23 سنن الترمذی رقم الحدیث :2441)
(٦) حضرت عمران بن الحصین (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری شفاعت کی وجہ سے ایک قوم کو جہنم سے نکالا جائے گا ان کا نام جہنمین رکھا جائے گا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4315، مسند احمد ج ٤ ص 434، صحیح البخاری رقم الحدیث :6559 سنن ابودائود رقم الحدیث :4740 سنن الترمذی رقم الحدیث :2600)
(٧) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میرے پیروکار تمام ابیناء سے زیادہ ہوں گے اور میں سب سے پہلے جنت کا دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6305 صحیح مسلم رقم الحدیث :196، سنن الدارمی رقم الحدیث :51)
(٨) حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم سردار ہوں گا اور فخر نہیں اور میرے ہی ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہوگا اور فخر نہیں اور اس دن ہر نبی خواہ آدم ہوں یا کوئی اور سب میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور میں سب سے پہلے (قبر ک) زمھین سے اٹھوں گا اور فخر نہیں، فرمایا اس دن لوگ تین بار خوف زدہ ہوں گے پھر وہ حضرت آدم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ ہمارے باپ آدم ہیں آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے، وہ کہیں گے میں نے ایک (ظاہری) گناہ کیا ہے، میں اس کی وجہ سے زمین پر اتار دیا گیا۔ لیکن تم نوح کے پاس جائو، پھر لوگ حضرت نوح کے پاس جائیں گے، پس وہ کہیں گے میں نے زمین والوں کے خلاف ایک دعا کی تھی جس کے نتیجہ میں وہ ہلاک کردیئے گئے، لیکن تم ابراہیم کے پاس جائو، پھر لوگ حضرت ابراہیم کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے بیشک میں نے تین (ظاہری) جھوٹ بولے تھے۔ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ن میں سے ہر جھوٹ ایسا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے دین کی کسی رخصت کو حلال کیا، لیکن تم موسیٰ کے پاس جائو۔ پھر لوگ حضرت موسیٰ کے پاس جائیں گے وہ کہیں گے بیشک میں نے ایک شخص کو قتل کردیا تھا، لیکن تم عیسیٰ کے پاس جائو، پھر وہ لوگ حضرت عیسیٰ کے پاس جائیں گے، وہ کہیں گے بیشک میری اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے لیکن تم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو۔ آپ نے فرمایا پھر لوگ میرے پاس آئیں گے۔ پس میں انکے ساتھ چل پڑوں گا۔ حضرت انس نے کہا گویا میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف دیکھ رہا ہوں آپ نے فرمایا میں جنت کے دروازہ کی کنڈی کو پکڑ کر کھٹکھٹائوں گا۔ پس کہا جائے گا، یہ کون ہے ؟ پھر کہا جائے گا یہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہ مجھے مرحبا مرحبا کہیں گے، پھر میں سجدہ میں گر جائوں گا، پس اللہ مجھے حمد اور ثنا الہام فرمائے گا، مجھ سے کہا جائے گا اپنا سر اٹھا ئیے ! آپ سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی اور آپ کہئے آپ کی بات سنی جائے گی اور یہی وہ مقام محمود ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
عسی ان یعثک ربک مقاماً محموداً ۔ (بنی اسرائیل :79) عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3148، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4308، مسند احمد ج ٣ ص ٢)
فائدہ، اس حدیث میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے یہ عذر پیش کیا کہ ان کی اللہ کے سوا عبادت کی گئی ہے۔ اگر ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بھی اللہ کے سوا عبادت کی جاتی تو آپ بھی یہ عذر پیش کرتے اور شفاعت نہ کرتے، لیکن آپ نے ایسا نہیں فرمایا اور شفاعت فرمائی اس سے معلوم ہوا کہ قیامت تک آپ کی عبادت نہیں کی جائے گی اور اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ آپ سے مدد طلب کرنا، دور سے آپ کو پکارنا، یا رسول اللہ کہنا، ان میں سے کئویچیز بھی آپ کی عبادت نہیں ہے، اسی طرح آپ کو صفائی نور ماننا، آپ کے لئے علم غیب ماننا، آپ کو شافی الامراض اور دافع البلاء ماننا اور آپ کو مختار ماننا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت سے آپ تمام روئے زمین کو دیکھتے ہیں اور ہر جگہ سے سنتے ہیں ان میں سے کوئی چیز بھی شریک نہیں ہے، ورنہ یہ لازم آئے گا کہ آپ کو بھی حضرت عیسیٰ کی طرح اللہ تعالیٰ کا شریک بنایا گیا ہو اور اللہ کو چھوڑ کر آپ کی عبادت کی گئی ہو اور اگر ایسا ہوتا تو آپ بھی لوگوں کی شفاعت نہ کرتے اور حضرت عیسیٰ کی طرح عذر فرما دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا پس واضح ہوگیا کہ ان میں سے کوئی چیز شرک نہیں ہے۔
(٩) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن میں جن کی سب سے پہلے شفاعت کروں گا وہ میرے اہل بیت ہیں، پھر قریش اور انصار میں سے جو سب سے زیادہ قریب ہوں، پھر اہل یمن میں سے جو لوگ مجھ پر ایمان لائے اور انہوں نے میری اتباع کی، پھر باقی عرب، پھر عجم اور جو اولوالفضل ہیں میں ان کی پہلے شفاعت کروں گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :13550 مجمع الزوائد رقم الحدیث :18538)
(١٠) عبدالملک بن عباد بن جعفر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنی امت میں پہلے اہل مدینہ، اہل مکہ اور اہل طائف کی شفاعت کروں گا۔ (مسند البرازرقم الحدیث :3470 المعجم الاوسط رقم الحدیث :1848 مجمع الزوائد رقم الحدیث :18539)
(١١) حضرت عثمان بن عفان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے انبیاء شفاعت کریں گے پھر شہداء شفاعت کریں گے، پھر مئوذنین شفاعت کریں گے۔ (مسند امد ج ٢ ص 174، مسند البز اور رقم الحدیث :3471، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18543)
(١٢) حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھ سے میرے رب نے یو وعدہ کیا ہے کہ میری امت سے ستر ہزار کو جنت میں دخل فرمائے گا جن سے کوئی حساب ہوگا نہ ان کو عذاب ہوگا اور ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور تین بار دونوں ہاتھوں سے بھربھر کر جنت میں ڈال دے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2437، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص 471، مسند احمد ج ٥ ص 268، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4286، المعجم الکبیر رقم الحدیث :7520، مسند الشامین رقم الحدیث :820، الاسماء و الصفات جز ٢ ص 62)
(١٣) حضرت ابو سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رہے دوزخ والے تو یہ وہ لوگ ہیں جو دوزخ کے مستحق ہیں یہ لوگ دوزخ میں نہ مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ ایسے ہوں گے جن کو ان کے گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں ڈالا جائے گا، پس اللہ ان پر موت طاری کر دے گا۔ (یعنی ان کو بےہوش کر دے گا گویا ان کو صورۃ عذاب ہوگا، حقیقتہ عذاب نہیں ہوگا) حتیٰ کہ جب وہ کوئلہ ہوجائیں گے، تو شفاعت کی اجازت دی جائے گی، پھر انکو گروہ درگروہ لایا جائے گا۔ پھر ان کو جنت کے دریائوں میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر کہا جائے گا اے اہل جنت ان پر پانی ڈالو، پھر جس طرح کیچڑ میں پڑے ہوئے بیج سے سبزہ اگتا ہے وہ اس طرح اگنے لگیں گے، مسلمانوں میں سے ایک شخص نے کہا گویا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھیتی باڑی کرتے رہے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :185، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4309 مسند احمد ج ٣ ص ٥، سنن الداری رقم الحدیث :2820، مسند ابویعلی رقم الحدیث :1097 صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :419 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :184)
(١٥) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں، مجھے گوروں اور کالوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے اور مجھ سے پہلے صرف ایک قوم کی طرف نبی مبعوث کیا جاتا تھا، اور میرے لئے تمام روئے زمین کو مسجد اور آلہ تمیم بنادیا گیا اور ایک ماہ کی مسافت کے رعب سے میری مدد کی گئی ہے اور میرے لئے غنیمتوں کو حلال کردیا گیا ہے اور مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں تھیں، اور مجھے شفاعت دی گئی تو میں نے اس کو اپنی امت کے لئے مئوخر کردیا سو وہ ہر اس شخص کو حال ہوگی جو اللہ کے ساتھ بالکل شرک نہیں کرے گا۔ (مسند البزارقم الحدیث :3460 اس کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18500)
(١٦) حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اپنی امت کی شفاعت کروں گا حتیٰ کہ میرا رب مجھے ندا کرے گا اے محمد ! کیا آپ راضی ہوگئے ؟ میں کہوں گا اے رب ! بیشک میں راضی ہوگیا۔ (مسند البیز ارقم الحدیث :3466 المعجم الاوسط رقم الحدیث :2083، حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند کے ایک راوی کو میں نہیں پہچانتا باقی تمام راویوں کی توثیق کی گی ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث :18516)
(١٧) حضرت عبداللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے اچانک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشرف لائے آپ کا چہرہ پھول کی طرح چمک رہا تھا، ہم نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کس وجہ سے اس قدر خوش ہو رہے ہیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ابھی ابھی میرے پسا جبریل (علیہ السلام) آئے تھے انہوں نے مجھے یہ بشارت دی ہے کہ اللہ عزو جل نے مججھے شفاعت عطا فرمائی ہے۔ ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا وہ صرف بنو ہاشم کے لئے ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! ہم نے عرض کیا، کیا وہ صرف قریش کے لئے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں ہم نے عرض کیا، کیا وہ آپ کی (پوری) امت کے لئے ہے آپ نے فرمایا یہ میری امت کے گناہگاروں کے لئے ہے جو گناہوں سے بوجھل ہوں۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :5378، شرح السنتہ رقم الحدیث :823، حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند کے ایک راوی میں کو میں نہیں پہچانتا اباقی تمام راوی ثقہ ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18517)
(١٨) حضرت ابی امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا ہی خوب ہے وہ شخص ! میں اپنی امت کے بدکار لوگوں کے لئے ہوں ! آپ کی مجلس میں سے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ! پھر آپ اپنی امت کے نیک لوگوں کے لئے کس طرح ہوں گے۔ آپ نے فرمایا میری امت کے جو بکار لوگ ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ میری شفاعت کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا اور جو میری امت کے نیک لوگ ہوں گے ان کو اللہ تعالیٰ ان کے اعمال کی وجہ سے جنت میں داخل کرے گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث، 7483، اس کی سند کا ایک راوی ضعیف ہے باقی راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18518)
(١٩) حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عمل کرو اور (عمل پر) اعتماد نہ کرو، میری شفاعت میری امت کے ان لوگوں کے لئے ہے جو گناہوں میں ہلاک ہوچکے ہوں گے۔ (المعجم الکبیرج ٢٣ ص 369، اس کی سند کا صرف ایک راوی ضعیف ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18524)
(٢٠) حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں رئے زمین کے تمام درختوں اور پتھروں کی تعداد کے برابر شفاعت کروں گا۔ (مسند احمد ج ٥ ص 437، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18535)
(٢١) حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل جنت ان لوگوں کو نہیں پائیں گے۔ جن کو وہ دنیا میں پہچانتے تھے۔ وہ انبیاء (علیہم السلام) کے پاس جا کر ان کا ذکر کریں گے وہ ان کی شفاعت کریں گے ان کی شفاعت قبول کی جائے گی ان کو طلقاء کہا جائے گا۔ ان پر آب حیات ڈالا جائے گا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث :3068، اس حدیث کی سند حسن ہے مجمع الزوائد رقم الحدیث :18529)
(٢١) حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری امت کے کچھ لوگوں کو ان کے گناہوں پر عذاب دیا جائے گا جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا وہ دوزخ میں رہیں گے پھر مشرکین ان کو عار دلائیں گے اور کہیں گے تم نے جو نبی کی تصدیق کی تھی اور یمان لائے تھے اس نے تم کو نفع نہیں دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ دوزخ میں کسی موحد کو نہیں چھوڑے گا سب کو دوزخ سے نکال دے گا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس آیت کو پڑھا :
ربما یودالذین کفروا لو کانوا مسلمین۔ (الحجر : ٢) بسا اوقات کافر یہ تمنا کریں گے کاش وہ مسلمان ہوتے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :10509، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18532)
(٢٢) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا انبیاء (علیہم السلام) کے لئے ایسے نور کے منبر بچھائے جائیں گے جن پر وہ بیٹھیں گے، میں ان پر نہیں بیٹھوں گا، میں اپنے رب کے سامنے کھڑا رہوں گا، اس خوف سے کہ مجھے جنت میں بھیج دیا جائے گا اور میری امت رہ جائے گی، پس میں کہوں گا اے میرے رب ! میری امت ! میری امت ! پس اللہ عزو جل فرمائے گا : محمد ! آپ کیا چاہتے ہیں کہ میں آپ کی امت کے ساتھ کیا کروں ؟ پس میں کہوں گا : اے میرے رب ! ان کا حساب لے لے، پس ان کو بلایا جائے گا اور ان کا حساب لیا جائے گا، پس ان میں سے کہیں گے، میں ان کی مسلسل شفاعت کرتا رہوں گا، حتیٰ کہ جن لوگوں کو دوزخ میں داخل کیا ہوگا ان کو بھی رہائی کا پروانہ لکھ دیا جائے گا، اور دوزخ کا داروغہ مالک یہ کہے گا یا محمد ! آپ نے اپنے رب کے غضب کا نشانہ بننے کے لئے اپنی امت کے کسی فرد کو نہیں چھوڑا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :10771 المعجم الاوسط رقم الحدیث :2958 المعجم الاوسط کا ایک راوی ضعیف ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18536)
(٢٣) حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن روزہ اور قرآن بندہ کی شفاعت کریں گے، روزہ کہے گا : اے میرے رب اس کو کھانے اور شہوت پوری کرنے سے میں نے منع کردیا تھا اس کے لئے میری شفاعت قبول فرما اور قرآن کہے گا اس کو رات کی نیند سے میں نے منع کردیا تھا، اس کے لئے میری شفاعت قبول فرما، پس ان دونوں کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (مسند احمد ج ٢ ص 174، اس حدیث کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18523)
(٢٤) حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص جو نبی نہیں ہوگا اس کی شفاعت سے ربیعہ اور مضر دو قبیلوں جتنے لوگ جنت میں داخل ہوں گے۔ (مسند احمد ج ٥ ص 257 المعجم الکبیر رقم الحدیث :7638، یہ حدیث متعدد اسایندے سے مروی ہے مجمع الزوائد رقم الحدیث :18544)
(٢٥) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن دوزخ والوں کی صفیں بنائی جائیں گی ان کے پاس سے مومنین گزریں گے، پھر دوزخ کی صفوں میں سے ایک شخص کسی کامل مومن کو دیکھے گا جس کو وہ دنیا میں پہچانتا تھا وہ اس سے کہے گا : اے شخص کیا تجھے یاد ہے کہ تو نے فلاں فلاں کام میں مجھ سے مدد طلب کی تھی، پھر اس کو مومن کامل یاد کرے گا اور اس کو پہچان لے گا، پھر اس کی اپنے رب کے حضور شفاعت کرے گا اور اللہ اس کی شفاعت قبول فرما لے گا۔ (مسند ابویعلی رقم الحدیث :4373 المعجم الاوسط رقم الحدیث :6507 اس کی سند ضعیف ہے، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18547)
(٢٦) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک جنگل میں دو آدمی سفر کر رہے تھے ایک عبادت گزار تھا اور دوسرا بدکار تھا، عبادت گزار کو پیاس لگی حتیٰ کہ وہ شدت پیاس سے گرگیا ، بدکار اس کو دیکھ رہا تھا اس کے پاس پانی تھا اور عابد بےہشو پڑا تھا اس نے سوچا اگر میرے پاس پانی ہونے کے باوجود یہ نیک بندہ پیاس سے مرگیا تو مجھے اللہ کی طرف سے کبھی خیر نہیں پہنچے گی اور اگر میں نے اپنا پانی اس کو پلا دیا تو میں پیاس سے مر جائوں گا وہ اللہ پر توکل کر کے اٹھا اور اس پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور اس کو اپنا فاضل پانی پلا دیا، پھر اس نے اپنا سفر طے کرلیا، قیامت کے دن وہ بدکار حسبا کے لئے پیش کیا گیا، اس کو دوزخ میں ڈالنے کا حکم دیا گیا، فرشتے اس کو دوزخ میں لے جا رہے تھے، اس نے اس عابد کو دیکھ کر کہا : اے فلاں شخص کیا تم مجھ کو پہچانتے ہو، عابد نے کہا تم کون ہوڈ اس نے کہا میں وہ شخص ہوں جس نے جنگل میں اپنے اوپر تم کو ترجیح دی تھی، عابد نے کہا ٹھیک ہے ! میں تم کو پہچانتا ہوں، پھر فرشتوں سے کہا ٹھہرو ! فرشتوں کو ٹھہرایا گیا اس عابد نے اپنے رب سے دعا کی، اے میرے رب ! تو جانتا ہے اس شخص نے مجھ پر احسان کیا تھا اور کس طرح اس نے اپنے اوپر مجھے ترجیح دی تھی ! اے میرے رب اس کو میرے لئے ہبہ کر دے، اللہ فرمائے گا وہ تمہارے لئے ہے پھر وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو جنت میں داخل کر دے گا ! (مسند ابویعلی رقم الحدیث :4212، مجمع الزوائد ج 10 ص 382، المطالب العالیہ رقم الحدیث :4658)
(٢٧) شرحبیل بن شفعہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعض صحابہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہف رماتے ہئے سنا ہے کہ قیامت کے دن بچوں سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جائو، وہ کہیں گے کہ اے ہمارے ربی ! حتیٰ کہ ہمارے آباء اور امہات داخل ہوجائیں، اللہ عزوجل فرمائے گا کیا سبب ہے کہ میں ان کو انکار کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں چلو جنت میں داخل ہو جائو ! وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! ہمارے آباء اور مہات ! اللہ عزو جل فرمائے گا تم بھی جنت میں داخل ہو جائو اور تمہارے آباء بھی ! (مسند حمد ج ٤ ص 105، اس حدیث کے تمام راوی صحیح اور ثقہ ہیں، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18551)
(٢٨) حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نا تمام بچہ اپنے رب سے جھگڑا کرے گا جب اس کے ماں باپ کو دوزخ میں داخل کیا جائے گا اس سے کہا جائے گا : اے ناتمام بچے اپنے رب سے جھگڑنے والے ! اپنے ماں باپ کو جنت میں داخل کرلے پھر وہ اپنے ماں باپ کو گھسیٹتا ہوا لائے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1608، مسند ابویعلی رقم الحدیث :468، اس کی سند ضعیف ہے)
(٢٩) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہئے سنا ہے میری امت میں سے جس کے دو کمسن بچے پیش رو ہوں، اللہ تعالیٰ اس کو ان کی وج ہ سے جنت میں داخل کر دے گا، حضرت عائشہ (رض) نے کہا اور جس کا آپ کی امت میں سے ایک کم سن بچہ پیش رو ہو ؟ آپ نے فرمایا جس کا ایک کم سن بچہ پیش رو ہوا اے خیر کی توفیق یافتہ ! حضرت عائشہ نے کہا اور جس کا آپ کی امت میں سے کوئی کمسن بچہ پیش رو نہ ہوڈ آپ نے فرمایا تو میں اپنی امت کا پیش رو ہوں ! میرے فراق سے بڑھ کر ان کے لئے کون سی مصیبت ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث 1062، مسند احمد ج ١ ص 334 مسند ابویعلی رقم الحیدث :2752، المعجم الکبیر رقم الحدیث :12880 سنن کبری بیہقی ج ٤ ص 68، تاریخ بغداد ج ١٢ ص 208)
(٣٠) حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے قرآن مجید پڑھا اور حفظ کیا اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کر دے گا، اور اس کو اپنے گھر کے ایسے دس افراد کے لئے شفاعت کرنے والا بنا دے گا جو سب دوزخ کے مستحق ہوچکے ہوں گے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :216، سنن الترمذی رقم الحدیث :2905)
(٣١) حضرت ام حبیبیہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے دکھایا گیا کہ میری امت کو میرے بعد کیا حالات پیش آئیں گے اور وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں گے، سو اس نے مجھے غم زدہ کردیا، اور یہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے پچھلی امتوں میں بھی مقدر کردیا تھا تو میں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ مجھے قیامت کے دن ان کی شفاعت کا والی بنا دے تو اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی۔ (المستدرک ج ١ ص 68، ذہبی نے اس حدیث کی موافقفت کی ہے، الترغیب والترہیب رقم الحدیث :5318 ھ)
(٣٢) حضرت عبدالرحمان بن ابی عقیل (رض) بیان کرتے ہیں میں ایک وفد کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاض رہوا، ہم میں سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! آپ نے اپنے رب سے سلیمان کے ملک کی طرح کسی ملک کا سوال کیوں نہیں کیا ؟ آپ نے ہنس کر فرمایا : تمہارے پیغمبر کے لئے اللہ کے پاس حضرت سلیمان کے ملک سے افضل چیز ہے، اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھیجا اس کو ایک دعا عطا فرمائی، بعض نبیوں نے اس دعا سے دنیا مانگ لی تو وہ ان کو دے دی گئی اور بعض نبیوں کی امت نے جب ان کی نافرمانی کی تو انہوں نے اس دعا کو خرچ کر کے ان کے لئے ہلاکت کی دعا کی تو ان کی امت کو ہلاک کردیا گیا اور مجھے وہ دعا دی گئی تو میں نے قیامت کے دن اپنی امت کی شفاعت کرنے کے لئے اس دعا کو چھپا کر رکھا۔ (مجمع الزوائد ج 10 ص 371، مسند البز اور رقم الحدیث :3459)
(٣٣) حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس قبلہ کے اہل سے بیشمار لوگ دوزخ میں داخل ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی اور جنہوں نے اس کی نافرمانی کی جرأت کی اور اس کی اطاعت کی مخالفت کی، ان کی تعداد کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، پس مجھے شفاعت کا اذن دیا جائے گا میں جس طرح کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہوں اسی طرح سجدہ میں اس کی حمد و ثنا کروں گا، مجھ سے کہا جائے پا اپنا سر اٹھایئے، سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ (المعجم الصغیر رقم الحدیث :103، مجمع الزوائد رقم الحدیث :18511، الترغیب والترہیب رقم الحدیث :5325)
(٣٤) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔ سنن دارقطنی رقم الحدیث :2269، مسند البزارج ٢ ص 57، مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢ کنزالعمال رقم الحدی :42583، حضرت عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری قبر کی زیارت کی میں اس کی شفاعت کرنے والا اور شہادت دینے والا ہوں گا۔ (السنن الکبری للبیہقی ج ٥ ص 245 کنز العمال رقم الحدیث :12371، الترغیب و الترہیب ج ٢ ص 224)
(٣٥) حضرت عبداللہ بن ابی الجدعا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہیں ہوئے سنا ہے میری امت کے ایک شخص کی شفاعت سے ضرور بنو تمیم سے زیادہ لوگ جنت میں داخل ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کے علاوہ ؟ آپ نے فرمایا : میرے عالوہ ! (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4316، مسند احمد ج ٣ ص 469، سنن الترمذی رقم الحدیث :2438، مسند ابو یعلی رقم الحدیث :6866 صحیح ابن حیان رقم الحدیث :7376، المستدرک ج ١ ص 70-71)
(٣٦) حضرت عوف بن مالک اشجعی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ رب نے مجھے آج رات کس چیز کا اختیار دیا ہے، ہم نے عرض کیا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو ہی زیادہ علم ہے، فرمایا اس نے مجھے میری نصف امت کو جنت میں داخل کئے جانے اور شفاعت کے درمیان اختیار دیا ہے تو میں نے شفاعت کو اختیار کرلیا، ہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا کیجیے کہ ہمیں بھی شفاعت (کے حصول) کا اہل کر دے، آپ نے فرمایا وہ ہر مسلمان کو حاصل ہوگی۔ (اس حدیث کی سند صحیح ہے) (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4317، مسند ابودائود الطیالسی رقم الحدیث :998، مسند احمد ج ٦ ص 38 سنن الترمذی رقم الحدیث :2441 صحیح ابن حیان رقم الحدیث :211 المعجم الکبیرج 18 ص 134)
(٣٧) حضرت عباس بن عبدالمطلب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابوطالب آپ کا دفاع کرتے تھے اور آپ کی مدد کرتے تھے اور آپ کے لئے غضب ناک ہوتے تھے، آپ نے ان کو کوئی نفع پہنچایا ؟ آپ نے فرمایا وہ ٹخنوں تک آگ میں ہے اور اگر میں نہ ہوتا تو وہ دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں ہوتا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :209، صحیح البخاری رقم الحدیث :3883)
(٣٨) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ قیامت کے دن لوگوں کو جمع کرے گا ان کے دل میں ایک خیال ڈالا جائے گا پس وہ کہیں گے کاش ہم اپنے رب کے پاس کسی کی شفاعت طلب کرتے حتیٰ کہ وہ ہمیں اس جگہ سے رہائی دلاتا پھر وہ حضرت آدم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ آدم ہیں اور تمام مخلوق کے باپ ہیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا فرمایا اور آپ میں اپنی (پسندیدہ) روح پھونکی اور فرشتوں کو حکم دیا کہ آپ کو سجدہ کریں، آپ ہمارے لئے اپنے رب سے شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہم کو اس جگہ سے رہائی دے، پس وہ کہیں گے میں اس کام کا اہل نہیں ہوں، وہ اپنی (اجتہادی) خطا کو یاد کریں گے اور اپنے رب سے حیا کریں گے، وہ کہیں گے لیکن تم نوح کے پاس جائو وہ پہلے رسول ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بھجیا، پھر لوگ حضرت نوح (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے وہ (بھی) کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، وہ اپنی اس (اجتہادی) خطا کو شک میرا بیٹا میرے الہ سے ہے اور بیشک تیرا وعدہ برحق ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : اے نوح ! وہ تمہارے اہل سے نہیں ہے اس کے عمل نیک نہیں ہیں سو تم اس چیز کا سوال نہ کرو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔ (ھود :45-46) صحیح البخاری رقم الحدیث :4476 اور امام بخاری نے کتاب التوحید میں روایت کیا ہے کہ حضرت نوح نے کہا کہ میں نے اپنی قوم کے خلاف انہیں ہلاک کرنے کی دعا کی تھی، (صحیح البخاری رقم الحدیث :4712) وہ دعا یہ تھی : اے میرے رب زمین پر کوئی بسنے والا کافر نہ چھوڑا، اگر تو نے انہیں چھوڑا تو وہ تریے بندوں کو گمراہ کردیں گے اور ان کی اولاد بھی بدکار کافر ہوگی۔ (نوح 26-27) حضرت نوح نے ان دو باتوں کی وجہ سے ان سے شفاعت نہ کرنے کا عذر کیا اور فرمایا مجھے اپنے رب سے حیا آتی ہے لیکن تم ابراہیم کے پاس جائو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیل بنایا تھا، پھر لوگ حضرت ابراہیم کے پاس جائیں گے تو وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، وہ اپنی (اتجہادی) خطا کو یاد کریں گے (وہ خطایہ تھی کہ انہوں نے تین (ظاہری) جھوٹ بولے تھے صحیح البخاری رقم الحدیث :4712) وہ اپنے رب سے حیا کریں گے اور کہیں گے لیکن تم موسیٰ السلام یاد کریں گے کہ انہوں نے ایک شخص کو (تادیباً ) قتل کردیا تھا (صحیح البخاری رقم الحدیث :4476) اور وہ اپنے رب سے حیا کریں گے اور کہیں گے لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ کے پاس جائو، پھر لوگ حضرت عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ کے پاس جائیں گے وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں لیکن تم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو، ان کے اگلے پاس جائیں گے وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہوں لیکن تم (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو، ان کے خطائوں کی وجہ سے خوف زدہ تھے اور آپ خوف زدہ نہیں تھے ورنہ آپ بھی عذر پیش کرتے اس سے معلوم ہوا کہ آپ کسی قسم کی کوئی خطا نہیں تھی) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر لوگ میرے پاس آئیں گے پھر میں دیکھوں گا کہ میں سجدہ میں ہوں، پس اللہ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا یا محمد ! اپنا سر اٹھایئے، آپ کہیے آپ کی بات سنی جائے گی، آپ سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، پس میں اپنا سر اٹھائوں گا اور اپنے رب کی ان کلمات کے ساتھ حمد کروں گا جو مجھے میرا رب اسی وقت سکھائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کی جائے گی۔ (حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے یعنی میرے لئے ہر بار کی شفاعت کے لئے ایک حد مقرر کی جائے گی جس سے میں تجاوز نہ کروں مثلاً اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے تمہیں ان کے لئے شفیع بنایا ہے جن کی نمازوں کی جماعت میں کوتاہی ہو، پھر ان کے لئے شفیع بنایا جن کی نمازوں میں کوتاہی ہو، پھر ان کے لئے شفیع بنایا جنہوں نے شراب نشوی کی ہو، پھر ان کے لئے شفیع بنایا جنہوں نے زنا کیا ہوا اسی اسلوب پر باقی گناہوں کے لئے شفیع بنایا (فتح الباری ج ٣ ۃ ص 262، دارالفکر، شرح الطیبی ج ١٠ ص 194، مطبوعہ کراچی، التوشیح ج ٥ ص 140 مطبوعہ بیروت 1420 ھ) پس میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کر دوں اگ، پھر میں دوبارہ سجدہ کروں گا، پھر اللہ تعالیٰ جب تک چاہے گا مجھے سجدہ میں رہنے دے گا، پھر کہا جائے گا یا محمد ! اپنا سر اٹھایئے آپ کہیے آپ کی بات سنی جائے گی آپ سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گا، آپ شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی پھر میں اپنا سر اٹھائوں گا اور اپنے رب کی ان کلمات کے ساتھ حمد کروں گا جو مجھ کو اسی وقت تعلیم فرمائے گا پھر میں شفاعت کروں گا تو میرے لئے ایک حد مقرر کی جائے گی سو میں ان کو دوزخ سے نکالوں گا اور جنت میں داخل کروں گا، پھر آپ تیسری یا چوتھی بار میں فرمائیں گے، پس میں کہوں گا اے میرے ربچ اب دوزخ میں صرف وہ رہ گئے جن کو قرآن نے دوزخ میں نبد کردیا ہے یعنی ان پر خولد اور دوام واجب ہوگیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :193 صحیح البخاری رقم الحدیث :6565 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4312 السنن الکبری للنسائی رقم الحدی :11243
(٣٩) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گوشت لایا گیا، آپ کو اس کی دستی دی گئی جو آپ کو پسند تھی، آپ نے اس میں سے کچھ گوشت کھایا، پھر آپ نے فرمایا میں قیامت کے دن تمام لوگوں کا سردار ہوں گا، پھر فرمایا، کیا تم جانتے ہو کہ ایسا کیوں ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام الوین اور آخرین کو ایک میدان میں جمع کرے گا، پھر ان کو منادی کی آواز سنائے گا، وہ سب لوگ دکھائی دیں گے، سورج قریب ہوگا اور لوگوں کو ناقابل برداشت پریشانی اور گھبراہٹ کا سامنا ہوگا اس وقت لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے کیا تم نہیں دیکھتے کہ تمہارا کیا حال ہے اور کیا تم یہ نہیں سوچتے کہ تم کس قسم کی پریشانی میں مبتلا ہوچکے ہو آئو ایسے شخص کو تلاش کریں جو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہماری سفارش کرے، پس لوگ ایک دور سے سے مشورہ کر کے کہیں گے، چلو حضرت آدم کے پاس چلیں اور ان سے عرض کریں کہ اے آدم ! علیک السلام آپ تمام انسانوں کے باپ ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا ہے اور آپ میں اپنی پسندیدہ روح پھونکی ہے اور تمام فرشتوں کو آپ کی تعظیم کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیا ہے، آپ اللہ کے سامنے ہماری شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھ ریہ کہ ہم کیسی پریشانی میں ہیں، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارا کیا حال ہوچکا ہے ! حضرت آدم فرائیں گے : آج میرا رب بہت غضب میں ہے، اس سے پہلے بکھی اتنے غضب میں تھا نہ اس کے بعد کبھی ہوگا، اس نے مجھے درخت سے منع کیا تھا میں نے اس کی (بہ ظاہر) نافرمانی کی، مجھے صرف اپنی فکر ہے، مجھے صرف اپنی فکر ہے، تم میرے علاوہ کسی اور شخص کے پاس جائو، نوح کے پاس جائو، لوگ حضرت نوح کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے نوح ! آپ زمین پر بھیجے جانے والے سب سے پہلے رسول ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو عبدالشکور (شکر گزار بندہ) فرمایا ہے، آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کیسی پریشانی میں ہیں ! کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارا کیا حال ہوچکا ہے ! حضرت نوح ان سے فرمائیں گے میرا رب آج سخت غضب میں ہے، اس سے پہلے کبھی اتنے غضب میں تھا نہ اس کے بعد کبھی اتنے غضب میں ہوگا، اور میں نے اپنی قوم کے خلاف ایک دعا کی تھی، مجھے اپنی فکر ہے مجھے اپنی فکر ہے، تم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس جائو، پھر لوگ حضرت ابراہیم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے آپ اللہ کے نبی ہیں ! اور زمین کے لوگوں میں سے اللہ کے خلیل ہیں ! آپ ہمارے لئے اپنے رب کے پاس شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس پریشان میں ہیں ! کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارا کیا حال ہے ! حضرت ابراہیم ان سے کہیں گے کہ میرا رب آج بہت غصہ میں ہے اور اس سے پہلے اتنے غصہ میں تھا نہ اس کے بعد کبیھ اتنے غصہ میں ہوگا، اور وہ اپنے (ظاہری) جھوٹ یاد کریں گے اور کہیں گے مجھے اپنی فکر ہے، مجھے اپنی فکر ہے تم کسی اور کے پاس جائو حضرت موسیٰ کے پاس جائو، پس لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں ! اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسالت اور کلام سے لوگوں پر فضیلت دی ہے، آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس پریشانی میں ہیں، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارا کیا حال ہیچ پس ان سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کہیں گے : میرا رب آج سخت غضب میں ہے، اس سے پہلے کبھی اتنے غضب میں تھا نہ اس کے بعد کبھی اتنے غضب میں ہوگا اور میں نے ایک ایسے شخص کو قتل کردیا تھا جس کو قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا، مجھے اپنی فکر ہے، مجھے اپنی فکر ہے، تم کسی اور کے پاس جائو حضرت عیسیٰ کے پاس جائو، پس وہ لوگ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ! آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ آپ نے لوگوں سے پنگھوڑے میں کلام کیا تھا اور آپ اللہ کا وہ کلمہ ہیں جو اس نے مریم کی طرف القا کیا تھا اور اس کی پسندیدہ روح ہیں، آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس پریشانی میں ہیں، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہمارا کیا حال ہے پس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان سے کہیں گے : میرا رب آج سخت غضب میں ہے، اس سے پہلے کبھی اتنے غضب میں تھا نہ اس کے بعد کبھی اتنے غضب میں ہوگا، اور وہ اپنے کسی گناہ کا ذکر نہیں کریں گے، مجھے اپنی فکر ہے، مجھے اپنی فکر ہے، میرے علاوہ کس اور کے پاس جائو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو پھر لوگ میرے پاس آ کر کہیں گے : یا محمد ! آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آخری نبی ہیں اللہ تعالیٰ نے دنیا میں آپ کو مغفرت کی نوید سنا دی ہے، آپ اپنے رب کے سامنے ہماری شفاعت کیجیے ! کیا آپ نہیں دیکھ رہے ہم کس پریشانی میں ہیں کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس حال میں ہیں ۔ پھر میں عرش کے نیچے اپنے رب کے لئے سجدہ کروں گا پھر اللہ تعالیٰ میرا سینہ کھول دے گا اور میرے دل میں حمد و ثنا کے ایسے کلمات القاء فرمائے گا جو اس سے پہلے کسی کے دل میں القا نہیں فرمائے تھے، پھر کہا جائے گا یا محمد اپنا سر اٹھایئے، سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گایا محمد ! آپ کی امت میں سے جن لوگوں کا حساب نہیں لیا گیا ہے ان کو جنت کے دائیں دروازہ سے داخل کردو اور یہ لوگ جنت کے باقی دروازوں سے بھی داخل ہوسکتے ہیں اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے۔ جنت کے دروازوں کے کو اڑوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا فاصلہ مکہ اور مقام ہجر میں یا مکہ اور مقام بصریٰ میں ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :194 صحیح البخاری رقم الحدی :4712 سنن الترمذی رقم الحدیث :2434، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث، 3307 السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث :11286)
(٤٠) حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مسلمانوں کو جمع فرمائے گا اور جنت ان کے نزدیک کردی جائے گئی، پھر تمام مسلمان حضرت آدم (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے اور عضر کریں گے : اے ہمارے والد ! ہمارے لئے جنت کا دروازہ کھلوایئے وہ فرمائیں گے تمہارے باپ کی ایک (اجتہادی) خطا نے ہی تم کو جنت سے نکالا تھا میں اس کا اہل نہیں ہوں۔ جائو میرے بیٹے حضرت ابراہیم کے پاس جائو جو اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم فرمائیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، میرے خلیل ہونے کا مقام، مقام شفاعت سے بہت پیچھے ہے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائو، جن کو اللہ تعالیٰ نے شرف کلام سے نوازا ہے، پھر لوگ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جائیں گے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں جائو عیسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جو اللہ کا کلمہ اور اس کی پسندیدہ روح ہیں، اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) فرمائیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، جائو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو پھر لوگ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائیں گے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوں گے اور آپ کو شفاعت کی اجازت دے دی جائے گی، اس کے علاوہ امانت اور رحم کو چھڑو دیا جائے گا اور وہ دونوں صراط کے دائیں بائیں کھڑے ہوجائیں گے، تم میں سے پہلا شخص صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا (راوی نے کہا) میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوجائیں گے، تم میں سے پہلا شخص صراط سے بجلی کی طرح گزرے گا، (راوی نے کہا) میرے ماں اور باپ آپ پر فدا ہوں، بجلی کی طرح کون سی چیز گزرتی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے بجلی کی طرف نہیں دیکھا وہ کس طرح گزرتی ہے اور پبلک جھپکنے سے پہلے لوٹ آتی ہے، اس کے بعد وہ لوگ صراط سے گزریں گے جو آندھی کی طرح گزر جائیں گے، اس کے بعد پرندوں کی رفتار سے گزر جائیں گے، پھر آدمیوں کے دوڑنے کی رفتار سے گزریں گے، ہر شخص کی رفتار اس کے اعمال کے مطابق ہوگی، اور تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صراط پر کھڑے ہوئے یہ دعا کر رہے ہوں گے ” اے میرے رب ان کو سلامتی سے گزار دے “” ان کو سلامتی سے گزار دے “ پھر ایک وقت وہ آئے گا کہ گزرنے والوں کے اعمال ان کو عاجز کردیں گے اور ان میں چلنے کی طاقت نہیں ہوگی اور وہ اپنے آپ کو گھسیٹتے ہوئے صراط سے گزریں گے اور صراط کی دونوں جانب لوہے کے کنڈے لٹکے ہوئے ہوں گے اور جس شخص کے متعلق حکم ہوگا وہ اس کو پکڑ لیں گے، بعض ان کی وجہ سے زخمی ہونے کے باوجود نجات پاجائیں گے۔ اور بعض ان سے الجھ کور دوزخ میں گرجائیں گے، حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے دوزخ کی گہرائی ستر سال کی مسافت کے برابر ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :195، المسند الجامع رقم الحدیث :3401)
شفاعت بالوجاہت کی حدیث پر تعجیل حساب کی شفاعت
اور مسلمانوں کو دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کو خلط ملط کرنے کا اشکال
علامہ دائودی نے کہا گویا حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ کی حدیثوں کے راوی نے ان حدیثوں کی اصل کو محلوظ نہیں رکھا، کیونکہ ان حدیثوں کا ابتدائی حصہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ شفاعت میدان محشر میں پریشان لوگوں کو محشر سے رہائی دلانے اور ان کے حساب میں تعجیل کے لئے ہے، اور یہ شفاعت بالو جاہت ہے اور ان حدیثوں کا آخری حصہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ یہ شفاعت گنہگاروں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے ہے اور یہ شفاعت اس وقت ہوگی جب لوگ میدان محشر سے صراط کی طرف منتقلہ و جائیں گے اور گناہ گار صراط سے گزرتے ہئے دوزخ میں گرجائیں گے، شفاعت بالو جاہت موقف (محشر) میں ہوگی اور دوزخ سے نکالنے کے لئے شفاعت صراط پر ہوگی اور اس حدیث میں ان دونوں شفاعتوں کا ملا دیا ہے، حافظ ابن حجر نے کہا یہ بہت قوی اشکال ہے۔ (التوشیح ج ٥ ص 139-140، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)
تعجیل حساب اور دوزخ سے نکالنے کی شفاعت کو خلط ملط کرنے کے اشکال کا جواب
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی 544 ھ اس اشکال کے جواب میں لکھتے ہیں :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اپنے رب سے اذن طلب کروں گا تو مجھے اذن دیا جائے گا، اس کا معنی یہ ہے کہ میں اس شفاعت کا اذن طلب کروں گا جس کا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا اور وہی مقام حمود ہے جس کا آپ کے لئے ذخیرہ کیا ہے اور آپ کو بتایا ہے کہ آپ کو اس پر فائز کیا جائے گا، اور حضرت انس اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں ہے کہ آپ کے سجدہ کرنے اور آپ کے حمد کرنے کے بعد آپ کو شفاعت کا اذن دیا جائے گا اور آپ فرمائیں گے میری امت، میری امت، اور اس کے بعد حضرت حذیفہ کی حدیث میں ہے پھر لوگ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئیں گے پھر آپ کھڑے ہوں گے اور آپ کو اذن دیا جائے گا اور امانت اور رحم کو بھیجا جائے گا اور وہ صراط کی دائیں بائیں جانب کھڑے ہوجائیں، پھر پہلا شخص صراط پر سے بجلی کی طرح سے گزرے گا پھر آندھی کی طرح گزرے گا، پھر پرندوں کی طرح، پھر دوڑنے والے لوگوں کی طرح، لوگ اپنے اعمال کے اعتبار سے گزریں گے اور تمہارے نبی صراط پر کھڑے ہوں گے اور وہ کہہ رہے ہوں گے رب سلم رب سلم اے رب ! سلامتی سے گزارا اے رب ! سلامتی سے گزار، حتیٰ کہ بندوں کے اعمال کم ہوجائیں گے، حتیٰ ایک شخص گھسٹتا ہوا گزرے گا، اور صراط کے دونوں کناروں پر لوہے کے کنڈے (ہک) لٹکے ہوئے ہوں گے اور جس کے متعلق حکم ہوگا اس کو پکڑ لیں گے، پس بعض چھلے ہوئے نجات پائیں گے اور بعض دوزخ میں گرجائیں گے (صحیح مسلم رقم الحدیث :195) اس توجیہ سے حدیث متصل ہوجاتی ہے (گویا حضرت انس کی حدیث کے راوی نے دوزخیوں کو دوزخ سے نکالنے سے پہلے والا حدیث کا حصہ ساقط کردیا جس میں تعجیل حساب کی شفاعت اور اس کے قبول ہونے کا ذکر تھا۔ )
کیونکہ یہی وہ شفاعت ہے جس کی خاطر لوگ آپ کے پاس آئے تھے اور یہ محشر سے راحت پہنچانے اور لوگوں کے درمیان فیصلے کے لئے تھی، پھر اس شفاعت کے بعد آپ کی امت اور گنہگاروں کے لئے شفاعت شروع ہوگی اور انبیائ علہیم السلام وغیر ہم اور فرشتوں کی شفاعت ہوگی، جیسا کہ دوسری احادیث میں ہے اور رویت باری اور لوگوں کے حشر کی حدیث میں یہ آیا ہے کہ ہر امت اس چیز کی اتباع کرے گی جس کی وہ پرستش کرتی تھی، پھر مومنوں کو منفاقوں سے ممتاز اور متمیز کیا جائے گا۔ پھر شفاعت شروع ہوگی اور صراط کو رکھا جائے گا پس یہ بھی ہو سات ہے کہ پہلے مومنوں کو منفاقوں سے متمیز کیا جائے اور محشر کے خوف سے رہائی دلائی جائے اور یہی مقام محمود ہے اور جس شفاعت کا احادیث میں ذکر ہے یہ صراط پر گہنگاروں کی شفاعت ہے اور یہی احادیث کا ظاہر معنی ہے اور یہ شفاعت کا احادیث میں ذکر ہے یہ صراط پر گہنگاروں کی شفاعت ان لوگوں کے لئے شفاعت ہوگی جو دوزخ میں داخل ہوگئے اور اس طریقہ سے احادیث کے متون مجمتع ہو گیئ اور ان کے معانی مترتب ہوگئے اور مختلف نہیں ہوئے۔ (اکمال المعلم و فوائد مسلم ج ١ 578 مطبوعہ دارالفوئا بیروت 1419 ھ)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی متوفی 676 ھ نے بھی اس جواب کو نقل کیا ہے۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ج ٢ ص 1058، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکتبہ المکرمہ 1417 ھ)
حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ اس شکال کے جواب میں لکھتے ہیں :
گویا بعض راویوں نے اس چیز کو محفوظ رکھا جس کو دوسروں نے محفوظ نہیں رکھا، اس سے متصل باب میں یہ حدیث آئے گی کہ بعض لوگ صراط سے گھسٹتے ہوئے گزریں گے اور صراط کی دونوں جانب لوہے کے کنڈے ہوں گے جن سے بعض لوگ چھل جائیں گے اور بعض لوگ آگ میں گرجائیں گے، اس سے معلوم ہوا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے پہلے اس لئے شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے اس کے بعد ان لوگوں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے شفاعت کی جائے گی جو صراط سے دوزخ میں گرجائیں گے ایک حدیث میں اس کی تصریح ہے :
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن سورج قریب ہوگا حتیٰ کہ نصف کانوں تک پسینہ پہنچ جائے گا وہ اسی حال میں ہوں گے، پھر حضرت آدم سے فریاد کریں گے، پھر حضرت موسیٰ سے، پھر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھر آپ شفاعت کریں گے تاکہ مخلوق کے درمیان فیصلہ کیا جائے، پس آپ جائیں گے حتیٰ کہ جنت کے دروازہ کی کنڈی پکڑ لیں گے، اس دن اللہ آپ کو مقام محمود پر فائز فرمائے گا جس کی تمام اہل محشر مدح کریں گے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1475، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث :6949)
اور امام ابویعلی نے حضرت ابی بن کعب سے روایت کیا ہے پھر میں اللہ تعالیٰ کی ایسی مدح کروں گا جس سے اللہ مجھ سے راضی ہوجائے گا پھر مجھے کلام کرنے کی اجازت دی جائے گی پھر میری امت صراط سے گزرے گی، جو جہنم کی پشتون پر نصب کیا ہوا ہوگا سو وہ گزریں گے اور مسند احمد میں ہے اے محمد آپ کیا چاہتے ہیں میں آپ کی امت کے معاملے میں کیا کروں ؟ میں عرض کروں گا، اے رب ان کا حساب جلد لے لے۔ (فتح الباری ج ٣ ۃ ص 263، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1420 ھ)
اشکال مذکور کا جواب مصنف کی جانب سے
حضرت انس (رض) سے جو شفاعت کی حدیث مروی ہے اس کی ابتداء میں تعجیل حساب کی شفاعت طلب کرنے کا ذکر ہے لیکن پھر اس کے بعد تعجیل حساب کی شفاعت کے بجائے دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرنے کی شفاعت کا ذکر ہے (صحیح مسلم رقم الحدیث :193) حضرت ابوہریرہ (رض) کی حدیث بھی اسیر حط ہے (صحیح مسلم رقم الحدیث :194) گویا کہ ان دونوں حدیثوں کے راویوں نے حدیث کے اس حصہ کو ترک کردیا جس میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعجیل حساب کے لئے شفاعت کی ہے اور اس کے بعد والا حصہ ذکر کردیا اور حضرت حذیفہ (رض) کی حدیث میں صرف اوپر والے حصہ کا ذکر ہے جب مومنین سب نبیوں کے بعد آپ سے دخول جنت کی شفاعت طلب کریں گے اور آپ ان کے لئے وہ شفاعت فرمائیں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :195) لیکن میرا گمان ہے کہ اس حدیث میں بھی راوی سے کچھ سہو ہوگیا ہے کیونکہ دخول جنت کی شفاعت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مختص نہیں ہے یہ شفاعت دور سے انبیاء (علیہم السلام) بلکہ ملائکہ اور مومنین صالحین بھی کریں گے جیسا کہ ہم شفاعت کی احادیث میں بیان کرچکے ہیں۔
درحقیقت اس باب میں مکمل اور جامع حدیث حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ میدان محشر میں تمام لوگ تمام نبیوں سے تعجیل حساب کی شفاعت طلب کریں گے اور ان کی معذرت کے بعد سینا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس شفاعت کو طلب کریں گے، پھر میدان محشر میں اس شفاعت کو کرنے کے بعد آپ صراط پر جائیں گے اور لوگوں کو دوزخ سے نکالنے اور جنت میں داخل کرنے کی شفاعت کریں گے اور اس حدیث پر کوئی اشکال نہیں ہے۔ ہرچند کہ شفاعت کی بحث کافی طویل ہوگئی ہے لیکن ہم اس اشکال کو دور کرے کے لئے حضرت ابن عباس (رض) کی حدیث پیش کر رہے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستغانۃ بلیق
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے بصرہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے کہا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر نبی کے پاس ایک دعا تھی جس کو اس نے دنیا میں خرچ کرلیا اور میں نے اپنی دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لئے چھپا کر رکھا ہے اور میں قیامت کے دن اولاد آدم کا سردار ہوں اور فخر نہیں اور میں سب سے پہلے (قبر کی) زمین سے اور فخر نہیں، قیامت کا دن لوگوں پر بہت طویل ہوگا۔ پس بعض بعض سے کہیں گے، چلو آدم کے پاس جو ہر بشر کے باپ ہیں، وہ ہمارے رب عزوجل کے پاس ہماری شفاعت کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارا فیصلہ کرے، پس وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، میں اپنی (اجتہادی) خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا تھا اور آج کے دن مجھے صرف اپنے نفس کی فکر ہے، لیکن تم نوح کے پاس جائو جو تمام اجتہادی خطا کی وجہ سے جنت سے نکال دیا گیا تھا اور آج کے دن مجھے صرف اپنے نفس کی فکر ہے، لیکن تم نوح کے پاس جائو جو تمام انبیاء کے سردار ہیں پھر لوگ حضرت نوح کے پاس جائیں گے اور ان سے کہیں گے اے نوح ! آپ ہمارے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کرے، وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، میں نے یہ دعا کی تھی کہ تمام روئے زمین کے لوگوں کو غرق کردیا جائے اور آج مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے، لیکن تم ابراہیم خلیل اللہ کے پاس جائو، پھر لوگ حضرت ابراہیم کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے ابراہیم اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کرے، سو وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، میں نے اسلام میں تین (ظاہری) جھوٹ بولے تھے اور اللہ کی قسم میں نے ان سے اللہ کے دین کی مدافعت اور حفاظت کی تھی وہ حضرت ابراہیم کا قول ہے انی سقیم (الصفت :89) میں بمیار ہوں اور ان کا یہ قول ہے : بل کبیرھم ھذا فاسئلوھم ان کانوا ینطقون (الانبیاء :63) بلکہ ان میں سب سے بڑا یہ ہے سو اس سے پوچھ لو اگر یہ بات کرسکتے ہوں اور جب وہ بادشاہ کے پاس گئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے متعلق کہا یہ میری (یدین) بہن ہے، اور آج کے دن مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے لیکن تم موسیٰ کے پاس جائو جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام سے فضیلت دی ہے، سو وہ ان کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے موسیٰ ! آپ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی رسالت اور اپنے کلام کی فضیلت دی ہے آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے ات کہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے، پس وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، میں نی ایک شخص کو بغیر قصاص کے قتل کردیا تھا اور آج مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے، لیکن تم عیسیٰ روح اللہ اور کلمتہ اللہ کے پاس جائو، تو وہ حضرت عیسیٰ کے پاس جائیں گے اور کہیں گے اے عیسیٰ ! آپ روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں تو آپ اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصلہ کر دے، وہ کہیں گے میں اس کا اہل نہیں ہوں، مجھے اللہ کے سوا معبود بنا لیا گیا تھا، اور مجھے صرف اپنی ذات کی فکر ہے، لیکن تم یہ بتائو کہ اگر کسی برتن کے اندر کوئی قیمتی چیز رکھی ہوئی ہو اور اس پر مہرلگی ہوئی ہو تو تو کیا کوئی شخص اس برتن کی مہر توڑے بغیر اس قیمتی چیز کو حاصل کرسکتا ہے لوگوں نے کہا نہیں۔ حضرت عیسیٰ نے کہا (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاتم النبین ہیں اور آج وہ موجود ہیں، اللہ نے ان کے تمام اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اولیٰ کا موں کی مغفرت کردی ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر لوگ میرے پاس آ کر کہیں گے یا محمد ! اپنے رب کے پاس ہماری شفاعت کیجیے تاکہ وہ ہمارا فیصہل کردے۔ پس میں کہوں گا کہ میں ہی اس شفاعت کے لئے ہوں تحیٰ کہ اللہ عزوجل اجازت دے، جس کے لئے وہ چاہے اور جس سے وہ راضی ہو۔ پس جب اللہ تبارک و تعالیٰ مخلوق میں اعلان کرنے کا ارادہ فرمائے گا تو ایک منادی ندا کرے گا، احمد اور ان کی امت کہاں ہے پس ہم ہی آخر اور اول ہیں، ہم آخری امت ہیں اور ہم ہی پہلے وہ ہیں جن کا حساب لیا جائے گا۔ پھر ہمارے راستے سے تمام امتوں کو ایک طرف کردیا جائے گا اور ہم اس کیفیت کے ساتھ گزریں گے کہ ہمارے چہرے اور ہمارے ہاتھ اور پیر و ضو کے آثار سے سفید اور چمکدار ہیں گے، اور ہمیں دیکھ کر تمام امتیں یہ کہیں گی لگتا ہے اس ساری امت میں نبی ہیں، (یہاں تک یہ ذکر ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تعجیل حساب کی شفاعت کی اور سب سے پہلے آپ کی امت کا حساب لیا گیا اور اس کے بعد دوسری شفاعت کا ذکر ہے جو آپ گناہگاروں کو دوزخ سے نکالنے کے لئے کریں گے) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پھر میں جنت کے دروازہ پر آئوں گا اور دروازہ کی کنڈی کو پکڑوں گا، پس دروازہ کھٹکھٹائوں گا۔ سو پوچھا جائے گا آپ کون ہیں ؟ میں کہوں گا محمد۔ سو میرے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا۔ پھر میں اپنے رب عزوجل کو دیکھوں گا وہ کرسی یا عرش پر ہوگا، میں اس کے سامنے سجدہ میں گر جائوں گا اور ایسے کلمات حمد کے ساتھ اس کی حمد کروں گا جن کلمات حمد سے مجھ سے پہلے کسی نے حمد کی تھی اور نہ میرے بعد کرے گا، پھر مجھ سے کہا جائے گا اپنا سر اٹھایئے اور کہئے آپ کی بات سنی جائے گی، سوال کیجیے آپ کو عطا کیا جائے گا اور شفاعت کیجیے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں کہوں گا اے میرے رب میری امت، میری امت ! پس کہا جائے گا ان تمام کو دوزخ سے نکال لیجیے، جن کے دل میں اتنا ایمان ہو، سو میں ان کو نکالوں گا۔ آپ نے فرمایا پھر تیسری بار بھی اسی طرح ہوگا۔ (مسند احمد ج ١ ص 295، طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :2692، 2546، طبع جدید عالم الکتب بیروت، حافظ احمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث :2546، دارالحدیث قاہرہ، مسند الطیالسی رقم الحدیث :2711، مصنفا بن ابی شیبہ ج ١٤ ص 135، مسند ابویعلی رقم الحدیث :2388، مجمع الزوائد ج 10 ص 372-373)
شفاعت کی اور بھی بہت احادیث ہیں لیکن میں شفاعت کی صرف چالیس حدیثیں ذکر کرنا چاہتا تھا، تاکہ میرا شمار بھی ان محدثین میں ہوجائے جنہوں نے اس امید پر چالیس حدیثیں جمع کیں ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کے مطابق قیامت کے دن ان کا حشر فقہاء کے گروہ میں ہوجائے اور ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت نصیب ہو۔
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میری امت کو ان کے دین سے متعلق چالیس حدیثیں پہنچائیں اللہ اس کو اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ فقیہ ہوگا اور میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا۔ (شعب الایمان ج ٢ رقم الحدیث :1725، مشکوۃ رقم الحدیث :258، المطالب العالیہ رقم الحدیث :3076)
اس بشارت کی دیگر احادیث ہم نے تبیان القرآن ج ٤ ص 183-185میں ذکر کی ہیں، ہرچند کہ میں گناہوں میں ڈوبا ہوا ہوں اور فقہائ کی صف میں کھڑے ہونے کا ہرگز مستحق نہیں ہوں لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرم جب عطا فرماتے ہیں تو وہ کسی استحقاق کی بنا پر عطا نہیں فرماتے، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گناہگاروں کی شفاعت فرمائیں گے سو آپ میری ایسی شفاعت فرما دیں کہ میں قبض روح کے وقت، قبر، حشر اور دوزخ میں ہرق سم کے عذاب سے محفوظ اور مامون کردیا جائوں، میں شفاعت کے اس باب کو حضرت سواد بن قارب (رض) کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔
فکن لی شفیعا یوم لاذوشفاعۃ سواک بمغن عن سواد بن قارب
(الاستیعاب ج ٤ ص 234، رقم :1114، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 109