أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاصۡبِرۡ عَلٰى مَا يَقُوۡلُوۡنَ وَسَبِّحۡ بِحَمۡدِ رَبِّكَ قَبۡلَ طُلُوۡعِ الشَّمۡسِ وَقَبۡلَ غُرُوۡبِهَا‌ ۚ وَمِنۡ اٰنَآىٴِ الَّيۡلِ فَسَبِّحۡ وَاَطۡرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرۡضٰى ۞

ترجمہ:

سو آپ ان کی باتوں پر صبر کیجیے اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھتے رہیے، طلوع آفتاب سے پہلے اور غروب آفتاب سے پہلے اور رات کے بعض اوقات میں، اور دن کے حصوں میں بھی تسبیح پڑھیے تاکہ آپ راضی ہوجائیں

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کا حکم دینے کا محمل 

اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ صبر کیجیے یعنی ان کی دل آزار باتوں پر صبر کیجیے بعض آپ کو ساحر کہتے تھے، بعض آپ کو شاعر یا مجنون کہتے تھے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ مراد ہو کہ یہ آپ کے دعویٰ نبوت کی جو تکذیب کرتے ہیں آپ اس پر صبر کیجیے اور یہ بھی ہوسکتا ہے مراد یہ ہو کہ یہ لوگ جو آپ پر ایمان نہیں لاتے اور بسیار دلائل اور معجزات دیکھنے کے باوجود آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہیں اس سے آپ کو بہت رنج اور غم ہوتا ہے آپ اس پر صبر کیجیے، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہیے اور فرائض رسالت کو ادا کرتے رہیے۔

کلبی اور مقاتل نے یہ کہا کہ یہ آیت جہاد کی آیتوں سے منسوخ ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں کیونکہ جہاد کا حکم تو دو ہجری میں نازل ہوگیا تھا لیکن اس وقت بھی فی الفور تمام کافروں کو ملیا ملیٹ نہیں کردیا گیا تھا۔ ٧ ہجری میں خیبر فتح ہوا تھا اور ٨ ہجری میں مکہ مکرمہ فتح ہوا تھا غرض کفار کی باتوں اور ان کی ایذائوں پر صبر کرنے کے مواقع کافی عرصہ تک باقی رہے تھے اور اب بھی ہیں اس لئے اس آیت کو منسوخ قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

نماز کے اوقات اور رات کو نماز پڑھنے کی فضیلت 

صبر کا حکم دینے کے بعد فرمایا آپ ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح پڑھیے، اس میں یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اس کی تسبیح پڑھنے سے رنج اور غم زائل ہوجاتا ہے اور صبر کرنے میں تقویت حاصل ہوتی ہے ان اوقات میں حمد اور تسبیح پڑھنے سے مراد پانچ وقتوں کی نماز پڑھنا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ان اوقات میں پاچ نمازیں داخل ہیں۔ طلوع شمس سے پہلے حمد اور تسبیح پڑھنا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا ان اوقات میں پانچ نمزیں داخل ہیں۔ طلوع شمس سے پہلے حمد اور تسبیح پڑھنے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب شمس سے پہلے تسبیح اور حمد پڑھنے سے مراد ظہر اور عصر کی نمازیں ہیں، کیونکہ یہ دونوں نمازیں غروب آفتاب سے پہلے پڑھی جاتی ہیں اور رات کے اوقات میں تسبیح پڑھنے سے مراد مغرب اور عشاء کی نمازیں ہیں اور دن کے حصوں میں جو تسبیح پڑھنے کا ذکر ہے اس سے مراد ظہر اور عصر کی نمازوں کی تاکید ہے۔ حمد اور تسبیح کرنے اور نماز پڑھنے کا سب سے افضل وقت رات کا وقت ہے، کیونکہ اس وقت لوگوں پر سکون ہوتے ہیں اور ان کے ظاہری اعضا کام کاج سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں۔ رات کا وقت انسان کے سکون اور آرام کا وقت ہے اور اس وقت عبادت کے لئے اٹھنا فنس پر بہت شاق اور بہت دشوار ہوتا ہے اور بدن کے لئے بہت تھکاوٹ کا باعث ہوتا ہے تو جو شخص اس وقت اٹھ کر عبادت کرتا ہے تو اس کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ اجر وثواب عطا فرماتا ہے، سو اس وقت عبادت کرنے کی زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔ قرآن مجید میں رات کے وقت عبادت کرنے کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہے۔

ان ناشئۃ الیلھی اشد وطا و اقوم قیلاً (المزمل :6) بیشک رات کو اٹھنے میں (نفس کو) سخت دبانا ہے اور بات کو زیادہ صحیح کہنا ہے۔

امن ھو فانت انآء الیل ساجداً وقآئما یحذر الاخرۃ و یرجوارحمۃ ربہ (الزمر : ٩) کیا وہ جو رات کے اوقات سجدہ اور قیام میں گزارتا ہے آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کی امید رکھتا ہے۔

والذین بیتون لربھم سجداً وقیاماً (الفرقان :64) اور جو لوگ اپنے رب کے لئے سجدہ اور قیام میں رات گزار دیتے ہیں۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رضا کے محامل 

اس آیت کے آخر میں فرمایا آپ دن کے حصوں میں بھی نماز پڑھیے تاکہ آپ راضی ہوجائیں، اس سے مقصود نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بلند مقام اور بلند متربہ کی خبر دینا ہے کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کو راضی کرتی ہے اور اللہ عزوجل آپ کو راضی کرتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

ولوف یعطیک ربک قترضی (الحضیٰ : ٥) اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔

عسی ان یبعتک ربک مقاماً محموداً (بنی اسرائیل :79) عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز فرما دے گا۔

فلنولنک قبلہ ترضھا (البقرہ :144) ہم آپ کو ضرور اس قبلہ کی طرف پھیر دیں گے جس سے آپ راضی ہوں گے۔

حضرت عائشہ (رض) فرماتی ہیں :

ما اری ربک الایسارع فی ھواک : میں صرف یہی دیکھتی ہوں کہ آپ کا رب آپ کی خواہش پوری کرنے میں بہت جلدی فرماتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4788، سنن النسائی رقم الحدیث :3199، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :11414)

اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ آپ کو اتنا ثواب عطا فرمائے گا کہ آپ رضایہ و جائیں گے اور اس کا تیسرا محمل یہ ہے کہ آپ کا رب آپ کی شفاعت اس قدر زیادہ قبول فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے، اس کا چوتھا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں آپ کو اس قدر فتوحات عطا فرمائے گا اور آپ کے دین کو اس قدر غلبہ عطا فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے اور پانچواں محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کے افراد کو باقی تمام امتوں سے اس قدر زیادہ کر دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے اور چھٹا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی امت کے اس قدر زیادہ گناہگاروں کی مغفرت فرمھائے گا اور آپ کی امت کے اس قدر زیادہ افراد کو جنت میں داخل فرمائے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے اور اس کا ساتواں محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو وہ تمام چیزیں عطا فرمائے گا جو آپ کو پسند ہیں اور جن سے آپ راضی ہوتے ہیں اور اس کا آٹھواں محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ دیکھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ نبی اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی رضا الگ الگ نہیں ہیں۔ آپ ان ہی چیزوں سے راضی ہوتے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے۔ آپ کی رضا اللہ کی رضا اور اللہ کی رضا آپ کی رضا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 130