وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى ۞- سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 124
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَنۡ اَعۡرَضَ عَنۡ ذِكۡرِىۡ فَاِنَّ لَـهٗ مَعِيۡشَةً ضَنۡكًا وَّنَحۡشُرُهٗ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ اَعۡمٰى ۞
ترجمہ:
اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو یقیناً اس کی زندگی بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا اٹھائیں گے وہ کہے گا اے میرے رب ! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا ؟ حالانکہ میں (تو دنیا میں دیکھنے والا تھا اللہ فرمائے گا اسی طرح تیرے پاس دنیا میں میری نشانیاں آئیں تھیں تو تو نے ان کو فراموش کردیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی فراموش کردیا جائے گا اور جو شخص اپنے رب کی آیتوں پر ایمان نہ لایء اور حد سے تجاوز کرے ہم اسی طرح اس کو سزا دیتے ہیں اور بیشک آخرت کا عذاب زیادہ سخت اور بہت باقی رہنے والا ہے (طہ :124-127)
ذکر سے مراد اور ” ضنک “ کا معنی
میرے ذکر سے مراد ہے میرا دین اور میری کتاب کی تلاوت، اور اس کے تقاضوں پر عمل کرنا اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہے اسلام کے دین برحق ہونے پر جو دلائل نازل کئے گئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ذکر سے مراد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ذات گرامی ہ، کیونکہ ذکر آپ ہی سے حاصل ہوتا ہے۔
’ دضنکا “ ضنک کا معنی ہے تنگی اور اس کا معنی زکام بھی ہے۔ (المفردات ج ٢ ص 390) ابوعبیدہ نے کہا اس کا معنی ہے تنگی میں بسر ہونے والی زندگی۔ ہر زندگی جو تنگی میں بسر ہو، یا تنگ جگہ ہو یا تنگ منزل ہو اس کو ضنک کہتے ہیں۔ زجا اج نے کہا ضنک کی لغت میں اصل ہے، تنگی اور سختی۔ (زاد المسیر ج ٥ ص 330-331)
مفسرین نے کہا تنگی میں زندگی گزرنے کے تین محمل ہیں دنیا میں، قبر میں آخرت میں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان سب جگہوں پر اس کی زندگی گزرنے کے تین محمل ہیں دنیا میں، قبر میں، آخرت میں، اور یہ بھی ہو ستا ہے کہ ان سب جگہوں پر اس کی زندگی تنگی سے گزرے یا اکثر جگہوں پر اس کی زندگی تنگی سے گزرے۔
کافر کی تنگ زندگی کا محمل دنیا میں
اکثر مفسرین نے یہ کہا ہے کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ کافر کی زندگی دنیا میں تنگی کے ساتھ گزرے گی اس لئے کہ مسلمان کو اللہ پر توکل اور اعتماد ہوتا ہے اور وہ جس حال میں بھی ہو وہ پرسکون اور خوش رہتا ہے قرآن مجید میں ہے :
من عمل صالحاً من ذکر اوانثی وھو مومن فلنجینہ حیوۃ طیبۃ (النحل :97) جو شخص نیک عمل کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، تو ہم اس کو ضرور اچھی اور پرسکون زندگی کے ساتھ زندہ رکھیں گے۔
اور جو شخص کافر ہوتا ہے وہ دنیا کے جمع کرنے پر حریص ہوتا ہے اور ہر وقت دنیا کے مال میں زیادتی کا طلب ہوتا ہے اور چونکہ اس کی نظر صرف دنیا پر ہوتی ہے آخرت پر نہیں ہوتی تو اس کو ہر وقت یہ فکر رہتی ہے کہ کہیں اس کا یہ مال اور دولت اور اس کی سلطنت اس سے زائل نہ ہوجائے، آپ امریکا، روس اور چین کو دیکھ لیں ان کے پاس نئے نئے اور مہلک ہتھیاروں کی کمی نہیں ہے اس کے باوجود وہ اپنے ملک کے وسائل ہتھیار بنانے پر خرچ کر رہے ہیں، روس معاشی طور پر دیوالیہ ہوچکا ہے اس کے خزانے میں سرکاری ملازموں کو تنخواہعیں دینے کے لئے رقم نہیں ہے کھانے کے لئے گندم نہیں ہے وہ عالمی بنیک سے قرض لے کر ملازموں کی تنخواہوں اور عوام کے لئے روٹی کا بندوبست کر رہا ہے اس کے باوجود اس کو مخالف طاقتوں سے خطرہ ہے اور وہ اسلحہ بنانے کی دوڑ میں پیچھے نہیں رہنا چاہتا، امریکہ کو بھی اپنی بقا کا خطرہ لگا رہتا ہے اور وہ اپنے دفاع کے لئے مہلک سے مہلک ہتھیار بنا رہا ہے روس معاشی طور پر تباہ ہوچکا ہے اور کوئی دن جاتا ہے کہ امریکا میں بھی روٹیوں کے لالے پڑجائیں گے اس وقت امریکا کی جس قدر ساکھ بنی ہوئی ہے وہ سب عالمی بینک سے قرضوں کی بنیاد پر ہے۔ غرض کافر ملک بہ ظاہر کتنے طاقتور اور خوش حال ہوں ان کی بنیادیں کھوکھلی ہوچکی ہیں آج ہم روس کے ہاتھوں میں کشکول دیکھ رہے ہیں لیکن بیس پچیس سال پہلے کوئی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا سو انشاء اللہ چند سال بعد امریکہ کا بھی یہی حال ہوگا حقیقی پر سکون اور خوشال زندگی صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے حاصل ہوتی ہے۔ قرآن مجید میں ہے :
(البقرہ :61) اور ان پر ذلت اور مسکینی مسلط کردی گئی اور وہ اللہ کے غضب کے ساتھ لوٹے، کیونکہ وہ اللہ کی ایٓتوں کے ساتھ کفر کے تھے۔
(المائدۃ : ٦٦) اور اگر یہ لوگ تورات اور انجیل اور جو کچھ ان کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے (اس) پر پورا پورا عمل کرتے تو یہ اپنے اوپر سے اور اپنے نیچے سے روزیاں پاتے اور کھاتے۔
(الاعراف :96) اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے۔
اس سوال کا جواب کہ کفار دنیا میں عیش و آرام سے ہیں اور مسلمان تنگ دستی میں مبتلا ہیں
اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کفار دنیا میں تنگی اور تنگ دستی کی زندگی گزاریں گے اور مسلمان کشادگی اور خوشحالی کی زندگی گزاریں گے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں معاملہ اس کے برعکس ہے کفار دنیا میں کشادگی اور خوشحالی کی زندگی گزار رہے ہیں اور مسلمان معاشی تنگی اور تنگدستی کا شکار ہیں اور حدیث میں بھی یہی ہے کہ نیک لوگ دنیا میں مصائب کا شکار ہوں گے۔
مصعب بن سعد (رض) اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کون سے لوگ زیادہ مصائب میں مبتلا ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا انبیاء پھر جو ان کے زیادہ قریب ہو اور پھر جو ان کے زیادہ قریب ہو، انسان اپنے دین کے اعتبار سے مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اگر اس کے دین میں صلابت (سختی اور جمائو) ہو تو اس کی مصیبت زیادہ سخت ہوگی اور اگر اس کی دین میں نرمی ہو تو وہ اس کے اعتبار سے مصائب میں مبتلا ہوگا، بندہ پر اس طرح مصائب آتے رہیں گے حتیٰ کہ وہ اس حال میں زمین پر چلے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2398، مصنف ابن شیبہ، ج ٣ ص 233، مسند احمد ج ١ ص 172، سنن الدارمی رقم الحدیث :2786، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4023، مسند البز اور رقم الحدیث :1150، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2901، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص 368)
حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے زیادہ مصائب میں انبیاء مبتلا ہوتے ہیں پھر علماء پھر وہ جو ان کے زیادہ قریب ہوں، پھر وہ جو ان کے زیادہ قریب ہوں۔ (المستدرک رقم الحدیث :5514، کنز العمال رقم الحدیث :6782 المستدرک ج ٣ ص 343 قدیم)
اس کا جواب یہ ہے کہ ضنکا “ کا مطلب تنگ دستی نہیں ہے بلکہ زندی کی تنگ گزران ہے، یہ درست ہے کہ کفار اور مشرکین نے مال و دولت کے انبار جمع کر لئے مگر ان کو طمانیت قلب اور ذہنی سکون حاصل نہیں ہے وہ بہ ظاہر عیش و عشرت میں ہیں لیکن ان کا دل غمگین اور پریشان رہتا ہے، وہ شب و روز مال و دولت اور منصف اور اقتدار کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں پھر ان کو اس کی حفاظت کی فکر رہتی ہے، وہ جو ندیاوی مال و متاع حاصل کرتے ہیں اس کے لئے ہزاروں قسم کے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا ضمیر مجرم وہتا ہے اور وہ اطمینان اور سکون سے محروم رہتے ہیں۔
حافظ سیوطی متوفی 911 ھ لکھتے ہیں :
امام ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس (رض) سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے ہر وہ مال جو میں اپنے بندوں میں سے کسی بندہ کو یدتا ہوں خواہ وہ کم ہو یا زیادہ وہ اس میں میری اطاعت نہ کرے تو اس میں کوئی خیر نہیں اور وہی معیشت میں ضنک (تنگی) ہے۔
امام ابن ابی حاتم نے عکرمہ سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے جب اللہ کسی بندہ کو رزق میں وسعت دے اور وہ اپنی معیشت کو حرام کرلیتا ہے تو اللہ اس کے لئے دوزخ کی آگ میں تنی کردیتا ہے۔ امام ابن جریر نے روایت کیا ہے یہ وہ معیشت ہے جس میں حرام کی وسعت ہو۔
امام ابن ابی حاتم نے مالک بن دینار سے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا، اللہ اس کا رزق حرام میں کردیتا ہے اور اس کو تادم مرگ حرام کھلاتا ہے حتیٰ کہ وہ مرجاتا ہے پھر اس کو عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔
امام عبدبن حمید اور امام ابن ابی حاتم نے ” معیشۃ ضنکا “ کی تفسیر میں روایت کیا ہے اس سے مراد برے عمل اور رزق خبیث ہے۔ الدرالمنثور ج ٥ ص 609، (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٧ ص 2440)
امام ابن جریر نے ابو حازم سے اس کی تفسیر میں روایت کیا ہے یہ وہ معیشت ہے جس میں معصیت کا رزق ہو۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18416)
امام ابن جریر نے ضحاک سے اس کی تفسیر میں روایت کیا ہے اس سے مراد کسب خبیث ہے ایک اور سند سے روایت کیا ہے اس سے مراد عمل خبیث اور برا رزق ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18417)
کافر کی تنگ زندگی کا محمل قبر میں
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم یہ جانتے ہو کہ یہ آیت کن لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے، فان لہ معیشۃ ضنکا اور کیا تم جانتے ہو کہ معیشت ضنک کیا ہے صحابہ نے کہا کہ اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا یہ قبر میں کافر کا عذاب ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے کافر پر نانوے تنین مسلط کئے جائیں گے، کیا تم جانتے ہو کہ تنین کیا ہیں ؟ وہ ننانوے سانپ ہیں، ہر سانپ کے ننانوے پھن ہیں، وہ اس کے جسم میں پھونکیں ماریں گے اور قیامت تک اس کو ڈستے اور نوچتے رہیں گے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18424، مسند احمد رقم الحدیث :11334 مطبوعہ دارلفکر، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :13564)
(حافظ ابن کثیرنے اس حدیث کو متعدد سندوں کے ساتھ ذکر کیا ہے تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 188، دارالفکر، 1419 ھ)
حافظ سیوطی نے امام عبدالرزاق کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ کافر کی قبر اس پر تنگ ہوجائے گی حتیٰ کہ اس کی پسلیاں ایک دور سے میں گھس جائیں گی۔ (الدرالمنثور ج ٥ ص 607، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1414 ھ)
کافر کی تنگ زندگی کا محمل آخرت میں
حضرت ابن عباس (رض) نے بیان فرمایا ہے کہ کافر کی زندگی دوزخ میں بڑی سختی سے گزرے گی ان کو کھانے کے لئے کانٹے دار بدبو دار درخت اور تھوہر کے درخت ملیں گے۔ (زاد المسیر جی ٥ ص 133)
نیز حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہے کہ معیشت ضنک یہ ہے کہ کافر پر خیر کے دروازے تنگ کردیئے جائیں گے وہ کسی خیر کے دروازہ کی راہ نہیں پائے گا۔ امام رازی فرماتے ہیں کہ شبلی سے پوچھا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے کہ جب تم اہل بلاء کو دیکھو تو اللہ تعالیٰ سے عافت طلب کرو تو شبلی نے کہ کا اہل بلا سے مراد اہل غقلت ہیں۔ ان کی سزا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے نفسوں کی طرف لوٹا دے گا اور اس سے زیادہ اور کون سی معیشت تنگ اور سخت ہوگی کہ انسا نکو اس کے نفس کے سپرد کردیا جائے، عطا نے کہا معیشت ضنک کافر کی معیشت ہے کیونکہ اس کا ثواب پر یقین ہوتا ہے نہ عذاب پر۔
اور اگر یہ مراد ہو کہ کافر دنیا، قبر اور آخرت میں تنگی کی زندگی گزارتا ہے تو اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گناہ کی سزا کی تین قسمیں ہیں، معیشت کا تنگ ہونا، بہت زیادہ مشکلات کا شکار ہونا اور بغیر اللہ کی معصیت کے روزی کا حاصل نہ ہونا۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ١١١، بیروت 1415 ھ)
اس کے بعد فرمایا اور قیامت کے دن ہم اس یاندھا اٹھائیں گے۔ ابوصالح نے اس کی تفسیر میں کا وہ اعمی المحبث ہوگا، یعنی قیامت کے دن اس کے پاس اپنے کفر اور فسق پر کوئی عذر اور کوئی حجت نہیں ہوگی۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 124