أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كُلُّ نَفۡسٍ ذَآئِقَةُ الۡمَوۡتِ‌ؕ وَنَبۡلُوۡكُمۡ بِالشَّرِّ وَالۡخَيۡرِ فِتۡنَةً‌ ؕ وَاِلَيۡنَا تُرۡجَعُوۡنَ ۞

ترجمہ:

ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے، اور ہم تم کو بری اور اچھی حالت میں مبتلا کر کے آزماتے ہیں اور تم سب لوگ ہماری ہی طرف لوٹائے جائو گے

ہر نفس کے موت کو چکھنے پر اعتراضات کے جوابات 

اس آیت میں فرمایا ہے ہر نفس نے موت کو چکھنا ہے، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنے اوپر نفس کا اطلاق فرمایا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ نے بھی موت کو چکھنا ہے، قرآن مجید میں ہے :

کتب علی نفسہ الرحمۃ (الانعام : ١٢) اللہ نے اپنے نفس پر رحم کرنے کو لازم کرلیا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں نفس سے مراد ہر نفس ممکن یا ہر نفس مخلوق ہے، اس لئے نفس کے عموم میں اللہ تعالیٰ کی ذات داخل نہیں ہے۔

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ موت آنے کے بعد تو کسی چیز کو چکھنا متصور نہیں ہے اور تیسرا اعتراض یہ ہے کہ موت تو اس قسم کی چیز نہیں ہے جس کو کھایا یا چکھا جائے، اس کا جواب یہ ہے کہ چکھنے سے مراد ہے ادراک کرنا، اور موت سے مراد ہے موت کے مقدمات اور وہ کیفیات جو موت سے پہلے وارد ہوتی ہیں یعنی ہر نفس کو موت سے پہلے آنے والے امراض اور ان کے آلام کا سامنا کرنا ہے اور جن تکلیفوں میں مبتلا ہو کر جان نکلتی ہے ان کا ہر شخص کو سامنا کرنا ہے اور ان کا ادراک کرنا ہے۔

اچھی اور بری حالت اور اس میں آزمانے کا معنی 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور ہم تم کو بری اور اچھی حالت میں مبتلا کر کے آزماتے ہیں۔ اس آیت میں بری حالت سے مراد دنیا کی وہ تکالیف اور مصائب ہیں جو مسلمانوں پر وارد ہوتی ہیں جیسے فقر، تنگ دستی، بیماریاں اور ناگہانی افتاد اور اچھی حالت سے مراد صحت، خوشحالی اور دیگر دنیاوی نعمتیں ہیں اور آزمانے سے مراد یہ ہے کہ یہ دکھایا جائے کہ مسلمان خوش حالی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں اور تنگ دستی میں صبرک رتے ہیں اور اپنی بیماریوں اور بدحالیوں پر اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ اور شکایت نہیں کرتے۔

ان آیات میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا ذکر آگیا ہے، اس لئے ہم یہاں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پہلے کے اہم امور آپ کی وفات کی کیفیت اور آپ کی وفات کے بعد پیش آنے والے واقعات کا تفصیل سے ذکر کر رہے ہیں۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اپنی وفات کی خبر دینا 

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا کے درمیان اور جو اس کے پاس اجر ہے اس کے درمیان اختیار دیا تو اس بندے نے اس کو اختیار کرلیا جو اس کے پاس ہے، پھر حضرت ابوبکر صدیق (رض) رونے لگے اور ہمیں ان کے رونے پر تعجب ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک بندہ کو اختیار دیا ہے (تو اس میں رونے کی کیا بات ہے ! ) دراصل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ اختیار دیا گیا تھا اور حضرت ابوبکر صدیق (رض) ہم میں سب سے زیادہ علم والے تھے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اپنی صحبت میں اور اپنے مال میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان کیا ہے وہ ابوبکر ہیں اور اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بتاتا لیکن ان کے ساتھ اسلام کی اخوت اور دوستی ہے مسجد کے ہر دروازہ کو بند کردیا

Anbiya35 Tibyan ul Quran Page

(الطبقات الکبریٰ ج ہ ص 148، مبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں جب سورة النصر نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سید تنافاطمہ (رض) کو بلایا اور فرمایم مجھے اپنی اجل (موت) کی خبر دے دی گئی ہے حضرت فاطمہ رونے لگیں تو آپ نے فرمایا رئو مت، میرے اہل میں سے تم سب سے پہلے مجھ سے ملو گی، پھر حضرت فاطمہ ہنسنے لگیں۔ (الطبقات الکبری، ج ہ ص 149، مطبوعہ بیروت، 1418 ھ)

حضرت عائشہ ام المومنین (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت (سیدتنا) فاطمہ (رض) سے زیادہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت کے قریب کسی کو نہیں دیکھا جو اپنی نشست برخواست اور زندگی کے عام معمولات میں آپ کے سب سے زیادہ مشابہ ہو، جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آتیں تو آپ کھڑے ہوجاتے، ان کو بوسہ دیتے اور ان کو اپنے پاس بٹھاتے، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو حضرت فاطمہ آئیں اور جھک کر آپ کو بوسہ دیا اور سر اٹھا کر رونے لگیں، پھر دوبارہ آپ پر جھکیں اور سر اٹھا کر ہنسنے لگیں جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے تو میں نے ان سے کہا جب آپ پہلی بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکی تھیں تو رونے لگیں تھیں پھر جب آپ دوبارہ جھکیں اور سر اٹھایا تو آپ ہنسنے لگیں تھیں۔ اس کا کیا سبب تھا ؟ حضرت فاطمہ نے فرمایا میں آپ کا راز بتارہی ہوں پہلی بار آپ نے یہ بتایا تھا کہ آپ اس درد اور اس بیماری سے فوت ہوجائیں گے تو میں رونے لگی، پھر دوسری بار آپ نے یہ بتایا کہ کہ آپ کے اہل میں سے سب سے پہلے میں آپ کے ساتھ ملوں گی تو میں ہسنے لگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3872، سنن ابودائود رقم الحدیث :5217، صحیح ابن حبان رقم الحدیبث :6953 المعجم الکبیر رقم الحدیث :1038، المستدرک ج ٤ ص 272، دلائل النبوۃ ج ٧ ص 101)

حضرت عقبہ بن عامرالجہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آٹھ سال بعد شہداء حد پر نماز جنازہ پڑھی، جیسے کوئی شخص زندوں اور مردوں سے الوداع ہو رہا ہیو، پھر آپ منبر کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا میں تمہارا پیش رو ہوں اور میں تم پر گواہ ہوں اور میرا تم سے حوض پر ملاقات کا وعدہ ہے اور میں اپنی اس جگہ سے اب بھی اس کی طرف دیکھ رہا ہوں اور مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ تم سب مشرک ہو جائو گے لیکن مجھے تم پر یہ خوف ہے کہ تم دنیا میں رغبت کرو گے۔ حضرت عقبہ نے کہا یہ میرا آخری یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھنا تھا۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 158، مطبوعہ بیروت، 1419 ھ)

محمد بن عمر بن علی اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مضر کی ابتداء بدھ کے روز سے ہوئی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روح قبض ہونے تک تیرہ روز بیمار رہے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 159، مطبوعہ بیروت 1418 ھ)

یہ صفر کا آخری بدھ ہے جس دن جاہل مسلمان خوشی مناتے ہیں مٹھائیاں بانٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غسل صحت کیا تھا، غالباً یہ دشمنان اسلام کی پھیلائی ہوئی خبر ہے کیونکہ اس دن سے آپ کی اس بیماری کی ابتدا ہوئی تھی جس میں آپ کی روح قبض کرلی گی تھی۔

آخری ایام میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نمازیں اور آپ کی بیماری کی کیفیت 

عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت عائشہ (رض) کے پاس گیا اور میں نے عرض کیا کیا آپ مجھے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض کے متعلق نہیں بیان کریں گی۔ حضرت عائشہ نے کہا کیوں نہیں ! نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرض زیادہ ہوگیا آپ نے پوچھا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ؟ ہم نے کہا نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، آپ نے فرمایا میرے لئے مخضب (لگن، ناندیا ٹب) میں پانی رکھو ہم نے اس میں پانی رکھ دیا، آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھ کر جانے لگے تو آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی، پھر جب آپ ہوش میں آئے تو آپ نے فرمایا میرے لئے مخضب میں پانی رکھ دو ، حضرت عائشہ نے فرمایا آپ نے بیٹھ کر غسل کیا پھر آپ اٹھ کر جانے لگے تو پھر آپ پر بےہوشی طاری ہوگئی۔ آپ نے پوچھا کیا لوگوں نے نماز پڑھ لی ہے ہم نے کہا نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا میرے لئیمخضب میں پانی رکھ دو ، آپ بیٹھ گئے آپ نے غسل کیا، پھر آپ اٹھ کر جانے لگے تو آپ پر بےہشوی طاری ہوگی، پھر آپ ہوش میں آئے تو آپ نے پوچھا کیا لوگوں نے ماز پڑھ لی ہے ؟ ہم نے کہا نہیں وہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں یا رسول اللہ ! اور لوگ مسجد میں بیٹھے ہوئے عشاء کی نماز کے لئے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو بلایا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ پھر حضرت ابوبکر کے پاس پیغام دینے والا گیا اور کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو نماز پڑھانے کا حکم دے رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر نرم دل شخص تھے انہوں نے حضرت عمر سے کہا : اے عمر ! تم لوگوں کو نماز پڑھا دو ، حضرت عمر نے ان سے کہا آپ اس کے زیادہ حق دار ہیں، سو ان ایام میں حضرت ابوبکر نے نماز پڑھائی۔ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی طبیعت میں افاقہ محسوس ہوا تو آپ دو ادٓمیوں کے سہارے سے ظہر کی نماز کے لئے نکلے۔ ان میں سے ایک حضرت عباس (رض) ، حضرت ابوبکر کو اشارہ کیا کہ وہ پیچھے نہ ہٹیں۔ آپ نے فرمایا ان دونوں آپ کو حضرت ابوبکر کے پہلو میں بٹھا۔ دیا حضرت ابوبکر اپنی نماز میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کی اقتداء کر رے تیھ اور لوگ حضرت ابوبکر صدیق کی نماز کی اقتداء کر رہے تھے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے، عبید اللہ نے کہا میں نے حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے کہا کیا میں آپ کو وہ حدیث نہ سنائوں، جو حضرت عائشہ (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مضر کے متعلق بیان کی ہے ! انہوں نے کہا سنائو ! میں نے ان کو یہ حدیث سنائی تو انہوں نے اس میں سے اور کسی چیز سے اختلاف انہیں کیا سوا اس کے کہ انہوں نے پوچھا کہ حضرت عائشہ نے اس شخص کا نام لیا تھا جو حضرت عباس کے سا تھے تھے ؟ میں نے کہا نہیں فرمایا : وہ حضرت علی تھے ! (حضرت عائشہ نے حضرت علی کا نام اس لئے نہیں لیا تھا کہ ایک جانب تو مستقل حضرت عباس تھے اور دوسریج انب کبھی حضرت علی ہوتے کبھی حضرت فضل بن عباس اور کبھی حضرت اسامہ بن زید (رض) ، یہ وجہ نہیں تھی کہ آپ کو حضرت علی (رض) سے کچھ رنج تھا۔ ) (صحیح البخاری رقم الحدیث :687 صحیح مسلم رقم الحدیث :418، سنن النسائی رقم الحدیث :834، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث، 7084)

حضرت انس بن مالک (رض) جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع، آپ کے خادم اور صحابی تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ جس درد اور مرض میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے اس میں حضرت ابوبکر (رض) مسلمانوں کو نماز (فجر) پڑھا رہے تھے حتیٰ کہ جب پیر کا دن آیا اور مسلمان صف باندھے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حجرہ کا پردہ کھولا، آپ کھڑے ہو کر ہماری طرف دیکھ رہے تھے آپ کا چہرہ قرآن کے ورق کی طرح لگ رہا تھا، پھر آپ ہنستے ہوئے مسکرائے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر ہم کو اس قدر خشوی ہوئی کہ لگتا تھا کہ ہم نماز توڑ دیں، گے، حضرت ابوبکر نے یہ گمان کیا کہ آپ حجرہ سے باہر آ کر نماز میں شامل ہوں گے وہ الٹے پائوں پھرے تاکہ آپ صف میں آجائیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشرہ کیا کہ تم اپنی نماز پوری کرو، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حجرہ میں گئے اور پردہ گرا دیا اور آپ اسی دن فوت ہوگئے، امام بخاری کی ایک اور روایت میں ہے آپ اس دن کے آخر میں فوت ہوئے اور اس روایت میں یہ تصریح بھی ہے کہ یہ صبح کی نماز کا واقعہ تھا۔ (رقم الحدیث :754) (صحیح البخاری رقم الحدیث :4448، 1205، 754، 680-681 صحیح مسلم رقم الحدیث :419، سنن النسائی رقم الحدیث :1831، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :1957)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

ہشام نے کہا حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار تھے، آپ نے حضرت ابوبکر کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کچھ تخفیف محسوس کی تو آپ آئے اور حضرت ابوبکر کے پہلو میں بیٹھ گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیٹھ کر حضرت ابوبکر کو نماز پڑھائی اور حضرت ابوبکر نے (وہ نماز) لوگوں کو کھڑے ہو کر پڑھائی۔ (یعنی حضرت ابوبکر مکبر تھے)

زیادہ روایات اس پر متفق ہیں کہ اس نماز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے اور حضرت ابوبکر اور باقی مسلمانوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی اور یہ بھی روایت ہے کہ نماز میں حضرت ابوبکر امام تھے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی۔

مسروق نے کہا حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے اس مرض میں آپ نے حضرت ابوبکر کے پیچھے بیٹھ کر نماز پڑھی۔

ہمیں حضرت انس (رض) سیروایت کی گئی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔

امام شافعی نے کہا اگر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بار حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی ہے تو یہ اس سے مانع نہیں ہے کہ آپ نے دوسری بار بھی حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی ہو۔

موسی بن عقبہ نی اپنے مغازی میں یہ حدیث روایت کی ہے کہ پیر کے دن حضرت ابوبکر ایک رکعت نماز پڑھا چکے تھے یہ وہی دن ہے جس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وفات پائی تھی، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طبیعت میں کچھ تخفیف محسوس کی تھی آپ باہر آئے اور آپ نے حضرت ابوبکر کے ساتھ ایک رکعت نماز پڑھی اور جب حضرت ابوبکر نے سلام پھیر دیا تو آپ نے کھڑے ہو کر دوسری رکعت پڑھی، پس ہوسکتا ہے جنہوں نے یہ روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرض میں حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی اس سے مراد یہی نماز ہ، اور رہی وہ نماز جو ہفتہ یا اتوار کے دن حضرت ابوبکر نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے، پس ان دونوں حدیثوں میں کوئی عتارض نہیں ہے۔ (السنن الکبریٰ ج ٣ ص 82-83 مطبوعہ نشر السنتہ ملتان)

خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ یا حضرت ابن عباس کی روایت میں جو مذکور ہے کہ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی اور حضرت ابوبکر نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی وہ ظہر کی نماز ہے، اور جس حدیث میں ہے کہ آپ نے مرض میں حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی اس سیم راد پیر کے دن نماز فجر کی دوسری رکعت ہے جیسا کہ موسیٰ بن عقبہ کی روایت ہے اور بخاری میں جو حضرت انس سیر وایت ہے کہ آپ پیر کے دن مسلمانوں کو نماز فجر پڑھتا دیکھ کر خوش ہوئے اور پھر حجرہ میں چلے گئے اور اسی دن آپ فوت ہوگئے تھے اس سے مراد پیر کے دن کی نماز فجر کی پہلی رکعت ہے۔

ایام مرض میں آپ نے حضرت ابوبکر کی اقتداء میں ظہر کی نماز پڑھی تھی یا آپ خود امام تھے 

صحیح بخاری رقم الحدیث :687 اور صحیح مسلم رقم الحدیث :418 میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عباس اور ایک صحابی کے ساتھ ظہر کی نماز کے لئے گئے اس وقت حضرت ابوبکر نماز پڑھا رہے تھے آپ ان کی بائیں جانب بیٹھ گئے اور آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھی، اب اس میں ائمہ حدیث اور شارحین کا اختلاف ہے کہ یہ نماز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر اور دوسرے صحابہ کو پڑھائی تھی اور حضرت ابوبکر صرف مبلغ اور مکبر تھے، یا یہ نماز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے باقی صحاب کی طرح حضرت ابوبکر (رض) کی اقتداء میں پڑھی تھی۔

قاضی عیاض بن موسیٰ اندلسی متوفی 544 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

بعض علماء نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کو ایام مضر میں نمازوں کا امام بنایا تھا اور حضرت ابوبکر نے مسلمانوں کو بہ کثرت نمازیں پڑھائیں، صحیح بخاری میں حضرت انس (رض) سے روایت ہے کہ حضرت ابوبکر پیر کے دن تک مسلمانوں کو نمازیں پڑھاتے رہے اور حضرت عائشہ نے کہا کہ حضرت ابوبکر نے ان ایام میں نمازیں پڑھائیں۔ اس میں یہ دلیل ہے کہ یہ صرف ایک نماز کا واقعہ نہیں ہے، ایک قول یہ ہے کہ حضرت ابوبکر بارہ دن تک نماز پڑھاتے رہے تھے الایہ کہ بعض اوقات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی طبیعت میں تخفیف محسوس کرتے اور آپ میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت ہوتی تو آپ مسجد میں آ کر مسلمانوں کو نماز پڑھاتے جیسا کہ حضرت عائشہ کی بعض روایات میں ہے اور حضرت انس سے ایک روایت میں ہے آپ آئے اور مسلمانوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی اور حجرہ کا پردہ گرا دیا، یہ اور حدیث ہے اور حضرت عائشہ کی حدیث میں دوسرا قصہ ہے پس کوئی بعید نہیں ہے کہ ایک نماز میں آپ امام ہوں اور دوسری نماز میں آپ مقتدی ہوں اور زیاندہ صحیح اور مشہور یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی امام تھے۔

حضرت ابوبکر نے مسلمانوں کو جو نماز پڑھائی تھی وہ عشاء کی نماز تھی اور امام مالک نے مئوطا کے علاوہ ایک حدیث میں روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر امام تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ نے فرمایا کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک کہ وہ اپنے کسی امتی کی اقتداء میں نماز نہپڑھے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص 323، مبوعہ دارالوفاء بیروت، 1419 ھ)

علامہ ابوالبع اس احمد بن عمر القرطبی المالکی المتوفی 656 ھ لکھتے ہیں :

علماء کا اختلاف ہے آیا اس نماز میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام تھے اور اس کا سبب یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام تھے اور حضرت ابوبکر نماز میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کر رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر کی اقتداء کر رہے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :687، صحیح مسلم رقم الحدیث :418)

اور امام ترمذی نے حضرت انس (رض) سیر وایت کیا ہے جو آخری نماز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پڑھی ہے اس میں آپ ایک کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے اور آپ نے وہ نماز حضرت ابوبکر کی اقتداء میں پڑھی تھی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :363، مسند احمد ج ٣ ص 159، سنن النسائی ج ٢ ص 79 دلائل النبوۃ ج ٧ ص 192، امام ترمذی نے حضرت عائشہ (رض) سے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ رقم الحدیث :362، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٦ ص 159، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2118، سنن کبریٰ ج ٣ ص 83 علامہ قرطبی نے جو لکھا ہے کہ آخری نماز (حضرت ابوبکر کے پیچھے پڑھی) تو یہ الفاظ سنن ترمذی میں نہیں ہے البتہ مسند حمد ج ٣ ص 159 اور سنن النسائی ج ٤ ص 79 میں ہیں۔ )

علماء نے ان احادیث میں یہ تطبیق دی ہے کہ جس نماز میں آپ امام تھے وہ اور نماز تھی اور جس نماز میں آپ مقتدی تھے وہ اور نماز تھی، لیکن اس کی تائید میں کوئی صحیح نقل وارد نہیں ہے۔ (المفہم ج ٢ ص 51 مطبوعہ دار ابن کثیر، بیروت، 1417 ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) نے کہا بعض لوگ یہ کہتے ہیں حضرت ابوبکر صف میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے آگے تھے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگے تھے، امام ابن المنذر نے شعبہ سے رویا کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی اور امام ابن حبان نے شفیق سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے اور لوگ حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے یعنی ابوبکر مبلغ اور مکبر تھے۔

اس مسئلہ میں شدید اختلاف ہے، بعض علمائنے ترجیح کا طریقہ اختیار کیا اور اس کو ترجیح دی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے جیسا کہ بخاری اور مسلم میں ہے، بعض علماء نے تطبیق کا طریقہ اختیار کیا اور کہا کہ یہ متعدد واقعات ہیں۔ حضرت ابن عباس کی حدیث میں یہ ہے کہ حضرت ابوبکر مقتدی تھے اور حضرت انس کی حدیث میں یہ ہے کہ حضرت ابوبکر امام تھے اور یہ آخری نماز تھی جو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کی اقتداء میں پڑھی تھی، اس حدیث کو امام ترمذی اور امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ (فتح الباری، ج ٢ ص 376-377، ملحضاً ، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)

حافظ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

اس میں روایات مختلف ہیں کہ آیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امام تھے یا حضرت ابوبکر صدیقف امام تھے، ایک جماعت نے یہ کہا کہ بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہ (رض) کی روایت میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تھے او ایک جماعت نے یہ کہا کہ حضرت ابوبکر امام تھے کیونکہ شعبہ نے ازابراہیم از اسود از عائشہ روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کے پیچھے نماز پڑھی تھی امام بیہقی نے کہا ان احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ جن احادیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے امام ہنے کا ذکر ہے ان میں ہفتہ یا اتوار کے دن کی ظہر کی نماز مراد ہے اور جن احادیث میں ذکر ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی ان میں پیر کے دن فجر کی نماز کی دوسری رکعت مراد ہے اور یہ آپ کی آخری نماز تھی، جیسا کہ سنن ترمذی اور سنن نسائی میں ہے، امام نعیم بن ابی ہند نے بھی یہی کہا ہے کہ ان احادیث میں تعارض نہیں ہے ایک نماز میں آپ امام تھے اور ایک نماز میں آپ مقتدی تھے، اور امام ضیاء المقدسی اور ابن ناص نے کہا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایام مرض میں تین مرتبہ حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی ہے اور اس کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو جاہل ہو اور اسکو روایات ایام مرض میں تین مرتبہ حضرت ابوبکر اقتداء میں نماز پڑھی ہے اور اس کا انکار وہی شخص کرسکتا ہے جو جاہل ہو اور اس کو روایات کا علم نہ ہو، امام ابن حبان نے کہا ایسا دو مرتبہ ہوا ہے اور امام ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی امام تھے۔ (عمدۃ القاری جز ٥ ص 161، مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیر یہ مصر، 1348 ھ)

حافظ ابوعمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر مالکی متوفی 463 ھ لکھتے ہیں :

ابن القاسم نے کہا مجھے امام مالک نے ربیعہ بن عبدالرحمٰن سے یہ حدیث روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیماری کی حالت میں باہر نکلے، اس وقت حضرت ابوبکر مسلمانوں کو نماز پڑھا رہے تھے، آپ حضرت ابوبکر کے پہلو میں بیٹھ گئے امام حضرت ابوبکر تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے تھے اور آپ نے فرمایا کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوا جب تک کہ اس کی امت کے کسی شخص نے اس کو نماز نہ پڑھائی ہو۔

امام امالک نے کہا ہمارے نزدیک اس حدیث پر عمل ہے اور ربیعہ ہمارے نزدیک پسندیدہ ہے۔ (الاستذکارج ٥ ص 392-393، مطبوعہ مئوستہ الرسالہ بیروت، 1413 ھ)

اس تصریح سے واضح ہوگیا کہ علامہ عینی نے جو امام ابن عبدالبر سے نقل کیا ہے کہ امام رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی تھے وہ نقل صحیح نہیں ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مرض الموت 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے مرض الموت میں فرمایا : اے عائشہ مجھے ہمیشہ اس کھانے سے درد ہوتا رہا ہے جو میں نے خیبر میں کھایا تھا اور اب وقت آگیا ہے کہ اس زہر کے اثر سے میری ابہر (وہ رگ جو پشت سے لے کر دل تک متصل ہے، موت کے وقت یہ رگ منقطع ہوجاتی ہے) منقطع ہوجائے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4468)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں یہ سنتی تھی کہ کوئی نبی اس وقت تک فوت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار نہ دیا جائے اور میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مرض الموت میں سنا آپ کی آواز بھاری ہوچکی تھی اس وقت آپ فرما رہے تھے : مع الذین انعم اللہ علیھم تو میں نے جان لیا کہ اب آپ کو اختیار دیا گیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4435 صحیح مسلم رقم الحدیث :2244 سنن الترمذی رقم الحدیث :3499، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :7105)

فی الرفیق الاعلیٰ کے متعلق احادیث 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس مرض میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوگئی تو آپ یہ کہہ رہے تھے فی الرفیق الاعلی (صحیح البخاری رقم الحدیث :4436، صحیح مسلم رقم الحدیث :2444، سنن رقم الحدیث :3499)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تندرستی کی حالت میں فرمایا اس وقت تک کوئی نبی آپ بیمار ہوگئے اور قبض روح کا وقت آیا اور اس وقت آپ کا سرحضرت عائشہ (رض) کے زانو پر تھا آپ پر غشی طاری تھی جب آپ کو ہوش آتا تو آپ کی نظر گھر کی چھت کی طرف اٹھی ہوئی ہوتی اور آپ یہ کہتے تھے ” اے اللہ رفیق اعلیٰ میں “ اس وقت میں نے دل میں کہا اب آپ ہمارے ساتھ نہیں رہیں گے اور اس وقت وہ حدیث یاد آگئی جو آپ نے حالت صحت میں ارشاد فرمائی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4437 صحیح مسلم رقم الحدیث :2444، سنن الترمذی رقم الحدیث :3499)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ قبض روح سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی پیٹھ میری ساتھ لگائی ہوئی تھی میں نے آپ کی طرف کان لگا کر سنا تو آپ یہ دعا کر رہے تھے : اے اللہ ! مجھے معاف کر دے، مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق (اعلیٰ ) سے ملا دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4440)

الرفیق الاعلیٰ کا معنی 

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

رفیق اعلیٰ سے مراد وہ حضرات قدس ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے :

من النبین والصدیقین والشھدآء والصلحین وحسن اولئک رفیقاً ۔ (النساء :69) انبیاء، صدیقین، شہداء، صالحین اور یہ بہترین رفیق ہیں۔

علامہ سہیلی نے لکھا ہے کہ ان سب لوگوں کو رفیق اعلیٰ سے تعبیر کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تمام نفوس قدسیہ کا قلب ایک جیسا ہوگا اور بعض مغاربہ کا یہ زعم ہے کہ الرفیق الاعلی سے مراد اللہ عزوجل کی ذات ہے کیونکہ الرفیقف اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے ہے، صحیح مسلم اور سنن ابودائود میں ہے کہ اللہ رفیق ہے اور رفق صنرمی اور ملائمت) کو پسند فرماتا ہے، اور یہ ہوسکتا ہے کہ حکیم کی طرح رفیق اللہ تعالیٰ کی صفت ہو اور یہ بھی ہو ستا ہے کہ رفیق اللہ تعالیٰ کی صفت فعل ہو، یعنی اللہ تعالیٰ نرمی سے کام کرتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے حضرت القدس مراد ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے وہ نفوس قدسیہ مراد ہوں جن کا النساء :69 میں ذکر ہے اور ان کے رفیق ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ لطف اور ملائمت کے ساتھ پیش آتے ہیں اور یہی تیسرا معنی معتمد ہے اور اکثر شارحین نے اس کا ذکر کیا ہے۔ علامہ سہیلی نے لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اپنے کلام کو ختم کیا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ یہ کلمہ اللہ تعالیٰ کی توحید اور ذکر بالقلب کو متضمن ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ ضروری نہیں کہ انسان مرتے وقت اللہ تعالیٰ کو زیادہ سے زیادہ یاد کرے بلکہ اس کو دل سے بھی یاد کرلینا کافی ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص 484، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1420 ھ)

علامہ البمارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی 606 ھ لکھتے ہیں :

حدیث میں یہ دعا ہے اے اے اللہ ! مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔ (مسند احمد ج ٦ ص 45) رفیق سے مراد ہے انبیاء (علیہم السلام) کی جماعت جو اعلیٰ علیین میں سکوتن پذیر ہیں، رفیق کا اطلاق واحد اور جمع دونوں پر ہوتا ہے، اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ اے اللہ ! مجھے اللہ تعالیٰ سے ملا دے کیونجہ وہ اپنے بندوں پر رفیق ہے یعنی ان پر نرمی فرماتا ہے۔ (النہایہ ج ٢ ص 224، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ) 

علامہ احمد بن محمد القسطلافی المتوفی 911 ھ لکھتے ہیں :

سنن نسائی میں اور صحیح ابن حبان میں ہے اے اللہ میں الرفیق الاعلی الاسعد کا جبریل، میکائیل اور اسرافیل کے ساتھ کا سوال کرتا ہوں اور ظاہر یہ ہے کہ رفیق اعلیٰ سیم راد وہ مقام ہے جہاں ان کی رفاقت حاصل ہو، ابن الاثیر نے کہا اس سے مراد جماعت انبیاء ہے جو اعلیٰ علیین میں ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد حضیرۃ القدس ہے۔ (المواہب اللدنیہ ج ٣ ص 884، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1416 ھ)

نزع روح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو شدید تکلیف ہونا 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے جو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک نعمت یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حجرے میں فوت ہوئے اور میری باری میں فوت ہوئے اس وقت آپ میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے وقت میرے اور آپ کے لعاب دہن کو جمع کردیا۔ اس وقت میرے پاس عبدالرحمٰن (بن ابی بکر) آئے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس وقت مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ آپ اس کی طرف دیکھ رہے ہیں، میں سمجھئی کہ آپ مسواک کو پسند فرما رہے ہیں، میں نے پوچھا کیا میں اس کو لے لوں ! آپ نے سر کے اشارہ سے فرمایا : ہاں ! میں نے آپ کو مسواک دی آپ نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ میں نے پوچھا کیا میں اس کو آپ کے لئے نرم کر دوں ؟ آپ نے سر کے اشار سے فرمایا : ہاں ! پھر میں نے اس کو آپ کے لئے نرم کیا، آپ کے سامنے پانی کا برتن تھا آپ اس برتن میں ہاتھ ڈال کر دونوں ہاتھ چہرے پر پھیرتے اور فرماتے لا الہ الا اللہ بیشک موت کے لئے سکرات ہے (سختیاں اور شدتیں ہیں) پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگے، الرفیق الاعلی “ میں حتیٰ کہ آپ کی روح قبض کرلی گی اور آپ کا ہاتھ ڈھلک گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4449)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حال میں روح قبض کی گئی کہ آپ میری ہنسلی اور تھوڑی کے درمیان تھے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد میں کسی پر موت کی شدت اور سختی کو برا نہیں جانتی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4446)

نزع روح کے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شدید تکلیف کی توجیہات 

ان حدیثوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت کی شدت اور سختی کا ذکر کیا گیا ہے اس کی حسب ذیل وجوہات ہیں :

(١) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مزاج مبارک عام لوگوں سے بہت لطیف تھا اس لئے آپ کو معمولی سی تکلیف بھی سخت معلوم ہوتی تھی۔

(٢) حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے زیادہ مصائب انبیاء پر نازل ہوتے ہیں پھر جو ان کے مماثل ہوں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2398، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 4023، المستدرک : 5514 جمع الجوامع رقم الحدیث :3140، کنز العمال رقم الحدیث :6780) ، اسی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت کی سختی نازل کی گئی۔

(٣) عام آدمیوں کو کسی چیز سے جتنی تکلیف ہوتی ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے دگنی تکلیف ہوتی ہے۔

جن کا رتبہ ہے سوا ان کو سوا مشکل ہے 

حضرت عبداللہ بن معسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مرض میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اس وقت آپ کو بخار ہو رہا تھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ آپ کو تو بہت شدید بخار ہو رہا ہے ! آپ نے فرمایا : ہاں ! مجھے اتنا بخار ہوتا ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! پھر آپ کو اس کا دگنا اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں اسی طرح ہوگا۔ مسلمان کو بھی تکلیف پہنچے خواہ کانٹا چبھنے کی ہو یا اس سے زیادہ ہو اللہ تعالیٰ اس کے سبب سے اس کے گناہ مٹا دیتا ہے جیسے درخت کے پتے گرا دیئے جاتے ہیں۔ (اور جب گناہ نہ ہوں تو ان کے درجات بلند کردیئے جاتے ہیں جیسے انبیاء علیہم السلام) (صحیح البخاری رقم الحدیث :5668، صحیح مسلم رقم الحدیث :2571)

اس کی وجہ یہ ہے کہ مصیبت بقدر نعمت نازل ہوتی ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بہت زیادہ ہوتی ہیں ان پر مصائب بھی زیادہ سخت نازل ہوتے ہیں۔ اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ قوی انسان پر سخت بلائیں نازل کی جاتی ہیں اور ضعیف انسان کے ساتھ نرمی کی جاتی ہے کیو کہ مصیبت زدہ کی جب معرفت قوی ہوتی ہے تو اس پر مصیبت ہلکی ہوجاتی ہے۔ ان میں سے بعض افراد مصیبت کے اجر پر نظر رکھتے ہیں تو ان کو وہ مصیبت معمولی معلوم ہوتی ہے اور اس کا سب سے اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ مصیبت زادہ خیال کرتا ہے کہ یہ مالک کا اپنی ملکیت میں تصرف ہے تو وہ اس بلا اور مصیبت کو تسلیم کرتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں جیسے حسن یوسف کے جلوئوں میں کھو کر مصر کی عورتوں کو انگلیاں کاٹنے کا درد اور احساس نہیں ہوا، اور اس سے بھی بڑا درجہ یہ ہے کہ جس طرح عام لوگ نعمت سے لذت حاصل کرتے ہیں خواص اس طرح مصائب سے لذت حاصل کرتے ہیں کیونکہ ان کی نظر مصائب کی طرف نہیں مصائب نازل کرنے والے کی طرف ہوتی ہے۔

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے زیادہ کسی کو درد میں مبتلا نہیں دیکھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدی :5646، صحیح مسلم رقم الحدیث :2570 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1622)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبشی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ رکھ کر کہا : اللہ کی قسم میں آپ کے بخار کی شدت وجہ سے آپ کے اوپر اپنا ہاتھ نہیں رکھ سکت، تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہم انبیاء کے گروہ پر اسی طرح مصائب کو دگنا کیا جاتا ہے جس طرح ہمارے اجر کو دگنا کیا جاتا ہے، بیشک انبیاء سابقین کو جو ئوں کے ساتھ مبتلا کیا جاتا حتیٰ کہ وہ جو ئوں کو مار دیتے اور ان کو فقر کے ساتھ مبتلا کیا جاتا حتیٰ کہ وہ ستر پوشی کے لئے اپنے گرد چادر لپیٹ لیتے اور بیشک وہ مصائب میں اسی طرح فرحت محسوس کرتے تھے جس طرح تم خوش حالی میں فرحت محسوس کرتے ہو۔ (مسند احمد ج ٣ ص 94 طبع قدیم، مسند حمد رقم الحدی :11915، عالم الکتب، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیبث :20626، مسند عبدبن حمید رقم اہلحدیث :961، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 204)

(٤) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نزع روح کے وقت جو زیادہ سختی اور شدت کی گئی اس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ اگر امت کے کسی فرد پر نزع روح کے وقت سختی اور شدت ہو تو وہ گھبرائے نہیں اور یہ نہ سمجھے کہ اس پر ظلم ہو رہا ہے بلکہ یہ سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دے کر وہ کیا چیز ہے تمام انبیاء کے اقئد اور سردار پر بھی سکرات موت کی شدت کی گئی تھی اسط رح اس میں بھی حکمت ہے کہ کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان پر سکرات کی سختی دیکھ کر اس کے متعلق یہ بدگمانی نہ کریے کہ اس کا انجام اچھا نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی برات موت کی شدت کی گئی تھی۔

(٥) روح معصیت کی آلوگدی سے منزہ ہوتی ہے اور جب جسم معصیت میں ڈوبا ہوا ہو تو روح اور جسم میں اتصال اور چسپیدگی نہیں ہوتی سو جو لوگ بدکار اور گناہگار ہوتے ہیں تو نزع روح کے وقت حضرت عزرائیل کے ایک جھٹکے سے روح جسم سے اکھڑ کر الگ ہوجاتی ہے اور اگر جسم عبادت اور اطاعت میں ڈوبا ہوا ہو تو روح سختی کے ساتھ جسم سے چمٹ جاتی ہے پس حضرت عزرائیل جب نیک لوگوں کی روحوں کو قبض کرتے ہیں تو روح جسم سے الگ ہونے میں سخت مزاحمت کرتی ہے اس لئے نیک لوگوں کو نزع روح کے وقت سخت تکلیف ہوتی ہے۔

(٦) روح کو جسم سے الگ کرتے وقت تکلیف کا ایک یہ سبب ہوتا ہے کہ اس شخص کا چند لوگوں سے تعلق ہوتا ہے اور وہ ان سے جدا ہونا نہیں چاہات، عام انسانوں کا چند لوگوں سے تعلق ہوتا ہے اور ان کو چند لوگوں سے جدا ہونے کی تکلیف ہوتی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کا پوری امت سے تعلق ہوتا ہے اور ان کی روح پوری امت سے جدا ہوتی ہے سوا ان کو پوری امت سے جدا ہونے کی تکلیف ہوتی ہے۔ اس لئے عام انسانوں کی بہ نسبت انبیاء (علیہم السلام) کو نزع روح کے وقت زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔

(٧) آپ کے درجات کو بلند کرنے کے لئے آپ کو شدت سکرات میں مبتلا کیا گیا۔

(٨) سکرات کی سختی شدت کرب کی وجہ سے ہوتی ہے اور شدت فرح کی وجہ سے بھی ہوتی ہے۔ حضرت بلال پر جب نزع روح کی کیفیت طاری تھی تو ان کے گھر والوں نے کہا ہائے ان کی تکلیف حضرت بلال نے آنکھیں کھول کر کہا ہائے اس کی خوشی ! کل میں اپنے دوستوں سے ملوں گا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور آپ کے اصحاب سے، اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خوشی ! کل میں اپنے دوستوں سے ملوں گا سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اور آپ کے اصحاب سے، اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب سے ملاقات میں خوشی کی یہ کیفیت ہے تو اللہ عزوجل سے ملاقات کی خوشی کا کیا عالم ہوگا اور جب وہ نعمتیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فلاتعلم نفس ما اخفی لھم من قرۃ اعین (السجدہ : ١٧) کوئی نفس ان نعمتوں کو نہیں جانتا جو ہم نیح ان کی آنکھوں کو ٹھنڈ کرنے کے لئے پوشیدہ کر رکھی ہیں۔

تو ان کی خوشی کا کون اندازہ کرسکتا ہے۔ (المواہب اللدنیہ ج ٣ ص 385، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1416 ھ)

(٩) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پرنزع روح  شدت سکرات اس لیے طاری کیا گیا تاکہ اس حال میں بھی آپ کی امت کے لیے نمونہ ہو

(۱۰) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شدت سکرات کو امت کی تعلیم کے لئے طاری کیا گیا تاکہ اس حال

آپ نے اس موقع پر جو دعائیں پڑھی تھیں وہ بھی ان دعائوں کو پڑھیں۔ وہ دعائیں یہ ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو موت کے وقت دیکھا، آپ کے پاس ایک پیالہ میں پانی تھا آپ اس پایلہ میں ہاتھ ڈال کر اپنے ہاتھ سے چہرے پر پانی لگاتے اور یہ دعا کرتے : اے اللہ سکرات الموت پر میری مدد فرما۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :978، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص 258، مسند احمد ج ٦ ص 64، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث 1623، مسند ابویعلی رقم الحدیث :4510، المعجم الاوسط رقم الحدیث :3268، المستدرک رقم الحدیث 4442، 3783، طبع جدید)

امام ابن ابی الدنیا نے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ دعا فرما رہے تھے : اے اللہ : تو روح کو پھٹوں، ہڈیوں اور انگلیوں کی پودوں کے درمیان سے قبض کرتا ہے سو تو موت پر میری مدد فرما اور اس کو مجھ پر آسان کر دے۔ (احیاء علوم الدین ج ٤ ص 50، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)

(١١) عام لوگوں کا جسم عناصر اربعہ سے مرکب ہوتا ہے تو روح کو صرف ان چار عناصر سے منفصل ہونے کی تکلیف ہوتی ہے، صوفیا کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جسم تمام حقائق کونیہ سے مرکب تھا اس لئے نزع روح کے وقت آپ کی روح کو تمام حقائق کو نیہ سے منفصل ہونے کی تکلیف ہوئی اور صرف عناصر ابرعہ کی بہ نسبت تمام حقائق کونیہ سے انفصال کی تکلیف بہت زیادہ ہے۔

(١٢) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرض کی شدت ہوئی تو آپ پر بار بار بےہوشی طاری ہو رہی تھی، حضرت فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا واکرب اباہ ” آہ ! میرے والد کا کرب اور بےچینی “ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آج کے دن کے بعد تہارے والد پر کرب اور بےچینی نہیں ہوگی، جب آپ فوت ہوگئے تو حضرت فاطمہ نے کہا : ہائے میرے والد نے رب کی دعوت پر لبیک کہا ! ہائے میرے والد نے جنت الفردوس کو اپنا ٹھکانا بنا لیا، فاطمہ نے کہا : ہائے میرے والد نے رب کی دعوت پر لبیک کہا ! ہائے میرے والد نے جنت الفردوس کو اپنا ٹھکانا بنا لیا، ہائے ہم جبریل کو اپنے والد خبر سناتے ہیں۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کردیا گیا تو حضرت فاطمہ نے کہا اے انس ! اب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈال کر خوش ہوگئے ہو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :4462، سنن ابن ماجہ رقم الحدی :1630، سنن النسائی رقم الحدیث :1843، مسند احمد ج ٢ ص 197، سنن داری رقم الحدیث :88 مسند عبدبن حمیدرقم الحدیث :1364، المسند الجامع رقم الحدیث :603)

اس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ آپ کی تکلیف کی شدت کو دیکھ کر سیدہ فاطمہ زہرا نے رنج اور پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا : آہ میرے والد کا کرب اور بےچینی ! تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو تسلی دی اور فرمایا آج کے بعد تمہارے والد کو بےچینی نہیں ہوگی۔ اس میں یہ تعلیم دی ہے کہ کسی شخص کو نزع روح کی تکلیف میں دیکھ کر اس کے اقرباء گھبرائیں تو وہ ان کو تسلی دے۔

(١٣) نزع روح کے وقت آپ نے پانی کے پیالہ میں ہاتھ ڈال کر اس پانی کو اپنے ہاتھ سے چہرے پر لگایا اس میں یہ تعلیم دی کہ جو شخص نزع روح کی کیفیت میں مبتلا ہو اس کو اپنے چہرے پر پانی مل کر اپنے جسم کو تسکین پہچانی چاہیے۔

(١٤) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نزع روح کی اس شدید تکلیف کے باوجود کوئی جزع فزع اور آہ وزاری نہیں کی اور صبر و اطمینان کے ساتھ اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کردی، سو اسی طرح امت کو بھی صبر و اطمینان کے ساتھ جان دینی چاہیے۔

(١٥) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کا وقت آیا اور آپ کا سانس اکھڑ رہا تھا اس وقت آپ فرما رہے تھے الصلاۃ و ماملکت ایمانکم : نماز اور زکوۃ کو لازم رکھنا یا نماز اور اپنے خادموں کا خیال رکھنا۔ (مسند احمد ج ٣ ص 117 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2697، الطبقات الکبریٰ ج ص 195، المسند الجامع رقم الحدیث :298) 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت وصیت کی جب آپ کی زبان بڑی مشکل سے چل رہی تھی آپ نے فرمایا الصلاۃ و ماملکت ایمانکم (یہ حدیث صحیح ہے) (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2697، صحیح ابن حبان رقم الحدیث 6605، مسند عبدبن حمید رقم الحدیث :1214، الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 195 مسند احمد ج ٣ ص 117)

اس سے معلوم ہوا کہ نزع روح کی شدت کے وقت بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خیال تھا کہ آپ کی امت نماز میں کوئی کمی اور کوتاہی نہ کرے اور زکوۃ کی ادائیگی میں سستی نہ کرے، نزع روح کی شدت میں بھی آپ کو اپنی امت کی فکر دامن گیر تھی تو ہمیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کس قدر یاد رکھنا چاہیے اور نماز اور زکوۃ کی ادائیگی کی کتنی فکر کرنی چاہیے۔

(١٦) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جس آخری کلمہ کے ساتھ کلام کیا وہ یہ تھا اللھم الرفیق الاعلیٰ ” اے اللہ سب سے اعلیٰ رفیق۔ “ (صحیح البخاری رقم الحدیث :4463، سنن الترمذی رقم الحدیث :3499، السنن الکبریٰ رقم الحدیث :7105)

جب انسان کسی تکلیف میں مبتلا ہو تو اس کے دل و دماغ میں سوا اپنی تکلیف اور اس سے نجات کے اور کوئی فکر نہیں ہوتی، اللہ تعالیٰ نے یہ دکھایا کہ نزع روح کی اس شدید تکلیف میں بھی آپ نہ اپنی امت کو بھولے تھے اور نہ اپنے مولیٰ کو اور آپ کی زبان سے جو آخری کلمہ نکلا وہ اپنے مولیٰ کا نام تھا۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عیادت اور تعزیت 

حضرت جعفر بن محمد اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اجل میں تین روز رہ گئے تو آپ پر حضرت جبریل (علیہ السلام) نازل ہوئے اور کہا یا احمد ! اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی خصوصی تعظیم اور تکریم کے لئے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا حال پوچھا ہے حالانکہ اس کو آپ سے زیادہ آپ کے حال کا علم ہے، آپ نے فرمایا : اے جبریل ! مجھے سخت بےچینی اور تکلیف ہے، دوسرے دن پھر جبریل آئے اور کہا یا احمد ! اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی خصوصی تعظیم اور تکریم کے لئے بھیجا ع ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا حال پوچھا ہے حالانکہ اس کو آپ سے زیادہ آپ کے حال کا علم ہے۔ آپ نے فرمایا : اے جبریل ! مجھے سخت بےچینی اور تکلیف ہے، تیسرے دن حضرت جبریل آئے اور ان کے ساتھ ملک الموت اور ایک اور فرشتہ بھی آیا جس کا نام اسماعیل تھا وہ خلا میں رہتا تھا وہ کبھی آسمان پر چڑھا اور نہ کبھی زمین پر اترا تھا، پھر جبریل نے آپ سے کہا یا احمد ! اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کی خصوصی تعظیم اور تکریم کے لئے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا حال پوچھا ہے حالانکہ اس کو آپ سے زیادہ آپ کا حال معلوم ہے آپ نے فرمایا : اے جبریل مجھے سخت بےچینی اور تکلیف ہے، پھر ملک الموت نے اجازت طلب کی اور جبریل نے کہا یا احمد ! یہ ملک الموت ہے جو آپ سے آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے، اس نے آپ سے پہلے کسی آدمی سے اجازت طلب کی تھی اور نہ آپ کے بعد کسی آدمی سے اجازت طلب کرے گا، آپ نے فرمایا اس کی اجازت دو ، پھر ملک الموت آئے اور آپ کے سامنے کھڑے ہوگئے پس کہا یا رسول اللہ ! یا احمد ! بیشک اللہ نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ کے ہر حکم کی اطاعت کروں۔ اگر آپ حکم دیں گے تو میں آپ کی روح قبض کروں گا او اگر آپ اس کو ترک کرنے کا حکم دیں گے تو میں اس کو ترک کر دوں گا۔ آپ نے فرمایا : اے ملک الموت ! تم ایسا کرو گے ! انہوں نے کہا مجھے یہی حکم دیا گیا ہے کہ میں آپ کے ہر حکم کی تعمیل کروں۔ پھر بجریل نے کہا اے احمد اللہ تعالیٰ آپ کی ملاقات کا مشتاق ہے پھر آپ نے فرمایا اے ملک الموت ! تم کو جو حکم دیا گیا ہے تم اس کو بجا لائو، جبریل نے کہا السلام علیک یا رسول اللہ یہ میرا دنیا میں آخری بار آتا ہے میں تو صرف آپ کی وجہ سے دنیا میں آیا کرتا تھا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی۔ پھر تعزیتی کلمات کی آواز آئی، کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر یہ آواز آرہی تھی : السلام علیکم یا اھل البیت و رحمۃ اللہ وبرکاتہ۔

کل نفس ذآئفۃ الموت وانما توفون اجودک یوم القیمۃ (آل عمران :185) ہر نفس موت کو چکھنے والا ہے اور تمہارے اجور قیامت کے دن ہی پورے کئے جائیں گے۔

بے شک اللہ تعالیٰ کی ذات میں ہر مصیبت سے تعزیت ہے اور ہر ہلاک ہونے والے کی خلافت ہے اور ہر جانے والی چیز کی تلافی ہے، سو تم اللہ ہی اعتماد کرو اور اسی سے امید رکھو اصل میں مصیبت زدہ وہ ہے جو ثواب سے محروم ہو والسلام علکیم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 198-199 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ المنتظم ج ١ ص 475-476 دلائل النبوۃ ج ٧ ص 267-268، مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث :5972، المواہب اللدنیہ ج ٣ ص 387، البدایہ والنہایہ ج ٤ 258-259، مطبوعہ دارالفکر، 1418 ھ، سبل الھدیٰ والرشاد ج ٢ ۃ ص 263-264 تحاف السادۃ المتقین ج ١٠ ص 296، الوفا رقم الحدیث :1561، الوفا الحدیث :1561، ص 865، بیروت، 1408 ھ کنزل العمال رقم الحدیث :18865)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات سے پہلے اور وفات کے بعد کے مفصل احوال 

وھب بن منبہ نے حضرت جابر بن عبداللہ اور حضرت ابن عباس (رض) سے اذا جاء نصر اللہ وا لفتح۔ الایۃ (النصر) کی تفسیر میں روایت کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کہا اے جبریل مجھے اس آیت میں اپنی موت کی خبر دی گئی ہے۔ جبریل (علیہ السلام) نے کہا آپ کے لئے آخرت دنیا سے بہتر ہے، اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلا کو حکم دیا کہ وہ نماز کی جماعت کے لئے اذان دیں پھر تمام مہاجرین اور انصار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں جمع ہوگئے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر چڑھے اور اللہ عزوجل کی حمد وثناء کے بعد ایسا خطبہ دیا جس سے دل خوف زدہ ہوگئے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا اے لوگو ! میں تم میں کیسا بطور نبی رہا لوگوں نے کہا جزاک اللہ آپ رحیم باپ اور خیر خواہ بھائی کی طرح تھے آپ نے اللہ عزوجل کے پیغامات ادا کئے اور ہم تک وحی پہنچائی اور اپنے رب کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دی، اللہ تعالیٰ آپ کو ہماری طرف سے نبیوں کو دینے والی سب سے اچھی جزا دے ! آپ نے فرمایا : اے مسلمانو ! میں تم کو قسم دیتا ہوں میں نے جس شخص کیساتھ کوئی زیادتی کی ہو وہ اس کا بدلہ لے لے کوئی کھڑا نہیں ہوا جب آپ نے تیسری بار اس کو دہرایا تو عکاشہ نام کا ایک بوڑھا شخص کھڑا ہوا اس نے کہا آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ۔ اگر آپ بار بار قسم نہ دیتے تو میں نہ آتا، میں اور آپ ایک غزوہ میں تھے، جب اللہ تعالیٰ نے ہم کو فتح دی اور ہم واپس جا رہے تھے تو میری اونٹنی آپ کی اونٹنی کے برابر آگئی میں اونٹنی سے اتر کر آپ کے قریب آیا تاکہ آپ کی ران کو بوسہ دوں آپ نے ایک چری ہوئی لاٹھی اٹھا کر میری کوکھ میں ماری مجھے پتا نہیں کہ آپ نے دانستہ مجھے مارا تھا یا آپ نے اونٹنی کو مارنے کا ارادہ کیا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں تم کو دانستہ مارنے سے اللہ کے جلال کی پناہ میں دیتا ہوں، اے بلال تم فاطمہ کے گھر جائو اور میری لاٹھی لے کر آئو، حضرت بلال مسجد سے گئے اور وہ چلا رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا بدلہ دے رہے ہیں اور جا کر کہا اے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیٹی ! مجھے چری ہوئی لاٹھی دو حضرت فاطمہ نے کہا یہ حج کا موقع ہے نہ جہاد کا لاٹھی کی کیا ضرورت پڑگئی، حضرت بلال نے کہا آپ کو پتا نہیں ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنا قرض ادا کر رہے ہیں۔ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں اور اپنا بدلہ دے رہے ہیں۔ حضرت فاطمہ نے کہا اے بلال ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلہ لے کر کس کا دل خوش ہو رہا ہے ؟ اے بلال ! تم حسن اور حسین سے کہو وہ اس شخص کو بدلہ دیں گے۔ حضرت بلال مسجد میں گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاٹھی دے دی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ لاٹھی عکاشہ کو دے دی، جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے یہ منظر دیکھا تو کہا اے عکاشہ تم ہم سے بدلہ لے لو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ابوبکر ! اور اے عمر تمہارا مرتبہ اللہ کو معلوم ہے تو یہ کام ہونے دو پھر حضرت علی کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ میرے دل یہ گوارا نہیں کرتا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو لاٹھی ماری جائے یہ میری پیٹھ اور میرا پیٹ حاضر ہے تو اس پر سو بار مارو اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بدلہ نہ لو، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے علی ! بیٹھ جائو، اللہ تعالیٰ کو تمہارا مقام اور تمہاری نیت معلوم ہے پھر حضرت حسن اور حضرت حسین کھڑے ہوئے اور کہا اے علی ! بیٹھ جائو، اللہ تعالیٰ کو تمہارا مقام اور تمہاری نیت معلوم ہے، پھر حضرت حسن اور حضرت حسین کھڑے ہوئے اور کہا اے عکاشہ تم کو معلوم ہو کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نواسے ہیں اور ہم سے قصاص لینا گویا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے قصاص لینا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بیٹھ جائو، اللہ تعالیٰ تمہارا مقام نہیں بھولا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے عکاشہ ! اگر تم مارنے والے ہو تو مارو اس نے کہا یا رسول اللہ ! جب آپ نے مجھے مارا تھا تو میرا پیٹ کھلا ہوا تھا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹا دیا، مسلمان بلنبد آواز سے رونے لگے اور کہنے لگے کیا عکاشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مارنے والا ہے، جب عکاشہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیٹ کی سفیدی کی طرف دیکھا تو وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اس نے جھک کر آپکے پیٹ کو بوسہ دیا اور کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں کی طرف دیکھا تو وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکا اس نے جھک کر آپ کے پیٹ کو بوسہ دیا اور کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں آپ سے بدلہ لینے کی کون طاقت رکھ سکتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تو تم لاٹھی مارو یا مجھے معاف کردو، عاشہ نے کہا میں نے اس امید پر آپ کو معاف کیا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرما دے گا ! پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص جنت میں میرے رفیق کو دیکھنا چاہتا ہو وہ عکاشہ کو دیکھ لے، پھر مسلمانوں کھڑے ہو کر عکاشہ کی آنکھوں کے درمیان کا بوسہ دینے لگے اور اس کو جنت میں آپ کی رفات کی نوید پر مبارک باد دینے لگے۔

اسی دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمیار ہوگئے آپ اٹھارہ دن بیمار رہے اور مسلمان آپ کی عیادت کرنے کے لئے آتے رہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر کے دن پیدا ہوئے، پیر کے دن آپ نے اعلان نبوت کیا اور پیر کے دن آپ کی وفات ہوئی، اتوار کے دن آپ کا مرض زیادہ ہوگیا، حضرت بلال نے اذان دی، پھر دروازہ پر ٹھہر گئے اور کہا السلام علیکم یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ ! نماز کا وقت ہوگیا اللہ آپ پر رحم فرمائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کی آواز سنی حضرت فاطمہ نے کہا یا بلال ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفس کے ساتھ مشغول ہیں (یعنی آپ کی حالت مسجد میں جانے کی نہیں ہے) پھر حضرت بلال مسجد میں گئے، جب صبح کی سفیدی ہوگئی تو حضرت بلال نے کہا اللہ کی قسم ! میں جب تک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت نہ لوں اقامت نہ کہوں گا۔ پھر وہ لوٹ گئے اور دروازہ پرک ھڑے ہو کر ہا السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ وبرکاتہ اللہ آپ پر رحم فرمائے نماز کا وقت ہوگیا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بلال کی آواز سنی پھر فرمایا : اے بلا آجائو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفس کے ساتھ مشغول ہیں، تم ابوبکر سے کہو کہ وہ نماز پڑھائیں، حضرت بلال افسوس کرتے ہوئے واپس گئے اور ہا اے ابوبکر ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آپ کو نماز پڑھانے کا حکم دیا ہے، حضرت ابوبکر رقیق القلب تھے جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جگہ خالی دیکھی تو اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور بےہوش ہو کر گئے اور مسلمان زور زور سے رونے لگے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کی دل خراش آوازیں سنیں تو آپ نے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں تو حاضرین نے کہا آپ کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے یہ مسلمانوں کے رونے کی آوازیں ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت عباس (رض) کو بلایا آپ ان کا سہارا لے کر نکلے اور مسجد میں گئے اور مسلمانوں کو خفیف رکعتیں ڑھائی پھر مسلمانوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی امان اور اس کی حفاظت میں دیتا ہوں، اے مسلمانو ! مسلمانوں کو دو خفیف رکعتیں پڑھائی پھر مسلمانوں سے فرمایا میں تم کو اللہ کی امان اور اس کی حفاظت میں دیتا ہوں، اے مسلمانو ! تم پر اللہ نگہبان ہے، اے مسلمانو ! تم اللہ سے ڈرنا اور میرے بعد اللہ کی اطاعت کی حفاظت کرنا، کیونکہ میں دنیا سے جا رہا ہوں یہ میرا آخرت کی طرف پہلا اور دنیا میں آخری دن ہے۔

جب پیر کا دن آیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا درد بڑھ گیا اور اللہ عزوجل نے ملک الموت کی طرف وحی کی کہ وہ میرے حبیب اور صفی (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف حسین اور ملائم صورت میں روح قبض کرنے کے لئے جائیں۔ پھر ملک الموت (علیہ السلام) ایک اعرابی کی شبیہ میں نازل ہوئے اور آپ کے دروازہ کی طرف کھڑے ہوگئے اور السلام علیکم یا اھل بیت النبوۃ و معدن الرسالۃ و مورد الملائکۃ کیا میں داخل ہو جائوں ؟ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت فاطمہ (رض) سے کہا اس شخص کو جواب دیں، اے اللہ کے بندے، اللہ تجھ کو چل کر آنے کا اجر دے رسول اللہ اللہ تعالیٰ اپنے نفس کے ساتھ مغشول ہیں، اس نے دوسری بار صدا دی، پھر حضرت عائشہ نے حضرت فاطمہ (رض) سے کہا اس شخص کو جواب دو ، حضرت فاطمہ نے کہا : اے اللہ کے بندے ! اللہ تجھ کو چل کر آنے کا اجر دے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے نفس کے ساتھ مشغول ہیں، اس نے پھر تیسری بار کہا السلام علیکم یا اھل بیت النبوۃ و معدن الرسالۃ و مورد الملائکۃ کیا میں داخل ہو جائوں ڈ میرا داخل ہونا ضروری ہے، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ملک الموت کی آواز سنی، آپ نے پوچھا : اے فاطمہ ! دروازہ پر کون ہے ؟ حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک آدمی دروازہ پر کھڑا ہوا ہے اور بار بار اندر آنے کی اجازت طلب کر رہا ہے، ہم نے اس کو ہر بار جواب دیا اس نے تیسری بار اس طرح سوال کیا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ سے فرمایا :

اے فاطمہ تم جانتی ہو دروازہ پر کون ہے ! یہ وہ شخص ہے جو لذات کو منقطع کردیتا ہے، جماعتوں کو متفرق کردیتا ہے، جو عورتوں کو بیوہ اور بچوں کو یتیم کردیتا ہے جو گھروں کو برباد اور قبرستانوں کو آباد کردیتا ہے، یہ ملک الموت (علیہ السلام) ہے، اے ملک الموت ! اللہ تم پر رحمت کرے تم داخل ہو جائو پھر ملک الموت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اے ملک الموت ! تم ملاقات کرنے آئے ہو یا روح قبض کرنے آئے ہو۔ انہوں نے کہا میں آپ کی زیارت کرنے اور آپ کی روح قبض کرنے آیا ہوں اور مجھے اللہ عزوجل نے یہ حکم دیا تھا کہ میں آپ کی اجازت کے بغیر داخل نہ ہوں اور آپ کی اجازت کے بغیر آپکی روح قبض نہ کروں، اب اگر آپ اجازت دیں گے تو میں آپ کی روح قبض کروں گا ورنہ میں اپنے رب عزوجل کی طرف واپس چلا جائوں گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے ملک الموت تم نے میرے دوست جبریل کو کہاں چھوڑا، عزرائیل نے کہا میں نے ان کو آسمان دنیا میں چھوڑا ہے اور فرشتے ان سے آپ کی تعزیت کر رہے ہیں۔ پھر بہت سرعت سے جبریل (علیہ السلام) آپ کے پاس آگئے اور آ کر آپ کے سر کی جانب بیٹھ گئے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے جبریل اب دنیا سے روانہ ہونے کا وقت ہے۔ مجھے بشارت دو کہ میرے لئے اللہ کے پاس کیا اجر ہے ؟ جبریل نے کہا یا حبیب اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ میں (آپ کے استقبال کے لئے) تمام آسمانوں کے دروازوں کو کھلا چھوڑ کر آیا ہوں اور وہاں تمام فرشتے آپ کو سلامی دینے کے لئے اور آپ کو مرحبا اور خوش آمدید کہنے کے لئے صف باندھے ہوئے کھڑے ہیں اور میں آپ کو بشارت دیتا ہوں یا محمد کہ تمام جنتوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہیں اور تمام دریا رب کی رضا جوئی کے لئے اس کی حمد کرتا ہوں، اے جبریل مجھے اور بشارت دو ، جبریل نے کہا قیامت کے دن آپ سب سے پہلے شفاعت کریں گے اور سب سے پہلے آپ کی شفاعت قبول کی جائے گی، آپ نے فرمایا میں اپنے رب کی رضا جوئی کے لئے حمد کرتا ہوں، جبریل نے کہا اے میرے حبیب ! آپ مجھ سے کس چیز کا سوال کرتے ہیں آپ نے فرمایا میں تم سے اپنی فکر اور پریشانی کے متعلق سوال کرتا ہوں، میرے بعد قرآن پڑھنے والوں کو کیا اجر ملے گا میرے بعد رمضان کے روزے رکھنے والوں کو کیا اجر ملے گا اور میرے بعد بیت اللہ کا حج کرنے والوں کو کیا ملے گا اور میرے بعد صاف باطن والوں کو کیا ملے گا (اللہ اللہ، امت کا کتنا خیال ہے عالم نزع ہے اور اتنی شدید تکلیف ہے پھر بھی امت کی اخروی فلاح کی فکر ہے ! جبریل نے کہا اے حبیب آپ کو بشارت ہو اللہ عزوجل فرماتا ہے۔ میں نے تمام نبیوں اور ان کی امتوں پر جنت میں داخل ہونے کو اس وقت تک کے لئے حرام کردیا ہے جب تک کہ آپ اور آپ کی امت جنت میں داخل نہ ہوجائے، آپ نے فرمایا اب میرا دل مطمئن ہوگیا، اے ملک الموت اب تمہیں اجازت ہے اب تم کو جو حکم دیا گیا ہے تم اس کی تعمیل کرو۔

حضرت علی (رض) نے کہا یا رسول اللہ جب آپ کی روح قبض کرلی جائے گی تو آپ کو غسل کون دے گا اور آپ کو کس چیز میں کفن دیا جائے گا اور آپ کی نماز جنازہ کون پڑھے گا اور آپ کی قبر میں کون داخل ہوگا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رہا غسل تو اے علی مجھے غسل تم دو گے اور فضل بن عباس تمہارے لئے پانی ڈالیں گے اور تمہارے تیسرے معاون جبریل (علیہ السلام) ہوں گے اور جب تم مجھے غسل دے کر فارغ ہو جائو تم تم مجھے تین نئے کپڑوں میں کفن دینا اور جبریل علیہ اسللام (علیہ السلام) ہوں گے اور جب تم مجھے غسل دے کر فارغ ہو جائو تو مجھے تین نئے کپڑوں میں کفن دینا اور جبریل (علیہ السلام) میرے لئے جنت سے خشوبو لے کر آئیں گے اور جب تم مجھے تخت پر رکھ کر چکو تو مجھے مسجد میں رکھ دینا اور میرے پاس سے تم سب چلے جانا، کیونکہ سب سے پہلے مجھ پر میرا رب عزول جل عرش کے اوپر سے صلوۃ ڑھے گا (یعنی رحمت نازل فرمائے گا) پھر کھڑے ہو کر نماز جنازہ پڑھنا اور نماز جنازہ میں میرا کوئی امام نہیں ہوگا، حضرت فاطمہ نے کہا آج کا دن فراق کا دن ہے کب ملاقات ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : اے میری بیٹی تم قیامت کے دن مجھ سے حوض پر ملاقات کرو گی، اور میری امت میں سے جو شخص حوض پر آئے گا میں اس کو پانی پلائوں گا حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ ! اگر میں آپ سے وہاں ملاقات نہ کروں ؟ آپ نے فرمایا پھر تم مجھ سے میزان پر ملاقات کرو گی، میں وہاں اپنے امت کی شفاعت کر رہا ہوں، حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ ! اگر میں آپ سے وہاں ملاقات نہ کروں ؟ آپ نے فرمایا پھر تم مجھ سے میزان پر ملاقات کرو گی، میں وہاں اپنی امت کی شفاعت کر رہا ہوں گا، حضرت فاطمہ نے کہا یا رسول اللہ ! اگر میں آپ سے وہاں بھی ملاقات نہ کروں ؟ آپ نے فرمایا پھر تم مجھ سے صراط پر ملاقات کرنے کے لئے آپ کے قریب ہوئے، جب روح گھٹنوں تک پہنچی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ پھر جب روح ناف تک پہنچی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : واکرباہ (ہائے تکلیف) تو فاطمہ (علیہا السلام) نے کہا ہائے میرے والد کی تکلیف، پھر جب روح آپ کے پستانوں تک پہنچی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جبریل سے پکار کر کہا اے جبریل موت کی تلخی کتنی سخت ہے ! پھر جبریل (علیہ السلام) نے اپنا چہرہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پھیرلیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے جبریل ! تم میری طرف دیکھنے کو ناپسند کرتے ہو جبریل نے کہا اے میرے حبیب ! جب آپ سکرات الموت کی اذیت میں مبتلا ہوں تو آپ کے چہرے کی طرف دیکھنے کی کون ہمت کرسکتا ہے۔

پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کرلی گئی، آپ کو حضرت علی ابی طالب (رض) نے غسل دیا، حضرت فضل ابن عباس نے آپ پر پانی ڈالا، حضرت جبریل ان دونوں کے ساتھ تھے، آپ کو تین نئے کپڑوں میں کفن دیا گیا، آپ کو ایک تخت پر رکھا گیا پھر اس تخت کو مسجد میں لایا گیا اور لوگ آپ کے پاس سے چلے گئے سب سے پہلے آپ کے رب تبارک و تعالیٰ نے عرش کے اوپر آپ پر صلوۃ پڑھی (آپ کے حسب مرتبہ رحمت نازل فرمائی) پھر جبریل نے پھر میکائیل نے پھر اسرافیل نے پھر فرشتوں نے گروہ درگر وہ آپ پر صلوۃ پڑھی (آپ پر رحمت اور درجات کی بلندی کے لئے دعا کی) حضرت علی (رض) نے کہا ہم نے مسجد میں آوازیں سنی ہیں اور ہم نے کسی شخص کو مسجد میں نہیں دیکھا، پھر ہم نے غیب سے ایک آواز سنی کوئی شخص کہہ رہا تھا اللہ تم پر رحمت فرمائے مسجد میں داخل ہو اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ پڑھو، پھر ہم مسجد میں گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کے مطابق مسجد میں صف بہ صف کھڑے ہوگئے پھر ہم نے جبریل (علیہ السلام) کی تکبیر پر تکبیر پڑھی۔ ہم میں سے کوئی شخص مقدم ہو کر امام نہیں ہوا۔

حضرت ابوبکر صدیق (رض) قبر میں داخل ہوئے اور حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت ابن عباس (رض) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کردیا گیا جب لوگ لوٹ گئے تو حضرت فاطمہ نے حضرت علی (رض) سے کہا اے ابوالحسن تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کردیا گیا جب لوگ لوٹ گئے تو حضرت فاطمہ نے حضرت علی (رض) سے کہا اے ابوالحسن تم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کردیا، انہوں نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مٹی ڈالنے کو تمہارے دلوں نے کیسے گوارہ کرلیا کیا تمہارے دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے نرمی نہیں تھی کیا آپ خیر کے معلم نہیں تھے حضرت علی نے کہا کیوں نہیں ! اے فاطمہ لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر کو کوئی ٹالنے والا نہیں ہے، پھر حضرت فاطمہ رونے لگیں اور وہ کہہ رہی تھیں ہائے میرے والد ! اب جبریل (علیہ السلام) کا آنا منقطع ہوگیا اور جبریل ہمارے پاس آسمان سے وحی لایا کرتے تھے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :2676، ج ٣ ص 58-64، مطبوعہ داراحیاء التراثء العربی بیروت، حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص 72-79، طبع قدیم دارلاکتاب العربی بیروت، 1407، حلیتہ الاولیاء رقم الحدیث :4806، ج ٤ 76-81، طبع جدید دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

حافظ الھیثمی متوفی 807 ھ نے اس پوری حدیث کو درج کرنے کے بعد کہا اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ایک راوی عبدالمنمع بن ادریس کذاب اور وضاع ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص 26-31 مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت، 1406 ھ)

علامہ علی بن محمد عراق الکنانی المتفی 963 ھ نے اس پوری حدیث کو درج کر کے لکھا ہے یہ حدیث موضوع ہے اور اس کی آفت عبدالکریم۔ (النسائی المصنوعہ عنہ فی الاحادیث الموضوعتہ ج ۃ ص 254-257، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)

علامہ محمد بن محمد زبیدی متوفی 1205 ھ نے اس مکمل حدیث کو طبرانی اور ابونعیم کے حوالے سے بلا جرح نقل کیا ہے۔ (اتحاف السادۃ المتقین ج 10 ص 294-296 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1414 ھ)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی 1252 ھ نے اس حدیث کے اکثر اجزاء کو بلا جرح نقل کیا ہے۔ (مدارج النبوۃ ج ٢ ص 429-430 مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر، 1397 ھ)

ہر چند کہ اس حدیث کو عبدالمنعم بن ادریس کی وجہ سے موضوع کہا گیا ہے لیکن یہ موضوع السند ہے موضوع المتن نہیں ہے کیونکہ اس حدیث کا کوئی جز کسی حدیث صحیح کے خلاف نہیں ہے بلکہ اس کے تمام اجزاء کی تائید میں احادیث صحیحہ ثابت ہیں اور اس حدیث میں کوئی بات اصول شرع کے خلاف نہیں ہے، امام غزالی امام ابن الجوزی اور اکثر مصنفین سیرت نے اس حدیث کے بعض اجزاء سے استدلال کیا ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی تاریخ کی تحقیق 

اس پر اتفاق ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات پر بریع الاول کے مہینہ میں پیر کے دن ہوئی البتہ تاریخ میں اختلاف ہے جمہور کے نزدیک وفات کی تاریخ بارہ ربیع الاول ہے لیکن تحقیق یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات یکم یا دو ربیع الاول کو ہوئی ہے اگرچہ یہ جمہور کے خلاف ہے لیکن صحیح یہی ہے، کیونکہ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس سال حجتہ الوداع تھا اس سال یوم عرفہ جمعہ کے دن تھا اور وہ ذوالحجہ کی نو تاریخ تھی، اس اعتبار سے اگر یہ فرض کیا جائے کہ ذوالحجہ محرم اور صفر تینوں مہینے 30, 30 دن تھے تو پیر کے دن وہ ربیع الاول ہوگی اور یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگی، اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ دو مہینے تیس دن کے ہیں اور ایک مہینہ انیس دن کا ہے تو پیر کے دن سات ربیع الاول ہوگی اور یکم ربیع الاول منگل کے دن ہوگی، اور اگر یہ فرض کیا جائے کہ وہ مہینے انتیس دن کے ہیں اور ایک مہینہ تیس کا دن ہے تو پیر کے دن یکم ربیع الاول ہوگی، غرض کوئی حساب بھی فرض کیا جائے جب نو ذوالحجہ جمعہ کے دن ہو تو بارہ ربیع الاول پیر کے دن کسی حساب سے نہیں ہوسکتی لہٰذا در ایتاً اور عقلاً رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کی تاریخ بارہ بریع الالو نہیں ہے، پیر کے دن ربیع الاول کی تاریخ کے عقلی احتمال یہ ہیں اگر سب مہینے تیس دن کے ہوں تو چھ ربیع الاول اگر سب ماہ انتیس دن کے ہوں تو دو ربیع الاول، اگر دو ماہ تیس دن کے ہوں اور ایک انتیس دن کا تو سات ربیع الاول اور اگر دو ماہ انتیس دن کے ہوں اور ایک ماہ تیس دن کا ہو تو یکم ربیع الاول، چھ اور سات ربیع الاول کا کوئی قابلن ہیں ہے تو پھر آپ کی وفات کی تاریخ یکم ربیع الاول ہے یا دو ربیع الاول، حسب ذیل علماء نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ آپ کی وفات کی تاریخ یکم ربیع الاول ہے یا دو ربیع الاول۔

امام محمد بن سعد متوفی 230 ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیماری کی ابتداء انیس صفر بہ روز بدھ ١١ ھ کو ہوئی آپ تیرہ دن بیمار رہے اور آپ دو ربیع الاول ١١ ھ پیر کے دن فوت ہوگئے، اس کے بعد امام ابن سعد نے بارہ ربیع الاول کو فوت ہونے کے متعلق اقوال نقل کئے ہیں۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 208-209 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458 ھ اپنی سن کے ساتھ محمد بن قیس سے روایت کرتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 19 صفر بہ روز بدھ ١١ ھ کو سخت بمیار ہوگئے اس وقت آپ حضرت زینب بنت حجش (رض) کے گھر میں تھے آپ کی تمام ازواج وہاں جمع ہوگئیں، آپ تیرہ دن بیمار رہے اور دو ربیع الاول گیارہ ہجری کو پیر کے دن فوت ہوگئے۔ (دلائل النبوۃ ج ٧ ص 235، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1410 ھ)

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن النساء کر متوفی 571 ھ لکھتے ہیں :

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یکم بیرع الالو کو پیر کے دن گیارہ ہجری کو فوت ہوئے۔ (مختصر تاریخ دمشق ج ٢ ص 387، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1404 ھ)

حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف المزی المتوفی 742 ھ لکھتے ہیں :

آپ 63 سال کی عمر میں بیارہ ربیع الاول کو پیر کے دن دوپہر کے وقت فوت ہوئے، ایک قول یکم ربیع الاول کا ہے اور ایک قول دو ربیع الاول کا ہے۔ (تہذیب الکمال فی اسماء الرجال ج ١ ص ٥٥، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1414 ھ)

حافظ مغلطائی بن قلیج متوفی 762 ھ لکھتے ہیں :

الکبی اور ابومخفف نے ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دو ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (الاشارۃ الی سیرۃ المطفیٰ ص 351، مطبوعہ الدارلشامیۃ بیروت 1416 ھ)

علامہ ابوالقاسم عبدالرحمٰن بن عبداللہ سہیلی متوفی 581 ھ لکھتے ہیں :

مسلمانوں کا اس پر اجتماع ہے حجتہ الوداع میں یوم عرفہ یعنی نو ذوالحجہ جمعہ کے دن تھا، لہٰذا یکم ذوالحجہ جمعرات کو تھی پھر یکم محرم جمعہ کو ہوگی (اگر چاند انتیس کا ہو) یا ہفتہ کو ہوگی (اگر چاند تیس کا ہو) اگر جمعہ کو یکم محرم ہو، تو یکم صفر ہفتہ کو ہوگی یا اتوار کو، اگر یکم صفر ہفتہ کو ہو تو یکم ربیع الاول اتوار کو ہوگیا پیر کو لہٰذا آپ کی وفات کی تاریخ پیر کے دن یا یکم ربیع الاول ہوگی یا دو بریع الاول (اور اگر یکم صفر اتوار کی ہو تو یکم ربیع الاول پیر کی ہوگی یا منگل کی) اور کسی طرح بارہ ربیع الاول پیر کا نہیں پڑتا۔ (بارہ ربیع الاول کے تاریخ وفات نہ ہونے کا یہ نکتہ سب سے پہلے علامہ سہیلی نے اٹھا لیا)

(الروض الانف مع السیرۃ النبویہ ج ٤ ص 439-440، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1418 ھ) 

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی 774 ھ لکھتے ہیں :

عالمہ وقادی نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٢ ربیع الاول پیر کے دن فوت ہوئے۔ (البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 228، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1418 ھ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر متوفی 852 ھ لکھتے ہیں :

ابو مخف اور کلبی نے کہا ہے کہ آپ کی وفات ہ ربیع الاول کو ہوئی ہے اور علامہ سہیلی نے اسی کو ترجیح دی ہے، اور موسیٰ بن عقبہ، اللیث، الخوارزمی اور ابن الزبیر نے کہا ہے کہ آپ کی وفات یکم ربیع الاول کو ہوئی ہے، دوسروں کی غلطی کی وجہ یہ ہے کہ ثانی کو ثانی عشر خیال کرلیا گیا پھر بعض نے بعض کی پیروی کی۔ (فتح الباری ج ٨ ص 473-474، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)

علامہ بدر الدین عینی متوفی 855 ھ لکھتے ہیں :

ابوبکر نے لیث سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پیر کے دن یکم ربیع الاول کو فوت ہوئے اور سعد بن ابراہیم الزھری نے کہا آپ پیر کے دن دو ربیع الاول کو فوت ہوئے اور ابونعیم الفضل بن دکین نے کہا آپ پیر کے دن یکم ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (عمدۃ القاری، جز 18 ص 60 مطبوعہ ادارۃ الطباعتہ المنیریہ مصر، 1348 ھ)

علامہ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ لکھتے ہیں :

علامہ سہیلی نے اس کو ترجیح دی ہے کہ آپ یکم ربیع الاول یا دو ربیع الالو کو فوت ہوئے۔ (التوشیخ ج ٤ ص 143، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1420 ھ)

علامہ محمد بن یوسف الصالحی الشامی متوفی 942 ھ لکھتے ہیں :

ابو مخف اور کلبی نے کہا آپ کی وفات ٢ ربیع الاول کو ہوئی، سلیمان بن طرخان نے مغازی میں اسی کو رتجیح دی ہے امام محمد بن سعد، امام ابن عساکر اور امام ابونعیم الفضل بن دکین کا بھی یہی قول ہے اور سہیلی نے بھی اسی کو ترجیح دی ہے۔ (سبل الھدیٰ والر شادج ١٢ ص 305، مطبوعہ دارلاکتب العلمیہ بیروت 1414 ھ)

علامہ علی بن سلطان محمد القاری متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :

ایک قول یہ ہے کہ آپ پیر کے دن ٢ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔ (المرقات ج ١١ ص 238، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، 1390 ھ)

علامہ علی بن برھان الدین خلی متوفی 1044 ھ لکھتے ہیں :

الخوارزمی نے کہ کا آپ یکم ربیع الاول کو فوت ہوئے، (انسان العیون ج ٣ ص 473، مطبوعہ مصطفیٰ البابی مصر، 1384 ھ)

آپ کی وفات ہ ربیع الاول کو پیر کے دن ہوئی۔ (الشعۃ اللمعات ج ٤ ص 604، مطبوعہ مطبع تیج کمار لکھنئو)

علامہ نور بخش صاحب توکلی متوفی 1367 ھ لکھتے ہیں :

اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ وفات شریف ماہ ربیع الاول میں دوشنبہ کے دن ہوئی جمہور کے نزدیک ربیع الاول کی بارہویں تاریخ تھی ماہ صفر کی ایک یا دو راتیں باقی تھیں کہ مرض کا آغاز ہوا۔ بعضے تاریخ وصال یکم ربیع الاول بتاتے ہیں، بنابرقول حضرت سلیمان التیمی ابتداء مرض یوم شنبہ ٢٢ صفر کو ہوئی اور وفات شریف یوم دوشنبہ ٢ ربیع الاول کو ہوئی، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ ابو مخف کا قول ہی معتمد ہے کہ وفات شریف ٢ ربیع الاول کو ہوئی، دوسروں کی غلطی کی وجہ یہ ہوئی کہ ثاین کو ثانی عشر خیال کرلیا گیا پھر اس وہم میں بعضوں نے بعضوں کی پیروی کی۔ (سیرت رسول عربی ص 226، مطبوعہ فرید بک سٹال لاہور) 

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی 1364 ھ لکھتے ہیں :

اور تاریخ کی تحقیق نہیں ہوئی اور بارہویں جو مشہور ہے وہ حساب درست نہیں ہوتا کیونکہ اس سال ذی الحجہ کی نویں جمعہ کی تھی اور یوم وفات دوشنبہ ثابت ہے پس جمعہ نویں ذی الحجہ ہو کر بارہ ربیع الاول دوشنبہ کو کسی حساب سے نہیں ہوسکتی۔ (نشر الطیب ص 241، مطبوعہ تاج کمپنی لمیٹڈ لاہور)

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں :

کسی حالت اور کسی شکل سے بارہ ربیع الاول کو دو شنبہ کا دن نہیں پڑسکتا، (حاشیہ میں لکھتے ہیں) اس لئے وفات نبوی کی صحیح تاریخ ہمارے نزدیک یکم ربیع الاول ہے۔ (سیرت النبی ج ٢ ص 106-107 مطبوعہ دارالاشاعت کراچی 1985 ء)

ہم نے روایت اور درایت کے اعتبار سے تفصیل کے ساتھ لکھا ہے کہ آپ کی وفات کی تاریخ یکم ربیع الاول یا دو ربیع الاول ہے۔ کیونکہ مشہور بارہ ربیع الاول ہے جب کہ بارہ ربیع الاول آپ کی ولادت کا دن ہے اور اب یہ اعتراض ساقط ہوگیا کہ آپ کی وفات کے دن خوشی کیوں منائی جاتی ہے، یہاں پر ہم نے جتنی تفصیل اور تحقیق کی ہے شاید کسی اور جگہ نہ مل سکے، کہ آپ کی وفات کے دن خوشی کیوں منائی جاتی ہے، یہاں ہم نے جتنی تفصیل اور تحقیق کی ہے شاید کسی اور جگہ نہ مل سکے کہ آپ کی وفات کے دن خوشی کیوں منائی جاتی ہے یہاں پر ہم نے جتنی تفصیل اور تحقیق کی ہے شاید کسی اور جگہ نہ مل سکے، والحمد للہ رب العالمین۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ کی تحقیق 

امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کی گئی اس وقت حضرت ابوبکر مدینہ کے بالائی حصہ میں اپنی بیوی بنت خارجہ کے پاس تھے مسلمان کہنے لگے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت نہیں ہوئے۔ آپ پر وہ کیفیت طاری ہے جو نزول وحی کے وقت ہوتی ہے، حضرت ابوبکر آئے آپ کا چہرہ مبارک کھولا اور آپ کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور کہا آپ اللہ کے نزدیک اس سے مکرم ہیں کہ آپ پر وہ دو مورتیں طاری کرے، بےشک، خدا کی قسم، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے ہیں، ادھر حضرت عمر مسجد کی ایک جانب یہ کہہ رہے تھے خدا کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت نہیں ہوئے، جب تک آپ تمام منافقوں کے ہاتھ اور پیر نہیں کاٹ دیں گے اس وقت تک آپ فوت نہیں ہوں گے، حضرت ابوبکر نے منبر پر چڑھ کر فرمایا : جو شخص اللہ کی عبادت کرتا ہو تو اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور اس کو موت نہیں آئے گی اور جو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عبادت کرتا ہو تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک فوت ہوگئے ہیں، وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افانن مات اوقتل انقلبتم علی اعقابکم و من ینقلب علی عقبیہ فلن یضر اللہ شیئاً ویجزی اللہ الشاکرین : حضرت عمر نے کہا مجھے ایسا لگا جیسے میں نے اس دن سے پہلے یہ آیت نہیں پڑھی تھی۔ 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے قبر کھودن کا ارادہ کیا تو انہوں نے حضرت ابو عبیدہ کی طرف ایک آدمی بھیجا جو اہل مکہ کی طرف (شق) قبر بناتے تھے اور ایک آدمی حضرت ابو طلحہ کی طرف بھیجا جو اہل مدینہ کی طرح لحد (بغلی قبر) بناتے تھے اور یہ دعا کی اے اللہ ! اپنے رسول کے لئے ان میں سے کسی ایک کو منتخب کرلے، تو مسلمان کو حضرت ابوطلحہ مل گئے ان کو بلایا گیا اور حضرت ابوعبیدہ (وقت پر) نہیں ملے تو انہوں نے لحد بنائی، مگنل کے دن انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جنازہ تیار کر لیاصغسل دے کر کفن پہنا دیا) پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حجرہ میں آپ کو ایک تخت پر رکھا گیا، پھر باری باری مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خمت میں آتے اور نماز جنازہ پڑھتے، حتیٰ کہ جب مرد فارغ ہوگئے تو پھر عورتیں آئیں اور کسی شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ کی امامت نہیں کی۔ مسلمانوں کا اس میں اختلاف ہوا تھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر کس جگہ بنائی جائے، بعض مسلمانوں نے کہا آپ کو آپ کے اصحاب کے ساتھ دفن کیا جائے، حضرت ابوبکر نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے کہ جس جگہ نبی کی روح قبض کی جاتی ہے اس کو وہیں دفن کیا جاتا ہے، حضرت ابوبکر نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے کہ جس جگہ نبی کی روح قبض کی جاتی ہے اس کو وہیں دفن کیا جاتا ہے، پھر جس بستر پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوئے تھے انہوں نے اس بستر کو اٹھایا اور وہیں آپ کی قبر کھودی پھر بدھ کی رات جب آدھی ہوگئی تو آپ کو دفن کردیا گیا، حضرت علی بن اترے، حضرت اوس بن خلوی نے حضرت علی سے کہا میں تم کو اللہ کی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہمارے تعلق کی قسم دیتا ہوں، حضرت علی نے ان سے کہا تم بھی اترو، حضرت شقر ان سے اچادر کو لیا جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہنتے تھے اور اس کو قبر میں رکھ دیا اور کہا خدا کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد اس چادر کو کوئی نہیں پہنے گا۔ (سنن ابن ماجہ، باپ :65، ذکر وفاتہ و دفنہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) 

حضرت ابن عباس کی اس روایت میں ایک راوی حسین بن عبید اللہ ہاشمی ہے۔ امام احمد، علی بن مدینی اور امام نسائی نے اس کو متروک قرار دیا، امام بخاری نے ہا اس پر زندقہ کی تہمت ہے اور اس حدیث کے باقی راوی ثقہ ہیں۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت سالم بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آپ کے مرض میں بےہوشی طاری ہوگئی، آپ کو ہوش آیا تو آپ نے فرمایا نماز کا وقت ہوگیا ؟ صحابہ نے عرض کی ہاں، آپ نے فرمایا بلال سے کہو اذان کہیں اور ابوبکر سے کہو مسلمانوں کو نماز پڑھائیں، حضرت عائشہ نے کہا میرے والد رقیق القلب ہیں جب وہ آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونا شروع کردیں گے اور نماز نہیں پڑھا سکیں گے، اگر آپ کسی اور حکم دے دیں ! آپ پر پھر بےہوشی طاری ہوگئی، جب آپ کو ہوش آیا تو آپ نے فرمایا بلال سے اذان کے لئے کہو اور ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے زمانہ کی عورتوں کی مثل ہو، حضرت بلال کو اذان کا حکم دیا، انہوں نے اذان دی اور حضرت ابوبکر کو نماز پڑھانے کا حکم دیا انہوں نے مسلمانوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے آرام محسوس کیا، آپ نے فرمایا دیکھو میں کس کے سہارے چلوں، پھر حضرت بریرہ (رض) اور ایک اور شخص آئے، آپ ان کے سہارے سے چلنے جب حضرت ابوبکر نے آپ کو دیکھا تو پیچھے ہٹ گئے آپ نے اشارہ کیا وہ اسی جگہ کھڑے رہیں حتی ٰ کہ حضرت ابوبکر نے نماز پوری کرلی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کرلی گئی، حضرت عمر نے کہا بخدا میں نے جس شخص کو یہ کہتے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کی گئی ہے اس تلوار سے اس کو قتل کر دوں گا، اور وہ لوگ ان پڑھ تھے ان میں اس سے پہلے کوئی نبی نہیں ہوا تھا، لوگ رک گئے لوگوں نے کہا اے سالم جائو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے صاحب کو بلا کر لائو، میں حضرت ابوبکر کے پاس گیا وہ مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے میں روتا ہوا گیا جب حضرت ابوبکر نے میری یہ کیفیت دیکھی تو پوچھا کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبئض کرلی گی ہے میں نے کہا حضرت عمر (رض) یہ کہتے ہیں کہ میں نے جس شخص کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کرلی گی ہے تو میں اس کو اپنی اس تلوار سے مار دوں گا، حضرت ابوبکر نے کہا چلو، میں ان کے ساتھ گیا، حضرت ابوبکر آئے اس وقت لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا رہے تھے، حضرت ابوبکر نے کہا میرے لئے جگہ چھوڑو، ان کے لئے کشادگی کی گئی، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکے، آپ کو چھوڑا اور پڑھا انک میت وانھم میتون ” بیشک آپ پر موت آئی ہے اور بیشک انہوں نے بھی مرنا ہے۔ “ (الزمر :30) صحابہ نے پوچھا اے رسول اللہ کے صاحب ! کیا ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ پڑھیں گے ؟ حضرت ابوبکر نے کہا ہاں صحابہ نے پوچھا کس طرح ؟ حضرت ابوبکر نے کہا ایک قوم جائے تکبیر پڑھے دعا کرے اور ورد پڑھے پھر دوسری قوم جائے، تکبیر پڑھے درود پڑھے اور دعا کرے پھر باہر آجائے حتیٰ کہ تمام لوگ اسی طرح داخل ہوں، صحابہ نے پوچھا، اے رسول اللہ کے صاحب ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دفن کیا جائے گا فرمایا : ہاں ! پوچھا کہاں ؟ فرمایا جس جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کی گئی تھی کیونکہ اللہ نے آپ کی روح صرف پاک جگہ پر ہی قبض کی ہے تب صحابہ نے جان لیا کہ آپ نے سچ کہا ہے، پھر حضرت ابوبکر نے کہا کہ آپ کی غم زاد آپ کو غسل دیں گے اور مہاجرین باہم مشورہ کرنے لگے، صحابہ نے کہا انصار کو بلائو تاکہ اس معاملہ (خلافت) میں ہم ان سے مشورہ کریں، انصار نے کہا کہ ایک امیر ہم سے ہوجائے، ایک امیر تم میں سے ہوجائے، حضرت عمر نے کہا اس شخص کی مثل کون ہوگا جس کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی، ثانی اثنین اذھما فی الغار اذیقول لصاحبہ لاتحزن ان اللہ معنا، پھر حضرت ابوبکر نے ہاتھ پھیلایا اور حضرت عمر نے بیعت کی پھر سب لوگوں نے بیعت کرلی۔

الشمائل المحمدیہ ص 337-338، رقم الحدیث :397، یہ حدیث صحیح ہے، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :1234 مطبوعہ المتکبہ التجاریہ مکہ مکرمہ، 1415 ھ)

حافظ ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458 ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے تو لوگ حجرہ میں داخل ہوئے اور باری باری آپ پر نماز جنازہ پڑھی، جب مرد فارغ ہوگئے تو پھر عورتوں نے نماز جنازہ پڑھی، پھر بچوں نے نماز پڑھی، پھر غلاموں نے نماز پڑھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز کی کسی نے امامت نہیں کی۔ (سنن کبریٰ ج ٧ ص 250 مطبوعہ نشر السنہ ملتان)

علامہ ابن اثیر متوفی 630 ھ نے بھی اس روایت کو بیان کیا ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ٢ ص 225، مطبوعہ دارالفکر بیروت)

بعض علمائنے یہ کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی صرف صلوۃ وسلام عرض کیا گیا تھا، بعض روایات اس کی موید بھی ہیں لیکن جمہور کے نزدیک آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی تھی جیسا کہ شمال ترمذی میں تصریح ہے کہ آپ پر نماز جنازہ میں تکبیرات پڑھی جائیں اور صلوۃ پڑھی جائے اور دعا کی جائے۔

امام احمد رضا قادری لکھتے ہیں :

جنازہ اقدس پر نماز کے باب میں علماء مختلف ہیں ایک کے نزدیک یہ نماز معروف نہ ہوئی بلکہ لوگ گروہ درگر وہ حاضر آتے اور صلوۃ وسلام عرض کرتے، عض احادیث بھی اس کی موید ہیں اور بہت علماء یہی نماز معروف مانتے ہیں۔ امام قاضی عیاض نے اس کی تصحیح فرمائی، جیسا کہ زرقانی شرح المئوطا میں ہے، سیدنا صدیق اکبر (رض) تسکین فتن و انتظام امت میں مشغول، جب تک اون کے دست حق پرست پر بیعت نہ ہوئی تھی، لوگ فوج فوج آتے اور جنازہ انور پر نماز پڑھتے جاتے، جب بیعت ہوئی دلی شرعی صدیق ہوئے انہوں نے جنازہ اقدس پر نماز پڑھی، پھر کسی نے نہ پڑھی کہ بعد صلوۃ ولی پھر اعادہ نماز جنازہ کا اختیار نہیں شرعی صدیق ہوئے انہوں نے جنازہ اقدس پر نماز پڑھی، پھر کسی نے نہ پڑھی، کہ بعد صلوۃ ولی پھر اعادہ نماز جنازہ کا اختیار نہیں، مبسوط امام شمس الائمہ سرخسی میں ہے حضرت ابوبکر (رض) معاملات کو درست کرنے اور فتنہ کو سرد کرنے میں مشغول تھے مسلمان آپ کے آنے سے پہلے نماز جنازہ پڑھتے رہے اور حق آپ کا تھا، کیونکہ آپ ہی خلیفہ مقرر ہوئے تھے جب آپ تھے، مسلمان آپ کے آنے سے پہلے نماز جنازہ پڑھتے رہے اور حق آپ کا تھا، کیونکہ آپ ہی خلیفہ مقرر ہوئے تھے جب آپ تھے، مسلمان آپ کے آنے سے پہلے نماز جنازہ پڑھتے رہے اور حق آپ کا تھا، کیونکہ آپ ہی خلیفہ مقرر ہوئے تھے جب آپ فارغ ہوگئے تو آپ نے نماز جنازہ پڑھی، پھر آپ کے بعد کسی نے آپ پر نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ (مبسوط ج ٢ ص 67 مطبوعہ بیروت) (فتاویٰ رضویہ ج ٤ ص 54، مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)

بعض علماء جو اس کیقائل ہیں کہ آپ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی تھی صرف آپ پر صلوۃ وسلام عرض کیا گیا تھا وہ اس روایت سے استدلال کرتے ہیں :

حافظ الہیثمی متوفی 807 ھ بیان کرتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرت ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرض کا غلبہ ہوا تو ہم نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ پر نماز کون پڑھے گا ؟ حضور روئے، ہم بھی روئے، آپ نے فرمایا، ٹھہرو اللہ تمہاری مغفرت کرے اور تمہارے نبی کی طرف سے تم کو اچھی جزا دے، جب تم مجھے غسل دے چکو، اور مجھ پر خوشبو لگا چکو، اور مجھے کفن پہنا چکو تو مجھے میری قبر کے کنارے رکھ دینا، پھر ایک ساعت کے لئے میرے پاس سے چلے جانا، کیونک پہلے مجھ پر میرے دوست اور میرے ہم نشین جبریل اور میکائیل نماز پڑھیں گے، پھر اسرافیل، پھر ملک الموت اپنے لشکر کے ساتھ نماز پڑھیں گے، پھر تمام فرشتے آ کر نماز پڑھیں گے، پھر تم لوگ فوج در فوج آ کر داخل ہونا اور مجھ پر صلوۃ وسلام پڑھنا الحدیث : اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے لیکن اس کی اسانید منقطع ہیں، عبدالرحمٰن نے مرہ سے سماع نہیں کیا، اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے، اس کی سند میں کئی ضعیف راوی ہیں ان میں سے ایک اشعت بن طابق ہے ازدی نے کہا اس کی حدیث صحیح نہیں ہوتی۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٥، مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت، 1402 ھ)

اس حدیث کو حاکم نے بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسکی سند میں ایک راوی عبدالملک بن عبدالرحمٰن مجمہول ہے ہم کو اس کی عدالت یا جرح کا علم نہیں ہے اور اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔ (المستدرک ج ٢ ص 60 مطبوعہ مکتبہ دارالباز مکہ مکرمہ)

علامہ ذہبی امام حاکم پر تعقب کرتے ہوئے لکھتے ہیں عبدالمالک مجہول نہیں ہے بلکہ اس کو فلاس نے کذاب قرار دیا ہے اور انہوں نے جو کہا ہے کہ اس کے باقی راوی ثقہ ہیں تو ہر موضوع حدیث اسی طرح ہوتی ہے جس میں ایک کے سوا باقی راوی ثقہ ہوتے ہیں۔

اگر حاکم احتیاط کرتے تو اس حدیث کو اپنی کتاب میں درج نہ کرتے۔ (تلخیص المستدرک ج ٣ ص 60 مطبوعہ مکہ مکرمہ)

واضح رہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جو نماز جنازہ پڑھی گئی تھی اس میں معروف دعا کی بجائے آپ کی تعریف و توصیف میں کلمات طیبات عرض کئے گئے تھے۔

علامہ شہاب الدین قسطلانی متوفی 911 ھ نے یہ کلمات نقل کئے ہیں :

لبیک الھم ربنا وسعدیک صلوۃ اللہ البرالرحیم والملائکۃ المقربین والنبین والصدیقین والشھداء والصالحین، وما سبح لک من شئی یا رب العلمین علی محمد بن عبداللہ خاتم النبین و سید المرسلین و امام المتقین و رسول رب العلمین الشاھد المبشر الداعی الیک باذنک السراج المنیر و (علیہ السلام) (المواہب الدنیہ ج ٣ ص 399، شرح الزرقانی للمواہب ج ٨ ص 291-292، دارالمعرفتہ)

امام حمد بن سعد متوفی 230 ھ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت علی (رض) سے روایت کیا ہے :

جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تخت پر رکھ دیا گیا تو حضرت علی نے کہا آپ کا امام کوئی نہیں ہوگا آپ اپنی حیات اور موت میں خود ہمارے امام ہیں پھر لوگ باری باری داخل ہوتے اور صف بہ صف آپ کی نماز جنازہ پڑھتے۔ ان کا کوئی امام نہیں تھا، وہ تکبیرات پڑھتے، اور حضرت علی (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑے ہو کر کہا اے نبی ! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہوں۔ اے اللہ ! ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ سب پہنچا دیا جو آپ پر نازل کیا گیا تھا اور اتم کی خیر خواہی کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا، حتیٰ کہ اللہ کے دین کو غالب کردیا اور اس کے کلمہ کو پورا کردیا، اے اللہ ! ہمیں ان لوگوں میں سے کر دے جو اس کی اتباع کرتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا ہے اور ہمیں آپ کے بعد ثابت قدم رکھ اور ہمیں اور آپ کو جمع فرما اور لوگ کہتے تھے آمین، آمین، حتیٰ کہ آپ پر تمام مردوں، عورتوں اور بچوں نے نماز جنازہ پڑھی۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ٢٢٢ طبع جدید سبل الھدیٰ والرشادج ١٢ ص 330، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

وفات کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا امت کے اعمال پر مطلع ہونا 

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر امت کے اعمال پیش کئے گئے اچھے اور برے، میں نے اچھے اعمال میں راستہ سے تکلیف دہ چیز کو دور کردینا پایا اور برے اعمال میں یہ پایا کہ بلغم کو مسجد میں ڈال کر دفن نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :553 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3683)

اس حدیث میں حیات یا ممات کی قید نہیں ہے اس لئے اس حدیث کے عموم الفاظ سے استدلال ہے۔

بکر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری حیات بھی تمہارے لئے بہتر ہے تم حدیث بیان کرتے ہے اور تمہارے لئے حدیث بیان کی جاتی ہے اور جب میں فوت ہو جائوں گا تو میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہوگی تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جائیں گے جب میں نیک اعمال دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا اور جب میں برے اعمال دیکھوں گا تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کروں گا۔ اس حدیث کے رجال صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج ٩ ص 24 ۔

(الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص 149-150، طبع جدید، الوفا رقم الحدیث :1564، طبع جدید، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 257، طبع جدید، المطالب العالیہ رقم الحدیث :3853، جمع الجوامع رقم الحدیث :11337، الجامع الصغیر رقم الحدیث :3771 مسند البز اور رقم الحدیث :845، کنزالعمال رقم الحدیث :31903)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میری زندگی بھی تمہارے لئے بہتر ہے مجھ پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے میں تمہیں خبر دیتا ہوں کہ تمہارے لئے کیا چیز حلال ہے اور تم پر کیا چیز حرام ہے اور میری وفات بھی تمہارے لئے بہتر ہے، ہر جمعہ کی رات کو تمہارے اعمال مجھ پر پیش کئے جاتے ہیں جو اچھے اعمال ہوتے ہیں میں ان پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں اور جو گناہ ہوتے ہیں تو میں اللہ سے تمہارے گناہوں کی مغفرت طلب کرتا ہوں۔ (الوفا رقم الحدیث :1565)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ زمین میں اللہ کے فرشتے ہیں جو سیر کرتے ہیں اور وہ میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں۔

(مسند احمد رقم الحدیث :4209، عالم الکتب، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص 517، سنن الداریم رقم الحدیث :2777، مسند ابویعلی رقم الحدیث :5213، سنن النسائی رقم الحدیث :1241، الترغیب و الترہیب رقم الحدیث :2474)

حضرت اوس بن ائوں (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا تمہارے ایام میں افضل دن جمعہ کا ہے، اسی میں آدم پیدا کئے گئے، اسی دن ان کی روح قبض کی گئی، اسی دن میں صور پھونکا جائے گا اور اسی دن میں لوگ بےہوش کئے جائیں گے تم اس دن میں مجھ پر بہ کثرت صلوۃ پڑھا کرو، کیونکہ تمہاری صلوۃ (درود) مجھ پر پیش کی جاتی ہے صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ پر ہماری صلاۃ کیسے پیش کی جائے گی حالانکہ آپ کی ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہوں ی، آپ نے فرمایا اللہ نے انبیاء کے اجسام کو زمین پر حرام کردیا ہے۔ (اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ )

(سنن ابودائو درقم الحدیث :1047، سنن ابن ماجہ رقم الحدی :1085-1636، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص 516، مسند احمد ج ٤ ص ٨ رقم الحدیث : 16262، عالم الکتب، سنن الدارمی رقم الحدیث :1580، سنن النسائی رقم الحدیث 1373، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :1734-1733، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :910 المعجم الکبیر رقم الحدیث :589 المستدرک ج ۃ ص 278، قدیم المستدرک رقم الحدیث :3630، سنن کبری للبیہقی ج ٣ ص 248، شعب الایمان ج ٣ ص 110)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائو اور میری قبر کو عید نہ بنائو، اور مجھ پر صلاۃ (درود) پڑھو کیو کہ تمہاری صلاۃ (درود) مجھ تک پہنچتی ہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔ 

(سنن ابو دائو درقم الحدیث :2042، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٢ ص 256، مسند احمد ج ہ ص 267 طبع قدیم، مسند احمد رقم الحدیث :8790، عالم الکتب، مشکوۃ رقم الحدیث :926، جمع الجوامع رقم الحدیث :25033، کنز العمال رقم الحدیث :41512، جلاء الافہام ص 46)

حضرت حسن بن علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم جہاں کہیں بھی ہو مجھ پر درود پڑھو کیونکہ تمہارا درود مجھ تک پہنچتا ہے۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث :2729، المعجم الاوسط رقم الحدیث : 367، حافظ منذری نے کہا اس کی سند حسن ہے الترغیب و الترہیب رقم الحدیث :2475، مجمع الزوائد ج 10 ص 162 جلاء الافہام ص 46)

حضرت عمار بن یاسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے جس کو تمام مخلوق کی سماعت عطا فرمائی ہے قیامت تک تم میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھے گا وہ اس کے اور اس کے والد کے نام سے مجھ تک پہنچائے گا کہف لاں بن فلاں نحے آپ پر درود پڑھا ہے۔ (مسند البزرار رقم الحدیث :3162، الترغیب والترہیب رقم الحدیث :2478، مجمع الزوائد ج 10 ص 162، جلاء الافہام ض ٥٥) 

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے مجھ پر درود پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے اور ایک فرشتہ مقرر ہے جو اس کا درود مجھ تک پہنچاتا ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :7611، الترغیب و الترہیب رقم الحدیث :2473، مجمع الزوائد ج 10 ص 162، جلاء الافہام ص 53) 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس نے میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھا وہ میں خود سنتا ہوں اور جس نے دور سے مجھ پر درود پڑھا وہ مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث :1583، مشکوۃ رقم الحدیث :934، جلاء الافہام ص 25، کنز العمال رقم الحدیث :2165)

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر جمعہ کے دن مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھو کیونکہ ہر جمعہ کے دن میری امت کا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جو مجھ پر زیادہ درود پڑھتا ہے وہ میری زیادہ قریب ہوتا ہے۔ (جلاء الافہام رقم الحدیث :63، ص 45، 373 ص 233، شعب الایمان رقم الحدیث :3032، الجامع الصغیر رقم الحدیث :1404)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔ (جلاء الافہام رقم الحدیث :65 ص 45)

حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھا کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میری قبر پر ایک فرشتہ مقرر کردیا ہے میری امت میں سے جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے تو مجھ سے وہ فرشتہ کہتا ہے کہ فلاں بن فلاں نے اس وقت آپ پر درود پڑھا ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث :3850)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : چاند رات کو مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے، یہ حدیث ایک سند کے ساتھ حسن اور دسوری سند کے ساتھ صحیح ہے، یہ حدیث حضرت انس سے بھی مروی ہ۔ (شعب الایمان رقم الحدیث :3034، الجامع الصغیر رقم الحدیث :1402، جلاء الافہام رقم الحدیث :275 ص 233)

حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضرہوتے ہیں اور جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے ٗاس کے فارغ ہونے سے پہلے اس کا درود میرے پاس پہنچادیتے ہیں ۔سنن ابن ماجہ رقم ۱۶۳۷الحدیث الجمع الصغیررقم الحدیث ۱۴۰۳)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےجمعہ کے دن بکثرت درودپڑھا کرو کیونکہ جو شخص بھی جمعہ کے دن مجھ پر درود پڑھتاہے وہ مجھ پر پیش کیا جاتا ہے (مجمع الجوامع رقم الحدیث ۳۸۵۳ جلاء الافہام رقم الحدیث ۲۳۳ )

حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر بکثرت درود پڑھا کرو کیونکہ اس دن فرشتے حاضرہوتے ہیں اور جو شخص بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے ٗاس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ کہیں بھی ہ، ہم نے عرض کیا آپ کی وفات کے بعد بھی ؟ آپ نے فرمایا میری وفات کے بعد بھی، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے جسم کھانے کو زمین پر حرم کردیا ہے۔ (جلاء الافہام رقم الحدیث :110 ص 64 مطبوعہ دارالکتاب العربی، 1417 ھ)

ان تمام احادیث میں یہ تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر دیگر اعمال اور درود شریف کو پہنچایا جاتا ہے اور بعض احادیث میں یہ تصریح ہے کہ آپ خود درود شریف کو سنت یہیں اور یہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب آپ قبر میں زندہ ہوں اس سے معلوم ہوا کہ وفات کے بعد پھر آپ کو حیات عطا کردی گئی تھی اس پر مفصل دلائل ہم انشاء اللہ الزمر 30 میں پیش کریں گے

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 35