وَجَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا ۖۚ وَّهُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهَا مُعۡرِضُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 32
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَجَعَلۡنَا السَّمَآءَ سَقۡفًا مَّحۡفُوۡظًا ۖۚ وَّهُمۡ عَنۡ اٰيٰتِهَا مُعۡرِضُوۡنَ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنادیا، اور وہ اس (آسمان) کی نشانیوں سے اعراض کرنے والے ہیں
آسمان کی حفاظت کے دو محمل
الانبیاء :32 میں فرمایا : اور ہم نے آسمان کو محفوظ چھت بنادیا۔
آسمان کو محفوظ چھت بنانے کے دو محمل ہیں ایک یہ ہے کہ جس طرح دوسری چھتیں گر جاتی ہیں اس طرح آسمان کو گرنے سے محفوظ بنادیا۔ جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے :
ویمسیک السمآء ان نفع علی الارض الا باذنہ (الحج :65) وہی آسمان کو روکے ہوئے ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر زمین پر گر نہ پڑے۔
ومن ایایۃ ان تقوم السمآء والارض بامرہ (الروم :25) اس کی ایک نشانی یہ ہے کہ آسمان اور زمین اس کے حکم سے قائم ہیں۔
ان اللہ یمسک السموت والارض ان تزولا ولئس والتآ ان امسکھما من احد من بعدہ (فاطر :41) بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو برقرار رکھے ہوئے ہے کہ وہ اپنی جگہ سے ہٹ نہ جائیں اور اگر وہ (اپنی جگہ سے) ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی ان کو روک نہیں سکتا۔
ولایودہ حفظھما : (البقرہ :255) اور آسمان اور زمین کی حفاظت اس کو تھکاتی نہیں ہے۔
زیر تفسیر آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ آسمان کو فرشتوں یا ستاروں کے ذریعہ شیطان سے محفوظ رکھا یا ہے۔
اس کے بعد فرمایا اور وہ اس (آسمان) کی نشانیوں سے اعراض کرنے والے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ آسمانوں کی حرکات میں اور اس کی حرکات اور کیفیات اور جہات میں اور اس کے ستاروں اور خود آسمانوں کے اتصال اور انفصال میں اور اس کے ستاروں کی گردش میں جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور توحید کی نشانیاں ہیں یہ مشرکین ان پر غور و فکر نہیں کرتے۔
القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 32