حافظ قرآن کی فضلیت اور انجینئر محمد علی مرزا کے مذموم عزائم

عموما مرزا جہلمی مدارس و علماء کے خلاف طعن وتشنیع کے تیر چلاتے ہوے اور عوام الناس کو دیندار طبقے سے بیزار کرتے ہوے نظر آتا ھے ۔

کبھی تو یہ جملے کہہ کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کرتا ھے کہ مدارس میں قرآن و حدیث تو پڑھاتے ہی نہیں صرف فقہی کتب پڑھاتے ہیں۔

تو کبھی یہ کہتے ہوے نظر آتا ھے کہ قرآن کی وہی تفسیر معتبر ہو گی جو غیر مسلم کرے یا سمجھے۔

علماء کی توہین مدارس کی مخالفت یہ اپنی کم علمی کی وجہ سے نہیں کرتا بلکہ یہ سارا کام ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کرتا ھے۔

اسکی سازش اس وقت عیاں ہوگی جب آپ اپنے ذہن کو اس دور کی جانب ملتفت کریں گے کہ جب حکومت برطانیہ نے برصغیر پر غاصبانہ قبصہ جما کر تمام مدارس کو بند کرکے انکے نام جتنی بھی اراضی تھی اسکو اپنے قبضے لے لیا اور اسکے مقابلے میں اپنا فرنگی کلچر عام کیا۔

جسطرح انگریزوں کا مشن مدارس کو بند کرکے اسلامی تعلیم کا سدباب کرنا تھا اسی مشن کی تکمیل فی زمانہ اسکے نام نہاد چیلے اسلام کا لبادہ اوڑھے ہوے کررہے ہیں ۔

یقینا حفظ قرآن بہت بڑی سعادت ھے اور حفظ قرآن ہی وہ پہلی سٹیج ہوتی ھے جسکے سبب بچہ مکمل طور پر مذھبی ماحول میں آتا ھے۔

اب والدین اپنے بچے کو حافظ اسوجہ سے بناتے ہیں کہ حفظ قرآن کی برکت سے ہماری بخشش ہوگی حافظ قرآن بچہ ہماری شفاعت صغریٰ کا سبب بنے کا وغیرہ وغیرہ

چونکہ مرزا جہلمی کا مقصد بچوں مدارس و مذہبی پیشواؤں کی طرف مائل ہونے سے روکنا تھا اسوجہ سے والدین جس ثواب و فضیلت کی خاطر اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرواتے ہیں اس بنیادی چیز کو ہی ختم کرنے کی کوشش کی کہ حافظ قرآن کی کوئی فضیلت نہیں۔

مذکورہ بالا گفتگو سے واضح ہوا کہ صرف اسکی جہالت ہی نہیں بلکہ ایک ساچا سمجھا پلین ھے۔

حافظ قرآن کی مختلف کتب حدیث میں فضیلت بیان ہوئی ان میں سے ایک حوالہ آپکے سامنے پیش کرتا ہوں ۔

حضرت علیؓ سے روایت ھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے قرآن پڑھا اور اسکی تلاوت کی اور اسے یاد کیا تو اللہ اسکو جنت میں داخل کرے گا اور اسکی سفارش اسکے گھر والوں میں سے ایسے دس افراد کے بارے میں قبول فرمائے گا جن پر دوزخ کی آگ واجب ہوچکی ہوگی۔

(سنن ابن ماجہ، باب فصل من تعلیم القرآن، ص 50 طبع دارابن کثیر بیروت)

اللہ امت مسلمہ کو شریروں کے شر سے محفوظ فرمائے آمین

احمدرضارضوی