أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَنَضَعُ الۡمَوَازِيۡنَ الۡقِسۡطَ لِيَوۡمِ الۡقِيٰمَةِ فَلَا تُظۡلَمُ نَـفۡسٌ شَيۡـئًـا‌ ؕ وَاِنۡ كَانَ مِثۡقَالَ حَبَّةٍ مِّنۡ خَرۡدَلٍ اَتَيۡنَا بِهَا‌ ؕ وَكَفٰى بِنَا حٰسِبِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور ہم قیامت کے دن انصاف کی تراوز رکھیں گے، سو کسی شخص پر بالکل ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ برابر بھی ہوا تو ہم اس کو لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کے لئے کافی ہیں

میزان میں اعمال کا وزن کرنے کی تحقیق 

الانبیاء :47 میں موازین کا ذکر ہے۔ یہ میزان واحد ہے اور اس کو جمع اس لئے لائے ہیں کہ اس میں تمام مخلوق کے اعمال کا وزن کیا جائے گا۔ گویا یہ میزن اگرچہ واحد ہے لیکن یہ موازین کا کام دے گی اور اس کو قسط (انصاف) کے ساتھ مقید فرمایا کیونکہ دنیا میں بعض میزان عدل کے ساتھ قائم ہوتی ہیں اور بعض ظلم کے ساتھ، اور یہ آخرت کی میزان صرف عدل اور قسط کے ساتھ قائم ہوگی۔

موازین کے متعلق دو قول ہیں، مجاہد، قتادہ اور ضحاک کا قول یہ ہے کہ وزن کرنے کا معنی یہ ہے کہ ان کے اعمال میں انصاف کیا جائے گا۔ پس جس کی نیکیوں نے اسکی برائیوں کا احاطہ کرلیا ہوگا، اس کے میزان کا پلڑہ بھاری ہوگا اور جس کی برائیوں نے اس کی نیکیوں کا احاطہ کرلیا ہوگا، اس کے میزان کا پلڑہ ہلکا ہوگا۔

دوسرا قول یہ ہے کہ اعمال کا حقیقتاً وزن کیا جائے گا۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کے الگ الگ رجسٹر ہوں گے، ایک پلڑہ میں نیکیوں کے رجسٹر ہوں گے اور دوسرے پلڑہ میں برائیوں کے رجسٹر ہوں گے۔ جو پلڑہ بھاری ہوگا، اسی کے مطابق اس شخص کا فیصلہ کیا جائے گا۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال کو سفید اور حسین صورتوں میں مجسم کردیا جائے گا اور برے اعمال کو سیاہ اور قبیح صورتوں میں مجسم کردیا جائے گا اور ان صورتوں کا وزن کیا جائے گا۔

میزان میں وزن کرنے کے متعلق احادیث 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص آ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے بیٹھ گیا اور اس نے کہا یا رسول اللہ ! میرے دو غلام ہیں جو میری تکذیب کرتے ہیں اور میری خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں۔ میں ان کو برا کہتا ہوں اور مارتا ہوں، میرا اور ان کا آخرت میں کس طرح معاملہ ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : انہوں نے جو تمہاری خیانت اور تکذیب کی ہے اور تمہاری نافرمانی کی ہے اور تم نے اس پر جو ان کو سزا دی ہے، ان کا وزن کیا جائے گا اگر تمہاری سزا ان کے جرائم کے مطابق ہے تو معاملہ برابر ہوجائے گا۔ نہ تمہیں ثواب ہوگا اور نہ عذاب ہوگا اور اگر تمہاری سزا ان کے جرائم سے کم ہوئی تو یہ تمہار فضیت ہے اور اگر تمہاری دی ہوئی سزا ان کے جرائم سے زیادہ ہوئی تو اس زیادتی کا تم سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہو کر رونے لگا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت پڑھی :

(الانبیاء :47) اور ہم قیامت کے دن انصاف کی ترازو رکھیں گے سو کسی شخص پر بالکل ظلم نہیں کیا جائے گا اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوا تو ہم اس کو لے آئیں گے۔

اس شخص نے کہا اب مجھے اپنے اور ان غلاموں کے درمیان نجات کی صورت یہی نظر آتی ہے کہ میں ان غلاموں کو خود سے جدا کر دوں۔ میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ وہ غلام آزاد ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3165 مسند احمد ج ٦ ص 280)

حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ میری امت میں سے ایک شخص کو قیامت کے دن تمام مخلوق سے ممتاز اور متمیز کر کے الگ کھڑا کرے گا پھر اس کے گناہوں کے ننانوے رجسٹر کھولے جائیں گے جو منتہاء بصر تک ہوں گے پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تم ان میں سے کسی چیز کا انکار کرتے ہو ؟ وہ کہے گا، نہیں ! اے میرے رب ! اللہ فرمائے گا ! کیا تمہارا کوئی عذر ہے ؟ وہ کہے گا، نہیں ! اے میرے رب ! اللہ تعالیٰ فرائے گا کیوں نہیں ؟ ہمارے پاس تمہاری ایک نیکی ہے، آج تم پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا پھر ایک پرچی نکالی جائے گی جس پر لکھا ہو اگ : اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ اللہ فرمائے گا اس کو اپنے میزان پر رکھو۔ وہ شخص کہے گا اے میرے رب ! رجسٹروں کے مقابلے میں اس ایک پرچی کا کیا وزن ہو گاڈ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم پر ظلم نہیں کیا جائے گا پھر ان گناہوں کے رجسٹروں کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا اور اس پرچی کو دوسرے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو وہ رجسٹروں کا پلڑہ ہلکا ہوگا اور اس پرچی کا پلڑہ بھاری ہوگا اور اللہ کے نام کے مقابلہ میں کوئی چیز وزنی نہیں ہوگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2639، مسند احمد جہ ص 213، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4300 صحیح ابن حبان رقم الحدیث 235، المعجم الاوسط رقم الحدیث :4722 المسدترک ج ١ ص 6، شرح السنتہ رقم الحدیبث :4321)

اس حدیث میں تصریح ہے کہ صحائف اعمال کو وزن کیا جائے گا اور اس کی تائید قرآن مجید میں ہے :

وان علیکم لحفظین کراماً کاتبین یعلمون ماتفعلون (الانفطار :10-12) بیشک تم پر نگہبان ہیں معزز لکھنے والے مقرر ہیں جو کچھ تم کرتے ہو، وہ اس کو جانتے ہیں۔

حضرت ابن عمر نے فرمایا : اس آیت میں یہ ثبوت ہے کہ صحائف اعمال کو وزن کیا جائے گا اور صحائف اجسام ہیں، ان کا وزن کیا جاسکتا ہے۔

حافظ سیوطی لکھتے ہیں :

امام بزار نے اپنی سند کے ساتھ اور امام بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ابن آدم کو لایا جائے گا اور اس کو میزان کے دو پلڑوں کے درمیان کھڑا کیا جائے گا اور اس کے ساتھ ایک فرشتہ کو مقرر کیا جائے گا اگر اس کے میزان کا پلڑہ بھاری ہوگا تو فرشتہ بلند آواز سے کہے گا جس کو تمام مخلوق سنے گی فلاں شخص ایسی کامیابی کے ساتھ کامیاب ہوگیا کہ اب نامراد نہیں ہوگا اور اگر اس کے میزان کا پلڑہ ہلکا ہوگیا تو یہ فرشتہ بلند آواز سے کہے گا جس کو تمام مخلوق سنے گی کہ فلاں شخص ایسی ناکامی کے ساتھ ناکام ہوگیا کہ اب کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔ (البدور السافرہ ص 316، اتحاف السادۃ المتقین ج 10 ص 474)

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : میزان کے دو پلڑے ہیں اور ایک زبان ہے، اس میں نیکیوں اور برائیوں کو وزن کیا جائے گا، نیکیوں کو حسین صورتوں میں متمثل کر کے میزان کے پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو وہ پلڑہ بھاری ہوجائے گا پھر اس کو جنت میں اس کے مرتبہ میں رکھ دیا جائے گا پھر مومن سے کہا جائے گا، اپنے عمل کے ساتھ جا کر مل جائو پھر وہ جنت میں جائے گا اور اپنے عمل کی وجہ سے اپنے ٹھکانے کو پہچان لے گا، اور ایک شخص کے گناہوں کو بری شکل میں متشکل کر کے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے گا تو وہ پلڑہ ہلکا ہوجائے گا اور باطل ہلکا ہوتا ہے پھر اس شخص کو دوزخ میں اسکے ٹھکانے میں پھینک دیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا جا کر دوزخ میں اپنے عمل سے مل جائو۔ وہ دوزخ میں جا کر اپنے عمل کی وجہ سے اپنے ٹھکانے کو پہچان لے گا اور عذاب کی ان اقسام کو جو اللہ نے اس کے لئے تیار کی ہیں۔ (شعب الایمان ج ۃ ص 683، رقم الحدیث :282، البدور السافرہ رقم الحدیث :926)

میزان میں وزن کرنے کی حکمتیں 

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ نیک اعمال کو حسین صورتوں میں متمثل کر کے اور برے اعمال کو قبیح صورتوں میں متشکل کر کے ان کا وزن کیا جائے گا اور اس سے پہلے سنن ترمذی کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ صحائف اعمال کا میزان میں وزن کیا جائے گا۔ ہوسکتا ہے کہ دونوں طرح سے اعمال کا میزان میں وزن کیا جائے اور یہ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کو ہر انسان کے نیک اور بدعمل کا علم ہے۔ وزن اس لئے کیا جائے گا کہ اس شخص پر کوئی ظلم نہیں کیا جا رہا، اس کے اعمال کے مطابق اس کو جزا دی جا رہی ہے اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ معاف کر دے، اس کو یہ معلوم ہو کہ اس پر اللہ تعالیٰ کا کتنا کرم ہے۔ اس کے گناہ کس قدر زیادہ اور نیکیاں کس قدر کم تھیں پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کو معاف کردیا اور میزان سے نتیجہ معلوم ہونے کے بعد شفاعت کرنے والے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کی شفاعت کریں اور جن مقربین کو اللہ تعالیٰ بلند درجات عاط فرمائے تو اہل محشر پر یہ ظاہر ہوجائے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان عظیم عبادات کی وجہ سے ان کو نواز رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے محبوبین کی شان اور انکی عبادات کا کمال ظاہر ہو۔ اسی طرح کوئی شخص لوگوں کے نزدیک بہت نیک اور بزرگ ہوتا ہے اور وہ اس کو اللہ تعالیٰ کا بہت مقرب ولی جانتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں وہ بہت بدکار اور مبغوض ہوتا ہے اگر اعمال کا وزن کئے بغیر اس کو سزا دی جاتی، لوگ سمجھتے اس پر ظلم ہو رہا ہے سو اللہ تعالیٰ اپنے عدل کو ظاہر کرنے کے لئے اس کے اعمال کا وزن کرائے گا۔

میزان کے خطرہ سے بچنے کے لئے حقوق العباد کی ادائیگی ضروری ہے 

امام محمد بن محمد غزالی متوفی ٥٠٥ ھ لکھتے ہیں :

یاد رکھوچ میزان کے خطرہ سے قیامت کے دن وہی شخص نجات پاسکتا ہے جو دنیا میں میزان شرع سے اپنے اعمال، اقوال اور خواہشوں کا محاسبہ کرے۔ جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے فرمایا آخرت کے محاسبہ سے پہلے اپنا محسابہ کرلو اور آخرت میں وزن سے پہلے اپنے اعمال کا وزن کرلو۔ انسان اپنا محاسبہ کر کے موت سے پہلے ہر گناہ سے پکی توبہ کرلے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض کی ادائیگی میں جو تقصیر ہوگئی ہے، اس کا تدارک کرے اور لوگوں کے جو حقوق اس پر واجب ہیں، ان کو ادا کر دے اور اس نے لوگوں پر جو زیادتیاں کی ہیں، ان کی تلافی کرے۔ اس نے جس کو زبان سے جو تکلیف دی ہے یا جس کی غیب کی ہے یا جس کے متعلق بدگمانی کی ہے، مرنے سے پہلے ان کو راضی کرلے تو وہ بغیر محاسبہ کے جنت میں داخل ہوجائے گا اور جو لوگوں کے حقوق ادا کرنے اور زیادتایں معاف کرانے سے پہلے مرگیا تو قیامت کے دن اس کو حق دار گھیر لیں گے۔ کوئی شخص کہے گا اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔ کوئی شخص کہے گا اس نے مجھے گالی دی تھی۔ کوئی شخص کہے گا اس نے میرا مذاق اڑا یا تھا۔ کوئی شخص کہے گا اس نے میری غیب کی تھی۔ کوئی کہے گا یہ میرا پڑوسی تھا اور اس نے ہمسائیگی کا حق ادا نہیں کیا۔ کوئی شخص کہے گا اس نے مجھے فلاں چیز فروخت کی اور عیب دار چیز دی یا بیچ میں دھوکا کیا یا قیمت بتانے میں جھوٹ بولا۔ یہ غنی اور میں محتاج تھا، اس نے میری مدد نہیں کی، میں بھوکا تھا اس نے مجھے کھلایا نہیں، مجھ پر ظلم ہو رہا تھا اور اس نے قادر ہونے کے باوجود مجھ سے ظلم دور نہیں کیا۔ اس نے میرے ساتھ خیانت کی اور اس نے مجھے حقارت سے دیکھا پھر اس وقت ان حق داروں کا حق تم سے دلایا جائے گا۔ ان حقوق کے بدلے میں تمہاری نیکیاں ان کو دی جائیں گی اور جب نیکیاں خت مہو جائیں گی تو ان کے گناہ تمہارے اوپر ڈال دیئے جائیں گے۔ (احیاء العلوم ج ٤ ص 454، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1419 ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہوتا ہے مسلمانوں نے کہا ہمارے نزدیک مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس کوئی درہم ہو، نہ کوئی متاع ہو۔ آپ نے فرمایا : میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن نمازیں، روزے اور زکوۃ لے کر آئے گا اور اس نے اس شخص کو گالی دی ہوگی اور اس شخص کو تہمت لگائی ہوگی اور اس کا مال کھایا ہوگا اور اس کا خون بہایا ہوگا اور اس کو مارا ہوگا۔ پس ان کو اس کی نیکیاں دی جائیں گی اور جب ان کے حقوق ختم ہونے سے پہلے اس کی نیکیاں ختم ہوجائیں گی تو ان کے گناہوں کو اس پر ڈلا دیا جائے گا اور پھر اس شخص کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2581، مسند احمد ج ٢ ص 203، مسند احمد رقم الحدیث :8016 عالم الکتب)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن حقوق والوں کو ان کے حقوق ادا کئے جائیں گے حتیٰ کہ سینگوں والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کا بدلہ لیا جائے گا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2582، مسند احمد ج ٢ ص 363، مسند ابویعلی رقم الحدیث :6944 المعجم الکبیرج ٣ ہ ص 367)

اللہ تعالیٰ کرم فرمائے تو حقوق العباد بھی معاف کرا دے گا 

امام ابوبکر عبداللہ بن محمد المعروف بابن ابی الدنیا متوفی 281 ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن جب اہل جنت، جنت میں داخل ہوجائیں گے اور اہل دوزخ، دوزخ میں چلے جائیں گے اور وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جن کے ذمہ (ایک دوسرے کا) حساب ہوگا تو عرش کے نیچے سے ایک منادی ندا کرے گا اے اہل محشر ! تم اپنے اوپر ایک دوسرے کا کیا ہوا ظلم معاف کرو اور تمہارا ثواب میرے ذمہ ہے۔ (رسائل ابن ابی الدنیا، حسن الظن باللہ تعالیٰ رقم الحدیث :115، المعجم الاوسط رقم الحدیث :1358 مجمع الزوائد ج 10 ص 355) 

حضرت عبدالرحمٰن بن ابی بکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک مومن آئے گا اور وہ اپنے مقروض کو پکڑ لے گا اور کہے گا میں نے اس شخص سے قرض لینا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا اپنے بندوں کا حق معاف کرنے کا میں زیادہ حق دار ہوں پھر اللہ اس قرض خواہ کو راضی کرے گا اور اس وجہ سے اس کی مغفرت کر دے گا۔ (حسن الظن باللہ رقم الحدیث :116، (رسائل ابن ابی الدنیا) مطبوعہ مئوستہ الکتب الثقافیہ بیروت 1413 ھ)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے کہ ہم نے آپ کو ہنستے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔ حضرت عمر (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں، آپ کو کس چیز نے ہنسایا ؟ آپ نے فرمایا : میری امت کے دو آدمی اپنے رب کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوں گے، ان میں سے ایک کہے گا اے میرے رب ! میرے اس بھائی سے مجھ پر ظلم کرنے کا بدلہ لے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم اپنے اس بھائی پر ظلم کرنے کا بدلہ دو ، وہ شخص کہے گا میری نیکیوں میں سے تو اب کچھ باقی نہیں ہے (سب نیکیاں حق دار لے گئے) وہ شخص (مظلوم اور صاحب حق) کہے گا پھر میرے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں۔ پس گریہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، پھر آپ نے فرمایا، یہ بہت عظیم دن ہوگا اور لوگ اس بات کے محتاج ہوں گے کہ ان کے گناہ ان سے ہٹا لئے جائیں پھر اللہ تعالیٰ حق طلب کرنے والے سے فرمائے گا اپنا سر اٹھا کر جنتوں کی طرف دیکھ۔ وہ شخص سر اٹھا کر دیکھے گا اور کہے گا اے میرے رب میں چاندی اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں جن میں موتی جڑے ہوئے ہیں، یہ کسی نبی کے لئے ہیں یا کسی صدیق کے لئے ہیں یا کسی شہید کے لئے ہیں ؟ اللہ عزوجل فرمائے گا یہ اس شخص کے لئے ہیں جو ان کی قیمت ادا کرے۔ وہ پوچھے گا اے میرے رب ! ان کی کیا قیمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم اپنے بھائی کی زیادتی معاف کردو۔ وہ شخص کہے گا۔ اے میرے رب ! میں نے معاف کردیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ اپنے بھائی کو ساتھ لو اور اس کو جنت میں داخل کردو، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن مومنین کے درمیان صلح کرائے گا۔ حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ (رسائل ابن ابی الدنیا، حسن الظن باللہ رقم الحدیث :117، المستدرک رقم الحدیث :8758)

وزن کئے جانے والوں کی تین قسمیں 

علامہ ابوعبداللہ محمد بن حاحمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

آخرت میں لوگوں کے تین طبقات ہوں گے۔ بعض ایسے مسلمان ہوں گے جن کا کوئی کبیرہ گناہ نہیں ہوگا، یہ متقین ہیں، اور بعض ایسے مسلمان ہوں گے جن کے فواحش اور کبیرہ گناہ بھی ہوں گے اور ان کی نیکیاں بھی ہوں گی، یہ مخلطین ہیں اور تیسری قسم میں کفار اور مشرکین ہیں۔

رہے متقین تو ان کی نیکیاں ایک روشن پلڑے میں رکھی جائیں گی اور ان کے صغیرہ دور سے پلڑے میں رکھے جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ان کے صغیرہ گناہوں کا کوئی وزن نہیں ہونے دے گا اور ان کی نیکیوں کا پلڑہ بھاری ہوجائے گا اور دوسرا تاریک پلڑہ وزن سے خالی رہے گا اور رہے مخلطین تو ان کی نیکیاں روشن پلڑے میں رکھی جائیں گی اور ان کی برائیاں تاریک پلڑے میں رکھی جائیں گی۔ پس ان کی برائیوں کا وزن ہوگا تو اگر ان کی نیکیاں زیادہ وزنی ہوں تو وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے خواہ ان کی نیکیوں کا وزن معمولی سا زیادہ ہو اور اگر ان کی برائیاں زیادہ وزنی ہوں تو وہ دوزخ میں داخل ہوجائیں گے خواہ برائیاں معمولی سی زیادہ ہوں ماسوا اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے معاف فرما دے اور اگر ان کی نیکیوں اور برائیوں کا وزن برابر ہو تو وہ اصحاب اعراف میں سے ہوں گے۔ یہ اس وقت ہے کہ جب ان کے گناہوں کا تعلق حقوق اللہ سے ہو اور اگر ان کے گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہو اور ان کی نیکیاں زیادہ ہوں تو ان کی نیکیوں کے ثواب کو بہ قدر حقوق کم کردیا جائے گا اور اگر ان کی نیکیاں دے کر بھی ان کے حقوق پورے نہ ہوئے تو حق داروں کے گناہ اور ان پر بہ قدر حقوق ڈال دیئے جائیں گے۔ (جیسا کہ احادیث سے گزر چکا ہے) احمد بن حرب نے کہا قیامت کے دن تین قسم کے لوگ اٹھائے جائیں گے ایک وہ جو اعمال صالحہ کے اعتبار سے غنی اور خوشحال ہوں گے، دوسرے وہ جو فقراء ہوں گے یعنی ان کے اعمال صالحہ نہیں ہوں گے اور تیسرے وہ جو پہلے اعمال صالحہ کے اعتبار سے غنی ہوں گے اور پھر لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد مفلس ہوجائیں گے۔ سفیان ثوری نے فرمایا اگر تم اپنے رب سے ستر گناہوں کے ساتھ ملاقات کرو، جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہو تو وہ اس سے آسان ہے کہ تم ایک گناہ کے ساتھ ملاقات کرو جس کا تعلق حقوق العباد کے ساتھ ہو۔ یہ قول صحیح ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ غنی کریم ہے اور ابن آدم فقیر مسکین ہے وہ اس دن ایک نیکی کا بھی محتاج ہوگا جس سے اپنے گناہ کو دور کرسکے۔

رہا کافر تو اس کے کفر کا تاریک پلڑہ میں وزن کیا جائے گا، اس کی کوئی نیکی نہیں ہوگی جس کو روشن پلڑہ میں رکھا جائے گا۔ اس کا روشن پلڑہ فارغ ہوگا اور نیکی اور خیر سے خالی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اس کو دوزخ میں جانے کا حکم دے گا اور ہر کافر کو اس کے باقی گناہوں کے اعتبار سے عذاب دیا جائے گا۔

متقین کے صغائر ان کے کبائر سے اجتناب کرنے کی وجہ سے مٹا دیئے جائیں گے، ان کو جنت میں جانے کا حکم دیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی اطاعت اور نیکیوں کے اعتبار سے اجر وثواب دیا جائے گا۔ قرآن مجید کی میزان کی ٓیات میں صرف کافر اور تمقی دو قسموں کا ذکر فرمایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے صرف ان کا ذکر فرمایا ہے جن کا میزان میں نیکیوں کا پلڑہ بھای رہو اور جن کی نیکیوں کا پلڑہ خالی ہو۔ اول الذکر ہمیشہ جنت میں رہیں گے اور ثانی الذکر ہمیشہ دوزخ میں رہیں گے اور رہے مخلطین تو ان کا ذکر احادیث میں ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور دیگر انبیاء علیہم السلام، ملائکہ اور صالحین کی شفاعت سے ان کی مغفرت ہوجائے گی۔ (التذکرہ ج ٢ ص 18-19، مطبوعہ دارالبخاری مدینہ منورہ، 1417 ھ)

نیک لوگوں کے اعمال کا وزن ان کی فضیلت کے اظہار کے لئے کیا جائے گا اور لوگوں کے سامنے ان کی شان بڑھانے اور ان کی عزت افزائی کے لئے کیا جائے گا اور کفار کے اعمال کا وزن ان کی ذلت اور رسوائی کے اظہار کے لئے کیا جائے گا۔ حشر کے دن نیک لوگوں کی عزت افزائی کی مثال اس حدیث میں ہے :

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اللہ عزو جل فرماتا ہے : جو میری ذات سے محبت کرنے والے ہیں، ان کے لئے نور کے منبر ہوں گے، ان کی انبیاء اور اولیاء تحسین کریں گے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2390، مسند حمد ج ٥ 236، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :577 المعجم الکبیرج 20 ص 167، حلیتہ الاولیاء ج ٥ ص 121) حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے بعض بندے ایسے ہیں جو نبی ہوں گے نہ شہید اور قیامت کے دن ان کا اللہ کے ساتھ قرب دیکھ کر انبیاء اور شہداء ان کی تحسین کریں گے۔ مسلمانوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں بتائیں، وہ کون لوگ ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جو محض اللہ کی وجہ سے لوگوں سے محبت کریں گے ان کے درمیان کوئی رشتہ داری ہوگی اور نہ انہوں نے ان کو کوئی مال دیا ہوگا، ان کے چہرے نورانی ہوں گے، وہ نور پر فائز ہوں گے اور جب (قیامت کے دن) لوگ خوفزدہ ہوں گے تو انہیں کوئی خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو انہیں کوئی غم نہیں ہوگا پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

الا ان اولیآء اللہ لاخوف علیھم ولا یحزنون (یونس 62) (سنن ابودائود رقم الحدیث 3537: مشکوۃ رقم الحدیث :5012)

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 47