غلط مطالعہ ، شادی میں تاخیر کی ایک وجہ

از: افتخار الحسن رضوی

آپ کے آس پاس موجود کتب اگر زیرِ مطالعہ بھی ہیں تو یقینی طور ان کے اثرات آپ کی زندگی پر اثر دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ “علمِ نافع” پر مبنی کتب ہر کسی پر نہیں “کھلتیں” جب کہ مکروہات و معصیات میں معاون کتب تو شیطانی آلہ ہوتی ہیں، یہ کسی بھی صالح کو خراب کرنے میں دیر نہیں کرتیں۔

فی زمانہ لڑکیوں کی عمریں بڑھتی رہتی ہیں اور “مناسب” رشتہ نہیں ملتا۔ میرا ذاتی مشاہدہ و تجربہ ہے کہ روحانی علاج کے سلسلہ میں رابطہ کرنے والوں میں مالی پریشانیوں کے بعد سب سے بڑا مسئلہ رشتوں میں رکاوٹ کا بتایا جاتا ہے۔ لڑکیاں پڑھی لکھی، اچھی صورت والی ہوتی ہیں، کھاتے پیتے گھرانے ہوتے ہیں لیکن رشتے طے نہیں ہو پاتے۔ کئی گھرانے تو ایسے بھی ہیں جہاں کنواری لڑکیاں چالیس پینتالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتی ہیں مگر رشتے نہیں ہوتے، بعض کیسز ایسے بھی ہوتے ہیں کہ رشتہ ہو جائے تو تھوڑے عرصے کے بعد طلاق و خلع تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔ ان مسائل کی جہاں دیگر وجوہات ہیں وہیں ایک وجہ غلط مواد کا مطالعہ کرنا ہے۔

جس گھر میں ناول، افسانے، مکروہ شاعری اور عشقیہ و فسقیہ کہانیاں پڑھی اور سنی جاتی ہوں اس گھر کی لڑکیاں خوابوں میں لاشعوری طور پر (بعض صورتوں میں شعوری طور پر بھی) ایک ایسے دلہے کا خواب دیکھ رہی ہوتی ہیں جس میں انسانی خصائل و صفات کم اور تخیلاتی بادشاہت کے عناصر زیادہ ہوتے ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر شئیر ہونے والی جذباتی شاعری، من گھڑت “صوفی اقوال”، علم و معرفت کے نام پر نشر ہونے والے کلپس اور بیانات پڑھنے سننے کے بعد بھی انسانی اذہان میں ایک ریت کا محل تعمیر ہو جاتا ہے، طلوع و غروب آفتاب کے ساتھ ساتھ گرتا اور سنبھلتا رہتا ہے۔ اس طرح کے خواب دیکھنے والی لڑکیاں مزاج کی کمزور اور ارادے کی عدم پختگی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ مختلف افسانے، ناول ، شاعری اور کہانیاں پڑھنے کے دوران ان کے خوابوں کے شہزادے کی Technical Specification & Requirement میں مستقل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ، ایسی صورت میں انہیں کتنا ہی اچھا رشتہ کیوں نہ مل جائے، وہ خوش نہیں ہوتیں، بالکل یہی صورت حال بعض لڑکوں میں بھی موجود ہو سکتی ہے۔

اس غلط مواد کے مطالعہ سے روحانی سکون ختم ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ نے ایسے مواد کے مطالعہ سے منع کیا ہے، حتٰی کہ امام احمد رضا خان قادری علیہ الرحمہ نے کمزور ذہن کی حامل لڑکیوں کو سورہ یوسف کی تفسیر پڑھنے سے بھی منع فرمایا ہے؛

”لڑکیوں کو سورہ یوسُف کی تفسیر مت پڑھاؤ بلکہ انہیں سورہ نورکی تفسیر پڑھاؤ کہ سورہ یوسف میں ایک نِسوانی (یعنی عورت کے) مَکْر کا ذِکر ہے کہ نازُک شیشیاں ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جائیں گی۔”

(فتاوٰی رضويہ ج۲۴،ص۴۵۵مُلَخَّصاً )

یہ حکم ان لڑکیوں کے لیے ہے جن کی علمی سطح کمزور ہو اور ذہنی پختگی نہ ہو یا کنواری ہوں۔ تو اسلام اس قدر حساسیت کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے، ایسی صورت حال میں ناول، افسانے اور میگزین و داستانیں پڑھ کر اپنا شریک حیات چننا یا اس کا تصور کرنا تباہی کا سبب ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اپنے مطالعہ میں قراۤن و حدیث اور اسلامی کتب کو شامل کریں، تاکہ ذہنی و روحانی سکون ملے اور درست ترجیحات و اہداف کا تعین ہو سکے۔ اگر تصوف کا مطالعہ بھی کرنا ہو تو ان ائمہ و اکابرین کو پڑھیں جو تصوف کا شریعت کی قیود میں سمجھتے ہیں، شریعت جو کہ اسلامی قوانین کا مجموعہ ہے، جب آپ اس کی حدود سے باہر جاتے ہیں تو تباہی و ہلاکت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

افتخار الحسن رضوی

2 جون 2020