وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّلَا نَبِىٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰٓى اَلۡقَى الشَّيۡطٰنُ فِىۡۤ اُمۡنِيَّتِهٖ ۚ فَيَنۡسَخُ اللّٰهُ مَا يُلۡقِى الشَّيۡطٰنُ ثُمَّ يُحۡكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 52
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا مِنۡ قَبۡلِكَ مِنۡ رَّسُوۡلٍ وَّلَا نَبِىٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰٓى اَلۡقَى الشَّيۡطٰنُ فِىۡۤ اُمۡنِيَّتِهٖ ۚ فَيَنۡسَخُ اللّٰهُ مَا يُلۡقِى الشَّيۡطٰنُ ثُمَّ يُحۡكِمُ اللّٰهُ اٰيٰتِهٖ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول اور نبی بھیجا تو جب بھی اس نے( اپنی امت کی وسعت کی) تمنا کی تو شیطان نے (لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈال کر) اس کی تمنا (پوری ہونے) میں رخنہ ڈال دیا، سو اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے (شبہات) کو زائل کردیتا ہے، پھر اللہ اپنی آیت کو پختہ کردیتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا بہت حکمت والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے آپ سے پہلے جو بھی رسول اور نبی بھیجا تو جب بھی اس نے (اپنی امت کی وسعت کی) تمنا کی تو شیطان نے (لوگوں کے دلوں میں شبہات ڈال کر) اس کی تمنا (پوری ہونے) میں رخنہ ڈالدیا، سو اللہ شیطان کے ڈالے ہوئے (شبہات) کو زائل کردیتا ہے پھر اللہ اپنی آیات کو پختہ کردیتا ہے اور اللہ خوب جاننے والا، بہت حکم والا ہے۔ (الحج : ٥٢ )
الحج : ٥٢ کے چند مشہور تراجم
شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی متوفی 691 ھ لکھتے ہیں :
ونفرستادیم پیش از تو ہیچ رسولے ونہ خبر دہندہ از خدا مگر چوں تلاوت کردبیفگند شیطان در تلاوت اوآنچہ خواست پس اجل گرداند خدائے آنچہ درافگندہ باشد شیطان پس ثابت کند خدائے آیت ہائے خودرا۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی 1176 ھ لکھتے ہیں :
ونہ فرستادیم پیش از تو ہیخ فرستادہ ونہ ہیچ صاحب وحی الاچوں آرزوئے بخاطر بست بافگند شیطان چیزے درآرزوئے ویپس دورے کند خدا آندچہ شیطان انداختہ است باز محکم مے کند خدا آیات خودرا۔
شاہ رفیع الدین متوفی 1233 ھ لکھتے ہیں :
اور نہیں بھیجا ہم نے پہلے تجھ سے کوئی رسول اور نہ نبی مگر جس وقت آرزو کرتا تھا ڈال دیتا تھا شیطان بیچ آرزو اس کے کے، پس موقوف کردیتا ہے اللہ، جو ڈالتا ہے شیطان پھر محکم کرتا ہے اللہ نشانیوں اپنی کو۔
شاہ عبدالقادر محدث دہلوی متوفی 1230 ھ لکھتے ہیں :
اور جو رسول بھیجا ہم نے تجھ سے پہلے یا نبی سو جب خیال باندھنے (لگا) شیطان نے ملا دیا اس کے خیال میں، پھر اللہ مٹاتا ہے شیطان کا ملایا پھر پکی کرتا ہے اپنی باتیں۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی متوفی 1340 ھ لکھتے ہیں :
اور ہم نے تم سے پہلے جتنے رسول یا نبی بھیجے سب پر کبھی یہ واقعہ گزرا ہے کہ جب انہوں نے پڑھا تو شیطان نے ان کے پڑھنے میں لوگوں پر کچھ اپنی طرف سے ملا دیا تو مٹا دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس شیطان کے ڈالے ہوئے کو پھر اللہ اپنی آیتیں پکی کردیتا ہے۔
حضرت سید محمد محدث کچھ چھوی متوفی 1961 ھ لکھتے ہیں :
اور نہیں بھیجا ہم نے تم سے پہلے کوئی رسول نہ نبی مگر یہ کہ جب پڑھا تو شیطان نے اپنی طرف سے اپنوں کے لئے بڑھا دیا ان کیپڑھنے میں تو میٹ دیتا ہے اللہ جو شیطان کا القاء ہے پھر مضبوط فرما دیتا ہے اللہ اپنی آیتوں کو۔
حضرت سید احمدا سعید کاظمی متوفی 1406 ھ لکھتے ہیں :
اور ہم نے (غیب کی خبریں دینے الا اپنا معبوث) کوئی رسول اور نبی آپ سے پہلے نہیں بھیجا مگر اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کی تلاوت کے دوران (لوگوں پر اپنی طرف سے) ڈال دیا تو اللہ مٹا دیتا ہے شیطان کے ڈالے ہوئے کو اور پھر اپنی آیتیں خوب پکی کردیتا ہے۔
شاہ ولی اللہ، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالقادر نے اس آیت میں تمنی کا معنی آرزو کیا ہے۔ شیخ تھانوی اور سید مودودی نے بھی یہی معنی کیا ہے اور باقی مترجمین نے تمنی کا معنی پڑھایا تلاوت کیا، کیا ہے اور مئوخر الذکر معنی ایک روایت پر مبنی ہے جو شدید ترین ضعیف ہے اور بعض نے اس کو موضوع کہا ہے اور تمام محققین علمائ، مفسرین اور محدثین نے تمنی کا معنی آرزو کی، کیا ہے۔ پہلے ہم اس شدید ضعیف روایت کا ذکر کریں گے جس کو اس آیت کے شان نزول میں بیان کیا جاتا ہے پھر اس روایت کا شدید ضعف بیان کریں گے پھر اس سلسلہ میں مفسرین اور محدثین کی نقول اور تصریحات پیش کریں گے فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق
الحج : ٥٢ کا شان نزول
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) کی روایت میں ذکر ہے کہ جب حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم پڑھی تو آپ نے سجدہ کیا اور سب مسلمانوں اور مشرکوں نے بھی سجدہ کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1071) مشرکوں نے جو سجدہ کیا اس کی صحیح وجہ یہ ہے کہ آپ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں :
افرایتم اللات والعزی۔ ومنوۃ الثالثۃ الاخری۔ (النجم :19-20) کیا تم نے دیکھا لات اور عزیٰ کو اور اس تیسری مناۃ کو۔
تو مشرکین اس بات سے خوش ہوئے کہ قرآن کریم میں ان کے بتوں کا ذکر آگیا اور انہوں نے بھی جسدہ کرلیا۔ اس سلسلہ میں مسند بزار اور تفسیر ابن مردویہ میں ایک شدید ضعیف روایت ذکر کی گئی ہے جس میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جب ومنوۃ الثالثۃ الاخری کی تلاوت کی تو شیطان نے آپ کی تلاوت میں خود یہ الفاظ ملا دیئے یا آپ کی زبان سے جاری کرا دیئے :
تلک الغرانیق اعلی فان شفاعتھن ترتجی۔ یہ مرغان بلند بانگ ان کی شفاعت کی مقبولیت متوقع ہے۔
یہ سن کر مشرکین خوش ہوئے اور سجدہ کرلیا۔ بعد میں جبرئیل نے آ کر عرض کیا آپ نے وہ چیز تلاوت کی جس کو میں لے کر آیا نہ اللہ تعالیٰ نے اس کو نازل کیا اور آپ کے استفسار پر بتلایا کہ آپ نے یہ کلمات پڑھے ہیں۔ آپ رنجیدہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی تسلی کے لئے یہ آیات نازل فرمائیں :
وما ارسلنا من قبلک من رسول والا نبی الا اذا تمنی القی الشیطان فی امنیتہ فینسخ اللہ مایلقی الشیطان ثمیحکم اللہ ایتہ (الحج : ٥٢) اللہ تعالیٰ نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نبی نہیں بھیجا مگر (اس کے ساتھ یہ واقعہ گزرا ہے) جب اس نے آیات کی تلاوت کی تو شیطان نے اس کی تلاوت میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیا۔ پس اللہ تعالیٰ نے شیطان کے ملائے کو منسوخ کردیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا۔
یہ روایت اپنی تمام اسانید کے ساتھ سنداً باطل اور عقلاً مردود ہے، کیونکہ نہ یہ ممکن ہے کہ شیطان آپ کی زبان سے کلام کرے اور نہ یہ کہ اپنی آواز کو آپ کی آواز کے مشابہ کرسکے اور سننے والے اس کی آواز آپ کی آواز قرار دیں، اگر بالفرض یہ ممکن ہو تو تمام شریعت سے اعتماد اٹھ جائے گا کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ہم تک صحابہ کی روایت سے جو احکام پہنچے ہیں وہ آپ کا فرمان نہ ہوں بلکہ شیطان کا کہا ہوا ہو۔ نیز حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ شیطان خواب میں آ کر حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثل نہیں بن سکتا تو جب شیطان آپ کی صورت کے مماثل نہیں ہوسکتا تو آواز کے مماثل کیسے ہوسکتا ہے اور جب وہ سونے والے پر اشتباہ نہیں ڈال سکتا حالانکہ وہ اس حال میں مکلف نہیں ہوتا تو بیدار پر کیسے اشتباہ ڈال سکتا ہے جبکہ وہ مکلف ہوتا ہے۔ امام ابو منصور ماتریدی، امام بیہقی، امام رازی، قاضی بیضاوی، علامہ نووی، علامہ کرمانی، علامہ بدر الدین عینی، علامہ قسطلانی اور علامہ آلوسی اور دیگر تمام محققین نے ان روایات کو رد کردیا ہے۔ اہل علم میں سوا علامہ عسقلانی اور علامہ کو رانی کے کسی نے ان روایات پر اعتماد نہیں کیا۔ سورة حج کی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے علامہ آلوسی نے فرمایا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اپنی تبلیغ کے پیش نظر امت میں وسعت کی تمنا کرتے تو شیطان مسلمانوں کو دین سے برگشتہ کرنے کے لئے ان کے دلوں میں اسلام کے خلاف شکوک ڈال دیتا۔ مثلاً شجرۃ الزقوم کے بارے میں کہتا جہنم میں درخت کا کیا معنی ؟ درخت تو لکڑی کا ہوتا ہے اور آگ لکڑی کو جلا دیتی ہے پھر جہنم میں درخت کیسے ہوسکتا ہے۔ قرآن میں مکھی کا ذکر آیا تو کہا اتنا بڑا خدا ہے اور اتنی حقیر چیز کی مثال دیتا ہے۔
قرآن کریم میں ہے :
انکم وما تعبدون من دون اللہ حصب جھنم (الانبیائ :98) تم اور اللہ کے سوا تمہارے معبود سب جہنم کا ایندھن ہیں۔
تو کہا عیسیٰ اور عزیز (علیہما السلام) کی بھی عبادت کی گی ہے اگر وہ بھی جہنم میں گئے تو ہمارے بت بھی چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ قرآن کریم میں ہے :
ولاتاکلوا مما لم یذکر اسم اللہ علیہ (الانعام : ١٢١) جس پر خدا کا نام نہ لیا جائے، اسے مت کھائو۔
تو کہا کمال ہے خدا جکا مارا ہوا حرام ہو اور تمہارا مارا ہوا حلال ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی زبان سے ان تمام شبہات کو زائل کر کے اپنے دین اور اپنی آیات کو محکم فرما دیا۔ اس تفسیر کی بنیاد اس بات پر ہے کہ متنی کا معنی ” پڑھا “ نہیں بلکہ ” آرزو کی “ ہے اور اب آیت کا ترجمہ یوں ہوگا :
” ہم نے آپ سے پہلے کسی رسول اور بنی کو نہیں بھیجا مگر جب بھی اس نے (اپنی امت کی وسعت کی) تمنا کی تو شیطان نے اس کی تمنا میں (لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا کر کے) خلل ڈال دیا تو اللہ تعالیٰ شیطان کے وسوسہ کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات کو محکم کردیتا یہ۔ “ (روح المعانی جز ١٧ ص 257)
روایت تلک الغرانیق کا متن
امام بزار بیان کرتے ہیں :
امام بزار اپنی سند میں یوسف بن حماد، امیہ بن خالد، شعبہ، ابوبشر، سعید بن جبیر کے ساتھ حضرت ابن عباس سیر وایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ میں تھے، آپ نے سورة النجم پڑھی جب اس آیت پر پہنچے ’ دافرایتم اللات و العزی ومنوۃ الثالۃ الاخری۔ “ تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر یہ کلمات جاری ہوئے ” تلک الغرانیق العلی الشفاعۃ منھم ترتجی “ یہ مرغان بلند بانگ، ان کی شفاعت متوقع ہے۔ “ حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ مشرکین یہ سن کر خوش ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) رنجیدہ ہوئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (ترجمہ) ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کوئی نبی یا رسول بھیجا تو اس کے ساتھ یہ ہوا ہے کہ جب اس نے تلاوت کی تو شیطان اس کی تلاوت میں کچھ القاء کردیتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے القاء کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات پختہ کردیتا ہے۔
اس روایت کو بیان کرنے کے بعد امام بزار لکھتے ہیں۔
کہ ہمارے علم میں اس سند کے سوا اس حدیث کی اور کوئی ایسی سند متصل نہیں ہے جس کا ذکر کرنا جائز ہ۔ امید بن خالد مشہور ثقہ ہے، یہ حدیث کلبی از ابو صالح از ابن عباس کی سند کے ساتھ معروف ہے۔ (کشف الاستارج ٢ ص ٧٢)
علامہ الہثیمی اس روایت کو امام طبرانی اور امام بزار کے حوالے سے ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں۔
امام طبرانی نے فرمایا : میں اس حدیث کو صرف حضرت ابن عباس کی روایت سے جانتا ہوں۔ سورة حج کی تفسیر میں اس سے طویل حدیث گزر چکی ہے لیکن وہ ضعیف الاسناد ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٧ ص ١١٥، مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، ١٤٠٢ ھ)
علامہ الہیثمی نے امام طبرانی کی اس دوسری روایت کو عروہ بن الزبیر سے روایت کیا ہے اور یہ روایت مرسل ہے کیونکہ عروہ بن الزبیر تابعی ہیں، انہوں نے زمانہ رسالت کو نہیں پایا تھا۔ اس کا ذکر مجمع الزوائد ج ٧ ص 71-72 میں ہے اور ہم نے اس کو تفصیل کے ساتھ شرح صحیح مسلم ج ٢ ص 157-158 میں بیان کیا ہے۔
روایت تلک الغرانیق کی فنی حیثیت پر بحث و نظر
حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ ان روایات کی تمام اسانید ہرچند کہ ضعف، انقطاع اور ارسال سے خالین ہیں لیکن چونکہ یہ روایت متعدد اسانید سے منقول ہے، اس لئے اس کی کثرت اسانید سے پتا چلتا ہے کہ ان کی کوئی نہ کوئی اصل ہے (فتح الباری ج ٨ ص ٤٣٩، طبع لاہور)
علم حدیم میں حافظ ابن حجر عسقلانی کا مقام بہت بلند ہے اور ہم ان کی عظمتوں کی گرد راہ کو بھی نہیں پاسکتے لیکن اس کے باوجود معذرت کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کرتے ہیں کہ حافظ ابن عسقلانی نے انتقطاع کی صراحت کے ساتھ یہ حدیث بزار اور ابن مردویہ کی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے پھر کلبی، سدی، نحاس، ابن اسحاق، طبری، ابن ابی حاتم اور ابن منذر کی اسانید کے ساتھ بھی حضرت ابن عباس سے اس روایت کا ذکر کیا ہے اور یہ تصریح بھی کی ہے کہ یہ اسانید ضعف ہے، ان کے علاوہ کسی اور صحابی سے یہ روایت مروی نہیں ہے۔ اگر بالفرض یہ روایت صحیح ہوتی تو یہ واقعہ ان عجیب و غریب امور پر مبنی ہونے کی وجہ سے بکثرت صحابہ سے مروی ہوتا یہ۔ جبکہ اس روایت کے مطابق اس وقت بکثرت صحابہ موجود تھے پھر صرف حضرت ابن عباس ہی اس کو کیوں روایت کرتے ہیں ؟ دوسری گزارش یہ ہے کہ یہ ہجرت سے پہلے کا واقعہ ہے اور ہجرت کے وقت حضرت ابن عباس کی عمر صرف تین سال تھی تو کیا ایک یا دو سال کی عمر میں حضرت ابن عباس نے اس واقعہ کا مشاہدہ کیا تھا ؟ اس روایت کو وضع کر کے حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کرنے والوں نے اس وقت ابن عباس کی عمر پر بھی غور نہیں کیا۔ تیسری گزارش یہ ہے کہ اس روایت میں ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے شیطان نے یہ کلمات (تلک الغرانیق اعلی) کہلوا لیے تو حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آ کر کہا آپ نے وہ بات کہی جس کو میں لے کر نہیں آیا اور نہ اللہ تعالیٰ نے نازل کی اس پر آپ رنجیدہ ہوئے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کے حزن و ملال کو زائل کرنے کے لئے سورة حج کی یہ آیت نازل فرمائی (وما ارسلنا من قبلک من رسول ولانبی) اور سورة حج مدنی ہے اور سورة نجم سن کر مشرکوں کے سجے کا واقعہ ہجرت سے کئی سال پہلے کا ہے تو گویا آپ کو جو اس واقعہ سے رنج و ملال ہوا اس کو زائل کرنے کے لئے کئی سال بعد سورة حج کی یہ آیت نازل ہوئی۔ یہ بات منطق کے بھی خلاف ہے اور اس من گھڑت روایت کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس میں یہ ہے کہ آپ رنجیدہ ہوئے تو حضرت جبریل (علیہ السلام) یہ آیت لے کر آئے۔ چوتھی گزارش یہ ہے کہ امت کا اس پر اجماع ہے کہ قرآن مجید کو پہنچانے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عماً خطاً نسیاناً سہاً کسی طرح غلطی نہیں ہوسکتی پھر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے العیاذ باللہ ! کفر یہ کلمات صادر ہوگئے۔ پانچویں گزارش یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر شیطان کا جبر کرنا کسی مسلمان کے نزدیک متصور نہیں ہے پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شیطان نے یہ کلمات آپ سے کہلوا لیے ہوں۔ ہم اس روایت سے زار بار اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
روایت تلک الغرانیق کے بارے میں محدثین کی آراء
حافظ بدر الدین عینی متوفی 855 ھ اس بحث میں حافظ ابن حجر عسقلانی پر رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قاضی عیاض اور ابن عربی نے اس روایت کو رد کیا ہے اور یہی چیز نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جلالت قدر اور عظمت شان کے لائق ہے۔ کیونکہ ان کلمات کفریہ کے جاری ہونے سے آپ کی زبان کی عصمت، نزاہت اور برأت دلائل کثیرہ اور اجماعت امت سے ثابت ہے۔ آپ اس چیز سے بری ہیں کہ آپ کے قلب یا زبان پر اس قسم کی کوئی چیز جاری ہو یا شیطان کا آپ پر تسط ہو یا آپ اللہ تعالیٰ کی طرف غلط بات کی عمداً یا سہواً نسبت کریں۔ یہ دلائل عقلیہ اور نقلیہ سے محال ہے اور اگر بالفرض ایسا ہوتا تو بہت سے مسلمان مرتد ہوجاتے اور یہ منقول نہیں ہے۔ نیز اگر ایسا ہوتا تو صحابہ سے یہ امر مخفی نہیں رہتا۔ (عمدۃ القاری جز ١٩ ص ٦٦ )
قاضی عیاض اس بحث میں لکھتے ہیں اس روایت کو مصنفین کتب صحاح میں سے کسی نے نقل نہیں کیا نہ یہ کسی سند صحیح اور متصل سے مروی ہے۔ اس روایت کو بعض ان مفسرین اور مئورخین نے ذکر کیا ہے جو عجیب و غریب باتوں کو جمع کرنے کے شوق میں ہر قسم کی رطب و یا بس اور غلط سلط باتیں بیان کر یدتے ہیں۔ اس کے بعد قاضی عیاض نے اس روایت کے راویوں کی فنی میں ہر قسم کی رطب ویابس اور غلط سلط سے یہ ثابت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر شیطان کا تسلط محا ہے اور یہ ممکن نہیں کہ قرآن مجید کو پہنچاتے ہوئے آپ کی زبان سے وہ بات نکلے جو اللہ تعالیٰ نے نہ فرمائی ہو۔ پھر قاضی عیاض فرماتے ہیں اگر ایسا ہوا ہوتا تو مشرکین مسلمانوں کا مذاق اڑاتے۔ منافقین، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں طعنہ زنی کرتے اور العیاذ باللہ کئی ضعیف القلب مسلمان مرتد ہوجاتے۔ قاضی عیاض لکھتے ہیں کہ شیطان نے القاء ضرور کیا ہے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نہیں بلکہ ان بعض غافل محدثین پر القاء کیا ہے جنہوں نے ضعیف مسلمانوں کے دین میں خلل ڈالنے کے لئے شیطان سے یہ روایت سنی اور (حضرت عبداللہ ابن بن عباس کی طرف منسوب کرتے ہوئے) مختلف اسانید سے پھیلا دی۔ (الشفا محصلہ ج ٢ ص 106-110 طبع ملتان)
علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ تلک الغرانیق العلی والی روایت باطل ہے۔ عقلاً صحیح ہے نہ نقلاً کیونکہ مشرکین کے خدائوں کی تعریف کرنا کفر ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف اس کی نسبت کرنا صحیح نہیں نہ یہ صحیح ہے کہ آپ نے یہ کہا، العیاذ باللہ آپ اس سے بری ہیں۔ سورة نجم کی تفسیر میں بھی علامہ کرمانی نے اس کا رد کیا ہے۔ (شرح الکرمانی ج ٦ ص 153، ج ٨ ص 116)
ملا علی قاری لکھتے ہیں کہ بعض مفسرین نے اس روایت کو نقل کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ یہ جو روایت میں ہے کہ مشرکین نے اس لئے سجدہ کیا تھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے باطل خدائوں کی تعریف کی تھی، یہ باط قول ہے اور زندیقوں کا گھڑا ہوا ہے۔ (مرقات ج ٣ ص ٣٢ طبع ملتان)
شیخ عبدالحق محدث دہلی کہتے ہیں کہ یہ عقلاً اور نقلاً وجوہ کثیرہ سے باطل ہے اور یہ روایت موضوع ہے۔ (اشعتہ اللمعات ج ٣ ص ٣٢ لکھنئو)
بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمنی کا معنی ” پڑھا “ کرنا صحیح بخاری کی اس حدیث پر مبنی ہے :
وقال ابن عباس فی امنیتہ اذا حدث القی الشیطان فی حدیثہ فیطل اللہ مایلفی الشیطان وبحکم آیاتہ و یقال امنیتہ قراتہ (صحیح البخاری ج ٢ ص 693 کراچی) حضرت ابن عباس نے امنیتہ کی تفسیر میں کہا جب آپ بات کرتے تو شیطان آپ کی بات میں کچھ ڈال دیتا پھر اللہ تعالیٰ شیطان کے ڈالے ہوئے کو باطل کردیتا اور اپنی آیات کو پختہ کردیتا۔ امنیتہ کا معنی ہے اس کا پڑھنا۔
یہ امام بخاری کی (سند کے ساتھ) روایت نہیں ہے۔ انہوں نے بغیر سند کے حضرت ابن عباس کی طرف منسوب کر کے اس کو تعلیقاً ذکر کیا ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی کی تصریح کے مطابق امام بخاری کی تعلیقات میں شدید ترین ضعیف احادیث بھی ہیں۔
حافظ بدر الدین عینی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں :
اس قسم کے واقعہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عصمت اور نزاہت پر دلیلقائم ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے آپ اس سے بری ہیں کہ آپ کے دل یا زبان پر ایسی کوئی چیز بھی جاری ہو، عمداً نہ سہواً یا شیطان کسی طرح سے آپ پر کوئی سبیل نکال سکے، یا آپ اللہ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کریں، عمداً نہ سہواً عق کے نزدیک بھی یہ واقعہ محال ہے اگر یہ واقعہ ہوتا تو بکثرت مسلمان مرتد ہوجاتے اور یہ منقول نہیں ہے اور آپ کے پاس جو مسلمان تھے، ان سے یہ واقعہ مخفی نہ رہتا۔ (عمدۃ القاری جز ١٩ ص ٦٦ مطبعہ ادارۃ المنیریہ مصر، 1328 ھ)
روایت تلک الغرانیق کے بارے میں مفسرین کی آراء
قاضی ابوبکر بن العربی نے دس وجوہ سے اس روایت کو باطل کیا ہے۔ پہلی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب نبی کے پاس فرشتہ کو وحی دے کر بھیجتا ہے تو اس میں ایک علم پیدا کرتا ہے جس سے وہجان لیتا ہے کہ یہ فرشتہ ہے ورنہ نبی کو کیسے یقین ہوگا کہ یہ اللہ کی وحی ہے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ شیطان آ کر کچھ کلمات پڑھے اور آپ کو پتا نہ چلے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اہل اسلام کا اس پر اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کفر و شرک سے معصوم رکھا ہے اور جو شخص ایک آن کے لئے بھی آپ پر کفر کو جائز رکھے وہ خود اسلام سے خارج ہوجائے گا اور ظاہر ہے کہ بتوں کی تعریف کرنا اور ان کو شفاعت کرنے اولا کہنا کفر ہے۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ کہ ہم امت محمدیہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تلچھٹ ہیں ہم بھی ان کلمات کا کفریہ ہونا جانتے ہیں تو حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی معرفت کرائی ہے، کب ان کلمات کے کفر سے غافل ہوسکتے ہیں۔ علامہ ابن العربی نے اسی طرح باقی وجوہات بیان کیں اور آخر میں فرمایا کہ یہ تمام روایات باطل ہیں ان کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص 1303- 1300، بیروت)
علامہ نسفی اس روایت پر رد کرتے ہو کئے لکھتے ہیں اس روایت کے مطابق اگر آپ نے یہ کلمات عمداً کہے تو یہ باطل ہے کیونکہ یہ کفر ہے اور اگر شیطان نے بزور آپ کی زبان سے یہ کلمات جاری کرائے تو یہ بھی محال ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
ان عبادی لیس لک علیھم سلطن (الاسرائ : ٦٥) (اے شیطان) تجھے میرے خاص بندوں پر تسلط نہیں ہوسکتا۔
تو حضور پر بطریق اولیٰ تسلط نہیں ہوگا، یا سہواً اور غفلت کی وجہ سے یہ کلمات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے نکل گئے۔ یہ بھی باطل ہے کیونکہ وحی پہنچاتے ہوئے اس قسم کی غفلت آپ پر جائز نہیں ہے ورنہ شریعت سے بالکلیہ اعتماد اٹھ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
لایاتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ (ختم السجدہ : ٤٢) (قرآن میں) باطل نہ سامنے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے۔
یعنی غیر قرآن، قرٓن میں شامل نہیں ہوسکتا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون۔ (الجر : ٩) ہم نے قرآن مجید کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔ (مدارک التنزیل علی ہامش الخازن ج ٣ ص 313 پشاور)
امام فخر الدین محمد عمر رازی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں کہ یہ روایت قرآن، سنت اور عقلی دلائل سے باطل ہے پھر انہوں نے اس کے بطلان پر قرآن مجید کی سات آیات پیش کی ہیں اور سنت سے اس کے بطلان پر دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امام محمد بن اسحاق بن خزیمہ سے اس قصہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا یہ روایت زندیقوں نے گھڑی ہے اور اس پر انہوں نے ایک کاتب تصنیف کی اور امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے فرمایا یہ قصہ ازروئے روایت ثابت نہیں ہے اور انہوں نے اس روایت کے تمام رادیوں پر کلام کیا اور یہ واضح کیا کہ اس کے تمام راوی مطعون ہیں۔ نیز صحیح بخاری میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سورة النجم پڑھی جس کو سن کر تمام مسلمانوں، مشرکوں اور جن و انس نے سجدہ کیا اور اس میں غرانیق کا قصہ نہیں ہے۔ اس کے بعد امام رازی نے اس روایت کے بطلان پر پانچ عقلی دلیلیں قائم کی ہیں۔ پانچویں دلیل یہ ہے کہ اگر یہ جائز ہو کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قرآن پہنچانے میں شیطان آپ کی زبان سے وہ کلمات کہلوا دے جو قرآن نہیں ہیں تو شریعت سے بھروسہ اور اعتماد اٹھ جائے گا اور ہر آیت میں یہ احتمال ہوگا کہ شاید یہ غیر قرآن ہو اور یہ ہدایتہً باطل ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 237-238 مطبوعہ بیروت، 1415 ھ)
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے :
وان کا دوا لیفتنونک عن الذی اوحینآ الیک لتفتری علینا غیرہ، واذا لاتخذوک خلیلاً ۔ ولولا ان ثبتنک لقد کذت ترکن الیھم شیئاً قلیلاً ۔ (الاسراء :73-74) وہ آپ کو ہماری وحی سے لغزش دینے کے قریب تھے تاکہ آپ ہم پر کوئی بات گھڑ دیں اور اس وقت وہ ضرور آپ کو اپنا دوست بنا لیتے اور اگر ہم آپ کو مضبوط نہ رکھتے تو آپ ان کی طرف تھوڑا سامائل ہوجاتے۔
ان آیتوں کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اللہ پر افتراء باندھنے سے محفوظ اور عمصوم رکھا اور اس روایت میں ہے کہ آپ نے اللہ پر افتراء باندھا اور وہ بات کہی جو اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی۔ نیز یہ ہے کہ آپ نے کہا ” میں نے شیطان کی اطاعت کی اور اس کا کلام کہا “ لہٰذا یہ روایت صراحتاً ان آیتوں کے خلاف ہے اور ان کی ضد ہے۔ پس یہ روایت اگر سند تصحیح سے بھی وارد ہوتی تو مردود قرار دی جاتی اور جب فی الواقع اس کی سند صحیح نہیں ہے تو یہ کیونکر نہ مردود ہوگی۔ نیز علامہ قرطبی نے لکھا ہے کہ ہم اس روایت سے خدا کی پناہ مانگتے ہیں، اس کسی تاویل کی ضرورت نہیں ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص 75-76، دارالفکر بیروت)
علامہ ابوحیان اندلسی لکھے ہیں کہ ابن عطیہ، زمخشری اور بعض دوسرے مفسرین نے اس جگہ ایسی چیزیں لکھی ہیں جن کا وقوع عام مسلمانوں سے بھی نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ ان کی نسبت نبی معصوم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جائے جائے، جامع السیرۃ النبویہ امام محمد بن اسحاق سے اس قصہ کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ اس کو زندیقوں نے گھڑ لیا ہے اور اس پر انہوں نے ایک مستقل کتاب لکھی اور امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی نے فرمایا کہ ازروئے روایت یہ قصہ صحیح نہیں ہے اور اس کے تمام راوی مطعون ہیں اور صحاح اور حدیث کی دیگر معتبر کتب میں یہ قصہ نہیں ہے اور اس قصہ کو پھینک دیتا واجب ہے اس لئے میں نے اپنی کتاب کو اس قصہ کے ذکر سے پاک رکھا ہے۔ جن لوگوں نے اس قصہ کو نقل کیا ہے ان پر تعجب ہے کہ ایک طرف تو وہ قرآن مجید میں یہ آیات تلاوت کرت یہیں :
والنجم اذا ھویٰ ۔ ماض صاحبکم وما عوی۔ وما ینطق عن الھوی۔ ان ھو الا وحی یوحی۔ (النجم :1-4) قسم ہے روشن ستارے کی جب وہ زمین پر اترا تمہار آقا نہ کبھی گمراہ ہوئے اور نہ بےراہ چلے اور وہ اپنی خواہش سے کلام نہیں فرماتے۔ ان کا فرمانا صرف وحی سے ہوتا ہے جو ان کی طرف کی جاتی ہے۔ اور یہ آیت پڑھتے ہیں :
قل مایکون لی ان ابدلہ من تلقآی نفسی ان اتبع الا مایوحی الی (یونس : ١٥) مجھے حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے قرآن کو بدل دوں، میں صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر وحی کی جاتی ہے۔
اور ان آیات کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے یہ بھی منسوب کرتے ہیں کہ آپ نے قرآن مجید پہنچاتے ہوئے اس میں کچھ اور کلمات ملا دیئے۔ (البحر المحیط ج ٧ ص 526، دارالفکر، بیروت 1412 ھ)
علامہ آلوسی نے ص 264 سے لے کر ص 276 تک اس موضوع پر طویل بحث کی ہے اور حافظ ابن حجر عسقلانی اور شیخ ابراہیم کو رانی نے اس روایت کی جس قدر تاویلات بیان کی ہیں سب کا چن چن کر رد کیا ہے۔ اس بحث میں انہوں نے حصص الاتقیاء سے شیخ ابو منصور ماتریدی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ شیطان نے اپنے زندیق اور بےدین چیلوں کے دلوں میں تلک الغرانیق کا وسوسہ ڈالا ہے تاکہ وہ ضعیف مسلمانوں کو دین کے بارے میں شک و شبہ میں مبتلا کریں حالانکہ بارگاہ رسالت پناہ اس قسم کی خرافات سے بری ہے۔ (روح المعانی جز 17 ص 264-276، دارالفکر بیروت، 1417 ھ)
شیخ ابو منصور ماتریدی کی طرف قاضی عیاض نے بھی یہی لکھا ہے اور اس کی تائید میں حضرت ملا علی قاری نے یہ آیت پیش کی :
وکذلک جعلنا لکل نبی عدواً شیطین الانس والجن یوحی یعضھم الی بعض زخرف القول غروراً ولو شآء ربک مافعلوہ فذرھم ومایفترون۔ (الانعام :112) اور اسی طرح ہم نیہر نبی کا شیطان انس اور جن کو دشمن بنادیا، یہ ایک دوسرے کو ملمع کی ہوئی جھوٹی بات (لوگوں کو) بہکانے کے لئے پہنچاتے ہیں اور اگر آپ کا رب چاہتا تو وہ یہ کام نہ کرتے پس آپ انہیں اور ان کے بہتان کو چھوڑ دیں۔
اور امام مسلم نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ آخر زمانہ میں کچھ لوگ ایسی حدیثیں بیان کریں گے جن کو تم نے سنا ہوگا نہ تمہارے باپ دادا نے۔ تم ان سے دور رہو وہ تم سے دور رہیں تاکہ وہ تمہیں گمراہ کرسکیں نہ فتنہ میں ڈال سکیں۔ نیز آپ نے فرمایا : آخر زمانہ میں دجال اور کذاب ہوں گے وہ تم کو ایسی حدیثیں سنائیں گے جو تم نے سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے تم ان سے دور رہو وہ تم سے دور رہیں تاکہ وہ تم کو گمراہ کرسکیں نہ فتنہ میں ڈال سکیں۔ (شرح الشفاء ج ٤ ص 92، بیروت)
ان کے علاوہ دیگر مفسرین نے الحج :52 کی تفسیر میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
تنویر المقب اس، جامع البیان، کشاف، مدارک روح البیان جلالین در منثور جمل تفسیر مظہری اور تفاسیر شیعہ میں سے تبیان مجمع البیان اور قمی میں ان روایات پر اعتماد کیا گیا ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب سورة و النجم کی آیات تلاوت کر رہے تھے تو شیطان نے آپ کی زبان سے یہ کلمات کہلوا دیئے تلک الغرانیق العلی ان شفاعتھن ترنجی اور سورة کر رہے تھے تو شیطان نے آپ کی زبان سے یہ کلمات کہلوا دیئے تلک الغراینق العلی ان شفاعتھن ترتجی اور سورة الحج : ٥٢ کا یہ معنی کیا ہے ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی رسول اور نبی کو بھیجا تو جب اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کی تلاوت میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیا۔ اس کے برخلاف الجامع لاحکام القرآن القرطبی، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر ابن تلاوت میں اپنی طرف سے کچھ ملا دیا۔ اس کے برخلاف الجاعم لاحکام القرآن القرطی، احکام القرآن لابن العربی، تفسیر ابن کثیر، تفسیر ثعالبی، احکام القرآن للجصاص، غرائب القرآن و رغائب الفرقان، زاد المسیر، فتح البیان اور تفسیر منیر میں ان روایتا کو مسترد کردیا ہے اور برسبیل تنزل ان کی یہ توجیہ کی ہے کہ جب آپ نے تلاوت کے دوران وقفہ کیا تو شیطان نے آپ کی آواز مسترد کردیا ہے اور برسبیل تنزل ان کی یہ توجیہ کی ہے کہ جب آپ نے تلاوت کے دوران وقفہ کیا تو شیطان نے آپ کی آواز مسترد کردیا ہے اور برسبیل تنزل ان کی یہ توجیہ کی ہے کہ جب آپ نے تلاوت کے دوران وقفہ کیا تو شیطان نے آپ کی آواز مسترد کردیا ہے اور برسبیل تنزل ان کی یہ توجیہ کی ہے کہ جب آپ نے تلاوت کے دوران وقفہ کیا تو شیطان نے آپ کی آواز کے مشابہ آواز بنا کر اس وقفہ میں یہ کہا تلک الغرانیق العلی، ان شفاعتھن ترتجی اور سننے الوں نے یہ سمجھا کہ آپ نے یہ کلمات فرمائے ہیں اور تفسیر مراغی، نظم الدرر اور تفسیر صاوی نے سورة حج : ٥٢ کا یہ معنی کیا ہے ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی رسول یا نبی کو بھجیا تو اس نے تلاوت کو تو شیطان نے اس کے سننے والوں کے دلوں میں اس تلاوت کے خلاف جب بھی کسی رسول یا نبی کو بھیجا تو اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کے سننے والوں کے دلوں میں اس تلاوت کے خلاف جب بھی کسی رسول نبی کو بھیجا تو اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کے سننے والوں کے دلوں میں اس تلاوت کے خلاف جب بھی کسی رسول یا نبی کو بھیجا تو اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کے سننے والوں کے دلوں میں اس تلاوت کے خلاف جب بھی کسی رسول یا نبی کو بھیجا تو اس نے تلاوت کی تو شیطان نے اس کے سننے والوں کے دلوں میں اس تلاوت کے خلاف شبہات ڈال دیئے اور البحرالمحیط، تفسیر بیضاوی، خفا جی، تفسیر مدارک، خازن، روح المعانی، تفسیر کبیر، الاساس فی التفسیر، المحرر الوجزی، اضوء البیان، تفسیر قاسمی، الجواہر للطنطاوی، فی ظلال القرآن، فتح القدیر اور تفاسیر شیعہ میں سے منہج الصادقین اور تفسیر نمونہ میں ان روایات کو بہ کثرت دلائل سے مسترد کردیا ہے اور سورة حج : ٥٢ کا یہ معنی کیا ہے : ہم نے آپ سے پہلے جب بھی کسی رسول اور نبی کو بھیجا اور اس نے (اپنی امت کے بڑھنے کی) تمنا کی تو شیطان نے (لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈال کر) اس تمنا میں خلل ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کے وسوسوں کو مٹا دیا اور اپنی آیات کو محکم کردیا اور ہمارے نزدیک یہی تفسیر صحیح ہے اور جن اہل سنت مفسرین اور مترجمین نے اس کے خلاف ترجمہ اور تفسیر کی ہے وہ صحیح القعیدہ علماء ہیں اگر وہ بھی زیادہ غور و خوض سے کام لیتے اور زیادہ تحقیق اور جستجو کرتے تو امید ہے کہ وہ بھی اسی ترجمہ اور تفسیر کو اختیار کرتے۔
ایک شبہ کا ازالہ
ہم نے اس روایت کی فنی نوعیت واضح کی ہے اور جلیل القدر محدثین اور مفسرین کی آراء بھی بیان کی ہیں جن سے اس روایت کا من گھڑت اور جھوٹ ہونا واضح ہوگیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس روایت کی یہ تاویل کی ہے کہ شیطان نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مشابہ آواز میں یہ کلمات کہے اور سننے والوں نے یہ سمجھا کہ آپ نے یہ کلمات فرمائے ہیں۔ اس جواب کو بعض علماء نے اپنی تصانیف میں نقل کیا ہے لیکن یہ جواب اس لئے صحیح نہیں ہے کہ جس طرح شیطان آپ کی مثل نہیں بن سکتا، اسی طرح آپ کی آواز کی مث بھی نہیں بنا سکتا، کیونکہ مماثلت کی نفی یا اس وجہ سے ہے کہ ہدایت اور گمراہی میں اشتباہ نہ ہو یا تعظیم کی وجہ سے ہے اور اگر شیطان آپ کی آواز کی مثل پر قادر ہو تو یہ تعظیم کے خلاف ہے اور اگر شیطان آپ کی آواز کی نقل اتار سکے اور لوگ شیطان کی آواز کو آپ کی آواز سمجھ لیں تو ہدایت گمراہی کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گی۔ بعض علماء نے اس پر اس سے استدلال کیا ہے کہ وگ شیطان کی آواز سنتے تھے کیونکہ جنگ بدر میں شیطان نے کفار سے کہا تھا کہ ” لاغالب لکم الیوم “ اور جنگ احد میں شیطان نے آواز دی تھی کہ ” حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شہید ہوئے “ لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ یہاں شیطان کی آواز، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مشابہ تھی نہ کسی نے اس کی آواز کو آپ کے مشابہ سمجھا تھا پھر اس سے اس پر کیسے استدلال ہوسکتا ہے کہ شیطان آپ کی آواز کی مشابہت کرسکتا ہے۔
میرے نزدیک چونکہ یہ روایت بارگاہ رسالت کی عظمتوں کے منافی تھی، اس لئے میں نے اس کے ردا اور ابطال میں کافی تفصیل اور تحقیق سے گفتگو کی ہے۔ میں اس پر بہت عرصہ سے غور و فکر کرتا رہا ہوں۔ سب سے پہلے میں نے یہ بحث ابریز میں پڑھی جس میں سیدی غوث عبدالعزیز دباغ قدس سرہ نے اس روایت کو باطل اور موضوع قرار دیا اور سورة حج کی زیر بحث آیت : ٥٢ کا صحیح محمل بیان کیا۔ اس کے بد میں اس پر مسلسل مطالعہ کرتا رہا۔ میں نے اپنے معاصر علماء سے اس روایت کے بارے میں مذاکرہ بھی کیا، میں نے دیکھا کہ حافظ ابن حجر عسقلانی کی اتباع میں بعض جید علماء نے بھی اس موضوع روایت کو اس باطل تاویل کے سہارے اختیار کرلیا ہے جس کو ابیھ ہم نے حافظ ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ تاہم یہ علماء صحیح العقیدہ ہیں اور ان کی نیت فاسد نہیں ہے صرف روایت پرستی کے روگ کی وجہ سے انہوں نحے اس روایت کو اس باطل تاویل کے ساتھ اپنی تصانیف میں درج کردیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور مصنف کے دل میں محبت رسول کو اور زیادہ کر دے۔ اے اللہ ! تو گواہ کہ میں شخصیت پرست نہیں ہوں، اللہ اور اس کے رسول کی حرمت سے بڑھ کر مجھے کسی کی حرمت عزیز نہیں ہے۔ میں نے جو یہ سعی کی ہے وہ صرف اور صرف مقام رسول کے تحفظ کی خاطر کی ہے۔ اے اللہ ! اس کوشش کو قبول فرما اور اس کو مصنف کے لئے توشہ آخرت اور مغفرت اور رحمت کا ذریعہ بنا دے، مصنف کو بیش از بیش خدمت دین کی توفیق دے اور اس کا ایمان پر خاتمہ فرما اور دین کی نعمتیں اور سعادتیں اس کا مقدر کر دے۔
آمین یا رب العالمین ! والحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی محمد سید المرسلین خاتم النبین علیہ و علی آلہ و اصحابہ و ازواجہ و اولیاء امتہ و علماء ملتہ اجمعین۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 52