يٰۤـاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوۡا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعۡمَلُوْا صَالِحًـا ؕ اِنِّىۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 51
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰۤـاَيُّهَا الرُّسُلُ كُلُوۡا مِنَ الطَّيِّبٰتِ وَاعۡمَلُوْا صَالِحًـا ؕ اِنِّىۡ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ عَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرتے رہو، بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے وال ہوں۔ (المومنون : ٥١ )
تمام رسولوں سے بیک وقت خطاب کرنے کی توجیہ
اس آیت میں بہ ظاہر تمام رسولوں سے خطاب ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ تمام رسولوں کو الگ الگ قوموں کی طرف الگ الگ زمانوں میں مبعوث کیا گیا ہے پھر تمام رسولوں کی طرف یہ خطاب کس طرح متوجہ ہوگا، اس اشکال کے حسب ذیل جوابات ہیں۔
(١) اس آیت کا محمل یہ ہے کہ ہر رسول کے ساتھ اس کے زمانہ میں یہ خطاب کیا گیا اور اس کو یہ ندا اور وصیت کی گئی اور یہاں پر اس کو جمع کے صیغے سے اس لئے ذکر کیا گیا ہے تاکہ سننے والا یہ جان لے کہ یہ وہ حکم ہے جو تمام رسولوں کو دیا گیا اور سب کو اس حکم کی وصیت کی گئی ہے اس لئے یہ حکم اس لائق ہے کہ اس پر مضبوطی کے ساتھ دائما عمل کیا جائے۔
(٢) اس آیت میں الرسل سے مراد ہمارے رسول ہیں کیونکہ تمام رسولوں کے ذکر کے بعد آپ کا ذکر کیا گیا اور آپ کو جمع کے صیغہ الرسل سے اس لئے تعبیر فرمایا کہ ہرچند کہ آپ واحد رسول ہیں لیکن آپ تمام رسولوں کی صفات محمودہ کے جامع اور تمام رسولوں کے کمالات کو محیط ہیں۔
(٣) یہ حکم ہمارے رسول کو دیا گیا ہے اور تمام رسولوں کے ساتھ اس لئے تعبیر فرمایا کہ اگر تمام رسول اس وقت حاض ر اور مجتمع ہوتے تو ان سے بھی یہی خطاب کیا جاتا تاکہ ہمارے رسول یہ جان لیں کہ اس حکم کا بوجھ صرف آپ پر نہیں ہے بلکہ یہ حکم تمام انبیاء (علیہم السلام) کو لازم رہا ہے۔
(٤) ایک قول ہے کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہیں لیکن پہلا قومل زیادہ صحیح ہے۔
اپنی حلال کمائی سے کھانے کی ترغیب اور ناپاک اور حرام چیزیں کھانے کی ترہیب (ممانعت)
اس آیت میں پاک چیزوں سے کھانے کا حکم دیا گیا ہے اور پاک چیزوں سے مراد حلال چیزیں ہیں اور سب سے زیادہ حلال چیز وہ ہے جس کو انسان نے اپنے کسب اور محنت سے حاصل کیا ہو۔ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) باین کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اس نے بکریاں چرائی ہیں آپ کے اصحاب نے پوچھا اور آپ نے ؟ فرمایا : ہاں میں چند قیراط کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٢٦٢، دارارقم بیروت)
قیراط سے مراد درہم یا دینار کا ایک جز ہے آپ ہر بکری کو چرانے کا ایک قیراط لیتے تھے۔ (فتح الباری ج ٥ ص ١٩٩ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت مقدام (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی شخص نے بھی اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر طعام نہیں کھایا اور اللہ کے نبی دائود اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٢ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٨ مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٣٢٢)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص لکڑیاں کاٹ کر اس کا گھٹا اپنی پشت پر لاد کر لائے وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے وہ اس کو دیں یا منع کردیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٤ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٤٢ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٨٤ مسند احمد رقم الحدیث ٧٣١٥ عالم الکتب بیروت) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پاک اور حلال چیزوں کے کھانے کا حکم دیا ہے اور یہ حکم اس حکم کو متضمن ہے کہ ناپاک اور حرام چیزیں نہ کھائی جائیں۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ روسل اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لوگو ! بیشک اللہ طیب ہے اور وہ سوا طیب اور طاہر چیز کے کسی چیز کو قبول نہیں کرتا (طاہر کا معنی ہے وہ چیز فی نفسہ حلال ہو اور طیب کا معنی ہے وہ چیز حلال ذرائع سے حاصل کی گئی ہو مثلاً چوری کا دودھ فی نفسہ حلال ہے لیکن حلال ذریعہ سے حاصل نہیں ہوا اس لئے وہ طاہر ہے طیب نہیں ہے اور انسان دودھ خرید کر لائے اور اس میں کوئی ناپاک چیز گرجائے تو وہ دودھ طیب تو ہے لیکن طاہر نہیں ہے) اور بیشک اللہ نے مسلمانوں کو اسی چیز کا حکم دیا ہے جس چیز کا حکم اس نے اپنے رسولوں کو دیا ہے اس نے فرمایا :
یا یھا الرسل کلوا من الطیبات و اعملوا صالحاً انی بما تعملون علیم۔ (المومنون : ٥١) اے رسولو ! پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرتے روہو بیشک تم جو بھی کام کرتے ہو میں اس کو خوب جاننے والا ہوں۔ اور فرمایا :
یایھا الذین امنوا کلوا من طیبت مارزقنکم (البقرۃ : ١٧٢) اے ایمان والو ! ان پاک چیزوں میں سے کھائو جو ہم نے تم کو دی ہیں۔
پھر آپ نے اس شخص کا ذکر فرمایا جو دور دراز کا سفر طے کر کے آتا ہے اس کے بال بکھرے ہوئے اور غبار آلود ہوتے ہیں وہ آسمان کی طرف دونوں ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے اے میرے رب ! اے میرے رب ! اس کا کھانا حرام ہوتا ہے اور اس کا پینا حرام ہوتا ہے اور اس کا لباس حرام ہوتا ہے اس کی غذا حرام ہوتی ہے تو اس کی دعا کہاں سے قبول ہوگی ؟ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٥ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٩٨٩ مسند حمد ج ٢ ص ٣٢٨ )
عبدالوہاب بن ابی حفص بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) شام کو روزے سے تھے افطار کے وقت ان کے پینے کے لئے دودھ لایا گیا، انہوں نے پوچھا تمہارے پاس یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ کہا یہ ہماری بکریوں کا دودھ ہے، آپ نے پوچھا اس کی قیمت کہاں سے آئی انہوں نے پوچھا تمہارے پاس یہ دودھ کہاں سے آیا ؟ کہا یہ ہماری بکریوں کا دودھ ہے، آپ نے پوچھا اس کی قیمت کہاں سے آئی، انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی آپ یہ سوال کیوں کر رہے ہیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے ہم رسولوں کی جماعت کو یہ حکم دیا ہے کہ ہم پاک چیزوں سے کھائیں اور نیک عمل کریں۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٦٩ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)
ام عبداللہ بنت شداد بن اوس (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) روزہ سے تھے میں نے آپ کے افطار کے لئے ایک پیالہ میں دودھ بیھجا، اس وقت ابتدائی دن کا وقت تھا اور شدید گرمی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وہ پیالہ واپس کردیا اور پوچھا جس بکری کا یہ دودھ ہے وہ بکری کہاں سے آئی ہے ؟ میں نے کہا میں نے اپنے مال سے خریدی تھی، تب آپ نے اس دودھ کو پیا، دور سے دن صبح کو ام عبداللہ بنت شدادا آپ کے پاس آئیں اور کہا یا رسول اللہ ! میں نے آپ کے پاس بہت اچھا دودھ بھیجا تھا وہ دن بہت طویل اور سخت گرم تھا، پھر آپ نے وہ دودھ میری طرف واپس بھیج دیا تھا، آپ نے فرمایا رسولوں کو اسی بات کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ سوا طیب چیزوں کے اور کچھ نہ کھائیں اور سوا نیکی کے اور کوئی عمل نہ کریں۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢٧٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٩ ھ حاظ ابن کثیر نے یہ حدیث امام ابن ابی حاتم کی سند سے ذکر کی ہے لیکن مطبوعہ تفسیر امام ابن ابی حاتم میں یہ حدیث نہیں ہے اور امام رازی نے اس حدیث کو بلا حوالہ نقل فرمایا ہے، تفسیر کبیرج ٨ ص ٢٨١ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤١٥ ھ اور حیدث کی کسی کتاب میں ہم کو یہ حدیث نہیں ملی)
حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے طیب چیز کو کھایا اور سنت کے مطابق عمل کیا اور لوگوں کو اپنے مظالم سے محفوظ رکھا وہ جنت میں ہوگا۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٥٢ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٥ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ کو نسی چیز لوگوں کو جنت میں داخل کرنے کا زیادہ سبب ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا ڈر اور اچھے اخلاق اور آپ سے سوال کیا گیا کہ کو نسی چیز لوگوں کو دوزخ میں داخل کرنے کا زیادہ سبب ہے ؟ آپ نے فرمایا شرم گاہ اور منہ۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٥٦ )
حضرت عقبہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہوگا جو اس مال سے حاصل کیا گیا ہو جو لوگوں کا حق مار کر اور انہیں نقصان پہنچا کر حاصل کیا گیا ہو۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٥٧ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو وہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں اس چیز کو ڈالے جس کو اللہ عزو جل نے حرام کردیا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٦٣ )
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں حضرت ابوبکر ضری اللہ عنہ کا ایک غلام تھا جو ان کے لئے کچھ مال کما کر لاتا تھا آپ سے کہا کیا آپ کو یہ معلوم ہے کہ یہ کیا چیز ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا بتا کیا چیز ہے ؟ اس نے کہا میں زمانہ جاہلیت میں کاہنوں (نجومیوں) کا کام کرتا تھا اور مجھے یہ کام اچھی طرح نہیں آتا تھا، مگر میں لوگوں کو فریب دیتا تھا، آج مجھے ایک شخص ملا جس نے مجھے اس کام کا معاوضہ دیا جس سے آپ نے کھایا، حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ حلق میں ڈالا اور حسب ذیل حدیث میں اس کی زیادہ وضاحت ہے :
حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ان کے پاس ان کا ایک غلام طعام لے کر آیا انہوں نے اس میں سے ایک لقمہ کھالیا، پھر پوچھا تم نے یہ طعام کیسے حاصل کیا تھا اس نے کہا میں زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا پادری تھا انہوں نے مجھے کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا، آج انہوں نے مجھے یہ طعام دیا تھا آپ نے فرمایا میں یہی گمان کرتا ہوں کہ تم نے مجھے اس طعام سے کھلایا ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کردیا ہے، پھر آپ نے لحق میں انگلیاں ڈال کر قے کردی پھر فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو گوشت لقمہ حرام سے بنا وہ دوزخ کے زیادہ لائق ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٦١ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 51