أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ الۡمُحۡصَنٰتِ ثُمَّ لَمۡ يَاۡتُوۡا بِاَرۡبَعَةِ شُهَدَآءَ فَاجۡلِدُوۡهُمۡ ثَمٰنِيۡنَ جَلۡدَةً وَّلَا تَقۡبَلُوۡا لَهُمۡ شَهَادَةً اَبَدًا‌ ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر ( اس کے ثبوت میں) چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو تم ان کو اسّی کوڑے مارو اور ان کی شہادت کو کبھی بھی قبول نہ کرو، اور یہی لوگ فاسق ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر (اس کے ثبو میں) چار گواہ نہ پیش کرسکیں تو تم ان کو اسی (٨٠) کوڑے مارو اور ان کی شہادت کو کبھی بھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں سوا ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بےحد مہربان ہے (النور : ٥۔ ٤)

قذف کا لغوی معنی 

علامہ سید مرتضیٰ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ قذف کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قذف بالحجارۃ کا معنی ہے پتھر پھینکنا اور قذف المحصنۃ کا معنی ہے پاک دامن عورت کو زنا کی تہمت لگانا اور یہ مجاز ہے اور ایک قول یہ ہے کہ قذف کا معنی ہے گالی دینا اور حدیث میں ہے کہ ہلال بن امیہ نے اپنی بیوی کو شریک کے ساتھ تہمت لگائی، اصل میں قذف کا معنی ہے پھینکنا پھر یہ لفظ گالی دینے اور زنا کی تہمت میں استعمال ہوا۔ (تاج العروس ٦ ص ٢١٧، مصر)

قذف شرعی معنی 

علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی ٩٧٠ ھ قذف کا اصلاحی معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں : قذف کا شرعی معنی ہے کسی محصن (مسلمان پاک دامن) کو زنا کی تہمت لگانا اور فتح القدیر میں ہے : اس پر اجماع ہے کہ حد کا تعلق اس کے ساتھ ہے کیونکہ قرآن مجید ہے :” جو لوگ محصنات (مسلمان اور پاک دامن) عورتوں کو زنا کی تہمگ لگائیں اور پھر اس پر چر مرد گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی (٨٠) کوڑے مارو “ اسی آیت میں لفظ رمی سے زنا کی تہمت مراد ہے حتیٰ کہ اگر کسی شخص کو دیگر گناہوں کی تہمت لگائی تو اس پر حد قذف واجب نہیں ہوگی بلکہ تعزیر واجب ہوگی، اور اس آیت میں جو چار گواہ نہ لانے کی شرط لگائی ہے اس سے زنا کی تہمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ صرف زنا کے ثبوت کے لئے چار گواہوں کی ضرورت ہے۔ ہرچند کہ اس آیت میں محصنات کا لفظ ہے جو مونث کا صیغہ ہے لیکن یہ حکم مردوں کو بھی شامل ہے اور یہ بات نہیں کہ صرف عورت کو زنا کی تہمت لگانے سے حد قذف واجب ہوتی ہے بلکہ مسلمان اور پاک دامن عورت یا مرد جس کو بھی زنا کی تہمت لگائی گئی اور اس کے ثبوت میں چار گواہ نہ لائے جاسکیں تو تہمت لگانے والے پر حد قذف واجب ہوگی۔ (البحر الرائق ج ٥ س ٣٠۔ ٢٩، مطلبوعہ مصر، ١٣١١ ھ)

قرآن مجید کی روشنی میں قذف کا حکم 

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :

………(النور : ٤)

اور جو لوگ مسلمان پاک دامن عورتوں کو (زنا کی) تہمت لگائیں پھر چار مرد گواہ نہ لائیں ان کو اسی (٨٠) کوڑے لگائو اور ان کی گواہی کو قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں۔ 

………(النور : ٢٣ )

بے شک جو لوگ پاک دامن بیخبر ، مسلمان عورتوں کو (زنا کی) تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی ہے اور ان کے لئے عذابِ عظیم ہے۔ 

احادیث کی روشنی میں قذف کا حکم 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو۔ صحابہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا : اللہ کے ساتھ شرک کرنا، جادو کرنا، جس شخص کے قتل کو حق کے سوا اللہ نے حرام کیا ہے اس کو ناحق قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے دن پیٹھ موڑنا اور پاک دامن مسلمان بیخبر عورت کو زنا کی تہمت لگانا۔ 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٧٦٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٦٧١، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٣٦١ )

امام ابو دائود روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب میری برأت نازل ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے اور قرآن مجید کی تلاوت کی اور منبر سے اترنے کے بعد آپ نے دو مردوں اور ایک عورت پر حد لگانے کا حکم دیا سو ان کو حد لگائی گئی۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٧٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٨٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٦٧ )

……………(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٧٥)

محمد بن اسحاق نے بھی اس حدیث کو روایت کیا اور کہا جن دو مردوں اور ایک عورت نے تہمت لگائی تھی آپ نے ان کو حد قذف لگانے کا حکم دیا، حسان بن ثابت اور مسطح بن اثاثہ اور عورت حمنہ بنت حجش تھیں۔ 

احصان کی شرائط میں مذاہب فقہاء 

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ جب کوئی مکلف شخص محصن کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حد قذف واجب ہوتی ہے اور احصان کی پانچ شرائط ہیں :

(١) عقل (٢) حریت (٣) اسلام (٤) زنا سے پاک دان ہونا (٥) وہ شخص اتنا بڑا ہو کہ جماعت کرسکتا ہو یا اس سے جماع کیا جاسکتا ہو۔ 

تمام متقدمین اور متاخرین علماء نے احصان میں ان شرائط کا اعتبار کیا ہے۔ البتہ دائود ظاہری نے یہ کہا ہے کہ غلام کو تہمت لگانے سے بھی حد واجب ہوگی۔ امام احمد سے بلوغ کے متعلق مختلف روایات منقول ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ شرط ہے، امام شافعی، ابو ثور اور فقہاء احناف کا بھی یہی قول ہے کیونکہ بلوغ مکلف ہونے کی ایک شرط ہے اس لئے عقل کے مشابہ ہے اور اس لئے کہ بچہ کے زنا سے حد واجب نہیں ہوتی اس لئے اگر بچہ کسی کو زنا کی تہمگ لگائے تو اس پر حد بھی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری روایت یہ ہے کہ بلوغ کی شرط نہیں ہے کیونہ وہ آزاد، صاحب عقل اور پاک دامن ہے اور اس تہمت سے اس کو عار لاھق ہوتا ہے اور اس قول کا صدق ممکن ہے اس لئے وہ بڑے شخص کے مشابہ ہے یہ امام مالک اور اسحاق کا قول ہے، اس روایت کی بناء پر اس کو کم از کم اتنا بڑا ہونا چاہیے جو جماع کرسکتا ہو اور لڑکا کم از کم دس سال کا اور لڑکی نو سال کی ہو۔ (المغنی مع الشرح الکبیر ج ١٠ ص ١٩٤، دار الفکر بیروت، ، ١٤٠٤ ھ)

احصان کی شرائط میں مذہب احناف 

علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی لکھتے ہیں :

احصان یہ ہے کہ جس شخص کو تہمت لگائی گئی ہے وہ (ا) آزد، (٢) عاقل (٣) بالغ (٤) مسلمان اور (٥) زنا کے فعل سے پاک دان ہو۔ آزاد ہونے کی شرط اس لئے ہے کہ قرآن مجید میں آزاد پر احصان کا اطلاق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

………(النساء : ٢٥ )

ان لونڈیوں کی سزا آزاد عورتوں کی نصف ہے۔ 

اور عقل و بلوغ کی شرط اس لئے ہے کہ بچہ اور مجنون کو زنا کی تہمت سے عار لاحق نہیں ہوتا کیونکہ ان سے فعل زنا کا تحقق نہیں ہوتا اور اسلام کی شرط اس لئے ہے کہ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

…………(سنن دار قطنی) 

جس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا وہ محصن نہیں ہے۔ 

اور زنا سے پاک دامن ہونے کی شرط اس لئے ہے کہ جو پاک دامن نہ ہو اس کو عار لاحق نہیں ہوگا اور تہمت لگانے والا اس تہمت میں سچا ہوگا۔ 

کوڑے مارنے کا حکم 

علامہ المرغینانی لکھتے ہیں : امام کو ایسے کوڑے کے ساتھ مارنے کا حکم دینا چاہیے جس میں گرہ یا پھل نہ ہوں ( یعنی درخت کی ایسی شاح سے مارا جائے جس میں گرہ نہ ہو اور نہ پھل ہوں) اور متوسط ضرب کے ساتھ مارنا چاہیے، کیونکہ حضرت علی (رض) جب کورے مارنے لگے تو انہوں نے درخت کی شاخ سے پھل کاٹ دئیے اور متوسط ضرب وہ ہوتی ہے کہ نہ تو اس سے چوٹ کا نشان پڑے اور نہ ایسی ضرب ہو جس سے بالکل تکلیف نہ ہو، کیونکہ پہلی صورت میں ہلاکت کا خدشہ ہے اور دوسری صورت میں کوڑے لگانے کا مقصد فوت ہوجائے گا، مجرم جس کے کوڑے لگائے جائیں اس کے کپڑے اتار لئے جائیں اور صرف چادر (تہبند) باقی رہے اور اس کے جسم کے تفرق اعضاء پر کوڑے مارے جائیں کیونکہ ایک جگہ کوڑے مارنے سے اس کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور اس کے سر، چہرہ اور شرمگاہ پر کوڑے نہ مارے جائیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حد لگانے والے سے فرمایا اس کے چہرے اور شرمگاہ سے اجتناب کرو، تمام حدود میں مجرم کو کھڑا کرکے کوڑے مارے جائیں کیونکہ حضرت علی نے فرمایا : مردوں کو کھڑا کرکے کورے ماریں، کوڑے مارتے وقت کوڑے مارنے والا کوڑے کو اپنے سرے سے اوپر نہ اٹھائے۔ کوڑے مارے جانے میں مرد اور عورت کے مساوی احکام ہیں۔ البتہ عورت کے صرف فالتون کپڑے اتارے جائیں گے سارے کپڑے اتار کر یا صرف تہبند میں حد نہیں لگائی جائے گی اور اس کو بٹھا کر حد لگائی جائے گی۔ (ہدایہ اولین ٤٩٠۔ ٤٨٩، ملتان)

علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں کہ کوڑے مارنے کے لئے درخت کی ایسی شاخ لی جائے جس میں کوئی گرہ ہو نہ کوئی پھل ہو، نہ وہ سوکھی ہوئی خشک شاخ ہو، اگر وہ خشک شاخ ہو تو اس کو چھیل کر نرم کرلیا جائے۔ کیونکہ امام ابن ابی شیبہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر ضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ حکم کیا جاتا تھا کہ درخت کی شاح سے پھل کاٹ لئے جائیں پھر اس کو دو پتھروں کے درمیان رکھ کے کوٹ کر نرم کیا جائے پھر اس سے کوڑے لگائے جاتے۔ علامہ بن ہمام کہتے ہیں کہ خلاصہ یہ ہے کہ ایسی شاخ میں کوئی گرہ یا پھل ہو، کیونکہ امام عبد الرزاق نے اپنی سند کے ساتھ حضرت یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ ! میں نے لائق حد رم کیا ہے مجھ پر حد جاری کیجئے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیکوڑا منگوایا تو ایک سخت ٹہنی لائی گئی جس میں پھل تھے آپ نے فرمایا اس سے کم لائو پھر ایک نرم شاخ لائی گئی آپ نے فرمایا اس سے کچھ زیادہ لائو، پھر ایک درمیانی شاخ لائی گئی۔ آپ نے فرمایا یہ ٹھیک ہے پھر آپ نے اس سے کوڑے مارنے کا حکم دیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ متوسط شاخ سے کوڑے لگائے جائیں۔ (فتح القدیر ج ٥ ص ١٦۔ ١٥، سکھر)

خلاصہ یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک آزاد، عاقل، بالغ، مسلمان اور پاک دامن مرد یا عورت پر کسی مکلف نے زنا کی تہمت لگائی اور اس پر چار گواہ نہیں پیش کئے تو اس پر اسی (٨٠) کوڑے حد لازم ہوگی۔ 

جس پر حد قذف لگ چکی ہو اس کی شہادت قبول کرنے میں اختلاف فقہاء 

جو شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگائے پھر اس پر چار گواہ نہ پیش کرسکے اس کے متعلق تین حکم بیان فرائے۔ ایک یہ کہ اس کو اسی (٨٠) کورے مارو، دوسرا یہ کہ ان کی شہادت کو کبھی قبول نہ کرو اور تیسرا یہ کہ وہی فاسق ہیں۔ اس کے بعد فرمایا سوا ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ 

اس پر اجماع ہے کہ اس استثناء کا تعلق کوڑے مارنے کی سزا کے ساتھ نہیں ہے یعنی اگر کسی شخص نے تہمت لگانے کے بعد اس تہمت سے رجوع کرلیا اور یہ کہا کہ میں نے جھوت بولا تھا تو اس کو پھر بھی اسی (٨٠) کوڑے مارے جائیں گے۔ البتہ اس میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اس توبہ کے بعد اس کی شہادت قبول کی جائے گی یا نہیں۔ قاضی شریح، ابراہیم نخعی، حسن بصری، سفیان ثوری ور امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کا مسلک یہ ہے کہ اس کی توبہ اب بھی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کی شہادت کو کبھی بھی قبول نہ کرو اور اس سے استثناء کا تعلق توبہ قبول نہ کرنے کے ساتھ ہے یعنی تہمت لگانے کے بعد اس نے توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی تو پھر اس کی شہادت قبول کی جائے گی۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٢ ١٦٥، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

ائمہ ثلاثہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ صحیح بخاری میں ہے :

حضرت ابو بکرہ، شب بن معبد اور نافع نے حضرت مغیرہ بن شعبہ پر زنا کی تہمت لگائی تھی، حضرت عمر (رض) نے ان تینوں کو اسی، اسی (٨٠، ٨٠) کوڑے مارے کیونکہ یہ چار گواہ نہیں پیش کرسکے تھے۔ پھر فرمایا کہ جو ان میں سے توبہ کرلے گا اس کی شہادت قبول کرلی جائے گی۔ شبل اور نافع نے اپنے آپ کو جھوٹا قرار دیا اور حضرت ابوبکرہ (رض) اپنے قول پر قائم رہے۔ (صحیح البخاری کتاب الشہادات)

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

زہری نے عید بن مسیب سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوبکرہ، نافع اور شبل نے حضرت مغیرہ کے خلاف زنا کی شہادت دی اور زیادہ ابن ابو سفیان نے ان کی شہادت کے خلاف شہادت دی، حضرت عمر نے ان تینوں کو کوڑے مارے اور فرمایا تم میں سے جس نے اپنی شہادت سے رجوع کرلیا اس کی شہادت قبول کرلی جائے گی۔ حضرت ابوبکرہ نے اپنی شہادت سے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔ 

ان چاروں نے حضرت مغیرہ کو الرقطاء ام جمیل بنت عمرو الھلالیہ کے پیٹ کے اوپر دیکھا، انہوں نے جا کر حضرت عمر سے شکایت کی حضرت عمر نے حضرت مغیرہ کو معزول کردیا اور ان کی جگہ حضرت ابو موسیٰ کا بصرہ کا گورنر بنادیا، اور حضرت مغیرہ کو حاضر کیا گیا۔ اول الذکر تینوں نے ان کے خلاف زنا کی شہادت دی اور زیاد بن ابو سفیان نے قطعی شہادت نہیں دی اور کہا میں نے بہت قبیح منظر دیکھا تھا اور میں نہیں جانتا کہ انہوں نے یہ فعل کیا تھا یا نہیں، تب حضرت عمر نے ان تینوں پر حد قذف جاری کی۔ حاکم نے المستدرک میں روایت کیا ہے کہ زیاد نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو ایک لحاف میں دیکھا میں نے ان کا زور زور سے سانس سنا اور اس کے بعد کیا ہوا اس کا مجھے پتہ نہیں۔ (فتح الباری ج ٥ ص ٥٨٤۔ ٥٨٣، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 4