أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ يَرۡمُوۡنَ اَزۡوَاجَهُمۡ وَلَمۡ يَكُنۡ لَّهُمۡ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنۡفُسُهُمۡ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمۡ اَرۡبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ‌ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ اپنی بیویوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا اور کوئی گواہ نہ ہوں، تو ان میں سے کسی ایک شخص کو گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ بیشک وہ ضرور سچوں میں سے ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور جو لوگ اپنی بیویوں کو زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا اور کوئی گواہ نہ ہوں، تو وہ ان میں سے کسی ایک شخص کو گواہی یہ ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر یہ کہے کہ بیشک وہ ضرور سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو اور عورت سے حد زنا اس طرح دور ہوسکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر کہے کہ بیشک اس کا خاوند ضرور جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اس پر اللہ کا عذاب نازل ہو اگر وہ (خاوند) سچوں میں سے ہو اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی (تو تم پر فوراً عذاب نازل ہوجاتا) اور بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا بہت حکمت والا ہے (النور : ١٠۔ ٦)

لعان کے متعلق احادیث 

حضرت سہل بن سعد الساعدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عویمر العجلانی حضرت عاصم بن عدی انصاری کے پاس گئے اور ان سے کہا اے عاصم ! یہ بتائو اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پائے تو آیا وہ اس کو قتل کردے ؟ پھر تم اس شخص کو قتل کردو گے ؟ یا پھر وہ شخص کیا کرے ؟ اے عاصم ! تم میر خاطر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسئلہ کا حل دریافت کرو، پھر حضرت عاصم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس مسئلہ کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے اس سوال کو مکروہ جانا اور اس کی مذمت کی۔ حتیٰ کہ حضرت عاصم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو جواب سنا اس سے انہیں بہت رنج ہوا جب حضرت عاصم اپنے گھر پہنچے تو حضرت عویمر ان کے پاس آگئے اور ان سے پوچھا اے عاصم ! تم سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا ؟ حضرت عاصم نے حضرت عویمر سے کہا میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے جو سوال کیا تھا آپ نے اس کو ناپسند کیا۔ حضرت عویمر نے کہا اللہ کی قسم ! جب تک میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کود نہ پوچھ لوں اس وقت تک میں خاموش نہیں رہگا گا، پھر حضرت عویمر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور لوگوں کے درمیان جا کر بیٹھ گئے اور کہا یا رسول اللہ یہ بتائیے کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ ایک مردو کو پائے تو آی اوہ اس کو قتل کردے ؟ پھر آپ لوگ اس کو قتل کردیں گے تو پھر وہ شخص کیا کرے ؟ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے اور تمہاری بیوی کے متعلق اللہ کا حکم نازل ہوگیا ہے جائو اس کو لے کر آئو۔ سہل نے کہا پھر ان دونوں نے ایک دوسرے پر لعان کیا (لعنت کی) میں بھی اس وقت لوگوں کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس موجود تھا، جب وہ ایک دوسرے پر لعنت کرکے فارغ ہوگئے تو حضرت عویمر نے کہا یا رسول اللہ ! اگر اب میں نے اس عورت کو اپنے نکاح میں رکھا تب تو پھر میں جھوٹا ہوں گا، پھر انہوں نے اپنی بیوی کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دینے سے پہلے تین طلاقیں دیدیں، اب شہاب زہر نے کہا لعان (ایک دوسرے پر لعنت کرنے) کا یہی طریقہ ہے۔ 

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٠٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٩٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٢٤٧، ٢٢٤٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٤٠٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٦٦، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ١٢٤٩٥)

حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں جمعہ کی شب مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ انصار میں سے ایک شخص آیا اور اس نے کہا اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پائے اور اس کے متعلق بات کرے تو تم اس پر کوڑے (حد قذف) لگائو گے، یا وہ اس کو قتل کردے تو تم اس کو قتل کردو گے اور اگر وہ خاموش رہے تو وہ اپنے غصہ اور غضب میں خاموش رہے گا، وہ کہنے لگا اللہ کی قسم ! میں ضرور اس کا حل رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دریافت کروں گا، دوسرے دن وہ صبح کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو اور آپ سے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی مرد کو پائے، پھر اس واقعہ کی خبر دے تو آپ اس کو کوڑے ماریں گے (حد قذف لگائیں گے) یا وہ اس کو قتل کردے تو آپ اس کو قصاص میں قتل کردیں گے یا وہ خاموش رہے تو وہ غیظ و غضب میں خاموش رہے گا، تو آپ نے دعا کی اے اللہ ! اس کا حل منکشف کردے پھر آپ مسلسل دعا کرتے رہے پھر تو وہ غیظ و غضب میں خاموش رہے گا، تو آپ نے دعا کی اے اللہ ! اس کا حل منکشف کردے پھر آپ مسلسل دعا کرتے رہے پھر آیت لعان نازل ہوگئی کہ جو لوگ اپنی بیویوں پر زنا کی تہمت لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا اور کوئی گواہ نہ ہو…پھر وہ شخص لوگوں کے سامنے اس لعان میں مبتلا ہوا، وہ اپنی بیوی سمیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور انہوں نے ایک دوسرے پر لعنت کی، مرد نے چار مربتہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دی کہ وہ سچوں میں سے ہے پھر پانچویں بار اس نے خود پر یہ کہہ کر لعنت کی کہ اس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹوں میں سے ہو، پھر وہ عورت لعنت کرنے لگی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے فرمایا رک جا ! اس نے انکار کیا اور لعنت کی جب وہ دونوں چلے گئے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : شاید اس کا بچہ پیدا ہوگا جو سیاہ رنگ کا گھونگریالے بالوں والا ہوگا، پھر اس کے ہاں سیاہ رنگ کا گھونگریالے بالوں والا بچہ ہوا۔ 

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٩٥، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٢٥٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٠٦٨ )

حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی : الذین یرمون ازواجھم (النور : ٦) حضرت سعد نے کہا یا رسول اللہ میں جانتا ہوں کہ یہ آیت برحق ہے اور اللہ کی طرف سے لیکن مجھے اس پر تعجب ہے کہ اگر میں کسی شخص کو اس حال میں پائوں کہ میری بیوی کی رانیں کسی شخص پر ہوں تو میرے لئے یہ ممکن نہیں ہوگا کہ میں ان کو باز رکھنے کے لئے چار گواہ اکٹھا کروں۔ پس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے کہا کیا تم نے نہیں سنا تمہارے سردار نے کیا کہا ہے ! انہوں نے کہا : اے اللہ کے نبی ! اس کو ملامت نہ کریں، کیونکہ اس سے بڑھ کر ہم میں کوئی غیرت دار نہیں، اس نے جب بھی نکاح کیا تو کنواری عورت سے کیا اور اس نے اپنی جس بیوی کو طلاق دی تو کسی نے اس سے نکاح کی خواہش نہیں کی، حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے کہا : یا رسول اللہ کیا یہ آیت اسی طرح نازل ہوئی ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں اس کو اتنے گواہ پیش کرنے ہوں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے، پھر ان کے عم زاد، ہلال بن امیہ اس سانحہ میں مبتلا ہوگئے، انہوں نے آکر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خبر دی کہ انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ ایک مرد کو پایا تب اللہ تعالیٰ نے سورة نور کی ٩۔ ٦ آیتیں نازل فرمائیں، جب مرد نے اپنی بیوی کے خلاف چار مرتبہ شہادت دے دی، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رک جائو یہ شہادت واجب ہے، پھر اس سے فرمایا اگر تم جھوتے ہو تو توبہ کرلو، اس نے کہا نہیں ! اللہ کی قسم میں سچا ہوں ! پھر اس نے پانچویں قسم بھی کھالی، پھر اس کی بیوی نے اللہ کی قسم کھا کر چار مربتہ گواہی دی کہ اس کا خاوند جھوٹا ہے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا رک جائو یہ شہادت واجب ہے، پھر اس سے فرمایا : اگر تو جھوتی ہے تو توبہ کرلے، وہ کچھ دیر خاموش رہی پھر اس نے کہا میں تمام دن اپنی قوم کو رسوا نہیں کروں گی، پھر اس نے پانچویں بار قسم بھی کھالی پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر اس کا ایسا بچہ ہوا تو وہ فلاں کا ہے، پھر اس کے ہاں ویسا ہی بچہ ہوگیا۔ 

(اس حدیث کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث ٢١٣١، دار الحدیث قاہرہ، طبع جدید، مسنداحمد ج ا ص ٢٣٨، طبع قدیم، حافظ الہیثمی نے بھی کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٢۔ ١١)

لعان کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

لعان کالفظ لعن سے ماخوذ ہے علامہ سید مرتضیٰ زبیدی لکھتے ہیں کہ لعن کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو اس کا معنی ہے دھتکارنا اور خیر دے دور کرنا، اور جب اس کی نسبت مخلوق کی طرف ہو تو یہ بد دعا کا کلمہ ہے، اور لکھتے ہیں کہ لعان کا معنی یہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو زنا کی تہمت لگائے تو امام اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرائے اور مرد سے ابتداء کرے، مرد چار بار یہ کہے کہ میں اللہ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہا اس نے فلاں مرد کے ساتھ زنا کیا ہے اور میں اپنی اس تہمت میں صادق ہوں، جب وہ چار بار یہ قسم کھالے تو پانچویں بار یہ کہے کہ میں اللہ کو اس بات پر گواہ بناتی ہوں کہ اس شخص نے جو مجھ پر تہمت لگائی ہے یہ اس تہمت میں جھوٹوں میں سے ہے اور پانچویں بار یہ کہے کہ اگر یہ سچوں میں سے ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو، لعان کے بعد وہ عورت اس شخص سے بائنہ ہوجائے گی اور کبھی اس شخص کے لئے حلال نہیں ہوگ، اگر وہ حاملہ ہو تو بچہ اس عورت کے ساتھ لاحق کیا جائے گا۔ (تاج العروس ج ٩ ص ٣٣٥۔ ٣٣٤)

لعان کے شرعی معنی میں مذاہب فقہاء 

علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں کہ لعان کا شرعی معنی ہے ایسی شہادات جو قسموں سے موکد ہوں، اور لعنت کے ساتھ مقرون ہوں، اور امام شافعی فرماتے ہیں یہ دو قسمیں ہیں جو لفظ شہادت کے ساتھ موکد ہوں، امام شافعی کے نزدیک اس میں قسم کی اہلیت شرط ہے اس لئے مسلمان اور اس کی بیوی میں بھی لعان ہوجاتا ہے، امام مالک اور امام احمد فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس میں شہادت کی اہلیت شرط ہے اس لئے لعان ایسے مسلمان، آزاد، عاقل، بالغ کے ساتھ خاص ہے جس پر حد قذف نہ لگائی گئی ہو۔ (عمدۃ القاری جز ٢٠ ص ٢٩٠)

لعان کی وجہ تسمیہ

مرد لعنت کا لفظ کہتا ہے اور عورت غضب کا لفظ کہتی ہے اور اس مسئلہ کا عنوان لعان بنایا گیا جبکہ آیت میںلعنت اور غضب دونوں الفاظ ہیں اس کی وجہ یہ ہے ابتداء مرد سے ہوتی ہے اور وہ لعنت کا لفظ کہتا ہے اور مرد کی جانب قوی ہے نیز لعانے کرنے نہ کرنے کا مدار مرد پر ہی ہوتا ہے اور عورت کو غضب کے لفظ کے ساتھ خاص کیا گیا کیونکہ مرد کی بنسبت عورت کا جرم بڑا ہے مرد اگر جھوٹا ہے تو وہ حد قذف کا مستحق ہے اور اگر عورت جھوتی ہوتو وہ سنگسار کی جانے کی مستحق ہے ۔ (عمدۃ القاری جز ٢٠ ص ٢٩٠)

زانی کو از خود قتل کرنے کا حکم 

علامہ نووی لکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو پائے اور یہ متحقق ہوجائے کہ اس نے زنا کیا ہے اور وہ شخص اس سبب سے اس زانی کو قتل کردے تو جمہور فقہاء اسلام کا یہ نظریہ ہے کہ اس پر قصاص لازم آئے گا الا یہ کہ وہ زنا کے ثبوت پر چار گواہ پیش کردے یا مقتول کے ورثاء اس کے زنا کا اعتراف کرلیں۔ اور یہ شرط بھی ہے کہ وہ زانی شادی شدہ ہو، یہ دنیاوی ضابطہ ہے اور اگر وہ سچا ہے تو آخرت میں اس پر کوئی وبال نہیں ہوگا۔ بعض شوافع کا قول یہ ہے کہ جو شخص بھی سلطان کی اجازت کے بغیر کسی شادی شدہ زانی کو قتل کرے گا اس سے قصاص لیا جائے گا۔ (شرح مسلم ج ا ص ٤٨٨، کراچی)

امام ابوحنیفہ کا قول جمہور کے موافق ہے، اگر دو شخص گواہی دیں کہ اس شخص نے فلاں آدمی کو زنا کے سبب سے قتل کیا ہے تو جمہور کے نزدیک اس سے قصاص لیا جائے گا اور امام احمد کے نزدیک اس پر قصاص نہیں ہے۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٤٤٩، لاہور)

جمہور کی دلیل ابن ماجہ کی روایت ہے جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پہلے تو حضرت سعد کے جواب میں فرمایا تلوار کافی گواہ ہے، پھر فرمایا نہیں ! مجھے خدشہ ہے کہ پھر لوگ نشتہ اور غیرت میں آکر دھڑا دھڑ قتل کرنا شروع کردیں گے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦٠٦)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ص نے اس سبب سے قتل کرنے کی اجازت نہیں دی، البتہ جس پر چار گواہوں سے زنا ثابت ہوجائے اس کا معاملہ الگ ہے کیونکہ وہ مباح الدم ہے اس لئے اس صورت میں اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا، لیکن کسی شخص کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ مواخذہ کا مستحق ہوگا۔ 

لعان کے بعد تفریق میں مذاہب فقہاء 

علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں کہ امام مالک، امام شافعی اور ان کے موافقین کا یہ نطریہ ہے کہ نفس لعان سے، لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق ہوجاتی ہے، امام مالک اور ان کے اکثر اصحاب کا قول یہ ہے کہ عورت کے لعان سے فارغ ہونے کے بعد تفریق ہوجاتی ہے اور امام شافعی اور ان کے اکثر اصحاب کا قول یہ ہے کہ مرد کے لعان سے فارغ ہوتے ہی تفریق ہوجات ہے۔ سحنون مالکی کا بھی یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب اور سفیان ثوری کا یہ قول ہے کہ نفس لعان سے تفریق نہیں ہوتی بلکہ لعان کے بعد قاضی کے تفریق کرنے سے تفریق ہوتی ہے، اور امام احمد بن حنبل کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں، ایک میں احناف کے ساتھ ہیں اور دوسرے میں شوافع کے۔ (عمدۃ القاری جز ٢٠ ص ٢٩٥، مصر) علامہ ابو الحسن مراداوی حنبل لکھتے ہیں کہ وجیز میں لکھا ہے کہ امام احمد کا مذہب یہ ہے کہ نفس لعان سے تفریق ہوجاتی ہے اور محرر، نظم، رعایتیں، حاوی صغیر، فروع وغیرہ کتب حنابلہ میں اسی قول کو مقدم کیا ہے، اور امام احمد بن حنبل کا دوسرا قول یہ ہے کہ نفس لعان سے تفریق نہیں ہوتی جب تک کہ حاکم تفریق نہ کرے۔ خرقی (المغنی ابن قدامہ کا متن) کا یہی مختار ہے۔ قاضی، شریف، ابو الخطاب اور ابن النساء وغیر ہم فقہاء حنابلہ نے اسی قول کو اختیار کیا ہے، ہدایہ، ہذہب، مسبوک الذہب اور دوسری کتب حنابلہ میں بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے اور انتصار میں لکھا ہے کہ عام اصھاب حنابلہ کا بھی یہی مختار ہے۔ (الانصاف ج ٩ س ٢٥٢۔ ٢٥١، بیروت)

فقہاء احناف کے نظریہ پر دلائل 

فقہاء احناف کی دلیل یہ ہے یہ امام مسلم نے اپنی صحیح میں حضرت ابن عمر ضی اللہ عنہما کی روایت درج کی جس میں پ ہے لعان کا واقعہ درج ہے، حضرت ابن عمر نے لعان کی کاروائی بیان کرنے کے بعد فرمایا ثم فرق بینھما۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٩٤) ” پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی “۔ امام بخاری نے حضرت ابن عمر کی اس روایت کی سعبید بن جبیر سے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣١١) اور نافع سے بھی۔ نافع سے دو روایات ذکر کی ہیں ایک روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :

…………(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣١٣)

نافع کہتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعان کرنے والے مرد اور عورت کے درمیان تفریق کردی۔ 

ان احادیث صحیحہ سے واضح ہوگیا کہ نفس لعان سے تفریق نہیں ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لعان کے بعد تفریق نہ فرماتے۔ 

فقہاء احناف کی دوسری دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے حضرت عویمر عجلانی (رض) کے واقعہ لعان میں یہ بیان کیا ہے کہ لعان کے بعد حضرت عویمر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا : …………” یا رسول اللہ ! (لعان کے بعد) اگر اب میں اس کو اپنے نکاح میں رکھوں تو پھر میں جھوٹا قرار پائوں گا، پھر انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کچھ فرمانے سے پہلے ہی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں۔ “ اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٠٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٩٢)

ان حادیث صحیحہ سے واضح ہوگیا کہ نفس لعان سے تفرق نہیں ہوتی ورنہ حضرت عویمر اس کو تین طلاقیں نہ دیتے یا رسول اللہ فرماتے اب تین طلاقوں کی کیا ضرورت ہے تفریق تو ہوگئی۔ 

علامہ نووی کے اعتراضات کے جوابات 

علامہ نووی نے اس دلیل پر یہ اعتراض کیا ہے کہ روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذھب فلا سبیل لک علیھا۔ ” جائو اس عورت پر تمہاری ملکیت نہیں ہے “۔ اس سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عویمر (رض) کے طلاق دینے کو رد کردیا، یعنی اب تمہاری اس پر ملکیت نہیں ہے اس لئے طلاق واقع نہیں ہوگی۔ (صحیح مسلم ج ا ص ٤٨٩، کراچی)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے علامہ نووی کی اس دلیل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شرح مسلم میں علامہ نووی کی اس عبارت سے یہ وہم ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عویمر کے تین طلاقیں دینے کے بعد فرمایا ” لا سبیل لک علیھا “۔ اور یہ کہ یہ جملہ حضرت بن سعد ساعدی کی روایت میں موجود ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ جملہ حضرت ابن عمر کی روایت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد کے بعد ہے : اللہ یعلم ان احد کما کاذب۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٤٥٢۔ ٤٥١، لاہور )

حافظ ابن حجر عسقلانی کی اس وضاحت سے یہ معلوم ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” فلا سبی لک علیھا “ کا حضرت عویمر کی دی گئی تین طلاقوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے نہ یہ تین طلاقوں پر رد ہے، اس معاملہ میں علامہ نووینی ایک کھلاہوا مظالطہ کھایا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” لاسبیل لک علیھا “ جس حدیث میں ہے وہ حسب ذیل ہے :

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عمر سے لعان کرنے والوں کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیلعان کرنے والوں سے فرمایا ” تمہارا حساب اللہ تعالیٰ پر ہے، تم دونوں میں سے ایک جھوٹا ہے اور اس عورت پر اب تمہاری ملکیت نہیں ہے۔ “ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣١٢)

اس حدیث سے نہ صرف یہ واضح ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشاد ” لا سبیل لک علیھا “ کا تعلق حضرت عویمر کے قصہ سے نہیں ہے بلکہ اس سے یہ بھی ظاہر ہوگیا کہ لعان کرنے والوں کے درمیان نفس لعان سے تفریق نہیں ہوئی بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس ارشاد سے ہوئی ہے۔ 

نفس لعان سے تفریق نہ ہونے پر ایک واضح دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عویمر نے لعان کے بعد تین طلاقیں دین تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔ اگر نفس لعان سے تفریق ہوجاتی تو آپ ان تین طلاقوں کو مسترد کردیتے، امام ابو دائود روایت کرتے ہیں :

…………(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٢٥٠ )

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عویمر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔ 

علامہ نووی نے دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ دوسری روایت میں ہے : ففارقھا ” حضرت عویمر اپنی بیوی سے علیحدہ ہوگئے “۔ لیکن یہ تین طلاقیں دینے کے بعد کا واقعہ ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں ابن شہاب کی حضرت سیل بن سعد ساعدی کی روایت سے ظاہر ہے۔ اس لئے اس روایت کا یہ لفط بھی علامہ نووی اور شوافع کے مسلک کے لئے مفید نہیں ہے۔ 

(صحیح مسلم کتاب اللعان رقم حدیث الباب : ٣، رقم الحدیث بلا تکرار : ١٤٩٢، رقم الحدیث المسلسل : ٣٦٧٥)

صحیح مسلم میں حضرت ابن عمر کی بکثرت روایات مذکور ہیں۔ (رقم حدیث الباب : ٩، ٨، ٧) جن میں تصریح ہے کہ لعان کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تفریق کی، اور یہ موقف احناف کی واضح دلیل ہیں اور فقہاء مالکیہ اور شافعیہ کے موقف پر کوئی حدیث نہیں ہے۔ 

لعان کی وجہ سے بچہ کے نسب کی نفی میں مذاہب فقہاء 

حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد مبارک میں ایک شخص نے لعان کیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے درمیان تفریق کردی اور بچہ کو ماں کے ساتھ لاحق کردیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٩٤)

علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں کہ جمہور فقہاء تابعین اور ائمہ اربعہ کا مسلک یہ ہے کہ لعان کے بعد بچہ کو ماں کے ساتھ لاحق کردیا جائے گا اور وہ ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور باپ سے اس کا نسب منتفی ہوگا۔ امام طحاوی کہتے ہیں کہ عامر، شعبی، محمد بن ابی ذئب اور بعض اہل مدینہ نے اس مسئلہ میں جمہور سے اختلاف کیا ہے کیونکہ بچہ اس کا ہوتا ہے کہ جس کے بستر پر ہو اس لئے لعان کرنے والے شخص سے ہی نسب ثابت ہوگا، لیکن ان کے خلاف یہ حدیث جمہور کی قوی دلیل ہے اور اس قاعدہ میں اس حدیث سے تخصیص کی جائے گی۔ البتہ ایک اور اختلاف یہ ہے کہ ماں سے نسبت اس وقت منتقی ہوگا جب بچہ پیدا ہوتے ہی یا زیادہ دن گزرنے سے پہلے مرد اس کا انکار کردے، امام ابوحنیفہ نے دن مقرر نہیں کیے۔ امام ابو یوسف فرماتے ہیں سات دن کے کے بعد انکار معتبر نہیں ہے۔ اور امام محمد فرماتے ہیں چالیس دن کے بعد انکار معتبر نہیں ہے۔ یعنی اس سے پہلے انکار کا شرعاً اعتبار ہوگا اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر بچہ پیدا ہوتے ہیں فوراً انکار کردیا تو اس کا انکار شرعاً معتبر ہوگا ورنہ نہیں۔ (عمدۃ القاری ج ٢٠ ص ٣٠٢، مصر)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 6