اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ ؕ الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ ؕ يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 35
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ ؕ الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ ؕ اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ ۙ يَّـكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ ؕ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ ؕ يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ ؕ وَ يَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِؕ وَاللّٰهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسے طاق کی طرح ہے جس میں چراغ ہو، وہ چراغ ایک فانونس میں ہو، وہ فانونس ایک روشن ستارے کی مانند ہو وہ چراغ برکت والے زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے، وہ (درخت) نہ مشرقی ہے نہ مغربی عنقیرب اس کا تیل خود ہی بھڑک اٹھے گا خواہ اسے آگ نہ چھوئے، وہ نور بالائے نور ہے، اللہ جسے چاہے اپنے نور تک ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں (کو سمجھانے) کیے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اللہ آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے، اس کے نور کی مثال ایسے طاق کی طرح یہ جس میں چراغ ہو، وہ چراغ ایک فانونس میں ہو، وہ فانونس ایک روشن ستارے کی مانند ہو، وہ چراغ برکت والے زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہو، وہ (درخت) نہ مشرقی ہے نہ مغربی، عنقریب اس کا تیل خود ہی بھڑک اٹھے گا، خواہ اسے آگ نہ چھوئے، وہ نور بالائے نور ہے، اللہ جسے چاہے اپنے نور تک ہدایت دیتا ہے، اور اللہ لوگوں (کو سمجھانے) کے لئے مثالیں بیان فرماتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ (النور : ٣٥)
نور کا لغوی اور اصطلاحی معنی
امام حمد بن ابوبکر رازی حنفی متوفی 660 ھ نے لکھا ہے نور کا معنی ہے ضیاء (روشنی) ۔ (مختار الصحاح ص 393 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ)
علامہ میر سید شریف علی بن محمد الجرجانی المتوفی 816 ھ لکھتے ہیں :
نور اس کیفیت کو کہتے ہیں جس کا آنکھیں سب سے پہلے ادراک کرتی ہیں پھر اس کیفیت کے واسطے سے باقی دکھائی دینے والی چیزوں کا ادراک کرتی ہیں۔ (یعنی جو کیفیت خود ظاہر ہو اور دوسری چیزوں کے لئے مظہر ہو) (التعریفات ص 170 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1418 ھ)
امام رازی متوفی 606 ھ لکھتے ہیں :
نور اس کیفیت کو کہتے ہیں جو سورج، چاند اور چراغ وغیرہ سے زمین اور دیواروں پر فائض ہوتی ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 378 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
اللہ پر نور کے اطلاق کی توجیہات
امام رازی فرماتے ہیں نور چونکہ ایک کیفیت حادثہ کو کہتے ہیں اس لئے اس کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر محال ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
جعل الظلمت والنور (الانعام : ١) اللہ نے ظلمات (اندھیروں) اور نور (روشنی) کو پیدا کیا۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نور مجعول اور مخلوق ہے اور اللہ خالق نور ہے خود نور نہیں ہے کیونکہ نور مخلوق ہے، اور چونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات پر نور کا اطلاق فرمایا ہے اس لئے علماء نے اس میں حسب ذیل توجیہات کی ہیں۔
(١) نور ظہور اور ہدایت کا سبب ہے جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہے :
(البقرہ : ٢٥٧) اللہ مومنوں کا کار ساز ہے وہ ان کو ظلمات سے نور کی طرف نکال لاتا ہے۔
(الشوریٰ : ٥٢) لیکن ہم نے اس (کتاب) کو نور بنایا ہم اس کے ذریعے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہیں ہدایت دیتے ہیں۔
جب یہ واضح ہوگیا کہ قرآن مجید میں نور کا اطلاق ہدایت پر کیا گیا ہے تو اللہ نور السموت والارض کا معنی ہے یعنی اللہ آسمانوں اور زمینوں کے نور والا ہے، اس کا حاصل یہ ہے کہ آسمانوں والوں اور زمینوں والوں کو اللہ تعالیٰ سے ہدایت حاصل ہوتی ہے، یعنی وہی ان کا ھاوی ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) اور اکثرین کا یہی قول ہے۔
(٢) اللہ تعالیٰ اپنی حکمت بالغہ سے آسمانوں اور زمینوں کا مدبر ہے، جیسے بہت بڑے عالم کے لئے کہا جاتا ہے وہ شہر کا نور ہے کیونکہ وہ شہر والوں کی عمدہ تدبیر کرتا ہے تو وہ ان کے لئے بہ منزلہ نور ہوتا ہے، جس سے ان کو شہر کیم عاملات میں رہنمائی حاصل ہوتی۔
(٣) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کا ناظم ہے کیونکہ اس نے انتہائی حسین ترتیب سے ان کا نظام قائم کیا ہوا ہے۔
(٤) اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمینوں کو منور کرنے والا ہے اس کا ایک محمل یہ ہے کہ وہ آسمانوں کو ملائکہ سے منور کرتا ہے اور زمین کو انبیاء سے اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ وہ آسمانوں اور زمینوں کو سورج، چاند اور ستاروں سے منور کرتا ہے، اور اس کا تیسرا محمل یہ ہے کہ اس نے آسمان کو سورج، چاند اور ستاروں سے مزین کیا ہے اور زمین کو انبیاء اور علماء سے مزین کیا ہے۔ یہ تفسیر حضرت ابی بن کعب، حسن بصری اور ابوالعالیہ سے منقول ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 379 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)
احادیث میں اللہ پر نور کا اطلاق
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی اللہ تعالیٰ کی ذات پر نور کا اطلاق فرمایا ہے :
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تہجد کی نماز میں پڑھتے تھے ،
اللھم الک الحمدانت نور السموت والارض۔ اے اللہ ! تیرے لئے حمد ہے تو آسمانوں اور زمینوں کان ور ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :7499 صحیح مسلم رقم الحدیث :769، سنن ابو دائود رقم الحدیث :771، سنن الترمذی رقم الحدیث :3418 سنن النسائی رقم الحدیث :1617، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :11355)
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا، کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھاڈ آپ نے فرمایا میں نے اپنے رب کو جہاں سے بھی دیکھا وہ نور ہی نور ہے۔ (صحیح مسلم الایمان :291، رقم الحدیث بلاتکرار :178 الرقم المسلسل :436، سنن الترمذی رقم الحدیث :3282)
حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے نور کو دیکھا۔ (صحیح مسلم الایمان :292) رقم الحدیث بلاتکرار :178 الرقم المسلسل :437)
علامہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب پر بھی نور کا اطلاق فرمایا ہے :
(النسائ : ١٧٤) ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔
اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر بھی نور کا اطلاق فرمایا ہے :
(المائدہ : ١٥) بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے آگیا نور اور روشن کتاب۔
مشکل الفاظ کے معانی
اس آیت میں فرمایا کمشکوۃ فیھا مصباح وہ ایک طاق کی مثل ہے جس میں چراغ ہ۔ مشکاۃ حبشی زبان کا لفظ ہے جس کا معنی طاق ہے، اب سے پچاس ساٹھ سال پہلے تک مکانوں میں کمرے کی دیوار کے عمق اور گہرائی میں محراب نما ایک خانہ یا شیلف بنایا جاتا تھا جس میں استعمال کی اشیاء رکھی جاتی تھیں اس کے دروازے نہیں بنائے جاتے تھے شہروں کی نئی نسل اس سے ناواقف ہے گائوں اور دیہاتوں میں اب بھی اس طرز کے مکان ہوں گے۔ مصباح کا معنی ہے روشنی کا آلہ صبح اسی سے ماخوذ ہے، اس کا معنی چراغ ہے۔
المصباح فی زجاجۃ : زجاچہ کا معنی ہے شیشے کا فانوس، وہ چراغ ایک فانونس میں ہے۔
کانھا کو کب دری : گویا کہ وہ ایک چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے، یعنی وہ چراغ روشن ہونے میں ایک روشن ستارہ کی طرح ہے۔
یو قدمن شجرۃ مبارکۃ زیتونۃ : وہ چراغ برکت والے زیتون کے تیل سے روشن کیا جاتا ہے۔ زیتون وہ درخت ہے جو دنیا میں سب سے پہلے اگایا گیا اور یہی درخت طوفان نوح کے بعد سب سے پہلے اگا۔ یہ انبیاء علیہم السلا مکی بعثت کے مقامات پر اگایا گیا ہے اور ارض مقدسہ میں اس کے لئے ستر انبیاء (علیہم السلام) نے برکت کی دعا کی۔
حضرت ابو اسید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زیوتن کا تیل کھائو اور اس کو جسم پر لگائو کیونکہ وہ مبارک درخت سے نکلات ہے۔ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے اور شیخین نے اس کو روایت نہیں کیا۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩١٣ المعجم الکبیرج ١٩ رقم الحدیث : ٩٩٦ المستدرک رقم الحدیث : ٣٥٥٦ سنن الداری رقم الحدیث : ٢٠٥٨ شرح السنتۃ رقم الحدیث :2870)
لاشرقیۃ ولاغربیہ : وہ (درخت) نہ مشرقی ہے نہ مغربی، یعنی وہ درخت نہ مشرق کے ساتھ مختص ہے کہ اس کو شرقیہ کہا جائے اور نہ مغرب کے ساتھ مختص ہے کہ اس کو غربیہ کہا جائے، حس نبصری نے کہا یہ درخت دنیا کے درختوں میں سے نہیں ہے کیونکہ دنیا کا جو بھی درخت ہوگا وہ یا مشرقی ہوگا یا مغربی ہوگا بلکہ یہ جنت کا درخت ہے، اور ثعلبی نے کہا قرآن مجید نے یہ تصریح کی ہے کہ یہ دنیا کا درخت ہے کیونکہ قرآن مجید نے فرمایا وہ زیتون کا درخت ہے۔ ابن زید نے کہا وہ ملک شام کا درخت کیونکہ شام کے درخت نہ شرقی ہوتے ہیں نہ غربی اور شام کے درخت سب سے افضل درخت ہیں کیونکہ وہ برکت والی زمین ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہ درخت دور سے گھنے درختوں کے درمیان ہوتا ہے لہٰذا اس کو دھوپ نہیں پہنچتی اس لئے فرمایا کہ وہ نہ شرقی ہے نہ غربی ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ درخت بلند پہاڑوں اور صحرائوں میں ہوتا ہے۔
آپ پر قرآن نہ بھی نازل ہوتا تب بھی آپ کی نبوت عالم میں آشکارا ہو جاتی
نیز اس آیت میں فرمایا : عنقریب اس کا تیل خود ہی بھڑک اٹھے گا خواہ اسے آگ نہ چھوئے وہ نور بالائے نور ہے، اللہ جسے چاہے اپنے نور تک ہدایت دیتا ہے۔
امام محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ فرماتے ہیں :
اس آیت میں مشکاۃ سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا سینہ ہے اور الزجاجۃ سے مردا آپ کا قلب ہے اور مصباح سے مراد دین کے اصول اور فروع کی وہ معرفت ہے جو آپ کے دل میں ہے اور شجرہ مبارکہ سے مراد حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ہیں کیونکہ آپ ان کی اولاد سے ہیں اور انکی ملت کی اتباع کا آپ کو حکم دیا گیا ہے، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی صفت میں فرمایا نہ وہ شرقی ہیں اور نہ غربی ہیں کیونکہ آپ عیسائیوں کی طرح مشرق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے اور نہ یہود کی طرح مغرب کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے بلکہ آپ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے اس چراغ کے تیل کی صفت میں فرمایا وہ عنقریب بھڑک اٹھے گا اور روشن ہوجائے گا خواہ اس کو آگ نے نہ چھوا ہو، کعب احبار نے کہا اس تیل سے مراد سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا نور ہے اور آپ اپنے صفاء جوہر اور اپنی مقدس ذات میں اس قدر کامل تھے کہ اگر آپ پر وحی نازل نہ بھی ہوتی تب بھی آپ میں یہی کمالات ہوتے آپ اسی طرح نیکی کی ہدایت دیتے اور آپ کی یہی پاکیزہ صفات ہوتیں اور آپ پر قرآن نہ بھی نازل ہوتا تب بھی آپ کی نبوت لوگوں پر آشکارا ہوجاتی اور آپ پر قرآن مجید کا نازل ہونا نور علی نور ہے اور نور بالائے نور ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٣٩٠ مطبوعہ دا احیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٨ ص ٢٥٩٧ مکتبہ نزار مصطفیٰ بیروت، 1417 ھ)
امام عبدالرحمان بن علی بن محمد جوزی متوفی 597 ھ علامہ قرطبی متوفی 668 ھ حافظ ابن کثیر مت ویف 774 ھ علامہ شہاب الدین خفا جی متوفی 1069 ھ اور علامہ آلوسی متوفی 1270 ھ نے بھی اس طرح تفسیر کی ہے۔ (زاد المسیرج ٦ ص ٤٤ الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص 244 تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 322 روح المعانی جز 18 ص 243)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 35