اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزۡجِىۡ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيۡنَهٗ ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِهٖۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِيۡهَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَيُـصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ وَ يَصۡرِفُهٗ عَنۡ مَّنۡ يَّشَآءُ ؕ يَكَادُ سَنَا بَرۡقِهٖ يَذۡهَبُ بِالۡاَبۡصَارِؕ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 43
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُزۡجِىۡ سَحَابًا ثُمَّ يُؤَلِّفُ بَيۡنَهٗ ثُمَّ يَجۡعَلُهٗ رُكَامًا فَتَرَى الۡوَدۡقَ يَخۡرُجُ مِنۡ خِلٰلِهٖۚ وَيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَآءِ مِنۡ جِبَالٍ فِيۡهَا مِنۡۢ بَرَدٍ فَيُـصِيۡبُ بِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ وَ يَصۡرِفُهٗ عَنۡ مَّنۡ يَّشَآءُ ؕ يَكَادُ سَنَا بَرۡقِهٖ يَذۡهَبُ بِالۡاَبۡصَارِؕ ۞
ترجمہ:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر ان کو (باہم) جوڑ دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان سے بارش ہوتی ہے، اور اللہ آسمان کی طرف سے پہاڑوں سے اولے نازل فرماتا ہے سو وہ جس پر چاہے ان اولوں کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہے ان کو پھیر دیتا ہے، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی لے جائے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ بادلوں کو چلاتا ہے، پھر ان کو (باہم) جوڑ دیتا ہے، پھر ان کو تہ بہ تہ کردیتا ہے، پھر آپ دیکھتے ہیں کہ ان کے درمیان سے بارش ہوتی ہے اور اللہ آسمان کی طرف سے اولے نازل فرماتا ہے سو وہ جس پر چاہے ان اولوں کو برسا دیتا ہے اور جس سے چاہے ان اولوں کو پھیر دیتا ہے، قریب ہے کہ اس کی بجلی کی چمک آنکھوں کی بینائی کو لے جائے۔ اور اللہ دن اور رات کو ادل بدل کرتا رہتا ہے، بیشک اس میں غور کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔ (النور : ٤٤-٤٣ )
مشکل الفاظ کے معانی
یزجی : کسی چیز کو نرمی اور سہولت سے چلانا، اسی سے ماخوذ ہے مزجاۃ اس کا معنی ہے قلیل، حقیر اور بےقدر چیز، اسی سے بنا ہے (جل مزجی ہنکایا ہوا، یعنی حقیر اور بےقدر آدمی۔ )
تم یولف بینہ ثم یجعلہ رکاما : پھر بعض بادلوں کو ب عض بادلوں کے ساتھ ملاتا ہے اور ان کے ٹکڑے جوڑ کر ایک بادل بنا دیتا ہے، پھر ان بادلوں کو اوپر تلے رکھ کر تہ بہ تہ کردیتا ہے۔
الودق : بارش
من خلالہ : خلال، خلل کی جمع ہے جیسے جبال، جبل کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے بادلوں کے اوپر تلے جمع ہونے سے بادل درمیان سے پھٹ جاتے ہیں پھر ان کے شگافوں اور مخارج سے بارش نازل ہوتی ہے۔
ینزل من السماء السماء سے مراد بادل ہیں، یعنی بادلوں سے اولے نازل ہوتے ہیں السماء کا معنی ہے بلند چیز، ہر وہ چیز جو تم سے بنلد ہے وہ السماء ہے۔
البرد : برد کا معنی ہے ٹھنڈک اور اس سے مراد اولے ہیں، مشہور یہ ہے کہ جب بخارات اوپر چلے جاتے ہیں اور حرارت سے تحلیل نہیں ہوتے تو وہ سخت ٹھنڈک والی ہوا کے طبقہ میں پنچ جاتے ہیں جہاں پر درجہ حرارت منفی پچاس درجہ سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ ہوتا ہے، وہاں پر وہ بخارات منجمد ہو کر بادل کی شکل اختیار کرلیتے ہیں، پھر اگر وہاں زیادہ ٹھنڈک نہ ہو تو وہ بادل قطرہ قطرہ ہو کر گرنے لگتے ہیں اور یوں بارش ہوتی ہے، اور اگر ٹھنڈک اجزاء بخاریہ کے مجتمع ہونے سے پہلے پہنچ جائے تو پھر برف باری ہوجاتی ہے اور اگر اجزاء بخاریہ کے مجتمع ہونے کے بعد ٹھنڈک پہنچے تو پھر ژالہ باری ہوتی ہے اور یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادنہ کے تابع ہیں۔
سنا برقہ : بادلوں میں جو بجلی ہوتی ہے اس کی چمک، برق، برقتہ کی جمع ہے۔
یذھب بالابصار : بجلی کی چمک کی تیزی سے دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور بضع اوقات بینائی زائل ہوجاتی ہے، اور یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کمال پر دلیل ہے کہ وہ ایک ضد سے دوسری ضد پیدا کردیتا ہے اور سخت ٹھنڈے طبقہ میں آگ پیدا کردیتا ہے۔
یقلب اللہ اللیل والنھار : اللہ رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات کو لاتا ہے، کبھی دن کا کچھ حصہ رات میں داخل کرلیتا ہے اور کبھی رات کا کچھ حصہ دن میں داخل کردیتا ہے، اور کبھی ان کے موسم کو سرد کردیتا ہے اور کبھی ان کے موسم کو گرم کردیتا ہے۔
ان فی ذلک لعبرۃ لا ولی الابصار : یعنی دن اور رات کے اس توارد میں اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر نشانیاں ہیں، جن سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کامل ہونے اور ہر چیز کو اس کے علم کے محیط ہونے اور اس کے احکام کے نافذ ہونے اور تمام نظام کائنات کے اس کی قدرت اور مشیت کے تابع ہونے کا پتہ چلتا ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 43