أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَبٰـرَكَ الَّذِىۡ نَزَّلَ الۡـفُرۡقَانَ عَلٰى عَبۡدِهٖ لِيَكُوۡنَ لِلۡعٰلَمِيۡنَ نَذِيۡرَا ۞

ترجمہ:

وہ برکت والا ہے جس نے اپنے مکرم بندے پر بہ تدریج الفرقان (قرآن مجید) کو نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لئے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بسم اللہ الرحمٓن الرحیم 

بسم اللہ کے معانی 

مفسرین نے اس سورت میں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے حسب ذیل معانی بیان کئے ہیں :

(١) اس ذات کے نام سے شروع کرتا ہوں جس کی عظمت ہر چیز کو محیط ہے اور جس کا علم ہر چیز کو شامل ہے وہ رحمٰن ہے جس کے فرقان کی نعمت تمام مومنوں اور کافروں کو عام ہے، وہ رحیم ہے جس نے اپنی رضا کا لباس اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا پہنا دیا۔

(٢) اللہ کے نام سے جس کے نام کی جلالت پر اس کے افعال کی جلالت شاہد ہے اور اس کے جمال کا افضال ناطق ہے، اس کی ذات اور صفات پر اس کی آیات دلالت کرتی ہیں۔

(٣) اللہ کے نام سے جس کے نام کی عزت اس کے افعال کی قدرت سے پہچانی گئی اس کے فضل اور اس کی نصرت سے اس کے نام کا کریم ہونا معلوم ہوا۔

(٤) اللہ کے نام سے جس کے نام کی عزت کو عقلاء نے اس کے افعال کی دلالت سے پہچانا، اس کے جمال کے لطف اور اس کے جلال کے کشف سے اس کی سخاوت کو پہنچانا۔

(٥) اللہ کے نام سے جو عزیز ہے جو اس سے دعا کرتا ہے وہ اس کی دعا کو قبول فرماتا ہے جو اس پر توکل کرے وہ اس کو کفایت کرتا ہے، جو اس سے شکایت کرے وہ اس کی شکایت کو زائل کرتا ہے، جو اس سے سوال کیر وہ اس کو نوازتا ہے اور عطا فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : وہ برکت والا ہے جس نے اپنے مکرم بندے پہ بہ تدریج الفرقان (قرآن مجید) کو نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کے لئے (عذاب سے) ڈرانے والے ہوں۔ (الفرقان : ١)

تبارک، الفرقان، النذیر اور العلمین کے معانی 

تبارک : فرا نے کہا تبارک و تقدس دونوں کا معنی واحد ہے۔ یعنی عظمت والا، زجاج نے کہا اس کا معنی ہے برکت والا اور برکت کا معنی ہے ہر قسم کی خیر کی کثرت۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کی عطا زیادہ اور بہت ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس کا انعام دائم اور ثابت ہے، اللہ تعالیٰ کے اسماء میں لفظ مبارک و شامل کرنے میں اختلاف ہے۔

الفرقان : اس سے مراد قرآن مجید ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ہر آسمانی کتاب ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

(الانبیائ : ٤٨) بالتحقیق ہم نے موسیٰ اور ہارون کو الفرقان عطا کیا۔

قرآن مجید کو الفرقان فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ یہ حق اور باطل اور مومن اور کافر میں فرق کرنے والا ہے، اور اس میں حلال اور حرام کاموں کا فرق کیا گیا ہے۔ 

النذیر : جو دنیا کی ہلاکت اور آخرت کے عذاب سے ڈرانے والا ہو۔

للعلمین : اس سے مراد انسانوں اور جنتا کا عالم ہے، کیونکہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے تھے اور ان کو عذاب سے ڈرانے والے تھے، اور آپ خاتم الانبیاء ہیں حضرت نوح طوفان کے بعد سب انسانوں کے رسول تھے اور آپ سب انسانوں اور جنات کی طرف رسول ہیں۔ آپ کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت میں عموم اور شمول نہیں ہے، بلکہ حق یہ ہے کہ آپ تمام مخلوق کی طرف رسول ہیں۔ حیدث میں ہے :

سیدنا محمد صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی رسالت کا عموم 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ ایسی چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں۔ ایک ماہ کی مسافت سے میرا رعب طاری کر کے میری مدد کی گئی ہے، تمام روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور آلہ تمیم بنادیا، سو میری امت میں سے جو شخص جس جگہ بھی نماز کا وقت پائے وہیں نماز پڑھ لے، اور میرے لئے مال غنیمت حلال کردیا گیا اور مجھ سے پہلے کسی کے لئے حلال نہیں کیا گیا اور مجھے شفاعت عطا کی گئی اور پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔ امام مسلم کی روایت میں ہے مجھے ہر گورے اور کالے کی طرف مبعوث کیا گیا ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث، ٣٣٥ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢١ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٣٢ تحفۃ الاخیار شرح مشکل الآثار رقم الحدیث : ٣٥٥ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھے چھ وجود سے انبیاء پر فضیلت دی گی ہے، مجھے جوامع الکلم عطا کئے گئے اور رعب سے میری مدد کی گئی اور غنیمتوں کو میرے لئے حلال کردیا گیا اور تمام روئے زمین کو میرے لئے آلہ طہارت اور مسجد بنادیا گیا اور مجھے تمام مخلوق کی طر رسول بنا کر بھیجا گیا اور مجھ پر نبیوں کو ختم کردیا گیا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٣، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٥٣ ١ سنن ابن ماجہ رق الحدیث : ٥٦٧ مسند احمد ج ٢ ص ٤١٢ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٣١٣ سنن کبری للبیہقی ج ٢ ص ٤٣٣ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٥ ص ٤٧٢ شرح السنتۃ رقم الحدیث : ٣٦١٧)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں تمام روئے زمین کو میرے لئے آلہ طہارت اور مسجد بنادیا گیا اور (پہلے) انبیاء اس وقت تک نماز نہیں پڑھتے تھے جب تک محراب میں نہ پہنچ جائیں، اور ایک ماہ کی مسافت سے میری رعب کے ساتھ مدد کی گئی ہے، میرے سامنے مشرکین ہوتے ہیں تو اللہ ان کے دلوں میں میرا رعب ڈال دیتا ہے اور پہلے نبی خاص اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام جنات اور انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا اور پہلے نبی خمس کو الگ نکال کر رکھ دیتے تھے پھر آگ اس کو آ کر کھا جاتی تھی اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں خمس کو اپنی امت کے فقراء میں تقسیم کر دوں اور کسی نبی نے اپنی دی گئی شفاعت کو باقی نہیں رکھا اور میں نے اپنی شفاعت کو اپنی امت کے لئے مئوخر کر رکھا ہے۔

(مسند احمد رقم الحدیث : ٢٧٤٢، دارالفکر، مسند البزا رقم الحدیث : ٣٤٦٠ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١١٠٨٥، ١١٠٤٧ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٣٩٤٧ )

حضرت یعلی بن مرہ اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا (رض) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

ما من شیء الایعلم انی رسول اللہ الاکفرۃ او فسقۃ فی الجن و الانس (١) (المعجم الکبیرج ٢٢ ص ٢٦٢) ہر چیز یہ جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں سوائے جنتا اور انسانوں میں سے کافروں اور فاسقوں کے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 1