وَالَّذِيۡنَ لَا يَشۡهَدُوۡنَ الزُّوۡرَۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا كِرَامًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 72
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ لَا يَشۡهَدُوۡنَ الزُّوۡرَۙ وَ اِذَا مَرُّوۡا بِاللَّغۡوِ مَرُّوۡا كِرَامًا ۞
ترجمہ:
اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ کسی بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ کسی بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو قوار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔ (الفرقان : ٧٢)
زور اور لغو کا معنی
الضحاک اور اکثر مفسرین نے کہا الزور سے مراد شرک ہے اور علی بن ابی طلحہ نے کہا اس سے مراد جھوٹی گواہی ہے، حضرت عمر بن الخطاب (رض) گواہی دینے والے کو چالیس کوڑے مارتے تھے، اور اس کا منہ کالا کردیتے تھے اور اس کو بازار میں گشت کراتے تھے، ابن جریج نے کہا الزور سے مراد جھوٹ ہے۔ مجاہد نیک ہا اس سے مراد مشرکین کی عیدیں ہیں، ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد ماتم کی مجلس ہے، قتادہ نے کہا اس کا معنی ہے وہ اہل باطل کی باطل پر موافقت نہیں کرتے اور محمد بن حنفیہ نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ لھو (کھیل کود) اور غنا (موسیقی) کی مجلسوں میں حاضر نہیں ہوتے۔
حضرت ابن مسعود (رض) نے کہا غناول میں اس طرح نفاق پیدا کرتا ہے جس طرح پانی کھیتی کو اگاتا ہے، زور کا اصلم عنی ہے کسی چیز کی صفت کے خلاف اس کی تعریف و تحسین کرنا پس زور باطل کو ملمع کاری کر کے اس کے حق ہونے کا وہم پیدا کرنا ہے اور فرمایا جب وہ کسی بےہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزر جاتے ہیں۔
مقاتل نے کہا اس کا معنی یہ ہے کہ جب وہ کفار کا سب و شتم سنتے ہیں اور ان کی اذیت رسانی کا سامنا کرتے ہیں تو اس سے اعرضا کرتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، حسن بصری نے کہا ہر قسم کا گناہ لغو ہے، یعنی جب وہ بےہودہ اور بطال کاموں کی مجلس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ اغراض کرتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٥٩، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 72