وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 74
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا ۞
ترجمہ:
اور وہ لوگ یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا دے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ لوگ یہ دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں متقین کا امام بنا دے۔ (الفرقان : ٧٤)
مال اور اولاد میں کثرت کی دعا کا جواز
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ اولاد کے حصول کی دعا کرنی جائز ہے، جیسا کہ ان آیات میں بھی ہے :
(آل عمران : ٣٨) اے رب مجھے اپنے پاس سے پاکیزہ اولاد عطا فرما۔
(مریم : ٥) پس تو مجھے اپنے پاس سے وارث عطا فرما۔
اس آیت میں اولاد کے لئے ذریات کا لفظ لایا گیا ہے، ذریت اصل میں چھوٹے بچوں کو کہتے ہیں، لیکن عرف میں چھوٹے اور بڑے سب بچوں کے لئے ذریت کا لفظ مستعمل ہوتا ہے، ذریت کا لفظ واحد اور جمع دونوں کے لئے مستعمل ہوتا ہے، ذریت کا لفظ ذرء سے مشتق ہے جس کا معنی پیدا کرنا اور پھیلانا ہے، یا لفظ ذر سے بنا ہے جس کا معنی بکھیرنا ہے۔
قرۃ اعین میں قرۃ کا لفظ قرار سے بنا ہے قرت عینک کا معنی ہے تمہاری آنکھ برقرار رہے۔ یاقر سے بنا ہے جس کا معنی ٹھنڈک ہے قرت عینک کا معنی ہے تمہاری آنکھ ٹھنڈی رہے۔ غم کے وقت گرم آسنو نکلتے ہیں اور خشوی کے وقت ٹھنڈے آنسو نکلتے ہیں، عرب کہتے ہیں اللہ دشمن کی آنکھیں گرم کر دے اور دوست کی آنکھیں ٹھنڈی کر دے۔
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلیم (رض) (حضرت انس کی والدہ) کے گھر گئے وہ آپ کے لئے کھجوریں اور گھی لے کر آئیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا گھی کو اپنے مشکیزہ میں اور کھجوروں کو اپنے برتن میں لوٹا دو ، کیونکہ میں روزے سے ہوں، پھر آپ نے گھر کے ایک گوشے میں کھڑے ہو کر نفل نماز پڑھی اور حضرت ام سلیم اور ان کے گھر والوں کے لئے دعا کی، حضرت ام سلیم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میری ایک خاص اولاد ہے ! آپ نے پوچھا وہ کون ہے ؟ انہوں نے عرض کیا آپ کا خادم انس، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دنیا اور آخرت کی ہر خیر کی حضرت انس کے لئے دعا کی اور فرمایا : اے اللہ ! اس کو مال اور اولاد عطا فرما اور ان میں اس کو برکت دے ! حضرت انس نے کہا میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں، اور جب حجاج بصرہ میں آیا تو میری پشت سے ایک سو بیس بیٹے دفن ہوچکے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٩٨٢ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٩ : مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٠٧٦)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت انس کے مال اور اولاد میں کثرت اور برکت کی دعا فرمائی اس سے حضرت اسن کی والدہ کی آنکھیں ٹھنڈی ہوگئیں۔ اس حدیث میں ہے کہ حضرت انس نے اپنے ایک سو بیس بیٹے دفن کئے اور صحیح مسلم میں ہے کہ حضرت انس نے فرمایا میری اولاد اور میری اولاد کی اولاد کا عدد ایک سو سے زئاد ہے، اس حدیث کے دیگر فوائد میں سے یہ ہے کہ کسی شخصکا اپنے شناسائوں کی ملاقات کے لئے ان کے گھر جانا اور گھر والو کا اس کو ہدیے میں ماحضر پیش کرنا مستحب ہے، اور اگر آنے والا کسی رشعی عذر کی وجہ سے اس کے ہدیے کو قبول نہ کرسکے تو اس کو اپنا عذر بتادے تاکہ وہ رنجیدہ نہ ہو، اور جب ہدیہ پیش کرنے والا اس کو واپس اپنے پاس رکھ لے تو یہ ہبہ کر کے وپ اس لینے کے حکم میں اور مکروہ نہیں ہے اور کھانے پینے کی چیزوں کو حفاظت سے رکھنا چاہیے جس طرح آپ نے گھی اور کھجوروں کو دوبارہ اپنے اپنے برتنوں میں رکھنے کا حکم دیا اور جب کوئی شخص اپنے عذر کی وجہ سے کسی کی دعوت قبول نہ کرے تو اس کے حق میں دعا کرکے اس کی تلافی کر دے، اور نماز پڑھنے کے بعد دعا کرنا مشروع ہے اور کسی حاجت کو پوری کرنے سے پہلے نماز پڑھی چاہیے اور نماز میں دنیا اور آخرت کی خیر طلب کرنی چاہیے اور مال اور اولاد میں کثرت کی دعا اخروی خیر کے منافی نہیں ہے، اور یہ کہ دنیا کے مال میں کمی، قناعت اور زھد کی فضیلت علی العموم نہیں ہے۔ اگر تمام لوگ زاہد اور قانع ہوجائیں تو اسلام کے بہت سے احکام پر عمل نہیں ہو سکیں گے، پھر زکوۃ نہیں دی جاسکے گی نہ فطرانہ ادا ہوگا نہ حج اور قربانی ہوگی نہ صدقات اور خیرات ادا کئے جائیں گے، اور مالی عبادات ادا کرنے کا کوئی محل نہیں رہے گا اس لئے بعض لوگوں کے اعتبار سے زہد اور قناعت افضل ہے اور بعض لوگوں کے اعتبار سے مال میں کثرت افضل ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ امام اور امیر کو عوام کے حالات سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ان سے ملاقات کے لئے ان کے گھر میں جانا چاہیے، خواہ گھر والا گھر میں موجود نہ ہو کیونکہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام سلیم کے گھر گئے تھے تو ان کے شوہر حضرت ابو طلحہ ان کے گھر میں موجود نہیں تھے، اور یہ کہ اپنے نفس کے اوپر اپنی اولاد کو ترجیح دینی چاہیے کیونکہ حضرت ام سلیم نے یہ چاہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے بیٹے حضرت انس کے لئے دعا کریں اور یہ کہ حضرت انس کے زیادہ بیٹوں کا فوت ہوجانا ان کی اولاد میں برکت کے منافی نہیں ہے کیونکہ جب وہ اولاد کی موت پر صبر کریں گے تو اس سے ان کے اجر وثواب میں اضافہ ہوگا اور یہ اخروی خیر ہے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں کو بیان کرنا چاہیے جیسے حضرت انس (رض) نے اپنے مال اور اولاد کی کثرت کو بیان فرمایا، اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات ہیں، کیونکہ ایک نادر امر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وہ مال اور اولاد کی کثرت ہے، اور ان کے جس کے باغ کے لئے دعا کی وہ سال میں دو بار پھل دیتا تھا اور کسی باغ کی یہ صفت نہیں تھی۔
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
حضرت انس (رض) نے دس سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت کی، ان کا باغ سال میں دو بار پھل دیتا تھا اور اس سے مشک کی خوشبو آتی تھی، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد وہ مدینہ میں رہے اور متعدد جہادوں میں شرکت کی پھر بصرہ میں رہائش اختیار کرلی پھر 90 یا 91 ھ میں ننانوے سال کی عمر گزار کر بصرہ میں ہی فوت ہوگئے، حضرت انس (رض) نے اٹھارہ غزوات میں شرکت کی تھی، ثابت بنانی نے کہا حضرت انس بن مالک نے کہا یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں میں سے ایک بال ہے اس کو میری زبان کے نیچے رکھ دو ، پس میں نے اسے موئے مبارک کو ان کی زبان کے نیچے رکھ دیا پس ان کو دفن کردیا گیا اور وہ بال ان کی زبان کے نیچے تھا۔ (الاصابہ ج ٢ ص 276، رقم : ٢٧٧ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٥ ھ)
اپنی اولاد کے لئے آنکھ کی ٹھنڈک دنیا میں مطلوب ہے یا آخرت میں
رحمان کے بندوں کی اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ صفت بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنی بیویں سے اپنی ایسی اولاد کے حصول کی دعا کرتے ہیں جو ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہو یعنی ان کی اولاد ایسی ہو جس کو وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرتے ہوئے دیکھیں جس سے ان کی دنیا اور آخرت میں آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں، ان کی یہ مراد نہیں ہے کہ ان کی اولاد بہت حسین و جمیل ہو اور بہت مالدار اور دنیاوی فنون میں طاق ہو، بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ان کی اولاد ایسی ہو جو اللہ تعالیٰ کی بہت فرماں بردار اور بہت عبادت گزار ہو۔
امام احمد اور امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
حضرت مقداد بن اسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے زمانہ فترت اور زمانہ جاہلیت میں جس قدر نبی مبعوث فرمائے ہیں ان سب سے بری حالت میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کیا گیا۔ اس زمانہ میں لوگوں کے نزدیک بتوں کی پرستش سے افصل کوئی دین نہیں تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (قرآن مجید) کو لے کر آئے جس نے حق اور باطل میں اور والد اور اولاد میں تفریق کردی، حتیٰ کہ ایک شخص اپنی اولاد، اپنے والد اور اپنے بھائی کو کافر سمجھنے لگا، اور اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دلوں میں لگے ہوئے قفل کو سالام سے کھول دیا، اور ان کو یقین ہوگیا کہ اگر ان کی اولاد کفر کے حال میں مرگئی تو وہ دوزخ میں داخل ہوجائیں گے اور جب ان کو یہ یقین ہو کہ ان کی اولاد اور ان کے دوست دوزخ میں داخل ہوں گے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوں گی اور اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اور وہ لوگ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ہماری بیویوں اور ہماری اولاد سے ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما۔
(مسند حمد رقم الحدیث : ٢٣٢٩٨، داراحیاء التراث العربی، جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠١٦٦ الدرا المنثور ج ٦ ص 257)
کثیر بن زیاد کہتے ہیں کہ میں نے حسن بصری نے پوچھا کہ اے ابو سعید ! اس آنکھوں کی ٹھنڈک کا تعلق دنیا کے ساتھ ہے یا آخرت کے ساتھ ؟ انہوں نے کہا نہیں اللہ کی قسم ! مسلمان شخص کی آنکھوں کی ٹھنڈک صرف یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو خود کو اور اپنے دوست کو اللہ کی اطاعت اور اس کی عبادت کرتے ہوئے دیکھے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٤٨٥ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
متقین کا امام بننے کی دعا کریں یا ان کا مقتدی بننے کی
رحمٰن کے مقرب بندوں نے اس دعا کے آخر میں کہا : اور ہمیں متقین کا امام بنا دے۔
حضرت ابن عباس نے کہا یعنی ہمیں ائمہ التقویٰ بنا دے اور متقی لوگ ہماری اقتداء کریں۔
مجاہد نے کہا اس کا معنی یہ ہے ہمیں ایسا امام بنا دے کہ ہم اپنے سے پہلے متقی مسلمانوں کی اتباع کریں اور ہم اپنے بعد والوں کے امام ہوجائیں۔ امام ابن جریر نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو متقی مسلمان تیری نافرمانی سے اجتناب کرتے ہیں اور تیرے عذاب سے ڈرتے ہیں ہمیں ان کا امام بنا دے، وہ نیک کاموں میں ہماری اقتداء کریں، کیونکہ انہوں نے اپنے رب سے یہ سوال کیا ہے کہ ان کو متقی لوگوں کا امام بنا دے یہ سوال نہیں کیا کہ متقی لوگوں کو ان کا امام بنا دے۔ (جامع البیان جز ١٩ ص ٦٨ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام قشیری نے کہا امامت دعا سے حاصل ہوتی ہے دعویٰ سے حاصل نہیں ہوتی۔ یعنی امامت اللہ تعالیٰ کی توفیق اس کی تائید اور اس کے احسان سے حاصل ہوتی ہے اور کوئی شخص اپنے امام ہونے کا دعویٰ کرے اس سے امامت حاصل نہیں ہوتی، حضرت عمر دعا کرتے تھے : اے اللہ ہمیں ائمہ متقین سے بنا دے، حضرت ابن عباس (رض) دعا کرتے تھے اے اللہ ! ہمیں ائمہ ھدی بنا دے، مکحول دعا کرتے تھے اے اللہ ہمیں متقین کا امام بنا دے۔
علامہ قرطبی نے لکھا ہے اس آیت اور ان آثار میں یہ دلیل ہے کہ دین میں ریاست اور امامت کو طلب کرنے کی دعا کرنا مستحب ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٣ ص 79-80 مطبوعہ دارلافکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں کہتا ہوں کہ رحمٰن کے مقبول بندوں، حضرت عمر (رض) حضرت ابن عباس (رض) اور مکول ایسے متقی اور پاک بازوں کیل یء متقین کا امام بننے کی دعا کرنا مستحب ہے اور مجھے ایسے ناکارہ خلائق اور گناہوں میں ڈوبے ہوئے کم ہمت اور کم عمل لوگوں کو یہ دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ انہیں متقین کا محب، متبع اور مقتدی بنائے رکھے اور متقین کی اقتداء پر ہی خاتمہ کر دے۔
احب الصالحین ولست منھم لعل اللہ یرزقنی صلاحا۔ میں خود نیک تو نہیں ہوں لیکن نیکوں سے محبت کرتا ہوں، تاکہ اللہ مجھے بھی نیکی عطا فرما دے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 74