أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَعِبَادُ الرَّحۡمٰنِ الَّذِيۡنَ يَمۡشُوۡنَ عَلَى الۡاَرۡضِ هَوۡنًا وَّاِذَا خَاطَبَهُمُ الۡجٰهِلُوۡنَ قَالُوۡا سَلٰمًا ۞

ترجمہ:

اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل بحث کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں بس سلام ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل بحث کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں بس سلام ہو۔ (الفرقان : ٦٣ )

زمین پر وقار کے ساتھ چلنے اور جاہلوں سے بحث نہ کرنے کا حکم 

دنیا کے تمام انسان رحمٰن کے بندے ہیں اور اس آیت میں بندوں کی رحمان کی طرف اضافت تخصیص اور تشریف کے لئے ہے، یعنی وہ رحمان کے بہت خاص اور بہت شرف والے بندے ہیں جو زمین پر آہستگی اور وقار کے ساتھ چلتے ہیں، اتراتے ہوئے اکڑتے ہوئے اور تکبر کرتے ہوئے نہیں چلتے۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(لقمان : ١٨) اور لوگوں سے اپنا چہرہ نہ پھیر اور زمین میں اکڑتا ہوا نہ چل۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اے لو گو تم وقار کے ساتھ چلو، کیونکہ بھاگنے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦٧١)

حسن بصری نے کہا وہ علماء اور حکما ہیں، اور حمد بن الحنفیہ نے کہا وہ اصحاب وقار اور عزت دار لوگ ہیں وہ جاہلانہ بات نہیں کرتے اور اگر کوئی ان سے جاہلانہ بات کرے تو وہ برد باری اور تحمل سے سن لیتے ہیں اور پلٹ کر جاہلانہ جواب نہیں دیتے اور ھون کا لغوی معنی نرمی اور ملائمت ہے۔

اس آیت میں فرمایا ہے اگر ان سے کوئی جاہلانہ بات کرے تو وہ کہتے ہیں سلامًا سلاماً کے دو محمل ہیں ایک یہ کہ وہ درست بات کہتے ہیں پلٹ کر جاہلانہ جواب نہیں دیتے۔ دوسرا محمل یہ ہے کہ وہ ان کو حقیقتاً سلام کر کے ان کے پاس سے چلے جالتے ہیں۔ مجاہد نے کہا وہ صحیح بات کہتے ہیں اور مقاتل بن حیان نے کہا وہ ایسا جواب دیتے ہیں جس میں وہ گناہ سے سلامت اور محفوظ رہتے ہیں۔

حسن بصری نے کہا اگر کوئی شخص ان سے جاہلانہ بات کرے تو وہ اس کو تحمل سے سنتے ہیں اور جاہلانہ جواب نہیں دیتے اور اس سے معروف سالم مراد نہیں ہے۔

علامہ قرطبی نے کہا ہے کہ یہ آیت مشرکین سے قتال کرنے کے حکم سے پہلے کی ہے، کافر کے ساتھ جو احکام مخصوص تھے اب وہ منسوخ ہوگئے۔ پہلے مسلمانوں کو کفار کیساتھ جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھ، بعد میں ان سے جنگ کرنے کا حکم دیا گیا، علامہ ابن العربی نے کہا ہے کہ پہلے بھی مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا تھا کہ کفار کو سلام کریں بلکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ وہ ان کی زیادتیوں سے صرف نظر کریں اور درگزر کریں اور اچھے ریقہ سے ان کو چھوڑ دیں اور کنارہ کشی اختیار کریں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کفار کی مجلسوں میں جاتے تھے اور ان کو سلام کرتے تھے اور ان سے باتیں کرتے تھے اور معارضت نہیں کرتے تھے اور اس پر اتفاق ہے کہ اگر کوئی مسلمان جاہلانہ باتیں کرے تو اس کو سلام علیک کہنا جائز ہے۔

اور ہم سورة مریم کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ کفار کو سلام کرنے میں مسلمانوں کا اختلاف ہے پس اس آیت کو منسوخ قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے اور حسن بصری سے ایک اور قول یہ منقول ہے کہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب تم سے کوئی جاہلانہ بات کرے تو اس کو سلام کرو، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ مومنین کی صفات میں بیان فرماتا ہے :

(القصص : ٥٥) اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، تم پر سلام ہو ہم جاہلوں سے (بحث کرنا) نہیں چاہتے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٥٤ الجامع لا حکام القرآن جز ١٣ ص ٦٨ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 63