بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمْ اَنۡ یَّکْفُرُوۡا بِمَاۤ اَنۡزَلَ اللہُ بَغْیًا اَنۡ یُّنَزِّلَ اللہُ مِنۡ فَضْلِہٖ عَلٰی مَنۡ یَّشَآءُ مِنْ عِبَادِہٖ ۚ فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ ؕ وَ لِلْکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿۹۰﴾

ترجمۂ کنزالایمان:کس برے مولوں انہوں نے اپنی جانوں کو خریدا کہ اللہ کے اتارے سے منکر ہوں اس کی جلن سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہے وحی اتارے تو غضب پر غضب کے سزاوار ہوئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔

ترجمۂ کنزالعرفان:انہوں نے اپنی جانوں کا کتنا برا سودا کیا کہ اللہ نے جو نازل فرمایا ہے اس کا انکار کررہے ہیں اس حسد کی وجہ سے کہ اللہ اپنے فضل سے اپنے جس بندے پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے۔ 

{بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِہٖۤ اَنۡفُسَہُمْ: انہوں نے اپنی جانوں کاکتنا برا سودا کیا۔} یہودیوں نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ پر ایمان لانے کی بجائے کفر اختیار کیا اور ایمان کی جگہ کفر خریدنا خسارے کا سوداہے۔ اسی سے ہر آدمی نصیحت حاصل کرے کہ ایمان کی جگہ کفر، نیکیوں کی جگہ گناہ، اطاعت کی جگہ نافرمانی، رضائے الٰہی کی جگہ اللہ تعالیٰ کے غضب کا سودا بہت خسارے کا سودا ہے۔ 

{بَغْیًا:حسد کی وجہ سے۔} یہودیوں کی خواہش تھی ختمِ نبوت کا منصب بنی اسرائیل میں سے کسی کو ملتا، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس منصب سے محروم رہے اوربنی اسماعیل کو یہ منصب مل گیا تو وہ حسد کی وجہ سے حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور ان پر نازل ہونے والی اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید کے منکر ہوگئے ۔اس سے معلوم ہوا کہ منصب و مرتبے کی طلب انسان کے دل میں حسد پیدا ہونے کا ایک سبب ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ حسد ایسا خبیث مرض ہے جو انسان کو کفر تک بھی لے جا سکتا ہے۔

حسد ایمان کے لئے تباہ کن ہے:

حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو ملنے والی نعمت چھن جانے کی آرزو کی جائے، اور ایسی آرزو کی برائی محتاج بیان نہیں۔  

حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’آدمی کے دل میں ایمان اور حسد جمع نہیں ہوتے۔ (سنن نسائی، کتاب الجہاد، فضل من عمل فی سبیل اللہ۔۔۔ الخ، ص۵۰۵، الحدیث: ۳۶۱۰)
حضرت معاویہ بن حیدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور انورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’حسد ایمان کو اس طرح تباہ کر دیتا ہے جیسے صَبِر (یعنی ایک درخت کاانتہائی کڑوا نچوڑ) شہد کو تباہ کر دیتا ہے۔
(جامع صغیر، حرف الحائ، ص۲۳۲، الحدیث: ۳۸۱۹)
یاد رہے کہ حسد حرام ہے اور اس باطنی مرض کے بارے میں علم حاصل کرنا فرض ہے۔اس سے متعلق مزید تفصیل جاننے کے لئے امام غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی مشہور کتاب ’’احیاء العلوم ‘‘ کی تیسری جلد میں موجود حسد سے متعلق بیان مطالعہ فرمائیں۔
{فَبَآءُوْ بِغَضَبٍ عَلٰی غَضَبٍ: تو یہ لوگ غضب پر غضب کے مستحق ہوگئے۔}حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں : یہودی تورات کو ضائع کرنے اور اس کے احکامات کو تبدیل کرنے کی وجہ سے پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ کفر کرنے کی وجہ سے دوسرے غضب کے حقدار ٹھہرے۔ بعض مفسرین نے فرمایا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور انجیل کا انکار کرنے کی وجہ سے یہودی پہلے غضب کے مستحق ہوئے اور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ اور قرآن مجید کا انکار کرکے دوسرے غضب مستحق ہو گئے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۹۰، ۱/۶۹)