حدیث نمبر 454

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن عمرو سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ اﷲ کو پیاری نماز داؤد علیہ السلام کی ہے اور اﷲ کو پیارے روزے داؤد علیہ السلام کے ہیں ۱؎ کہ آپ آدھی رات سوتے تھے اور تہائی رات کھڑے رہتے پھر چھٹا حصہ سوتے ۲؎ اور ایک دن روزہ رکھتے ایک دن افطار کرتے۳؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ یہاں نماز سے تہجد کی نماز مراد ہے اور روزے سے نفلی روزے جیسا کہ اگلے مضمون سے ظاہر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دیگر انبیائے کرام بھی تہجد اور نفلی روزے ادا کرتے تھے مگر ان کے طریقے اور تھے۔حضرت داؤد علیہ السلام کا یہ طریقہ تھا جو یہاں مذکو رہے۔

۲؎ یعنی دو تہائی رات سوتے اور ایک تہائی رات جاگتے تھے اور اس جاگنے اور نماز کو دو نیندوں کے درمیان کرتے اب بھی یہی چاہیئے۔

۳؎ اسی طرح نوافل تہجد اور نفلی روزوں کی محبوبیت کی چندہ وجوہ ہیں:ایک یہ کہ اس میں روح کا حق بھی ادا ہوتا ہے اور نفس کا حق بھی،تمام رات سونے ہمیشہ افطار کرنے سے روح کا حق رہ گیا۔اور رات بھر جاگنے،ہمیہ روزے میں نفس کا حق مارا گیا۔دوسرے یہ کہ اس طرح تہجد،روزے نفس پر بھاری ہیں لہذا رب کو پیارے ہیں کیونکہ ہمیہ روزے رکھنے میں روزہ عادت بن کر آسان معلوم ہونے لگتا ہے مگر اس طرح ہر روزے میں نئی لذّت محسوس ہوتی ہے۔تیسرے یہ کہ اس میں جسمانی طاقت بحال رہتی ہے گھٹتی نہیں طاقت ہی سے ساری عبادتیں ہوتی ہیں۔خیال رہے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تیرھویں،چودھویں،پندرھویں روزے رکھے کبھی،یہ بھی کیا کچھ تاریخوں میں مسلسل روزے،کچھ میں مسلسل افطار تا کہ امت پر آسانی ہو،نیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابوالوقت ہیں جو عمل کریں وہ افضل ہے۔رات کی ہر ساعت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نفل سے شرف حاصل ہوا اور مہینہ کی ہر تاریخ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے سے عزت ملی۔