وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 80
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا مَرِضۡتُ فَهُوَ يَشۡفِيۡنِ ۞
ترجمہ:
اور جب میں بیمار پڑتا ہوں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے۔
تفسیر:
عام لوگوں کی بیماری کے اسباب
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا (ابراہیم نے کہا) اور جب میں بیمار پڑجاتا ہوں تو وہی مجھے شفاء دیتا ہے (الشعر ۸۰) حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کا کہا اور جب میں بیمار ہوتا ہوں یہ نہیں کہ جب وہ مجھے بیمار کرتا ہے کیونکہ صحت اس وقت قائم رہتی ہے جب جسم کی تمام اخلاط اعتدال پر رہیں اور جب بعض اخلاط بعض پر غالب ہوجائیں یا کھا نے پینے میں بےاعتدالی کی وجہ سے ان میں تنافر اور تعفن پیدا ہوجائے تو انسان میں مرض پیدا ہوجا تا ہے مثلا زیادہ میٹھی اور نشاستہ دار چزوں کے کھا نے آرام طلبی اور جفا کشی نہ کرنے کی وجہ سے شوگر ہوجاتی ہے بسیار خوری کی وجہ سے بدہضمی اور معدہ کا ضعف ہوجاتا ہے اور معدہ کے منہ پر ورم آجا تا ہے زیادہ تیزابی ترش اور مرچیں مصالحہ دار چٹ پٹی اشیاء کھا نے کی وجہ سے معدہ کا السر ہوجا تا ہے تماکو کھا نے اور سگر یٹ نو شی کی وجہ سے عمو ماً گلا خراب ہوجاتا ہے کھا نسی ہوجاتی ہے خون کی شریانیں تنگ ہوجاتی ہیں اور ہائی بلڈ پریشر ہوجاتا ہے جس کے نتیجہ میں فالج ہوجاتا ہے اور بعض اوقات دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے زیادہ سگر یٹ نوشی (چین سموکنگ) سے جگر کا سائز کم ہوجاتا ہے اور سروس ہوجاتا ہے اور مرغن اشیاء زیادہ کھا نے ‘ تن آسانی اور محنت کے کام نہ کرنے کی وجہ سے انسان عارضہ قلب میں مبتلا ہوجاتا ہے اور کو لیسٹرول بڑھنے کی وجہ سے کمر کا درد ہوجاتا ہے اور زیادہ گوشت کھا نے کی وجہ سے آخر عمر میں پرو سٹیٹ گلینڈ کا حجم زیادہ ہوجاتا ہے اور پیشاب کرنے میں تکلیف ہوتی ہے اور زیادہ گرم اشیاء اور انڈے چاول زیادہ مقدار میں کھا نے کی وجہ سے گردوں کا درد ہوجاتا ہے اور پتھری ہوجاتی ہے ٹماٹر کے بیج اور پالک زیادہ کھا نے کی وجہ سے پتے میں پتھری ہوجاتی ہے جنسی بےاعذالی اور بےراہ روی کے نتیجہ میں آ تشک اور سوزاک ایسے امراض ہوجاتے ہیں ہم جنس پرستی سے ایڈز کا مرض لاحق ہوجاتا ہے شراب نوشی کی کثرت سے کینسر ہوجاتا ہے اور ان اخلاق سوز حرکات کی وجہ سے آ دمی کا سکون غارت ہوجاتا ہے راتوں کو نیند نہیں آتی جس کے نتیجے میں پہلے انسومینا پھر مالیخولیا ہوجاتا ہے پھر لوگوں کو سکون بخش اور خواب آ ور گولیاں لینی پڑتی ہیں بعض لوگ پیتھوڈین کے انجیکشن لگواتے ہیں اور بعض چرس اور ہیروئن کی پناہ لیتے ہیں اور پھر انسان دن بہ دن تباہی کے غار میں چلا جاتا ہے
خلاصہ یہ ہے کہ ہر بیماری ‘ مرض اور مصیبت انسانی کی اپنی آوردہ اور پیدا کردہ ہے جب انسان اسلام کے احکام اور فطرت کے اصولوں سے رو گردانی کرتا ہے تو و وہ امراض اور مصائب کا شکار ہوجاتا ہے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا
تم پر جب مصائب آتے ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا بدلہ ہے اور بہت سے باتوں کو تو اللہ در گزر فرمالیتا ہے (الشوری ٠٣)
جو انسان فرط سے بغاوت نہیں کرتا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی نہیں کرتے وہ ان مہلک بیماریوں میں مبتلا نہیں ہوتے اور امن اور سکون کے ساتھ زندگی گزار دیتے ہیں قرآن مجید میں ہے
جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا ان ہی کے لیے امن اور سلامتی ہے اور وہی ہدایت یافتہ ہیں (الانعام ٢٨ )
غرض یہ کہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے یہ کہا کہ بیمار میں ہوتا ہوں اور یہ نہیں کہا کہ اللہ مجھے بیمار کرتا ہے کیونکہ اللہ ہی نے انسان کو صحیح سالم بدن دیا تھا حضرت ابرہیم ( علیہ السلام) نے اپنے اس قول سے یہ تنبیہ فرمائی کہ انسان بےاعتدالی اور بےراہ روی سے خود اپنے آپ کو بیمار کرلیتا ہے
نبی علیہ السلام اور نیک لوگوں کی بیماری کے اسباب
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ انبیاء ( علیہ السلام) اور دوسرے نیک لوگ بھی بعض اوقات بیمار ہوجاتے ہیں حضرت ایوب ( علیہ السلام) سخت بیمار ہوئے ‘ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے اپنی بیماری کا ذکر کیا ‘ حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے اپنی تھکاوٹ کا ذکر کیا خود ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زخمی ہوئے سر میں درد ہوا اور آپ کو عام لوگوں کی بہ نسبت دگنا بخار آتا تھا کیا ان حضرات کی بیماری بھی خود پیدا کردی تھی اس کا جواب یہ ہے کہ ان نفوس قدسیہ کی بیماری کے متعلق کوئی بد باطن شخص ہی ایسا فاسد گمان کرسکتا ہے ان پر جو بیماریاں آتی ہیں وہ اللہ کی طرف سے امتحان اور آزمائش ہیں اور ان کے اجر وثواب میں اضافہ کا سبب ہیں اور امت کے لیے تعلیم ہے تاکہ دوا اور علاج کرنا ان کی سنت ہوجائے بیمار کی خدمت کرنے اور بیمار کی عیادت کرنے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اسوہ مکمل ہوجائے اور امت کو معلوم ہوجائے کہ بیماری کی حالت میں نماز اور دوسری عبادات کس طرح ادا کی جائیں اور یہ معلوم ہو کہ اگر مرض بہت بڑھ جائے اور تکلیف زیادہ ہو تو صبر اور سکون سے کام لیا جائے بےقراری ‘ آہ وزاری اور شکوہ شکایت اور واویلا نہ کیا جائے ہم نے عام لوگوں کی بیماری کے اسباب بیان کیے ہیں کہ ان کے امراض بےاعتدالی سے پیدا ہوتے ہیں انبیاء (علیہم السلام) کی بیماری ان کے حق میں امتحان بلکہ انعام ہوتی ہے۔
اب بجا طور پر یہ سوال ہوگا کہ جب انبیاء علیہم اسلام خود اپنی بیماری کا سب نہیں ہوتے تو پھر حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) نے کیوں فرمایا میں بیمار ہوتا ہوں اور وہ شفا دیتا ہے اس کا جواب آئندہ سطور میں آرہا ہے (ان شاء اللہ)
عیب کی نسبت اپنی طرف اور حسن کی نسبت اللہ کی طرف کرنا
ادب اور تواضع کا تقاضا یہ ہے کہ ہر حسن اور کمال کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی جائے اور عیب اور نقص کی نسبت اپنے نفس کی طرف کی جائے جیسا کہ قرآن مجید کی تعلیم ہے
(اے انسان) تجھے جو اچھائی پہنچتی ہے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے (النساء ٩٧)
حضرت خضر ( علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ کشتی کی توڑا اور اس میں نقص اور عیب ڈالا تو اس کی نسبت اپنی طرف کی اور کہا
رہی کشتی تو وہ ان مسکینوں کی تھی جو سمندر میں کام کرتے تھے سو میں نے اس میں عیب ڈالنے کا ارادہ کیا (الکھف ٩٧)
اور جب یتیم بچوں کا خزانہ محفوظ کرنے کے لیے اس ٹوٹی ہوئی د یوار کو جوڑا جس کے نیچے ان کا خزانہ دفن تھا تو کہا
رہی دیوار تو اس معاملہ یہ ہے کہ اس شہم میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ اس دیوار کے نیچے دفن ہے ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو آپ کے رب نے یہ ارادہ کیا کہ یہ دونوں یتیم بچے اپنی جوانی کو پہنچ جائی اور اپنا خزانہ نکال لیں۔(الکھف ٢٨ )
ظاہر میں کشتی توڑانا دیوار جو ڑانا دونوں حضرت خضر ( علیہ السلام) کے کام تھے اور حقیقت میں یہ دونوں کام اللہ کے فعل تھے لیکن حضرت خضر نے اداب کو ملحوظ رکھ کر توڑنے کی نسبت اپنی طرف کی اور جوڑ نے کی نبست اللہ کی طرف
اور اسی نہج پر یہ آیت ہے جنات نے کہا
ہم نہیں جانتے کہ ( آسمانوں کو محفوظ کرکے) زمین والوں کے ساتھ کسی شرکا ارادہ کیا گیا ہے یا اس کے رب نے ان کے ساتھ بھلائی (ہدایت) کا ارادہ کیا ہے (الجن ٠١)
جنات نے جب شرکا ذکر کیا تو اس کے فائل کو مجہول رکھا اوجب بھلائی اور ہدایت کا ذکر کیا تو اس کو ان کے رب کا ارادہ کہا
میں بیمار ہوتا ہوں اور شفاء وہ دیتا ہے بیماری نقص اور عیب ہے اس کی اپنی طرف نسبت کی اور شفاء دینا حسن اور کمال ہے تو اس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی اور یہی حسن ادب کا مقتضی ہے
مرض اور شفاء کے متعلق عارفین کے اقوال
علامہ اسماعیل حقی حنفی بروسی متوفی ۱۱۳۷ ھ لکھتے ہیں
امام جعفر صادق (رض) سے منقول ہے جب میں گناہ کرکے بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجے تو بہ سے شفاء دے دیتا ہے اور شبلی (رح) نے کہا کہ بیماری غیر اللہ کی طرف دیکھنے سے ہوتی ہے اور شفاء اللہ عزوجل کی تجلیات کے مشاہدہ سے ہوتی ہے اور بحر میں لکھا ہے کہ بیماری دنیا کے ساتھ تعلق رکھنے سے ہوتی ہے اور شفاء دنیا سے قطع تعلق سے ہوتی ہے اور یہ مرتبہ اس وقت حاصل ہوتا ہے جب سالک پر جذب کی کیفت مستحکم ہوتی ہے تو وہ تمام مخلوق سے تعلق منقطع کر کے صرف ایک اللہ کا ہوجاتا ہے ( روح البیان ج ٦ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٢٤١ ھ)
اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ انسان اپنے نفس اپنے والدین اپنی بیوی اور اپنی اوالاد سے قطع تعلق کرلے ان کی ذمہ داریاں پوری نہ کرے اور ان کے حقوق ادا نہ کرے کیونکہ یہ اسلامم کے احکام کے خلاف ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہا پنے تمام متلعقین کی ذمہ داریاں پوری کرتا رہے اور ان کے حقوق ادا کرتا رہے لیکن ان کے حقوق کو ادا کرنا ان کے ساتھ تعلق کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی اطاعت اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کی اتباع کی وجہ سے ہو اور کسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہ رہے
حضرت ابو حجیفہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سمان اور حضرت ابو الدرداء (رض) کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا ‘ حضرت سلمان حضرت ابو الدرداء کی ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے حضرت ابو الدرداء کی بیوی حضرت ام الدرداء کو برے حال اور میلے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا انہوں نے ان کو دیکھا کہا تم نے کیا حال بنا رکھا ہے انہوں نے کہا تمہارے بائی الو دالدرداء نے دنیا سے کوئی تعلق نہیں رکھا ‘ جب حضرت ابو الدرداء آ تے انہوں نے حضرت سلمان کے لیے کھانا رکھا اور کہا کھائیں انہوں نے کہا آپ بھی کھائیں حضرت ابو الدرداء نے کہا میں روزے سے ہوں حضرت سلمان نے کہا میں اس وقت تک نہیں کھئوں گا جب تک تم نہ کھاء و پھر حضرت ابو دالدرداء نے بھی کھانا کھایا جب رات ہوئی تو حضرت ابو الدرداء نماز پڑھنے لگے حضرت سلمان نے کہا جائو سو جائو تو وہ سو گئے پھر تھوڑی دیر بعد نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے حضرت سلمان نے پھر کہا ابھی سو جائو جب رات کا پچھلا پہر اہوا تو حضرت سلمان نے کہا اب کھڑے ہو جائو پھر دونوں نے نماز پڑھی پھر ان سے حضرت سلمان نے کہا تمہارے رب کا تم پر حق ہے اور تمہارے نفس کا تم پر حق ہے اور تمہاری اہلیہ کا تم پر حق ہے۔ سو تم ہر حق دار کا حق ادا کرو پھر حضرت ابو الدرداء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور اس واقعہ کا ذکر کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سلمان نے سچ کہا
(صحیح البخاری رقم الحدیث ٨٦٩١‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٢١٤٢‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ٤٤١٢‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٠٢٣‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث ٨٩٨١‘ العجم الکبیر ج ٢٢‘ رقم الحدیث ٥٨٢‘ سنن دار قطنی ج ٢ ص ٦٧‘ حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٨٨‘ سنن بہقی ج ٤ ص ٦٧٢)
بعض عارفین نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جب میں محبت کی ابتداء میں بیمار ہوتا ہوں اور اللہ سے ملاقا ات کے شوق کا مریض ہو تاوں پھر جب اس سے واصل ہوتا ہوں تو اس کے وصال کا حسن اور اس کیجمال کا کشف مجھ کو شفاء دے دیتا ہے
دوا اور علاج کے متعلق احاد یث
بعض اصفیاء سے منقول ہے کہ وہ بیمار پڑگئے اور کمز ور ہوگئے ان رنگ پیلا ہوگیا ان سے کہا گیا کیا ہم آپ کے لیے کسی طبیب کو بلائیں جو آپ کے اس مرض کا علاج کرے انہوں نے کہا طبیب نے ہی تو مجھے بیمار کیا ہے پھر یہ شعر پڑھا۔
کیف اشکوالی طبیبی مابی
والذی بی اصابنی من طبیبی
میں اپنی حالت کی طبیب سے کیسے شکایت کروں
کیوں کہ میں اپنے طبیب ہی کی وجہ سے اس حالت کو پہنچا ہوں
(روح البیان ج ٦ ص ٥٦٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٢٤١ ھ)
بعض صوفیا علاج سے منع کرتے ہیں اور اس کو توکل اور تسلیم و رضا کے خلاف قرار دیتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ اللہ بندہ کو جس حال میں رکھے اس حال میں راضی رہنا چاہیے اور دوا اور علاج نہیں کرنا چاہیے لیکن یہ صحیح نہیں ہے ورنہ بندہ کو دعا بھی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ دعا میں بندہ اپنے حال میں تغیر کو طلب کرتا ہے اور یہ قرآن مجید کی بہت سے آ یتوں کیخلاف ہے اور بیماری میں علاج نہ کرنا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کے بھی خلاف ہے اور آپ کے احکام کے بھی خلاف ہے
اسامہ بن شریک بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کے اصحاب اس طرح بیٹھے ہوئے تھے گویا ان کے سروں پر پرند ہوں میں نے سلام کیا پھر بیٹھ گیا ادھر ادھر سے دیہاتی آ رہے تھے انہوں نے پوچھا یا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کیا ہم دوائوں سے علاج کیا کریں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دوا استعمال کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو بیماری پیدا کی ہے اس کے علا ج کے لیے دوا بھی پیدا کی ہے سوا ایک بیماری کے وہ بڑھاپا ہے (سن ابو دائود رقم الحدیث ٥٨٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٨٣٠٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٤٣٠٤)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود بھی علاج کیا ہے اور اس زمانہ میں علاج کے جو طریقے معروف تھے ان پر عمل فرمایا ہے
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے حجرے میں داخل ہوئے اور آپ کا درد بہت شدید ہوگی آپ نے فرمایا مجھ پر ایسی سات مشکوں کا پانی انڈیلو جن منہ کھولا نہ گیا ہو شاید میں لوگوں کو وصیت کروں آپ کو حضرت حفصہ (رض) کے ٹب میں بٹھا دیا گیا پھر ہم نے آپ کے اوپر مشکوں سے پانی انڈیلینا شروع کیا حتیٰ کہ آپ نے ہماری طرف اشارہ کرکے فرمایا بس کرو پھر آپ لوگوں کی طرف چلے گئے (صحیح البخاری رقم الحدیث ٨٩١‘ سنن النسائی رقم الحدیث ٤٣٨١‘ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث ٤٨٠٧)
جدید طبی تحقیق بھی یہی ہے کہ جب بہت تیز بحار ہو تو مریض کو برف سے ٹھنڈک پہنچائی جائے
ابوحازم بیان کرتے ہیں کہ لوگوں نے حضرت سہل بن سعد الساعدی (رض) سے سوال کیا کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زخمی ہوئے تھے تو کس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا تھا ؟ انہوں نے کہا اب اس چیز کو مجھے سے زیادہ جانے والا کوئی باقی نہیں بچا حضرت علی ڈھال میں پانی لے کر آ تے تھے اور حضرت فاطمہ (رض) آپ کے چہرے سے خون کو دھر کر صاف کرتی تھیں پھر ایک چٹائی جلائی گئی اور اس کی راکھ سے آپ کے زخم کو بھر دیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :243، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3464)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فصد لگوائی (رگ کٹوا کر خون نکلوانا) اور رگ کاٹنے والے کو اس اجرت دی اور نک میں دوا ڈلوائی (صحیح البخاری رقم الحدیث ١٩٦٥‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٠٢١ )
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بعض بیماریوں کا علاج بھی بتایا ہے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کلونجی میں موت کے سوا ہر بیماری کے لئے شفاء ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :5688 صحیح مسلم رقم الحدیث :2215)
حضرت رافع بن خدریج (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بخار جہنم کی گرمی کی شدت سے ہے، اس کو پانی سے ٹھنڈا کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث 5726 صحیح مسلم رقم الحدیث :2212 سنن الرتمذی رقم الحدیث :2074 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3474)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اور بھی بہت سی بیماریوں کے لئے تجویز فرمائی ہیں جن کی تفصیل کتب صحاح ستہ میں ہے۔
پرہیز کے متعلق احادیث
بعض لوگ پرہیز کے بھی بہت مخالف ہیں اور پرہیز خود کرتے ہیں نہ دوسرون کو کرنے دیتے ہیں، میں نے بہت سے شوگر کے مریضوں کو مٹھائی کھاتے ہوئے دیکھا وہ کہتے ہیں صاحب ! میٹھی اور نشاستہ والی چیزوں کو نہ کھانا کفران نعمت ہے، ہم اللہ کی نعمتوں کو ترک نہیں کرسکتے۔ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کرام کو پرہیز کرایا ہے۔
ام المنذربنت قیس الانصاریہ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے اور آپ کے ساتھ حضرت علی پر نقاہت اور کمزوری تھی۔ ہمارے ہاں کچی کھجوروں کا خوشہ لٹکا ہوا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہو کر اس میں سے کھجوریں کھانے لگے۔ حضرت علی بھی کھڑے ہو کر کھانے لگے تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت علی (رض) سے فرمانے لگے، یہ کھجوریں نہ کھائو کیونکہ تم کمزور ہو، حتیٰ کہ حضرت علی رک گئے، میں نے ضو اور چقندر کا سالان بنایا ہوا تھا، میں آپ کے پاس وہ لے کر آئی، آپ نے فرمایا اے علی ! اس میں سے کھائو یہ تمہارے لئے فائدہ مند ہیں۔ (سنن ابوداوئد رقم الحدیث : ٦٥٨٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٣٠٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٤٤٣ )
حضرت قتادہ بن النعمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے محبت کرتا ہے تو اس کو دنیا سے اس طرح پرہیز کراتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی شخص استستقاء کے مریض کو پانی سے پرہیز کراتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث ٦٣٠٢، مسند احمد ج ٥ ص ٧٢٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٦٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٤٤٣، المعجم الکبیر ج ٩١، رقم الحدیث : ٧١، المستدرکج ٤ ص ٢٠٧، شعب الایمان رقم الحدیث : ٨٤٠١)
حضرت محمود بن لبید بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ عزوجل اپنے بندہ کو دنیا سے اس طرح پرہیز کراتا ہے جس طرح تم اپنے مریض کو (نقصان دہ) کھانے اور پینے کی چیزوں سے پرہیز کراتے ہو۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٠٥٤٠١، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ٠١٤١ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 80