أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَ تَتَّخِذُوۡنَ مَصَانِعَ لَعَلَّكُمۡ تَخۡلُدُوۡنَ‌ۚ ۞

ترجمہ:

اور تم اس توقع پر مضبوط مکان بنا رہے ہو کہ تم ہمیشہ رہو گے۔

متعدد منزلہ بلڈنگیں اور خوبصورت عمارات ‘ پلازہ اور شاپنگ سنٹر بنانے کا شرعی حکم 

پھر فرمایا اور تم اس توقع پر مضبوط مکان بنا رہے ہو کہ تم ہمیشہ رہو گے ۔ ! (الشعر اء ۱۲۹ )

یعنی ان کے ظاہر حال سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان مکانوں میں ہمیشہ رہنے والے ہیں اس کی مذمت اس لیے فرمائی ہے کہ ان کا یہ فعل اسراف تھا ‘ یا اس میں اظہار تکبر تھا ‘ اس کی مذمت کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی دلچسپیوں میں منہمک ہو کر اللہ تعالیٰ سے اور مرنے سے غافل ہوگئے تھے ‘ یہ بھول گئے تھے کہ یہ دنیا تو سرائے فانی ہے یہاں سے آ گے گذر جانا ہے یہ دائمی قیام گاہ نہیں ہے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک بلند گنبد بنا ہوا دیکھا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ کس کا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب (رض) نے بتایا یہ انصار کے فلاں شخص کا ہے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سن کر خاموش رہے اور اس کو دل میں رکھ لیا ‘ حتیٰ کہ وہ گندبنا نے والا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس مجلس میں آیا ‘ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض فرمایا اس نے کئی بار سلام کیا اور آپ کے اعراض فرمانے کو دیکھا ‘ اس نے آپ کے اصحاب سے (آپ کے توجہ نہ کرنے کی) شکایت کی۔ اس نے کہا اللہ کی قسم ! میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بدلا ہوا دیکھا رہا ہوں ‘ صحابہ نے اس کو بتایا کہ آپ باہر گئے تھے اور آپ نے تمہارا بنایا ہوا گنبد دیکھا تھا وہ شخص اسی وقت لوٹ گیا اور اس نے اس گنبد کو منہدم کردیا حتیٰ کہ اس عمارت کو پیوند زمین کردیا ‘ پھر ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر نکلے تو آپ کو وہ گنبد نظر نہیں آیا آپنے پوچھا اس گنبد کا کیا ہا صحابہ نے کہا اس نے ہم سے آ پکے عدم التفات کی شکایت کی تھی ہم نے اس کو آپ کی نا پسندیدگی کی خبر دی تو اس نے اس گنبد کو گرا دیا آپ نے فرمایا سنو عمارت اس کے بنانے والے پر وبال ہے سوا اس عمارت کے جس کے بغیر اور کوئی چارہ کار نہ ہو (سنن ابو دائود رقم الحدیث ٧٣٢٥‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ٤١٤١ ھ)

اس حدیث کا یہ منشاء نہیں ہے کہ مضبوط ‘ خوبصورت کثیر المنزلہ اور بلند عمارات کے بنانے کی اسلام میں اجازت نہیں ہے اس حدیث میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ ہدایت موجود ہے کہ جس قدر اور جتنی عمارت ضرورت ہو اس کو بنانا جائز ہے اور بلا ضرورت بنانا جا ئز نہیں ہے اس زمانہ میں مدینہ منور چھوٹا ساشہر تھا اس کی بہت قلیل اور مختصر آبادی تھی اس لیے اس دور کے مسلمانوں کے لیے چھوٹے چھوٹے مکان ان کی ضروریات کے لیے کافی تھے اب آ بادی بہت بڑھ گئی ہے بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی رہائشی اسکیمیں بنا گئی ہیں کئی کئی منزلہ پلازے ہیں پھر بھی وہ رہائشی ضروریات کے لیے ناکافی ہیں کتنی جگہوں پر ایک ایک فلیٹ میں کئی کئی خاندان رہتے ہیں ہمارا شہر کراچی تقریباً دو سو مربع کلومیٹر کے رقبہ پر مشتمل ہے اور اس میں کروڑ سے زیادہ افراد رہتے ہیں کچے مکان اور جھو نپڑیاں اس دور کے موسمی حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتے لہذا پختہ مکان بنانا اس دور کی ضرورت ہے اور کم جگہ کو زیادہ افراد کی رہائش کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں کثیر المنزلہ عمارات بنائی جائیں جو بہ کثرت فلیٹس پر مشتمل ہوں تب اس دور کی بڑھتی ہوئی آ بادی کی کھپت ہوسکتی ہے اس لیے مضبوط ‘ مستحکم اور بلند وبالا عمارات کو بنانا اور وہاں کے رہنے والوں کے لیے وہیں شاپنگ سنٹر بنانا ‘ اسی طرح بچوں اور نوجوانوں کی تعلیم کے لیے ان ہی علاقوں میں وسیع و عریض اسکول اور کالج بنانا ‘ بیماروں کے لیے اسی مناسبت سے ایسے ہی وسیع و عریض اور بلند وبالا ہسپتال بنانا ‘ تجارتی مارکیٹیں بنانا اور اس نوع کی دیگر تعمیرات کرنا اس دور کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں ہے تعمیر ات میں حسن کو شامل کرنا اور خوبصورت بنگلے اور کو ٹھیاں بنانا بھی اسلام کے خلاف نہیں بلکہ اسلام کے ساتھ ہم آہنگ ہے اس کو سمجھنے کے لیے اس حدیث کو ملاحظہ فرمائیں 

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں ذرہ کے بربر بھی تکبر ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا ایک شخص نے کہا ایک آ دمی یہ چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں اس کے جوتے اچھے ہوں آپ نے فرمایا اللہ جمیل اور حسین ہے وہ جمال اور حسن سے محبت کرتا ‘ تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے (صحیح مسلم ‘ ایمان ٧٤١‘ رقم بلا تکرار ١٩‘ الرقم اسمسلسل ‘ ٩٥٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ١٩٩٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث ١٩٠٤‘ سنن ماجہ رقم الحدیث ٩٥)

اس حدیث سے ظاہر ہوگیا کہ انسان اپنی وسعت کے مطابق اچھے کپڑے پہننا ‘ اچھے جوتے پہننا اور خوبصورت مکان بنانا اسلام میں پسندیدہ ہے لہذا مضبوط مستحکم ‘ بلندو بالا او حسین و جمیل عمارات بنانا ‘ اسلام کے عین مطابق ہیں اسلام کے خلاف نہیں ہیں۔

اس کی وضاحت اس حدیث سے بھی ہوتی ہے 

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں مسجد (نبوی) کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور اس کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی ہوئی تھی اور اس کے ستون کجھو رکے تنوں کے تھے حضرت ابوبکر (رض) نے اس میں کوئی اضافہ نہیں کیا ‘ حضرت عمر (رض) نے اس میں توسیع کی اور اضافہ کیا اور رسول (رض) کے عہد کی بنیادوں پر اینٹوں اور شاخوں سے مسجد کو وسیع بنایا اور اس کے ستون دوبارہ لکڑیوں کے بنائے ‘ پھر حضرت عثمان (رض) نے اس کی تعمیر میں تبدیلی اور توسیع کی ‘ اس کی دیواریں نقشین پتھروں اور چونے سے بنائیں اس کے ستون بھی نقشین پتھروں سے بنائے اور اس کی چھت ساگوان کی لکڑی سے بنائی۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث ٢٤٤‘ سنن ابود ائود رقم الحدیث ١٥٤‘ مسد احمد رقم الحدیث ٩٣١٢‘ عالم الکتب بیروت )

اس حدیث سے اس امر پر وافر روشنی پڑتی ہے کہ ہر دور کے تقاضوں کے اعتبار سے عمارات کی تعمیر کے طور اور طریقے بدلتے رہتے ہیں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے زمانہ میں مدینہ منورہ کی آبادی کم تھی تو اس وقت کی ضرورت کے لیے ایک چھوٹی سے کچی مسجد کافی تھی ‘ لیکن حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں آبادی بڑھ گئی اور دوسرے صوبوں سے بھی نو مسلم لوگوں نے مدینہ منورہ کا رخ کیا تو حضرت عمر (رض) نے مسجد نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توسیع بھی کی اور اس کی دیواروں اور ستونوں کو پختہ بھی کیا حضرت عثمان (رض) کے دور خلافت میں آبادی مزید بڑھی اور فن تعمیر میں جدید تقاضے در آ نے لگے تو حضرت عثمان (رض) نے مسجد سبوی کی عمارت کو بھی تعمیر کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ کیا اور مسجد نبوی کی عمارت کے حسن میں بھی اضافہ کیا نقشین پتھروں سے اس کی دیوارویں بنائیں اور ساگو ان کی قیمتی لکڑی سے اس کی چھت بنائی اور یوں جیسے جیسے اسلام کا رقبہ وسیع ہوتا گیا اور مسلمانوں کی دنیا میں تعداد بڑھتی گئی اور دوسری قوموں کی آمیزش سے علوم و فنون میں اور زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی ہوتی ہوگئی۔ تو جدید تقاضوں کے مطابق فن تعمیر میں بھی توسیع اور ترقی ہوتی گئی پہلے تیروں تلواروں اور نیزوں سے جنگ ہوتی تھی پھر بندوقوں توپوں اور ٹینکوں کا دور آیا اس کے بعد جنگی طیاروں آبدوزوں اور بمموں کا دور آیا اور اب دور مار میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کا دور ہے جس طرح اب میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کا تیروں اور تلواروں سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اب تمدنی زندگی میں کچے مکانوں اور جھونپڑیوں سے گذارہ نہیں ہوسکتا ‘ ہمیں اسلامی قواعد و ضوابط اور اسلامی ہدایت کی روشنی میں بدلتے ہوئے عالمی حالات اور جدید تقاضوں سے ہم آ ہنگ ہونا چاہیے اور زمانہ کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چلنا چاہیے جب ہم خچروں اور یل گاڑیوں پر سفر کرنے کے بجائے ٹرینوں اور طیاروں میں سفر کرتے ہیں اور چراغ موم بتی کو جلانے کے بجائے بجلی کے قمقموں کو روشن کرتے ہیں تو ہمیں دیگر ثقافتی اور تمدنی معاملات میں بھی ترقی کی شاہرہ پر گامزن ہونا چاہیے 

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 129