هَلۡ اُنَبِّئُكُمۡ عَلٰى مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّيٰـطِيۡنُؕ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 221
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
هَلۡ اُنَبِّئُكُمۡ عَلٰى مَنۡ تَنَزَّلُ الشَّيٰـطِيۡنُؕ ۞
ترجمہ:
کیا میں تمہیں ان کی خبر دوں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں
تفسیر:
افاک اور اثیم کے معنی
الشعرائ : ٢٢٢۔ ۲۲۱ میں فرمایا : کیا میں تم کو ان کی خبر دوں جن پر شیاطین نازل ہوتے ہیں ‘ وہ ہر افاک اثیم پر نازل ہوتے ہیں۔
افاک کا لفظ افک سے بنا ہے ‘ علامہ راغب اصفہانی افک کا معنی کا بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ہر وہ چیز جس کا منہ اس کی اصل جانب سے پھیر دیا گیا ہو اس کو افک کہتے ہیں ‘ جھوٹ اور بہتان میں بھی کسی چیز کو اس کی اصل صورت سے پھیر دیا جاتا ہے اس لئے اس کو افک کہتے ہیں ‘ وہ ہوائیں جو مخالف جانب اور الٹی چل رہی ہوں ان کو مؤتفکہ کہتے ہیں :
قرآن مجید میں ہے :
والمؤ تفکۃ اھوا۔ (النجم : ٣٥) اور (قوم لوط کی) اوندھے منہ گری ہوئی بستیوں کو اٹھا کر پھینک دیا۔
وجآء فرعون ومن قبلہ والمؤتفکت بالخاطئۃ۔ (الحاقۃ : ٩)
فرعون اور اس سے پہلے لوگ اور جن کی بستیاں الٹا دی گئی تھیں انہوں نے بھی خطائیں کیں۔
اور افاک مبالغہ کا صیغہ ہے جو شخص بہت زیادہ بہتان تراشتا ہوا اور جھوٹ بولتا ہوا اس کو افاک کہتے ہیں۔
(المفردات ج ١ ص ٣٢‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ)
اثم ان افعال کو کہتے ہیں جو ثواب سے مانع ہوں ‘ جو افعال گناہ کبیرہ ہوں ان کو بھی اثم کہا جاتا ہے۔ اثم کا مقابل بِر ہے ‘(نیکی) حدیث میں ہے البر وہ کام ہے جس پر دل مطمئن ہو ‘ اور الا ثم وہ کام ہے جو تمہارے دل میں خلش اور کھٹک پیدا کرے۔(مسند احد ج ٤ ص ٨٢٢۔ ٧٢٢‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٣٣٥٢) اثم کا لفظ عدوان سے زیادہ عام ہے۔(المفردات ج ١ ص ٢١۔ ١١‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ)
کاہن کا معنی ‘ کاہن کے متعلق احادیث اور ان کی تشریح
قتادہ نے کہا اس آیت میں افاک اثیم سے مراد کاہن ہیں۔
علامہ ابن اثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ کا ہن کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
کاہن اس شخص کو کہتے ہیں جو زمانہ مستقبل میں ہونے والے واقعات کی بخر دیتا ہے اور معرفت اسرار کا مدعی ہوتا ہے ‘ شق اور سطیح نام کے عرب میں کاہن تھے ‘ بعض کاہنوں کا یہ گمان ہوتا ہے کہ ان کے تابع جنات ہوتے ہیں ‘ جو ان کو غیب کی خبریں آکر بتاتے ہیں ‘ اور بعض کاہنوں کا یہ زعم ہوتا ہے کہ جو شخص ان سے سوال کرتا ہے وہ اس کے فعل یا اس کے حال سے اس کے متعلق ہونے والے مستقبل کے امور کو جان لیتے ہیں ‘ ان کو عراف کہتے ہیں ان کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ وہ کسی چوری ہوجانے والی چیز یا کسی گمشدہ چیز کو جان لیتے ہیں۔ حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی کاہن کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی ‘ یا جس شخص نے اپنی بیوی سے حالت حیض میں جماع کیا ‘ یا جس شخص نے اپنی بیوی سے اس کی سرین میں جماع (عمل معکوس) کیا وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔(سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٠٩٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٣١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٣٦)
یہ حدیث کا ہن عراف اور نجومی سب کو شامل ہے۔ (النہایہ ج ٤ ص ٦٨١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)
حضرت ابو مسعود انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کتے کی قیمت ‘ فاحشہ کی اجرت اور کاہن کی مٹھائی سے منع فرمایا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٣٢٢‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٦٥١‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٢٤٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٨٢١‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٦٦٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٥١٢)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کاہنوں کے متعلق سوال کیا۔ آپ نے فرمایا : یہ کوئی چیز نہیں ہے ‘ لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! وہ بعض اوقات ہمیں کوئی بات بتاتے ہیں اور وہ سچ نکلتی ہے ‘ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ سچی بات وہ ہے جو ان کے پاس جن پہنچاتا ہے ‘ جن ان کے کان میں وہ بات ڈال دیتا ہے ‘ جس کے ساتھ وہ کئی جھوٹ ملادیتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٧٥‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٧٥٢‘ عالم الکتب ‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٣١٦)
کاہنوں کی اقسام
امام مازری نے یہ کہا ہے کہ کاہن وہ لوگ ہیں جن کے متعلق مشرکین یہ زعم رکھتے تھے یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں کوئی چیز ڈالی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ غیب کبن لیتے ہیں اور جو شخص علم غیب کا دعویٰ کرے اس کو شارع (علیہ السلام) نے کاذب قراردیا ہے اور اس کی تصدیق سے منع فرمایا ہے۔
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٤٤٥ ھ لکھتے ہیں کاہنوں کی چار قسمیں ہیں :
(١) کاہن کے پاس کوئی نیک انسان ہو جو جن کا دوست ہو اور وہ جن اس کو بتائے کہ اس نے آسمان سے کون سی خبر چرا کر سنی ہے ‘ اور یہ قسم اس وقت سے باطل ہوگئی جب سے اللہ تعالیٰ نے سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث فرمایا ہے ‘ قرآن مجید میں ہے ‘ جنات نے کہا :
وانا لمسنا السمآء فوجد نھا ملئت حرسا شدیدا و شھبا۔ وانا کنا نقعد منھا مقا عد للسمع ط فمن یستمع الان یجد لہ شھابارصدا۔ (الجن : ٩۔ ٨)
اور ہم نے آسمان کو چھو کر دیکھا تو اسے شدید مخافظوں اور سخت شعلوں سے بھرا ہوا پایا۔ اور ہم اس سے پہلے باتیں سننے کے لیے آسمان پر مختلف جگہوں پر بیٹھ جایا کرتے تھے ‘ پس اب جو بھی چپکے سے سننا چاہتا ہے تو وہ ایک شعلہ اپنے تعاقب میں پاتا ہے۔
وحفظا من کل شیطن مارد۔ لایسمعون الی الملا الاعلی و یقذفون من کل جانب۔ دھوراولہم عذاب واصب۔ الا من خطف الخطفۃ فاتبعہ شھاب ثاقب۔ (الصفت : ٠١۔ ٧) اور (ہم نے آسمان کو) ہر سرکش شیطان سے محفوظ کردیا ہے۔ وہ عالم بالا کی باتوں کو کان لگا رک نہیں سن سکتے ‘ ان کو ہر جانب سے مارا جاتا ہے۔ وہ بھگانے کے لیے اور ان کے لیے دائمی عذاب ہے۔ مگر جو ایک آدھ بات اچک لے تو فوراً اس کے تعاقب میں دہکتا ہوا شعلہ چل پڑتا ہے۔
(٢) جنات زمین کے اطراف میں گھوم پھر کر قریب اور بعید کے حالات کا مشاہدہ کر کے اپنے دوستوں کو اس کی خبریں پہنچادیتے ہیں۔
(٣) وہ تمین اور اندازوں سے اور اٹکل پچو سے غیب کی خبریں بتاتے ہیں اللہ تعالیٰ بعض لوگوں میں ایسی قوت درا کہ رکھتا ہے جس سے وہ مستقبل کے امور کے متعلق قیاس اور اندازے سے باتیں بتاتے ہیں جو کبھی اتفاقاً سچ نکلتی ہیں اور اکثر جھوٹ ہوتی ہیں۔
(٤) کاہن کی ایک قسم عراف ہے ‘ یہ وہ شخص ہے جو علامات ‘ اسباب اور مقدمات سے ان کے نتائج اور مسببات پر استدلال کر کے آئندہ کی باتیں بتاتا ہے اور امور مستقبلہ کی معرفت کا دعویٰ کرتا ہے ‘ یہ لوگ ستاروں اور دیگر اسباب سے استفادہ کرتے ہیں ‘ علامہ ھروی نے کہا اعراف نجومی کو کہتے ہیں جو غیب جاننے کا دعویٰ کرتا ہے ‘ حالانکہ غیب کا علم اللہ کے ساتھ خاص ہے۔
نجومیوں سے سوال کرنے کی ممانعت
نافع بعض ازواج مطہرات سے روایت کرتے ہیں کہ جو شخص کسی عراف کے پاس جا کر اس سے کسی چیز کے متعلق سوال کرے اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٣٢٢ )
جہاں تک نمازوں کے قبول نہ ہونے کا تعلق ہے ‘ تو اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ نیکیاں صرف کفر سے باطل ہوتی ہیں اور یہاں نمازیں قبول نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان نمازوں سے راضی نہیں ہوتا اور ان کا اجر زیادہ نہیں کرتا ‘ ورنہ اس سے فرضیت ساقط ہوجاتی ہے اور اس کے ذمہ نمازیں نہیں رہتیں۔ باقی یہ ہے کہ اس حدیث میں ہے کہ اس کی چالیں روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں تو اس طرح اور ابھی احادیث ہیں ‘ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس نے شراب پی اس کی چالیس روز کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٨١)
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ مونچھیں کم کرنے ‘ ناخن تراشنے ‘ بغل کے بال نوچنے اور زیر ناف بال صاف کرنے میں ہمارے لیے چالیس روز کی حد مقرر کی گئی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٥٢‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٠٠٢٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٥٧٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٩٢)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ تم میں سے ہر شخص (نطفہ کی صورت میں) چالیس دن اپنی ماں کے پیش میں جمع رہتا ہے ‘ پھر وہ علقہ (جما ہوا خونض بن جاتا ہے پھر چالیس روز بعد وہ مضغہ (گوشت کا ٹکڑا) بن جاتا ہے پھر چالیس روز بعد اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٠٢٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٦٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٠٧٤‘ سنن الرمذی رقم الحدیث : ٧٣١٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٧) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے میں چالیس روز کی کوئی خصوصیت ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص ٤٥١۔ ٢٥١‘ دارالوفا بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
شہاب ثاقب کے متعلق حدیث اور اس کی تشریح
حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب میں سے ایک انصاری نوجوان نے مجھے بتایا کہ ایک رات ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک ستارہ پھینکا گیا جس سے روشنی ہوگئی ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا : جب اس طرح کا ستارہ پھینکا جائے تو تم اس کو زمانہ جاہلیت میں کیا کہتے تھے ؟ آپ کے اصحاب نے کہا اس کی حقیقت کو اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتے ہیں۔ ہم یہ کہتے تھے کہ آج راج کوئی بڑا آدمی پیدا ہوا ہے یا آج رات کوئی بڑا آدمی مرگیا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان ستاروں کو کسی کی موت کی وجہ سے پھینکا جاتا ہے نہ کسی کی حیات کی وجہ سے ‘ لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو حاملین عرش سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ پھر ان کے قریب کے آسمان والے سبحان اللہ کہتے ہیں ‘ حتی کہ آسمان دنیا تک ان کے سبحان اللہ کہنے کی آواز پہنچتی ہے ‘ پھر حاملین عرش کے قریب والے فرشتے حاملین عرش سے پوچھتے ہیں تمہارے رب نے کیا فیصلہ کیا تو وہ ان کو اس کی خبر دیتے ہیں ‘ پھر بعض آسمان والے دوسرے بعض کو اس اس کی خبر دیتے ہیں حتی کہ آسمان دنیا تک اس کی خبر پہنچ جاتی ہے ‘ پھر جنات یہ خبر کان لگا کر سنتے ہیں اور اپنے دوستوں تک پہنچادیتے ہیں ‘ پھر جو خبر بعینہ وہی ہو وہ برحق ہے لیکن جنات اس میں مچھ الٹ پلٹ کردیتے ہیں اور اپنی طرف سے کچھ ملادیتے ہیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٢٢٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٢٢٣‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٢٧٢١١)
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٨٤٥ ھ ‘ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
حاملین عرش اللہ تعالیٰ کے سب سے مقرب فرشتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے علم غیب کو اور مستقبل میں ہونے والے امور کو سب سے پہلے ان پر منکشف فرماتا ہے پھر ان کے واسطے سے باقی آسمانوں کے فرشتوں کو درجہ درجہ مطلع فرماتا ہے۔
امام مازری نے کہا رہا علم نجوم تو بہ کثرت فلاسفہ نے یہ کہا ہے کہ ہر فلک اپنے ماتحت افلاک میں تاثیر کرتا ہے حتیٰ کہ آسمان دنیا تمام حیوانات میں ‘ معدنیات میں اور نباتات میں تاثیر کرتا ہے اور اس تاثیر میں اللہ عزو جل کا کوئی دخل نہیں ہے اور یہ قول اسلام سے خروج ہے۔
اور جس نے یہ کہا کہ ہر چیز میں فاعل اور موثر صرف اللہ تعالیٰ ہے اور بعض چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طبعی قوتیں رکھی ہیں جو تاثیر کرتی ہیں جیسے آگ میں جلانے کی تاثیر رکھی ہے اور زہر میں ہلاکت کی تاثیر رکھی ہے۔ اسی طرح بعض ستاروں کا جب کسی برج میں اتصال یا نفصال ہوتا ہے تو اس سے بعض تاثیرات صادر ہوتی ہیں تو اس سے یہ کہا جائے گا یہ ستاروں کی تاثیر نہیں ہے زیادہ یہ کہا جائے گا کہ یہ چیز بعض امور مستقبلہ کے لیے علامات ہیں جیسے گہرے اور گھنے بادلوں کا آنا بارش کی علامت ہے۔ ستاروں کی تاثیر کی نفی کے متعلق بھی احادیث وارد ہیں۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٧ ص ٢٦١۔ ٩٥١‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
قاضی عیاض مالکی نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے۔
ستاروں کی تاثیر کی نفی ہے متعلق احادیث اور ان کی تشریح
حضرت زیاد بن خالد جہنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں حدیبیہ میں صبح کی نماز پڑھائی اور آسمان پر رات کی بارش کے آثار تھے ‘ جب آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ تمہارے رب نے کیا فرمایا : صحابہ نے کہا اللہ اور اس کا رسول ہی زیادہ جانتا ہے ‘ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا : میرے بندوں نے صبح کی بعض مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور بعض کفر کرنے والے تھے ‘ جنہوں نے یہ کہا کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی ہے وہ مجھ پر ایمان لانے والے تھے اور ستاروں کا کفر کرنے والے تھے اور جنہوں نے کہا فلاں ‘ فلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی ہے وہ میرا کفر کرنے والے تھے اور ستاروں پر ایمان لانے والے تھے۔صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٦٠٩٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٢٥١ )
قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٤٤٥ ھ لکھتے ہیں :
یہ احادیث تغلیظ پر محمول ہیں ‘ کیونکہ عرب یہ گمان کرتے تھے کہ بارش ستاروں کی تاثیر سے ہوتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ کا فعل نہیں گردانتے تھے ‘ لیکن جو شخ صبارش نازل کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرے اور ستاروں کو علامات قراردے جیسے رات اور دن اوقات کی علامات ہیں تو اس میں گنجائش ہے ‘ جیسے حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا ہمیں اللہ نے پانی پلایا ہے اور ستاروں نے پانی نہیں پلایا ‘ اور جو شخص ستاروں کو موثر مانے وہ کافر ہے۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ١ ص ١٣٣‘ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
علامہ ابوالحیان اندلسی ‘ علامہ خفا جی اور علامہ آلوسی نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔
(البحر المحیط ج ٠١ ص ٤٩‘ عنلیۃ القاضی ج ٩ ص ٣٨‘ روح المعانی جز ٧١ ص ٩٣٢)
علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :
جس شخص نے بارش کو نازل کرنے میں ستاروں کو موثر حقیقی جانا اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے اور جس شخص کا یہ اعتقاد ہے کہ بارش اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی ہے اور ستارے بارش نازل ہونے کی علامت اور اس کا وقت ہیں اور اس کو وہ سب عادی جانتا ہو جیسا کہ وہ یوں کہے کہ فلاں وقت ہم پر بارش نازل ہوئی ہے تو یہ کفر نہیں ہے تاہم یہ مکروہ تنزیہی ہے کیونکہ اس قسم کا کلام کافر اور دہریے کرتے ہیں اور یہ زمانہ جاہلیت کے اقوال کے مشابہ ہے۔
(صحیح مسلم بشرح النواوی ج ١ ص ٩٨٦‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ٧١٤١ ھ)
ربیع نے کہا اللہ کی قسم ! اللہ نے کسی تارے میں کسی کی زندگی رکھی ہے نہ کسی کی موت اور نہ کسی کا رزق ‘ نجومی اللہ پر جھوٹ اور بہتان باندھتے ہیں اور ستاروں کو علت قرار دیتے ہیں۔ (مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٣٠٦٤ )
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کا ہن (نجومی) کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی یا جس شخص نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی یا جس شخص نے اپنی عورت کی پچھلی طرف مباشرت کی وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٠٩ ٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٣١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٨٦)
علم نجوم کا لغوی معنی
ان احادیث میں چونکہ ستاروں کی تاشیرکا ذکر آگیا ہے اس لیے ہم یہاں علم نجوم اور علم جفر کا لغوی اور اصطلاحی اور ان کا شرعی حکم بیان کرنا چاہتے ہیں ‘ علم نجوم کا لغوی معنی یہ ہے :
سیاروں کی تاثیرات یعنی سعادت و نحوست اور واقعات آئندہ کی حسب گردش پیش گوئی یا معاملات تقدیر اور اچھے برے موسم کی خبردینے کا علم۔ (اردولغت ج ٣١ ص ٩١٥‘ اردو لغت بورڈ کراچی ‘ جون ١٩٩١ ئ)
علم نجوم کے اصول اور مبادی
علم نجوم کی بنیاد اس اصول پر ہے کہ عالم تحت القمر یا ارسطا طالیسی ” عالم الکون والفساد “ میں جتنی تبدیلیال واقع ہوتی ہیں ان سب کا اجرام سماوی کے مخصوص طبائع اور حرکات سے قریبی تعلق ہے۔ انسان ‘ جو عالم اصغر ہونے کی حیثیت سے پورے عالم اکبر کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا ہے ‘ بالخصوص ستاروں کی تاثیرات کے تابع ہے ‘ اس میں خواہ ہم بطلمیوس کی پیروی میں واضح طور پر اس عملی نظریے کو تسلیم کریں کہ اجرام فلکی سے نکلی ہوئی شعاعوں سے ایسی قوتیں یا اثرات خارج ہوتے ہیں جو معمول (قابل) کی طبیعت کو عامل (فاعل) کی طبیعت کے مطابق بنا دینے کی صلاحیت رکھتے ہوں یار اسخ العقیدہ مسلمانوں کا ہم خیال ہونے کی غرض سے اجرام سماوی کو آئندہ ہونے والے واقعات کا اصل فاعل نہ مانتے ہوئے محض ان واقعات کی نشانیاں (دلائل) تصور کریں۔ ستاروں کا اثر ان کی انفرادی نوعیت پر ‘ نیز زمین یا دوسرے ستاروں کے لحاظ سے ان کے مقام پر منحصر ہے ‘ لہٰذا عالم کون و فساد کے واقعات اور انسانی زندگی کے نشیب و فراز ہمیشہ لاتعداد اور نہایت متنوع بلکہ متنا قض سماوی اثرات کے نہایت ہی پیچیدہ اور متغیرہ امتزاج کے تابع ہوتے ہیں۔ ان اثرات کو جاننا اور ان کو ایک دوسرے کے ساتھ نظریں رکھ کر دیکھنا منجم کا محنت طلب کام ہے۔
آخر میں جغرافیائی عنصر کو بھی نظر انداز نہ کرنا چاہیے۔ چونکہ روئے زمین کی ہر اقلیم ایک خاص برج اور ایک خاص سیارے کی تاثیر کے تابع ہے ‘ لہٰذا مختلف ملکوں کے افراد کے لیے افلاک کی حالت سے ایک ہی جیسی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔
نجومی کا یہ ” سازو سامان “ ایک خاص وضع قطع کا ہے۔ اس کا استعمال بھی اس سے کچھ کم پیچیدہ نہیں۔ مسلمان منجمین کا فن تین بڑے نظاموں میں محدود قرار دیا جاسکتا ہے : (١) نظام مسائل (استفسارات یا سوالات) جس کی غرض وغایت ایسے سوالوں کا جواب دینا ہے جو روز مرہ زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے متعلق ہوں ‘ یعنی جب سائل کسی غیر حاضر شخص کے متعلق کچھ پوچھنا چاہے ‘ یا اسے کسی چور کا سراغ لگانا مقصود ہو ‘ یا کسی کھوئی ہوئی چیز کا پانا مطلوب ہو۔ یہ نجوم کا سب سے زیادہ آسان اور عام شعبہ ہے (٢) نظام اختیارات (Electiones) یعنی کسی نہ کسی کام کے سرانجام دینے کا سعد وقت۔ اس وقت کے تعین کے لیے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ چاند اس وقت کس برج میں ہے۔ جو احکامی ہندی طریقوں کو ترجیح دیتے ہیں وہ بارہ برجوں کے بجائے چاند کی ٨٢ منزلوں کا شمار کرتے ہیں۔ (٣) نظام سہام الموالید ( ِ System Genethliological) ‘ یا مسلم مصنفین کی اصطلاح میں جس نظام کی بنیاد تحاویل السنین (Revolutiones Annorum) پر ہے ‘ یعنی ان اصطلاحی یا وضعی سالوں یا ان کے حصوں پر جو کسی فرد کی پیدائش ‘ یا کسی حکومت ‘ فرقے ‘ یا مذہب یا کسی شہر کی تاسیس وغیرہ سے شروع کرکے اب تک گذر چکے ہوں یا گذرے ہوئے سمجھے جائیں۔ اس نظام کا بنیادی اصول دوسرے نظاموں سے مختلف ہے اور وہ یہ کہ ٹھیک پیدائش کے وقت کرئہ سماوی کی خاص صورتحال اٹل طور پر نوزائیدہ کی قسمت کی ہمیشہ کے لیے حد بندی کردیتی ہے اور اس کے بعد اس کی زندگی بنیادی طور پر کرئہ سماوی کی آئندہ پیش آنے والی تبدیلیوں سے متاثر نہیں ہوتی۔ یہ بطلمیوس کا نظام ہے ‘ جس میں اختیارات کا بہت کم لحاظ رکھا گیا ہے اور جو کچھ ہے اس کی حیثیت مضمرات کی ہے۔ اس کے ہاں نظام مسائل کے لیے ایک لفظ تک نہیں ‘ نیز اس نظام میں دوسرے دو نظاموں کی نسبت فنی دقتیں زیادہ ہیں۔
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ ‘ ج ١۔ ٤١‘ ص ٧٠٣۔ ٥٠٣‘ ملخصا ‘ دانش گاہ پنجاب لاہور)
علم نجوم کا اصطلاحی معنی اور اس کا شرعی حکم
علامہ مصطفیٰ آفندی بن عبداللہ آفندی قسطنطنی المتوفی ٧٦٠١ ھ لکھتے ہیں :
یہ ان قواعد کا علم ہے جس سے تشکلات فلکیہ یعنی افلاک اور کواکب کی اوضاع مخصوصہ مثلاً مقارنت ‘ اور مقابلت ‘ وغیرہ سے دنیا کے حوادث ان کے مرنے اور جینے ‘ بننے اور بگڑنے اور دیگر احوال کی معرفت پر استدلال کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ستاروں پر ایمان لایا وہ کافر ہوگیا لیکن اس کا محمل یہ ہے جب نجومی کا اعتقاد یہ ہو کہ ستارے عالم کی تدبیر میں مستقل ہیں۔
علم نجوم کی توجیہ میں یہ جاتا ہے کہ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ عادت جاری کردی ہو کہ بعض حوادث بعض دوسرے حوادث کا سبب ہوں ‘ لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ سیارے نحوست ( اور اسی طرح سعادت) کے لیے عادۃ اسباب اور علت ہیں ‘ نہ اس پر کوئی حسی دلیل ہے نہ سمعی او نہ عقلی ‘ حسی دلیل کا نہ ہونا تو بالکل ظاہر ہے اور عقلی دلیل اس لیے نہیں ہے کہ سیاروں کے متعلق ان کے اقوال متضاد ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ عناصر سے مرکب نہیں ہیں بلکہ ان کی طبیعت کا خاصہ ہے پھر کہتے ہیں کہ زحل سردخشک ہے اور مشتری گرم تر ہے اس طرح انہوں نے عناصر کے خواص کو کواکب کے لیے ثابت کیا۔ اور شرعاً اس لیے صحیح نہیں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص ستاروں کے کاہن کے پاس گیا یا عراف کے پاس گیا یا منجم کے پاس گیا اور اس کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔
دیگر احادیث اس طرح ہیں :
حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا جو شخص عراف یا ساحر یاکاہن کے پاس گیا ‘ اس سے سوال کیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٨٠٤٥‘ حافظ الہیشمی نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ مجمع الزوائد ج ٥ ص ٨١١)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کاہن یا عراف کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی تو اس نے اس دین کا کفر کیا جو ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا۔(مسند احمد ج ٢ ص ٩٢٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٥٩‘ عالم الکتب)
خصوصیت کے ساتھ نجومیوں کے متلعق یہ حدیث ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ستاروں کے علم سے اقتباس کیا اس نے جادو سے اقتباس کیا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٠٩٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٢٧٣‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٠٠٠٢‘ دارالفکر)
کشاف اصطلا حات الفنون میں مذکور ہے کہ اس علم کا موضوع ستارے ہیں اس حیثیت سے کہ ستاروں سے اس جہان کے احوال اور مسائل معلوم ہوں ‘ جیسے ان کا یہ قول ہے کہ جب سورج اس مخصوص جگہ پر ہو تو وہ اس جہان میں فلاں چیز کے پیدا ہونے پر دلالت کرتا ہے۔
علامہ ابن خلدون نے لکھا ہے کہ اصحاب علم نجوم کا یہ زعم ہے کہ وہ سیاروں کی قوتوں کی معرفت سے اس جہان کی چیزوں کو پیدا ہونے سے پہلے جان لیتے ہیں۔
علم نجوم کے بطلان پر یہ دلیل کافی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نے خود کسی ترکیب ‘ کسی صنعت اور کسی طریقہ سے غیب کا علم حاصل کیا نہ امت کو اس کی تعلیم دی ‘ انبیاء (علیہم السلام) کو صرف وحی سے اور اللہ تعالیٰ کے عطا سے علم غیب حاصل ہوتا تھا۔(کشف الظنون ج ٢ ص ‘ ١٣٩١۔ ٠٣٩١‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ طہران ‘ ٨٧٣١ ھ)
علم نجوم کے متلعق فقہاء اسلام کی آرائ (امام غزالی ‘ امام بخاری ‘ علامہ طیبی ‘ ملاعلی قاری ‘ علامہ شامی امام احمد رضا ‘ علامہ امجد علی ‘ مفتی احمد یار خاں ‘ مفتی وقار الدین اور شیخ ابن تیمیہ وغیرہ ہم کی آرائ)
امام محد بن محمد غزالی متوفی ٥٠٥ فرماتے ہیں :
علم نجوم کے احکام کا حاصل یہ ہے کہ وہ اسباب سے حوادث پر استدلال کرتے ہیں لیکن شریعت میں یہ علم مذموم ہے حدیث میں ہے :
حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب میرے اصحاب کا ذکر کیا جائے تو بحث نہ کرو ‘ اور جب ستاروں کا ذکر کیا جائے تو خاموش رہو اور جب تقدیر کا ذکر کیا جائے تو رک جائو۔(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٢٤١‘ یہ حدیث حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے بھی مروی ہے ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٨٤٤٠١‘ حلیۃ الاولیاء ج ٤ ص ٨٠١‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٢٢‘ ٢٠٢)
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے اپنے بعد امت پر پانچ چیزوں کا خطرہ ہے۔ تقدیر کی تکذیب کرنا اور ستاروں کی تصدیق کرنا۔ (ابو یعلیٰ نے صرف دو کا ذکر کیا ہے)(مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٥٣١٤‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٣٠٢‘ المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٦٢٩٢)
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت پر تین چیزوں کا خطرہ ہے ستاروں سے بارش و طلب کرنا ‘ سلطان کا ظلم کرنا او تقدیر کی تکذیب کرنا۔
(مسند احمد ج ٥ ص ٠٩‘ طبع قدیم ‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٤٢٧٠٢‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے۔ اس کی سند میں یزید قاشی ضعیف ہے باقی راوی ثقہ ہیں)
حضرت ابو امامہ (رض) بیان رکتے ہیں کہ آخر زمانہ میں مجھے اپنی امت پر جس چیز کا سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ ستارے ہیں ‘ تقدیر کو جھٹلانا ہے اور سلطان کا ظلم کرنا ہے۔(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣١١٨‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٢٠٢‘ اس کی سند میں ایک راوی لیث بن ابی سلیم ضعیف ہے اور باقی راوی ثقہ ہیں)
امام غزالی فرماتے ہیں نجوم کے احکام محض شن ‘ تخمین اور اندازوں پر مبنی ہیں ‘ اور ان کے متعلق کوئی شخص یقین یا ظن غالب سے کوئی حکم نہیں لگا سکتا ‘ لہٰذا اس پر حکم لگانا جہل پر حکم لگانا ہے ‘ سو نجوم کے احکام اس لیے مذموم ہیں کہ یہ جہل ہیں نہ اس حیثیت سے کہ یہ علم ہیں ‘ یہ علم حضرت ادریس (علیہ السلام) کا معجزہ تھا (دراصل وہ علم رمل تھا یعنی لکیروں سے زائچہ بنانے کا علم وہ نجوم کا علم نہیں تھا) اب یہ علم مٹ چکا ہے ‘ اور کبھی کبھار نجومی کی جو بات سچ نکلتی ہے وہ بہت نادر ہے اور محض اتفاق ہے ‘ کیونکہ وہ کبھی بعض اسباب پر مطلع ہوجاتا ہے اور ان اسباب کے بعد مسبب اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب بہت ساری شروط پائی جائیں جن کے حقائق پر مطلع ہونا بشر کی قدرت میں نہیں ہے ‘ جیسے انسان کبھی بادل دیکھ کر بارش کا گمان کرتا ہے حالانکہ بارش کے اور بھی اسباب ہوتے ہیں جن پر وہ مطلع نہیں ہوتا ‘ اور جس طرح ہوائوں کا رخ دیکھ کر ملاح کشتی کو سلامتی سے لے جانے کا گمان کرتا ہے حالانکہ سلامتی کے اور بھی اسباب ہیں جن پر وہ مطلع نہیں ہوتا اور اس کا اندازہ کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط۔(احیاء علوم الدین ج ١ ص ٥٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٦٥٢ ھ فرماتے ہیں :
ولقد زینا السمآء الدنیا بمصابیح۔ (الملک : ٥) بیشک ہم آسمان دنیا کو چراغوں (ستاروں) سے مزین فرمایا ہے۔
قتادہ نے کہا اللہ تعالیٰ نے ان ستاروں کو تین کاموں کے لیے پیدا فرمایا ہے ‘ ان ستاروں کو آسمان کی زینت بنایا اور ان کو شیاطین پر رجم کرنے کے لیے بنایا اور ان کو راستوں کی ہدایت کی علامات بنایا ‘ اور جس نے ان ستاروں کا کوئی اور مقصد قرار دیا اس نے خطا کی اور اپنا حصہ ضائع کیا اور جس چیز کا علم نہیں تھا اس میں تکلف کیا۔ رزین نے یہ اضافہ کیا ہے کہ انبیاء اور فرشتے اس علم سے عاجز نہ تھے۔ (کتاب بدء الخلق ‘ باب : ٣‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٢٠٦٤ )
علامہ شرف الدین حسین بن محمد الطیبی المتوفی ٣٤٧ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
امام قشیری نے نجومیوں کے مذاہب تفصیل سے ذکر کر کے ان کو باطل کیا ہے ‘ اور لکھا ہے کہ نجومیوں کا صحت کے قریب ترین قول یہ ہے کہ ان حوادث کو ابتداء اللہ تعالیٰ اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے پیدا فرماتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ یہ ہے کہ وہ ان حوادث کو اس وقت پیدا فرماتا ہے جب یہ سیارے بروج مخصوصہ میں ہوتے ہیں ‘ اور یہ سیارے اپنی رفتار ‘ اپنے اتصال اور اپنی شعائوں کے گرنے میں مختلف ہوتے ہیں اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عادت جاریہ ہے ‘ جیسے اللہ تعالیٰ نے یہ عادت جاری کردی ہے کہ نر اور مادہ کے اختلاط کے بعد بچہ پیدا ہوجاتا ہے اور کھانے کے بعد پیٹ بھر جاتا ہے ‘ علامہ قشیری نے کہا یہ چیز اللہ تعالیٰ کی قدرت میں جائز ہے لیکن اس پر کوئی دلیل نہیں ہے ‘ بلکہ اس کے خلاف پر دلیل ہے کیونکہ جو کام بہ طور عادت جاریہ ہو ‘ اس میں استمرار ہوتا ہے اور کم از کم درجہ یہ ہے کہ اس میں تکرار ہوتا ہے اور ان کے نزدیک ایک وقت ایک مخصوص طریقہ سے بار بار نہیں ہوتا ‘ کیونکہ ایک سال میں سورج کسی برج کے ایک درجہ میں ہوگا تو دوسرے سال اس برج کے اس درجہ میں نہیں ہوگا ‘ اور قرائن ‘ مقابلات اور کواکب کی طرف نظر کے اعتبار سے احکام مختلف ہوتے رہتے ہیں۔(شرح الطیبی ج ٨ ص ٦٣٣۔ ٥٣٣‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ٣١٤١ ھ)
ستاروں کی تاثیرات دائمی یا اکثری نہیں ہیں اس کو آسان اور عام فہم طریقہ سے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر کسی خاص صفت کے ساتھ کسی ستارے کا کسی مخصوص برج میں ہونا برکت یا نحوست یا فائدہ نقصان کا موجب ہے تو ہمیشہ یا اکثر اوقات میں اس ساعت میں برکت یا نحوست یا فائدہ نقصان کے اثرات ہونے چاہئیں حالانکہ ایسا نہیں ہوتا ‘ اگر بارش کا ہونا ‘ طوفانوں کا اٹھنا اور زلزلوں کا آنا ستاروں کے کسی مخصوص برج میں ہونے کی وجہ سے ہوت و جب بھی وہ ستاروہ اس مخصوص برج میں ہو تو یہ آثار صادر ہونے چاہئیں ‘ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ سعادت ‘ نحوست ‘ اور نفع اور نقصان کے آثار جن اوقات میں مرتب ہوتے ہیں ان مخصوص اوقات میں ان کا ترتب دائمی یا اکثری نہیں ہے اور مسبب کا دائمی اور اکثری نہ ہونا سبب کے دائمی اور اکثری نہ ہونے کی دلیل ہے ‘ اس سے یہ واضح ہوگیا کہ جن اوقات میں ستارے مخصوص برج میں ہوتے ہیں ان اوقات میں دائمی یا اکثری طور پر ان مخصوص حوادث کا صدور نہیں ہوتا اس لئے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ عادت جاریہ ہے کہ جب یہ ستارے مخوص برج مخصوص صفت کے ساتھ ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان مخصوص حوادث کو صادر کردیتا ہے لہٰذا ستاروں کا مخصوص برج میں ہونا نہ حوادث کے صدور کی علت ہے نہ ان کے صدور کا دائمی یا اکثری سبب ہے۔
امام عبد اللہ بن محمد بن عبداللہ الخطیب تبریزی المتوفی ١٤٧ ھ بیان کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے اللہ کی ذکر کی ہوئی چیز کے سوا کسی اور چیز کے لیے ستاروں کا علم حاصل کیا اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا ‘ نجومی کا ہن ہے اور کاہن جادوگر ہے اور جادو گر کافر ہے۔ اس حدیث کو رزین نے روایت کیا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٤٠٦٤ )
اللہ کی ذکر کی ہوئی چیزوں سے مراد ستاروں سے آسمان کی زینت ان کا رجوم شیاطین (شہباب ثاقب) ہونا اور ان سے راستوں کی ہدایت حاصل کرنا ہے۔ سو جس شخص نے ان کے علاوہ کسی اور چیز کے لیے ستاروں کا علم حاصل کیا (مثلاً غیب جاننے کے لیے اور آئندہ کی پیش گوئی کے لیے) تو اس نے جادو کا ایک حصہ حاصل کیا۔
ملاعلی بن سلطان محمد القاری المتوفی ٤١٠١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
پس کاہن اور نجومی دونوں کافر ہیں۔
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اگر اللہ پانچ سال تک اپنے بندوں سے بارش کو روک لے اس کے بعد بارش نازل فرمائے تو لوگوں میں سے کافروں کی ایک جماعت یہ کہے گی کہ فلاں ستارے کی وہ سے ہم پر بارش ہوئی ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٢٥١‘ مشکوۃ رقم الحدیث : ٥٠٦٤ )
ملاعلی قاری لکھتے ہیں : اب ان کافروں سے یہ کہا جائے گا کہ پانچ سال تک وہ ستارہ کہاں تھا جس کی وجہ سے ایک سال میں سینکڑوں بار بار شیں ہوتی تھیں ‘ اس سے معلوم ہوا کہ ستارے دائمی سبب ہیں نہ اکثری سبب ہیں اور نہ بارش کے لیے ان کا مخصوص برج میں ہونا سبب ہے یہ اللہ تعالیٰ کی عادت جاریہ ہے اور نہ بارش کی علامت ہے ‘ یہ سب کفار کی بےدلیل باتیں اور خرافات ہیں۔ (مرقات المفاتیح ج ٩ ص ٢٢‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ‘ ٠٩٣١ ھ)
سید محمد امین ابن عابد شامی متوفی ٢٥٠١ ھ لکھتے ہیں :
علامہ علاء الدین الحصکقی متوفی ٨٨٠١ ھ نے علم نجوم اور علم رمل وغیرہ کو حرام کہا ہے۔ (درمختار ج ١ ص ٣٢١ ملخصا)
علامہ شامی فرماتے ہیں علم نجوم کی تعریف ہے : حوادث سفلیہ پر تشکلات فلکیہ سے استدلال کی معرفت جس علم سے حاصل ہو وہ علم نجوم ہے۔
صاحب ہدایہ نے مختار ات نوازل میں لکھا ہے کہ فی نفسہ علم نجوم اچھا علم ہے مذموم نہیں ہے ‘ ایک علم حسابی ہے اور یہ برحق ہے۔ قرآن مجید میں ہے :
الشمس والقمر بحسبان۔ (الرحمن : ٥) سورج اور چاند مقررہ حساب سے (گردش کررہے) ہیں۔
یعنی ان کی رفتار اور ان کا گردش کرنا حساب سے ہے ‘ اور اس کی دوسری قسم استدلال ہے ‘ یعنی وہ ستاروں کی رفتار اور افلاک کی حرکت سے اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر استدلال کرتے ہیں ‘ اور یہ جائز ہے جیسے طبیب نبض کی رفتار سے صحت اور مرض پر استدلال کرتا ہے ‘ اور اگر وہ اللہ تعالیٰ کی قضا اور قدر پر استدلال نہ کرے بلکہ خود غیب جاننے کا دعوی کرے تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا ‘ پھر اگر علم نجوم سے صرف نمازوں کے اوقات اور قبلہ کی سمت پر استدلال کیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ الخ ‘ اس عبارت سے معلوم ہوا کہ اتنی مقدار سے زائد علم نجوم حاصل کرنے میں حرج ہے ‘ بلکہ الفصول میں مذکور ہے کہ مطلقاً علم نجوم کو حاصل کرنا حرام ہے جیسا کہ درمختار میں ہے ‘ اور اس سے مراد علم نجوم کی وہ قسم ہے جس میں ستاروں کی رفتار اور حرکت افلاک سے اللہ تعالیٰ کی قضاء و قدر پر استدلال کیا جاتا ہے ‘ اسی وجہ سے احیاء العلوم میں مذکور ہے کہ فی نفسہ علم نجوم مذموم نہیں ہے ‘ اور حضرت عمر نے فرمایا ستاروں سے وہ علم حاصل کرو جس سے تم بحرو بر میں راستوں کی ہدایت حاصل کرسکو ‘ پھر رک جائو ‘ حضرت عمر نے اس کے ماسوا کو تین وجوہ سے منع فرمایا : (١) یہ علم اکثر مخلوق کے لیے مضر ہے ‘ کیونکہ عوام جب یہ علم سیکھیں گے تو وہ ستاروں کو موثر اعتقاد کریں گے۔ (٢) ستاروں کے احکام محض اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ (٣) اس علم کا کوئی فائد نہیں ہے ‘ کیونکہ جو چیز مقدر کردی گئی ہے وہ بہر حال ہونی ہے اس کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
علم رمل وہ علم ہے جو قواعد سے لکیروں اور نقطوں کی مختلف اشکال پر مبنی ہے ‘ اور ان شکلوں سے مستقبل میں پیش ہونے والے امور معلوم ہوجاتے ہیں اور تم کو معلوم ہے کہ یہ علم حرام قطعی ہے ‘ اس کی اصل حضرت ادریس (علیہ السلام) ہیں اور یہ شریعت منسوخ ہوچکی ہے۔ علامہ ابن حجر مکی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے کہ اس علم کا سیکھنا اور سکھانا حرام قطعی ہے ‘ کیونکہ اس سے عوام کو یہ وہم ہوگا کہ اس علم کا جاننے والا غیب کے علم میں اللہ کا شریک ہے (فتاویٰ حدیثیہ ص ٠٦١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
نیز علامہ شامی فرماتے ہیں حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص کا ہن کے پاس گیا اور اس کے قول کی تصدیق کی یا جس شخص نے حائضہ عورت کے ساتھ مباشرت کی یا جس شخص نے اپنی بیوی کی پچھلی طرف مباشرت کی تو وہ اس دین سے بری ہوگیا جو (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نازل کیا گیا ہے۔
(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٠٩٣‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٣١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٩٣٦) اس حدیث میں کاہن کا لفظ عراف اور منجم دونوں کو شامل ہے اور عرب ہر اس شخص کو کاہن کہتے تھے جو علم دقیق کا حامل ہو اور بعض عرب منجم اور طبیب کو بھی کاہن کہتے تھے۔ (ردالمختار ١ ص ٦٢١‘ ٧٢١۔ ٣٢١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ٠٤٣١ ھ قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں :
نجوم کے دو ٹکڑے ہیں علم وفن تاثیر اول کی طرف تو قرآن عظیم میں ارشاد ہے : الشمس والقمر بحسبان۔ والشمس تجری لمستقر لھا ذلک تقدیر العزیز العلیم۔ والقمر قدر نہ منازل حتی عاد کا لعرجون القدیم۔ لا الشمس ینبغی لھا ان تدرک القمر ولا اللیل سابق النھار وکل فی فلک یسبحون۔ وجعلنا اللیل والنھار ایتین فمحونا ایۃ اللیل وجعلنا ایۃ النھار مبصرۃ لتبتغو افضلا من ربکم ولتعلموا عدد السنین والحساب وکل شیء فصلنہ تفصیلا۔ والسماء ذات البروج۔ تبارک الذی جعل فی السماء بروجا۔ فلا اقسم بالخنس۔ الجوار الکنس۔ ویتفکر ون فی خلق السموات والارض ربنا ماخلقت ھذا باطلا سبحنک فقنا عذاب النار۔ الم ترالٰی ربک کیف مدالظل ولو شاء لجعلہ ساکنا ثم جعلنا الشمس علیہ دلیلا۔ ثم قبضنہ الینا قبضا یسیرا۔ الی غیر ذلک من ایات کثیرۃ اور اس کا فن تاثیر باطل ہے تدبیر عالم سے کو اکب کے متعلق کچھ نہیں کیا گیا نہ ان کے لیے کوئی تایر ہے غایت درجہ فلکیہ مثل حرکات نبض علامات ہیں کما قال اللہ تعالیٰ وعلمت و با لنجم ھم یھتدون نبض کا اختلاف اعتدال سے طبیعت کے انحراف پر دلیل ہوتا ہے مگر وہ انحراف اس کا اثر نہیں بلکہ یہ اختلاف اس کے سبب سے ہے اس علامت ہی کی وجہ سے کبھی اس کی طرف اکابر نے نظر فرمائی ہے فنظر نظرۃ فی النجوم فقال انی سقیم زمانہ قحط میں امیر المومنین فاروق اعظم (رض) نے حکم دیا کہ باران کے لیے دعا کرو اور منزل قمر کا لحاظ کرلو امیر المومنین مولیٰ علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم سے منقول ہے لاتسافروا والقمر فی العقرب اگرچہ علماء نے اس کی یہ تاویل فرمائی ہے کہ عقرب ایک منزل تھی اور قمر ایک راہزن کا نام تھا کہ اس منزل میں تھا۔ علم تکسیر علم جعفر سے جدا دوسرا فن ہے اگرچہ جفر میں بھی تکسیر کا کام پڑتا ہے یہ بھی اکابر سے منقول ہے۔ امام حجۃ الا سلام غزالی و امام فخرالدین رازی و شیخ اکبر محلی الدین ابن عربی و شیخ ابو العباس یونی و شاہ محمد غوث گوالیاری وغیرہ ہم رحمہم اللہ تعالیٰ اس فن کے مصنف و مجتہد گذرے ہیں اس میں شرف قمر وغیرہ ساعات کا لحاظ اگر اسی علامت کے طور پر ہو جس کی طرف ارشاد فاروقی نے اشارہ فرمایا تو لاباس بہ ہے اور پابندی اوہام منکمین کے طور پر ہو تو ناجائز انھی الا اسماء سمیتموھا انتم وآباؤ کم ما انزل اللہ بھا من سلطن ان الحکم الا للہ امر ان لا تعبدو وا الا ایاہ ذلک الدین القیم ولکن اکثر الناس لا یعلمون۔ طلسم و نیرنجات سراسر ناجائز ہیں نیرنج تو شعبدہ ہے اور شعبدہ حرام کما فی الدرالمختار وغیرہ من الاسفار اور طلسم تصاویر سے خالی نہیں اور تصویر حرام اشد الناس عذابا یوم القیمۃ من قتل نبیا او قتلہ نبی والمصورون۔ واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٢۔ ٠١‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی متوفی ٦٧١١ ھ لکھتے ہیں :
باقی ستارے رہے تو یہ بات بعید نہیں ہے کہ ان کی بھی کچھ اصل ہو کیونکہ شرع نے صرف ان کے اندر مشغول رہنے سے نہی فرمائی ہے۔ ان کی حقیقت کی نفی با لکلیہ نہیں کی ہے اور اسی طرح سلف صالح سے ان چیزوں میں مشغول نہ ہونا اور مشتغلین کی مذمت اور ان تاثیرات کا قبول نہ کرنا تو برابر چلا آیا ہے مگر ان سے ان چیزوں کا معدوم ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ علاوہ بریں ان میں سے بعض اشیاء ایسی ہیں و یقین کے درجہ میں بدیہات اولیٰ کے درجہ کو پہنچ چکی ہیں مثلاً شمس و قمر کے حالات مختلف ہونے سے فصلوں کا مختلف ہونا و علیٰ ہذا القیاس ‘ اور بعض باتیں فکر یا تجربہ یا رسد سے ثابت ہوتی ہیں جس طرح تجربہ وغیرہ سے سونتھ کی حرارت اور کافرو کی برودت ثابت ہوتی ہے اور غالباً ان کی تاثیر دو طریقے سے ہوتی ہے ایک طریقہ تو طبیعت کے قریب قریب ہے یعنی جس طرح ہر نوع کے لیے طبائع مختلف ہوتی ہیں جو اسی نوع کے ساتھ مختص ہوا کرتی ہیں یعنی حرارت و برودت اور رطوبت اور یبوست اور امراض کے دفع کرنے میں انہیں طبائع سے کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح افلاک اور کواکب کے لیے بھی طبائع خاص اور جدا جدا خواص ہیں مثلاً آفتاب کے لیے حرارت اور چاند کے لیے رطوبت اور جب ان کو اکب کا اپنے اپنے محل میں گذر ہوتا ہے ‘ زمین پر ان کی قوت کا ظہور ہوتا ہے۔ دیکھو کہ عورتوں کے لیے جو عادات اور اخلاق مخصوص ہیں ان کا منشاء عورتوں کی طبیعت ہی ہوا کرتی ہے اگرچہ اس کا ادراک ظاہر طور پر نہ ہو سکے اور مرد کے ساتھ جو اوصاف مختص ہیں مثلاً جرأت آواز کا بھاری ہونا اس کا منشا بھی اس کی کیفیت مزاجی ہوا کرتی ہے پس تم اس بات سے انکار مت کرو کہ جس طرح ان طبائع خفیہ کا اثر ہوتا ہے اسی طرح زہرہ اور مریخ وغیرہ کے قویٰ زمین میں حلول کر کے اپنا اثر ظاہر کریں اور دوسرا طریقہ قوت روحانیہ اور طبیعت کے باہم ترکیب کے قریب قریب ہے۔ اس کی مثال ہے کہ جس طرح جنین کے اندر ماں اور باپ کی طرف سے قوت نفسانی حاصل ہوتی ہے اور آسمان و زمین کے ساتھ ان عناصر ثلاثہ کا حال ایسا ہی ہے جو ماں باپ کے ساتھ جنین کا حال ہوا کرتا ہے پس یہی قوت جہان کو اولاً صورت حیوانیہ بعد ازاں صورت انسانیہ کے قبول کرنے کے قابل بناتی ہے اور اتصالات فلکی کے اعتبار سے ان قویٰ کا حلول کئی طرح پر ہوتا ہے اور ہر قسم کے خواص مختلف ہوتے ہیں جب کچھ لوگوں نے اس کے اندر غور کرنا شروع کیا تو ان ستاروں کا علم یعنی علم نجوم حاصل ہوگیا ‘ اور اس کے ذریعہ سے آئندہ واقعات ان کو معلوم ہونے لگے مگر جب مقتضائے الہٰی اس کے خلاف مقرر ہوجاتی ہے تو ستاروں کی قوت ایک دوسری صورت میں جو اسی صورت کے قریب ہوتی ہے متصور ہوجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا حکم پورا ہو کر رہتا ہے اور کواکب کے خواص کا نظام بھی قائم رہتا ہے اور شروع میں اس نکتہ کو اس طرح پر تعبیر کیا جاتا ہے کہ کواکب کے خواص میں لزوم عقلی نہیں ہے بلکہ عادت الہٰی اس طرح جاری ہے اور خاص بمنزلہ امارات اور علامت کے ہیں مگر جب کثرت سے لوگوں کو اس علم میں توغل ہوگیا اور بہمہ تن اس میں مشغول ہوگئے تو اس واسطے اس میں کفر اور خدا تعالیٰ پر ایمان کے قائم نہ رہنے کا احتمال پیدا ہوا ‘ کیونکہ جو شخص اس علم میں مشغول ہو رہا ہے وہ تہ دل سے کیونکر یہ بات کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت سے یہ مینہ برسا رہے بلکہ وہ تو خواہ مخواہ یہی کہے گا کہ فلاں فلاں تارے کی وجہ سے برسا ہے لہٰذا یہ امر اس کو اس ایمان سے جو نجات کا دارو مدار ہے ضرور مانع ہوگا اور اگر کسی شخص کو اس علم سے ناواقفیت ہے تو اس کی یہ ناواقفیت کچھ مضر نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ خود تمام عالم کا مقتضائے حکمت کے موافق انتظام کرتا ہے خواہ کوئی اس سے واقف ہو یا نہ ہو۔ پس ضرور ہوا کہ شرع میں ایسا علم نیست و نابود کردیا جائے اور لوگوں کو اس کے سیکھنے سے ممانعت کی جائے اور یہ بات ظاہر کردی جائے کہ جس نے نجوم سیکھا اس نے جادو کا ایک شعبہ حاصل کیا جس قدر زیادہ سیکھے اسی قدر اس کا وبال ہوگا۔ اس کا حال توریت و انجیل کا سا حال ہے کہ انحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے نہیں فرمائی یہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہماری رائے ہے اور ہمارے تفحص کا نتیجہ ہے۔ پس اگر سنت سے اس کے خلاف کچھ ثابت ہو تو جو سنت سے ثابت ہو وہی بات ٹھیک ہے۔ (ترجمہ حجۃ اللہ البالغۃ ص ٥٩١‘ مطبوعہ المکتبۃ السلفیہ ‘ لاہور)
صدرالشریعۃ مولانا محمد امجد علی اعظمی متوفی ٦٧٣١ ھ (رح) لکھتے ہیں :
قمر در عقرب ‘ یعنی چاند جب برج عقرب میں ہوتا ہے تو سفر کرے کو برا جانتے ہیں اور نجومی اسے منحوس بتاتے ہیں اور جب برج اسد میں ہوتا ہے تو کپڑے قطع کرانے اور سلوانے کو برا جانتے ہیں ایسی باتوں کو ہرگز نہ مانا جائے ‘ یہ باتیں خلاف شرع اور نجومیوں کے ڈھکو سلے ہیں۔
نجوم کی اس قسم کی باتیں جن میں ستاروں کی تاثیرات بتائی جاتی ہیں کہ فلاں ستارہ طلوع کرے گا تو فلاں بات ہوگی یہ بھی خلاف شرع ہے اس طرح نچھتروں کا حساب کہ فلاں نچھتر سے بارش ہوگی یہ بھی غلط ہے حدیث میں اس پر سختی سے انکار فرمایا۔ (بہار شریعت حصہ ٦١‘ ص ٩٥١‘ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور ‘ ٦١٤١ ھ)
مفتی احمد یار خاں نعیمی متوفی ١٩٣١ ھ (رح) لکھتے ہیں :
یعنی فلاں تارہ فلاں برج میں پہنچا لہٰذا بارش ہوئی اس کی تاثیر سے بادل اور برسا یا کہنا حرام ہے بلکہ بعض معانی سے کفر ہے ‘ خیال رہے کہ ستاروں کو فاعل مدبر ماننا کفر ہے انہیں بارش کی علامت ماننا اگرچہ کفر نہیں ہے مگر یہ کہنا بہت برا ہے کہ فلاں تارے سے بارش ہوئی کہ اس میں کفار کے عقیدے کا اظہار ہے۔ (اس سے پہلے ص ٠٧٢ پر لکھا ہے :) بہ ہرحال نجومیوں سے غیب کی خبریں پوچھنا بدترین گناہ ہے۔ (مرء ات المنا جیح ج ٦ ص ٤٧٢‘ مطبوعہ گجرات)
مفتی محمد وقار الدین قادری رضوی متوفی ٣٩٩١ ء (رح) لکھتے ہیں :
نجومی اور کاہن وغیرہ سے تو سوال کرنے کی بھی ممانعت ہے ‘ صحیح مسلم میں ہے : جو کاہن (نجومی) کے پاس آئے اور اس سے کچھ دریافت کرے اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں ‘ حضرت ربیع سے ایک روایت ہے کہ قسم اللہ کی اللہ تعالیٰ نے کسی ستارے میں کسی کی زندگی نہیں رکھی ‘ نہ ہی اس کا رزق اور نہ ہی اس کی موت اور وہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتے ہیں اور وہ ستاروں کو علت قرار دیتے ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح کتاب الطب والرقی ‘ الکھانت ‘ فصل ثالث) مشکوٰۃ میں ایک اور حدیث ہے ‘ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے ‘ جس کسی نے علم نجوم کا کچھ حصہ سیکھا جو اللہ تعالیٰ نے نہیں بیان فرمایا ‘ پس تحقیق اس نے ایک حصہ جادو کا حاصل کیا نجومی کا ہن ہے اور کاہن جادو گر ہے اور جادو گر کافر ہے۔ (مشکوٰۃ حوالہ بالا) غرض علم نجوم اور علم رمل سیکھنا جائز ہے اور زائچہ بنوانا بھی ناجائز ہے۔ (وقار الفتاویٰ ج ٣ ص ٤٣٤۔ ٣٣٤‘ ملخصا ‘ مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی ‘ ١٢٤١ ھ)
شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرانی متوفی ٨٢٧ ھ لکھتے ہیں :
اسی طرح نجومی ہیں اور ان کے علم کا مبنیٰ یہ ہے کہ حرکات علویہ حوادث کے حدوث کا سبب ہیں اور سبب کا علم مسبب کے علم کو واجب کرتا ہے ان لوگوں کو کسی چیز کے ایک سبب کا پتا چل جاتا ہے لیکن اس چیز کے باقی اسباب ‘ اس کی تمام شروط اور تمام موانع کا علم نہیں ہوتا ‘ مثلا ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ اگر گرمیوں میں سورج سر پر پہنچ جائے تو فلاں علاقے میں انگور منقی بن جائیں گے ‘ لیکن ہوسکتا ہے اس علاقہ میں انگور پیدا نہ وہئے ہوں یا بارش اور ژالہ باری سے انگور پکنے سے پہلے ہی ضائع ہوگئے ہوں ‘ لہٰذا صرف اس بات کے علم سے کہ گرمیو میں سورج کی حرارت سے انگور منقی بن جاتے ہیں یہ پیش گوئی نہیں کی جاسکتی کہ کسی علاقے میں فلاں مہینے میں انگور منقی بن گئے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا جس شخص نے عراف کے پاس جا کر کسی چیز کا سوال کیا اس کی چالیس دن کی نمازیں قبول نہیں ہوتیں (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٠٣٢٢) اور عراف کا لفظ کاہن ‘ نجومی اور مال سب کو شامل ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج ٥٣ ص ٦٠١‘ مطبوعہ دارالجیل الریاضذ ٨١٤١ ھ)
شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الرانی المتوفی ٨٢٧ ھ لکھتے ہیں :
پھر ان نجومیوں کا طریقہ کار یہ تھا کہ جب کوئی چبہ پیدا ہوتا تو یہ اس کے نام کا ستارہ معلوم کرتے اور بچہ کا وہ نام رکھتے جو اس ستارے پر دلالت کرتا ‘ پھر وہ بچہ جب بڑا ہوجاتا تو پھر وہ اس ستارے کے احوال سے اس بچے کے احوال کو معلوم کرتے ‘ اور ان کے اختیارات یہ ہوتے تھ کہ اگر انہوں نے کسی سفر پر جانا ہوتا تو اگر چاند کسی مبارک برج میں ہوتا جو ان کے نزدیک سرطان ہے تو وہ سفر پر جاتے اور اگر چاند کسی منحوس برج میں ہوتا اور وہ ان کے نزدیک عقرب ہے تو پھر وہ سفر پر نہ جاتے۔
جب حضرت علی ابن ابی طالب (رض) نے خوارج سے قتال کے لیے جانے کا ارادہ کیا تو ان کے پاس ایک نجومی آیا اور کہنے لگا : اے امیر المومنین ! آپ سفر نہ کریں کیونکہ چاند برج عقرب میں ہے ‘ کیونکہ اگر آپ نے اس حال میں سفر کیا جبکہ چاند برج عقرب میں ہے تو آپ کے اصحاب کو شکست ہوجائے گی۔ حضرت علی نے فرمایا بلکہ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے سفر کروں گا ‘ اور تمہاری تکذیب کروں گا ‘ سو انہوں نے سفر کیا اور ان کا وہ سفر بابرکت رہا ‘ حتیٰ کہ بہت سے خوارج مارے گئے ‘ اور یہ ان کی بہت بڑی مہم تھی ‘ کیونکہ حضرت علی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے خوارج سے قتال کیا تھا۔ اور یہ جو بعض لوگوں نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد ہے کہ اس حال میں سفر نہ کرو کہ قمر (برج) عقرب میں ہو تو اس پر تمام محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے۔
اور بعض لوگوں نے یہ ہا ہے کہ علم نجوم حضرت ادریس (علیہ السلام) کا فن ہے ‘ تو اول تو یہ قول بلاعلم ہے ‘ کیونکہ اس قسم کی بات بغیر نقل صحیح کے معلوم نہیں ہوسکتی ‘ اور اس قسم کی کوئی نقل صحیح ثابت نہیں ہے ‘ ثانیاً اگر اس قسم کی کوئی پیش گوئی حضرت ادریس سے ثابت ہو تو وہ ان کا معجزہ ہوگا اور یہ وہ علم ہوگا جو ان کو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوگا اور وہ علوم نبوت سے ہے ‘ اور نجومی اپنے تجربہ اور قیاس سے پیش گوئی کرتے ہیں نہ کہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کی دی ہوئی خبر سے ‘ ثالثاً نجومیوں کی پیش گوئیا بہ کثرت جھوٹ ہوتی ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) کی خبریں جھوٹ سے معصوم ہوتی ہیں۔ رابعاً ہمیں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے خبر دی ہے کہ اہل کتاب نے اپنی کتابوں میں تحریف کردی ہے اور اس میں جھوٹ ملادیا ہے ‘ اور ان کی تصدیق کرنے سے منع فرمایا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے جب تمہیں اہل کتاب کوئی خبر دیں تو تم نہ اس کی تصدیق کرو نہ تکذیب کرو بلکہ یوں کہو ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس پر جو ہماری طرف نازل کیا گیا اور جو تمہاری طرف نازل کیا گیا ‘ ہمارا خدا اور تمہارا خدا ایک ہے ‘ ہم اسی پر ایمان لاتے ہیں (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٨٤٤) سو جب ہم کو اہل کتاب کی آسمانی کتابوں کی تصدیق سے منع کردیا تو ہم اس چیز کی تصدیق کیسے کرسکتے ہیں ‘ جس کو بغیر کسی ثبوت کے حضرت ادریس (علیہ السلام) کی طرف منسوب کردیا ہے۔
جن ستاروں کو نجومیوں نے منحوس اور مبارک کہا ہے ‘ اگر آپ اس کا الٹ کردیں اور مثلاً جب قمر برج سرطان میں ہو تو اس کو منحوس کہیں اور جب وہ برج عقرب میں ہو تو اس کو مبارک کہیں اور اس بنیاد پر پیش گوئی کریں تب بھی بعض اوقات یہ پیش گوئی صحیح ہوگی اور بعض اوقات یہ پیش گوئی غلط ہوگئی جس طرح ان کے مفروضات کی بنیاد پر کبھی ان کی پیش گوئی صحیح ہوتی ہے اور کبھی ان کی پیش گوئی غلط ہوتی ہے بلکہ زیادہ ترغلط ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہ جس بنیاد پر پیش گوئی کرتے ہیں وہ بنیاد محض ان کی من گھڑت اور خود ساختہ ہے اس کی کوئی صحیح بنیاد نہیں ہے اور یہ محض اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہیں۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج ٥٣ ص ١١١۔ ٩٠١‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالجیل ریاض ٨١٤١ ھ)
یہ تو شیخ ابن تیمیہ کے زمانے کے نجومیوں پر تبصرہ ہے اور ہمارے زمانہ میں جو نجومی ہیں ان کو تو یہ بھی پتا نہیں ہوتا کہ برج کسی چیز کا نام ہے اور کون سا ستارہ کس برج میں کب ہوتا ہے اور اس کو جاننے کا کیا ذریعہ ہے ‘ اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ کون سا ستارہ مبارک ہے اور کون سا منحوس ہے ‘ اور کس شخص کا کون سا ستارہ ہے اس کا علم کس ماخذ سے ہوا۔
اخبارات میں شائع ہونے والی نجومیوں کی پیش گوئیوں اور غیب کی خبروں پر مصنف کا تبصرہ
علم نجوم کی بحث میں ہم وہ احادیث نقل کرچکے ہیں جن میں نجومیوں سے سوال کرنے اور ان کی تصدیق کرنے کو کفر قرار دیا ہے۔ اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اخبارات میں ہر ہفتہ اس عنوان سے ایک مضمون شائع ہوتا ہے کہ ” یہ ہفتہ کیسا رہے گا “ اور اس مضمون میں اس ہفتہ کے متعلق غیب کی خبری بتائی جاتی ہیں۔ چند خبریں ملا حظہ فرمائیں۔
(حمل ١٢ مارج تا ١٢ اپریل)
دوستوں پر اندھا اعتما نقصان دہ ثابت ہوگا محتاط رہیں۔ مالی سلسلہ میں دوسرے سے وابستہ توقعات پوری ہو سکیں گی۔ آمدنی و اخراجات کا تناسب یکساں رہے گا۔ بیرون ملک سفر اختیار کرنے کے سلسلے میں مایوسی لاحق ہوسکتی ہے۔ موسمی اثرات یا غذائی بدپرہیزی کے باعث صحت خراب ہونے کا احتمال ہے۔ اس ہفتہ کا موافق عدد ٧ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کی تاریخ پیدائش ١٢ مارچ سے ١٢ اپریل کے درمیان ہے ان کا برج حمل ہے ‘ اور اس ہفتہ یعنی ٠١ فروری ٢٠٠٢ ء سے ٧١ فروری تک برج حمل کی یہ تاثیرات رہیں گی۔
قوس ٣٢ نومبرتا ٢٢ دسمبر)
کاروباری پوزیشن غیر مستحکم رہے گی۔ آمدنی میں کمی کا احتمال ہے جبکہ اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ بھائیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوسکتے ہیں۔ گھریلو ماحول بہتر رہے گا ‘ رہائش گاہ کی تبدیلی عمل میں آنے کا امکان ہے۔ پر ائز بانڈ یا کسی اور انعامی سکیم کے ذریعہ کثیر رقم ہاتھ آسکتی ہے۔ اس ہفتہ موافق عددا ہے۔
اس کا بھی یہ مطلب ہے کہ جن لوگوں کی تاریخ پیدائش ٣٢ نومبر تا ٢٢ دسمبر ہے ان کا برج قوس ہے اور اس ہفتہ (٠١ فروری تا ٧١ فروری) برج قوس کی یہ تاثیرات رہیں گی۔ (روزنامہ جنگ سنڈے مگیزین ٠١ فروری ٢٠٠٢ ئ)
علماء نجوم ستاروں کی تاثیرات کے قائل ہیں بروج کی تاثیرات کے قائل نہیں ہیں ‘ جو ستارے ‘ سیارے ہیں وہ یہ ہیں قمر ‘ زحل ‘ عطارد ‘ شمس ‘ مشتری ‘ مریخ اور زہرہ ‘ ان کے نزدیک سات آسمانوں میں سے ہر آسمان میں ایک سیارہ ہے ‘ آٹھویں آسمان میں ثوابت ہیں۔ یہ وہ ستارے ہیں جو حرکت نہیں کرتے۔ ان ستاروں کے اجتماع سے مختلف شکلیں بن جاتی ہیں مثلاً ترازو ‘ یا شیر کی شکلیں ‘ یہ شکلیں نویں آسمان میں رصد گاہوں کے اندر نظر آتی ہیں۔ اگر شیر کی شکل بن جائے تو اس کو برج اسد اور ترازو کی شکل بن جائے تو اس کو برج میزان اور بچھو کی شکل بن جائے تو اس کو برج عقرب کہتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس ‘ ان بروج کو سیاروں کی منازل بھی کہتے ہیں ‘ علماء نجوم ان سیار گان کی تاثیرات کے قائل ہیں۔ بروج کی تاثیرات کے قائل نہیں ہیں اور ” یہ ہفتہ کیسا رہے گا “ کے تحت لکھنے والوں نے اپنی کم علمی یا بےعلمی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ بروج کی تاثیرات ہوتی ہیں۔ انہوں نے کسی لغت میں بروج کے نام پڑھ لئے اور اپنی طرف سے مختلف فرضی باتیں گھڑ کر ہر برج کی طرف ہفتہ کے لیے تاثیرات منسوب کردیں۔ ان کی یہ تمام پیش گوئیاں اور غیب کے دعوے جھوٹ ہیں۔ اللہ تعالیٰ غیب کا علم وحی کے ذریعہ انبیاء (علیہم السلام) کو عطا فرماتا ہے اور غیب کی صداقت قطعی ہے اور الہام کے ذریعہ اولیاء کاملین کو غیب کا علم عطا فرماتا ہے اور اس کی صداقت ظنی ہے اور اسی نوع سے فراست کا علم ہے۔ بروج اور سیاروں کے ذریعے علم غیب اور مستقبل کی باتوں کے حصول کا کتاب وسنت میں ثبوت نہیں ہے بلکہ احادیث میں ستاروں کو موثر ماننے سے منع فرمایا ہے اور اس کو کفر قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :
ان اللہ عندہ علم الساعۃ ج وینزل الغیث ج و یعلم ما فی الارحام ط وما تدری نفس ما ذا تکسب غدا ط وما تدری نفس بای ارض تموت ط ان اللہ علیم خبیر۔ (لقمان : ٤٣) بیشک قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے اور وہی بارش نازل فرماتا ہے ‘ اور وہی جانتا ہے کہ وہ کل کیا کرے گا ‘ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس جگہ مرے گا۔ بیشک اللہ ہی تمام باتوں کو جاننے والا ہے اور تمام چیزوں کی خبر رکھنے والا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ علماء نجوم سے مستقبل کی باتوں کو اور غیب کو معلوم کرنا جائز نہیں اور جو شخص غیب کی باتیں بتائے اور غیب جاننے کا مدعی ہو اس کی تصدیق کفر ہے۔
علم نجوم کی تحقیق سے فارغ ہونے کے بعد ہم علم جفر کی تحقیق کرنا چاہتے ہیں۔
جفر کا لغوی معنی
علم الجفر ایک علم ہے جس میں اسرار حروف سے بحث ہوتی ہے اور اس کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ اس کی مدد سے آئندہ حالات و واقعات کا پتا لگا سکتے ہیں۔ (المنجد ص ٤٩‘ مطبوعہ ایران ٩٧٣١ ھ منجد اردو ص ٦٥١‘ مطبوعہ کراچی)
غیب کے حالات معلوم کرنے کا علم۔ (قائد اللغات مطبوعہ لاہور)
ایک علم جس سے غیب کا حال بتایا جاتا ہے۔ حضرت امام جعفر سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ (فیروز اللغات ص ٢٦٤‘ مطبوعہ لاہور)
جفر کا اصطلاحی معنی
علامہ مصطفیٰ آفندی بن عبد اللہ آفندی قسطنطنی الشھیر بالکاتب الچپلی المتوفی ٧٦٠١ ھ لکھتے ہیں :
علم الجفر و الجامعۃ اس علم کو کہتے ہیں جو لوح محفوظ اور تقدیر کا اجمالی علم ہے جو ما کان وما یکون کے تمام کلی اور جزی امور کو شامل ہے اور جفر قضاء وقدر کی اس لوح کو کہتے ہیں جو عقل کل ہے ‘ اور الجامعہ تقدیر کی اس لوح کو کہتے ہیں جو نفس کل ہے۔ ایک جماعت نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ حضرت علی (رض) نے جفر کی جلد میں اٹھائیس حروف تہجی لکھے ‘ مخصوص طریقوں اور معین شرطوں کے ساتھ الفاظ مخصوصہ سے اس چیز کو معلوم کیا جاسکتا ہے جو قضاء اور قدر کی توح میں ہے ‘ یہ وہ علم ہے جو اہل بیت میں بہ طور وراثت منتقل ہوا ہے ‘ اور ان میں جو اہل بیت کی طرف منسوب ہیں ‘ اور روہ مشائخ کاملین جنہوں نے اس علم کو ان سے حاصل کیا ہے اور یہ حضرات اس علم کو دوسروں سے مکمل طور پر مخفی رکھتے تھے ‘ ایک قول یہ ہے کہ مہدی منتظر کے سوا کوئی شخص اس کتاب سے واقف نہیں ہوسکتا ‘ یہ علم انبیاء سابقین کی کتابوں میں تھا ‘ جی اس کہ منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ نے فرمایا ہم گروہ انبیاء تمہارے پاس نازل شدہ عبارت کو پیش کرتے ہیں ‘ اور اس کی تاویل میرے بعد تمہارے پاس فارقلیط لائیں گے ‘ ابن طلحہ نے کہا کہ جفر اور جامعہ دو عظیم کتابیں ہیں حضرت علی (رض) نے کوفہ میں منبر پر خطبہ دیتے ہوئے ان میں سے ایک کا ذکر کیا ‘ اور دوسری وہ ہے جس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے راز رکھا ‘ اور اس کو مدون کرنے کا حکم دیا جس کو حضرت علی (رض) نے متفرق طریقہ سے لکھا جو اونٹ کی کھال پر لکھی ہوئی تھی۔ یہ حضرت آدم سے منقول تھی۔ اس میں تمام اولین اور آخرین کے واقعات تھے ‘ لوگو اس کے بنانے میں مختلف ہیں۔ امام جعفر صادق اس کو تکسیر صغیر کسر کرتے ہیں اور بعض علماء نے اس کا نام الباب الکبیر با لجفر الکبیر رکھا ہے اور الصغیر با لجفر رکھا ہے اور بعض اس کو تکسیر متوسط سے بناتے ہیں اور یہی اولیٰ ہے اور اسی پر الخافیۃ القمر یہ والشمسیہ کا مدا رہے۔ (کشف الظنون ج ١ ص ٢٩٥۔ ١٩٥‘ مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ تہران ‘ ٧٨٣١ ھ)
علم جفر کا تفصیلی تعارف
جفر : (ایک عددی علم ‘ جس کی مدد سے واقعات ‘ خصوصاً آنے والے واقعات یا ان کی اطلاع کی جاتی ہے۔ باطنی روایت بعض خاص حلقوں میں بڑی مقبول ہوئی۔۔۔۔۔ )
خلافت کے لیے بعض حلقوں کی سرتوڑ کوشش کے دوران میں ‘ جو ابتدا ہی سے باہمی اختلافات سے کمزور ہوگئے تھے اور بالخصوص المتوکل کے عہد خلافت میں سخت جبر و تشدد کا شکار بنے رہے ‘ ٧٣٢ ھ/ ١٥٨ ء میں ایک کشفی اور القائی ادب کا آغاز ہوا۔ یہ ادب مختلف شکلوں میں منظر عام پر آیا ‘ جس پر بحثییت مجموعی جفر کے اسم کا عام اطلاق ہوتا ہے۔ اکثر اس کے ساتھ اسم ” جامعۃ “ یا صفت ” جامع “ کا بھی اضافہ کردیا جاتا ہے۔ اس کی نوعیت القائی اور مخفی طور پر کشفی ہے اور مؤخر الذکر صورت میں اس کا خلاصہ ایک جدول ہے جس میں جفر سے قضاء اور جامعۃ سے قدر مراد ہے۔ حاجی خلیفہ (٣ : ٣٠٦ بعید) کا بیان ہے کہ ” یہ قضاء و قدر کی لوح پر (نوشۃ) علم کا خلاصہ ہے اور اس میں کلی اور جزوی طور پر وہ تمام امور شامل ہیں جو پیش آچکے ہیں یا آئندہ پیش آنے والے ہیں۔ ” جفر ‘ عقل کل پر اور ” جامعۃ “ روح کل پر حاوی ہے ‘ لہٰذا جفر کا رحجان مافوق الفطرت اور کائناتی پیمانے پر رؤیت عالم کی طرف ہے۔ اپنی ابتدائی صورت میں الہامی نوعیت کے ایک ایسے علم باطنی سے ہٹ کر جو ائمہ یعنی حضرت علی (رض) کے وارثوں اور جانشینوں سے مخصوص تھا ‘ اب یہ پیش گوئی کے ایک ایسے طریق کار سے منسوب ہونے لگا جس تک ہر حسب و نسب کے معقول آدمی خصوصاً صوفیہ حضرات کی رسائی ہو سکے (دیکھیے علم الحروف) کثیر التعداد مصنفوں نے اس طریق کار کے ارتقا میں حصہ لیا۔ ان میں چار جلیل القدر نام قابل ذکر ہیں : (١) محی الدین ابو العباس البونی (م ٢٢٦ ھ /٥٢٢١ ئ) نے اپنی تصنیف سمش المعارف میں ‘ جس کے تین منقح و مہذب متن ہیں : الاصغر ‘ الاوسط اور الاکبر : موخر الذکر ٢٢٣١ ھ/ ٤٠٩١ ء تا ٤٢٣١ ھ/٦٠٩١ ء میں قاہرہ سے چار جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایک چھوٹی سی کتاب ‘ جو جفر الامام علی بن ابی طالب یا الدرا لمنظم۔۔۔ کے نام سے مشہور اور ابن العربی سے منسوب ہے ( قب مخطوطہ لائپزگ ‘ عدد ٣٣٨‘ ورق او (مخطوطہ) پیرس ‘ عدد ٦٤٦٢ و Aleppo-Sbath‘ ٧٥ و ٠٩٣) ‘ محض شمس المعارف کے تیتنیسویں اور چونتیسویں پیراگراف پر مشتمل ہے (قب Apokalypse———Eine arab: Hartmann‘ ص ٩٠١ ببعد) : (٢) محی الدین ابن العربی (م ٨٣٦ ھ/٠٤٢١ ئ): مفتاح الجفر الجامع (مخطوطہ استانبول ‘ حمید یہ ‘ اسمعیل افندی ‘ عدد ٠٨٢‘ محفطوطہ پیرس ‘ عدد ٩٦٣٢‘ ورق ٤١ وغیرہ): (٣) ابن طلحۃ العدوی الراجی (م ٢٥٦ ھ/٤٥٢١ ئ): اسی عنوان سے یا بعنون الدرالمنظم فی السرالا عظم (مخطوطہ پیرس ‘ عدد ٣٦٦١/٧ : مخطوطہ استانبول ‘ عموجہ حسین پاشا ‘ عدد ٨٣٣ وسرائے احد ثالث ‘ عدد ٧٠٥٣ وغیرہ) (٤) عبدالرحمن البسطامی (م ٨٥٨ ھ/٤٥٤١ ئ) انہیں عنوانوں سے (مخطوطہ AS‘ عدد ٢١٨٢/٣ : مخطوطہ Vatican‘ عدد ٤٥٢١ V.: قب نکاسن Nicholson‘ در JRAS ٩٩٨١٧‘ ( ٧٠٩)
ان میں اور بہت سی ایسی دیگر تصانیف میں قابل عمل طریق کار میں بڑی الجھن درپیش ہوتی ہے۔ مبہم فکر کی کئی دوسری صورتوں کے بےجوڑ عناصر کا اس میں اضافہ کردیا گیا ہے ‘ مثلاً حروف ابجد اور اسمائے حسنیٰ کے مخفی خصائص : حساب الجمل : کسی ایسے نام کی عددی قدر کا اظہار جسے پوشیدہ رکھنا مقصود ہو : کسی لفظ کے حروف کی ترتیب کا ردو بدل تاکہ کوئی دوسرا لفظ بن جائے : الکسروالبسط ‘ یعنی کسی متبرک نام کے حروف تر کیبی کا مطلوب کے نام کے حروف کے ساتھ جوڑنا : قاعدہ اتبش کے مطابق (جس میں تطابق حروف کی ایک جدول بنی ہوتی ہے جس میں عبرانی ابجد کا پہلا حرف آخری حرف کے مطابق ہوتا ہے ‘ دوسرا ما قبل آخر کے وقس علی ھذا) کے مطابق کسی لفظ کے ایک حرف کی جگہ کوئی دوسرا حرف لانا : کسی جملے کے الفاظ کے حروف اول کو ملا کر ایک نیا لفظ بنانا : دوسرے الفاظ میں یوں کہیے کہ وہ تمام طریقے جو زمانہ قدیم سے باطنی عقائد کی ترجمانی کرتے رہے ہیں۔ (قب Historire del, ecriture:J.G.Fevrier پیرس ٨٤٩١ ئ ‘ ضمیمہ ٣‘ ص ٨٨٥ تا ١٩٥)
حروف کی عددی قدروں پر ایسی قیاس آرائیوں کو بعض اہل تصوف نے بھی بڑی اہمیت دی ہے جن میں نہ صرف متبرک ناموں کے حروف ترکیبی کو بلکہ سورة فاتحہ میں نہ پائے جانے والے سات حروف تہجی کو بھی خاص تقدس کا درجہ دیا جاتارہا ہے۔ فرقہ ئر حروفیہ کے ہاں تو فلاطونی اور یہودیوں کی قدیم باطنی روایات بعض صوفیہ کرام کے قیل و قال سے مل کر ایک ایسا مبہم و پر اسرار علم ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں کہ بقول حاجی خلیفہ (٢ : ٣٠٦) ” اس کا صحیح مفہوم سمجھنے کے اہل صرف مہدی آخر الزمان ہوں گے “۔ طریق عمل کی یہ بو قلمونی طرق تقسیم میں اختلاف و تباین کے باعث اور بھی پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ بع ضمصنف طویل ترتیب حروف تہجی (الف ‘ بائ ‘ تائ ‘ ثائ ‘ وغیرہ) اور بعض ابجدی ترتیب (الف ‘ بائ ‘ جیم وغیرہ) کی پیروی کرتے ہیں۔ پہلا طربقہ ” الجفر الکبیر “ کہلاتا ہے اور اس میں ایک ہزار مادے ہیں اور دوسرا طریق ” الجفر الصغیر “ کے نام سے موسوم ہے اور یہ صرف سات سو مادوں پر مشمتل ہے۔ ایک اور ” الجفر المتوسط “ بھی ہے ‘ جو حروف شمسی اور حروف قمری پر علیحدہ علیحدہ مبنی ہے۔ مصنفین نے اس آخری طریقے کو ترجیح دی ہے اور یہی عام طور پر تعویذوں وغیرہ میں مستعمل ہے۔ (حاجی خلیفہ ‘ محل مذکور)
حروف کے اس عددی اور خفی پہلو کے ساتھ ساتھ ‘ جو اپنی فنی اور مصنوعی نوعیت کی وجہ سے جفر کو زائجۃ (رک بان) کی سطح پر لے آتا ہے ‘ ان کے نجومی پہلو کو واضح کرنا بھی ضروری ہے۔ بقول ابن خلدون (مقدمۃ ‘ ٢ : ١٩١) ‘ ٢ : ٨١٢‘ قب ص ٤٨١ وطبع Rosenthal‘ ص ٩٠٢‘ شیعیوں نے یعقوب ابن اسحاق الکندی (م بعداز ٦٥٢ ھ/ ٠٧٨ ئ) کی احکام النجوم پر مبنی پیش گوئیوں پر مشتمل ایک کتاب کو جفر کا نام دے رکھا تھا۔ یہ غالباً وہی کتاب ہے جس کا ذکر ابن الندیم نے بعنوان الاستدلال بالکسوفات علی الحوادث کیا ہے (فہرست ‘ ص ٩٥٢ : قب الرسالۃ فی القضائ : علی الکسوف ‘ مخطوطئہ اسکوریال Escurial‘ عدد ٣١٩١‘ ورق ٤ : مخطوطئہ As‘ عدد ٢٣٨٤‘ ورق ٧٢‘ تفصیل کے لیے قب Carmathes:De Goeje Memoires sur les‘ باردوم ‘ لائڈن ٦٨٨١ ئ ‘ ص ٧١١ ببعد) یہ کتاب ‘ جس میں الکندی نے کسوفات کی بناء پر عباسی خلافت کے خاتمے تک اس کے عروج وزوال کے متعلق پیش گوئی کی ہے ‘ ابن خلدون کے زمانے میں موجود نہ تھی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ عباسیوں کے اس کتب خانے کے ساتھ ہی ضائع ہوگئی ہوگی جسے ہلاکو نے فتح بغداد اور آخری خلیفہ المعتصم (المستعصم) کے قتل کے بعد دریائے دجلہ کی نذر کردیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا ایک حصہ الجفر الصغیر کے نام سے مغرب جا پہنچا ‘ جہاں بنو عبد المؤ من کے حکمران حسب منشا اسے اپنے تصرف میں لے آئے ہوں گے۔
باب العرافۃ والفراسۃ علی مذھب الفرس (طبع Inostranzev ذ سینٹ پیٹرزبرگ ٧٠٩١ ئذ ص ٤) کی رو سے ‘ جو الجاحظ سے غلط طور پر منسوب کی جاتی ہے ‘ جفر کا یہ نجومی پہلو ہندی الاصل ہے۔ اس میں لکھا ہے کہ الجفر سال بھر کے مبارک اور نامبارک دنوں ‘ ہوائوں کے رخ ‘ قمری منازل کے ظہور اور ڈھلنے کا علم ہے۔۔۔ کتاب موسوم بہ الجفر سال بھر کی پیش گوئیوں پر مشتمل ہے ‘ جو موسموں اور قمری منازل کی رو سے مرتب کی گئی ہیں۔ سات قمری منازل کا ہر مجموعہ ‘ جو ربع سال پر مشتمل ہے ‘” جفر “ کہلاتا ہے۔ ایرانی اس سے بارشوں ‘ ہوائوں ‘ سفروں اور لڑائیوں وغیرہ کے شگون لیتے ہیں۔ خسروان ایران اور ان کی قوم نے یہ تمام علوم ہندوستان سے سیکھے۔۔۔۔۔۔۔۔
جفر کا آخری اور اہم ترین پہلو کشفی یا القائی ہے۔ صحیح معنوں میں اس کا اصلی پہلو یہی تھا جس بنو امیہ کے عہد میں اچھی خاصی ترقی کرلی تھی اور جسے بنو عباس کے دور حکومت میں غیبی علم کی کتابوں کی صورت میں ‘ جو کتب الحدثان کے نام سے مشہور تھیں (قب Carmathes} DeGoeja‘ ص ٥١١ ببعد ‘ حوالے) بڑی وسعت حاصل ہوئی۔ ان قیاس آرائیوں کا آغاز کتاب دانیال سے ہوا۔ حضرت دانیال سے منسوب پیش گوئیوں کی کتابیں ١٦ ھ/٠٨٦ ء میں مصر میں پڑھی جانے لگی تھیں۔ (الطبری ‘ ٢ : ٩٩٣) (اردو دائرۃ المعارف ج ٧ ص ٢١٣۔ ٠١٣‘ مطبوعہ دانش گاہ پنجاب ‘ لاہور)
جفر : غیبی حالات سے آگاہ ہونے کا علم ‘ وہ علم جن میں حروف و اعداد کے ذریعہ سے غیبی حالات دریافت کرتے ہیں۔ مذہباً شیعہ ہیں مگر مطالب قرآن بیان فرماتے ہیں تو لوگ حیران رہ جاتے ہیں اس کے علاوہ علم جفر میں کمال رکھتے ہیں (اقبال نامہ ج ٢ ص ٦٧١) قدیم کتابوں میں کیمیا ‘ نیر نجات ‘ علم جفر ‘ رمل اور قصص و اخبار کو بھی فنون میں شامل کیا گیا ہے۔ (اردو لغت ج ٣١ ص ١١٥‘ مطبوعہ اردو لغت بورڈ کراچی ‘ ١٩٩١ ئ)
علم جفر کے متعلق فقہاء اسلام کی آراء ( اعلیٰ حضرت ‘ مولانا وقار الدین اور شیخ ابن تیمیہ کی آرائ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا متوفی ٠٤٣١ ھ ‘ قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں :
جفر بیشک نہایت نفیس جائز فن ہے حضرات اہل بیت کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم کا علم ہے امیرالمومنین مولیٰ علی کرام اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم نے اپنے خواص پر اس کا اظہار فرمایا اور سیدنا امام جعفر صادق (رض) اسے معرض کتاب میں لائے۔ کتاب مستطاب جفر جامع تصنیف فرمائی۔ علامہ سید شریف رحمۃ اللہ تعلایٰ علیہ شرح مواقف میں فرماتے ہیں امام جعفر صادق جفر جامع میں مان کان ومایکون تحریر فرمادیا ‘ سید نا شیخ اکبر محی الدین ابن عربی (رض) نے الدر المکنون و الجوہر المصون میں اس علم شریف کا سلسلہ سیدنا آدم و سید نا شیث وغیر ہما انبیائے کرام علیہم الصلوۃ والسلام سے قائم کیا اور اس کے طرق واوضاع اور اون میں بہت غیوب کی خبریں دیں۔ عارف باللہ سیدی امام عبدالغنی نا بلسی قدس سرہ القدسی نے ایک رسالہ اس کے جواز میں لکھا ہے اس کا انکار نہ کرے گا مگر ناواقف یا گمراہ منعسف (فتاویٰ رضویہج ٢۔ ٠١ ذ ص ٦٣١‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی)
نیز اعلیٰ حضرات علم جفر کے متعلق فرماتے ہیں :
علم جفر کی تعریف سناتے وقت حضور نے ارشاد فرمایا : آپ نے علم زایر جہ کی تعریف نہ لکھی۔ یہ علم جفر ہی کا ایک شعبہ ہے۔ اس میں جواب منظوم عربی زبان بحرطویل اور حروف ل کی روی سے آتا ہے اور جب تک جواب پورا نہیں ہوتا مقطع نہیں آتا جس کو صاحب علم کی اجازت نہیں ہوتی نہیں آتا میں نے اجازت حاصل کرنا چاہی اس میں کچھ پڑھا جاتا ہے۔ جس میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خواب میں تشریف لاتے ہیں۔ اگر اجازت عطا ہوئی حکم مل گیا ورنہ نہیں میں نے تین روز پڑھا ‘ تیسرے روز خواب میں دیکھا کہ ایک وسیع میدان ہے اور اس میں ایک بڑا پختہ کنواں ہے۔ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف فرما ہیں اور چھ صحابہ کرام بھی حاضر ہیں جن میں سے میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) کو پہچانا۔ اس کنویں میں سے خود حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام پانی بھر رہے ہیں اس میں سے ایک بڑا تختہ نکلا کہ عرض میں ڈیڑھ گز اور طول میں دو گز ہوگا اور اس پر سبز کپڑا چڑھا ہوا تھا جس کے وسط میں سفید روشن بہت جلی قلم سے /ھ ذ اسی شکل میں لکھتے ہوئے تھے جس سے میں نے یہ مطلب نکالا کہ اس کا حاصل کرنا ہذیان فرمایا جاتا ہے۔ اس سے بقاعدہ جفر اذن نکل سکتا تھا۔ ھ کو بطور صدر مؤآخر میں رکھا۔ اس کے عدد پانچ ہیں اب وہ اپنی جگہ سے ترقی کرکے دوسرے مرتبہ میں آگئی اور پانچ کا دوسرا مرتبہ پانچ دہائی ہے یعنی پچاس جس کا حرف نون ہے یوں اذن سمجھاتا مگر میں نے اس طرف الفات نہ کیا اور لفظ کو ظاہر پر رکھ کر اس فن کو چھوڑ دیا کہ اھذ کے معنی ہیں فضول بک (ملفوظات حصہ اول ص ٤٩‘ مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی ‘ ١٢٤١ ھ)
مولانا وقار لدین رضوی متوفی ٣٩٩١ ء لکھتے ہیں : علم جفر صحیح ہے مگر اس کے جوابات صرف علم پڑھ لینے سے نہیں نکلتے بلکہ اس کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہ سے اجازت لینی پڑتی ہے ‘ اگر اجازت مل جاتی ہے تو جوابات صحیح برآمد ہوتے ہیں اور اگر اجازت نہیں ملتی تو جوابات بھی صحیح برآمد نہیں ہوتے۔ (وقار الفتاویٰ ج ٣ ص ٤٣٣‘ مطبوعہ بزم وقار الدین کراچی ‘ ١٢٤١ ھ)
شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرافی المتوفی ٨٢٧ ھ لکھتے ہیں :
اسی طرح حضرت جعفر کی طرف جفر کو منسوب کیا گیا ہے اور یہ سب جھوٹ ہے اور اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ‘ اور امام جعفر کی طرف رسائل اخوان الصفا بھی منسوب کئے گئے ہیں اور یہ بھی جھوٹ ہے کیونکہ رسائل امام جعفر کی وفات کے دو سو سال سے زیادہ بعد تصنیف کئے گئے ہیں۔ ان کی وفات ٨٤١ ھ میں ہوئی ہے اور یہ رسائل چوتھی صدی ہجری کے درمیان میں بنو بویہ کے عہد میں تصنیف کئے گئے ہیں۔ ان کو قاہرہ میں ایک جماعت نے تصنیف کیا تھا جن زعم تھا کہ انہوں نے شریعت اور فلسفہ میں تطبیق دی دی ہے ‘ سو وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور انہوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔
امام جعفر صادیق (رض) کے وہ اصحاب جنہوں نے ان سے علم حاصل کیا ہے جیسے امام مالک بن انس ‘ سفیان بن عیینہ اور دیگر ائمہ اسلام وہ ان جھوٹی باتوں سے بری ہیں۔ اسی طرح شیخ عبدالرحمن سلمی نے امام جعفر صادق سے کچھ باتیں نقل کی ہیں وہ بھی جھوٹ ہیں۔ اسی طرح رافضیوں نے بہت سے مذاہب باطلہ امام جعفر کی طرف منسوب کردیئے ہیں جن کا جھونا بالکل بدیہی ہے۔
جس شخص نے رفض کی ابتداء کی تھی وہ منافق زندیق تھا اس کا نام عبداللہ بن سبا تھا اس نے اس قسم کی خرافات وضع کر کے مسلمانوں کے دین کو فاسد کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج ٥٣ ص ٤١١۔ ٣١١‘ مطبوعہ دارالجبیل ریاض ‘ ٨١٤١ ھ)
نیز شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :
یہ امور یہود ‘ نصاریٰ مشرکین ‘ صابئین کے فلسفیوں اور نجومیوں میں پائے جاتے ہیں ‘ جو ایسے امور باطلہ پر مشتمل ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔
نیز شیخ ابن تیمیہ نے لکھا ہے کہ نجومی حوادث ارضیہ پر احوال فلکیہ سے استدلال کرتے ہیں اور یہ صفت کتاب ‘ سنت اور اجماع امت سے حرام ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے علم نجوم کا کوئی حصہ حاصل کیا اس نے جادو کے علم کا حصہ حاصل کیا (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٧٠٩٣) اور حضرت معاویہ بن الحکم سلمی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہماری قوم کاہنوں کے پاس جاتی ہے ‘ آپ نے فرمایا ان کے پاس نہ جائو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٦٥١) اور کاہن کے معنی میں نجومی بھی داخل ہے۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج ٥٣ ص ٧١١۔ ٦١١‘ ٢١١‘ مطبوعہ دارالجبیل یاض ‘ ٨١٤١ ھ)
نجومی رمال (ہاتھ کی لکیروں سے غیب جاننے کے مدعی) اور علم جفر کے مدعی یہ سب غیب جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں اور لوگ ان سے غیب کے متعلق سوال کرتے ہیں حالانکہ غیب کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ‘ یا جس کو اللہ وحی کے ذریعہ امور غیب پر مطلع فرماتا ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہے جو اس کے رسول ہیں ‘ اور یا وہ اولیاء کاملین ہیں جس کو اللہ بہ ذریعہ الہام امور غیب پر مطلع فرماتا ہے ‘ اور ان کے سوا اور کسی کو غیب کا علم نہیں اور جو شخص ستاروں ‘ ہاتھ کی لکیروں ‘ زائچوں ‘ یا علم جفر کے ذریعہ غیب دانی کا دعویٰ کرتا ہے وہ اپنے دعویٰ میں جھوٹا ہے ‘ اللہ کی کتاب ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور علماء سلف کا اجماع اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ ہم ان کی جہالت ‘ گمراہ کن روش اور ان کے شر اور فساد سے اللہ تعالیٰ کی پناہ میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور تمام مسلمانوں کو قرآن اور سنت کی تعلیمات پر قائم رکھے اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرمائے۔ (آمین)
علم جفر کی بنیاد پر اخبارات اور رسائل میں غیب کی خبروں اور پیش گوئیوں پر مصنف کا تبصرہ
ہم علم جفر کی تعریف میں یہ بیان کرچکے ہیں کہ اس علم کے اسرار سے اسی شخص کو واقفیت حاصل ہوتی ہے جس کو کسی واسطہ سے حضرت علی (رض) سے اجازت حاصل ہو ‘ اور بعض کے نزدیک سوائے امام مہدی کے کسی اور پر یہ علم منکشف نہیں ہوگا ‘ بہر حال اگر کسی پر یہ علم منکشف ہو بھی تو اس کی حیثیت کشف اور کرامت سے زیادہ نہیں ہے ‘ اور جو شخص علم جفر کی بنیاد پر کوئی پیش گوئی کرے اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ظنی ہے ‘ اور جو ظنی ہے ‘ اور جو ظنی الثبوت ہو وہ قطعی الثبوت کے معارض نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید کی نصوص صریحہ سے یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عام لوگوں کو اپنے غیب پر مطلع نہیں فرماتا۔ قرآن مجید میں ہے :
وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشآء ص۔ (آل عمران : ٩٧١) اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ تم (عام مسلمانوں) کو غیب پر مطلع کرے لیکن اللہ (غیب پر مطلع کرنے کے لیے) جن کو چاہتا ہے چن لیتا ہے اور وہ اللہ کے (سب) رسول ہیں۔
علم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احدا۔ الا من ارتضی من رسول۔ (الجن : ٧٢۔ ٦٢) (اللہ) عالم الغیب ہے سو وہ اپنا غیب کسی پر ظاہر نہیں فرماتا ماسوا ان کے جن سے وہ راضی ہے اور وہ اس کے (سب) رسول ہیں۔
ان دونوں آیتوں سے یہ واضح ہوگیا کہ عام لوگوں کی یہ حیثیت نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو غیب پر مطلع فرمائے یا ان پر غیب کا اظہار فرمائے اور یہ دونوں آیتیں نصوص قطعیہ سے ہیں۔ اب کوئی شخص علم جفر کے جاننے کا دعویٰ کرکے غیب کی خبریں بیان کرے تو اس کا یہ دعوی قطعاً مردود ہوگا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رسائل میں اور اخبارات میں ہر ہفتہ لوگوں کے غیب سے متعلق سوالات اور علم جفر کی بنیاد پر ان کے جوابات چھپتے ہیں۔ ہمارے سامنے ٠١ فروی ٢٠٠٢ ء کا روزنامہ جنگ کا سنڈے میگزین ہے۔ اس میں جلی عنوان ہے علم جفر ‘ اور کوئی محمد احمد شاہ بخت ابدالی صاحب ہیں جنہوں نے لوگوں کے جوابات دیئے ہیں اور یہ سوال و جواب غیب کی خبروں پر مبنی ہیں۔ ہم چند سوالات اور ان کے جوابات ذکر کر رہے ہیں ان جوابات میں وظائف کا بھی ذکر ہے لیکن چونکہ وظائف کے ہم قائل ہیں اور ان کو رد کرنا ہمارا موضوع نہیں ہے اس لیے ہم نے ان کا ذکر حذف کردیا ہے :
اسماعیل لاہور
س : ہمارے گھر کے حالات گزشتہ کئی برسوں سے خراب ہیں ‘ کا روبار نہ ہونے کے برابر ہے۔ گھر میں آپ میں اختلافات بہت ہیں۔ بیماری تو جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ آپ بتائیں کیا وجہ ہے ؟
ج : بد عملیات کے اثرات کی وجہ سے کاموں اور کاروبار و آمدنی میں رکاوٹیں ‘ گھر یلولڑائی جھگڑے اور آپ میں اختلافات اور الجھنیں اور پریشانیاں پیدا ہورہی ہیں۔
مبین احمد سیالکوٹ
س : کاروبار نفع کے بجائے نقصان میں جارہا ہے ‘ ہر وقت پریشان رہتا ہوں ‘ حالات کب تک بہتر ہوں گے ؟
ج : بدعملیات کی وجہ سے کاروبار وآمدن میں رکاوٹیں ‘ نقصان ‘ گھریلو الجھنیں اور پریشانیاں پیدا ہورہی ہیں۔ آپ اس کا اتار اور بندش کرائیں۔ انشاء اللہ اس کے بعد حالات بہتر ہوجائیں گے۔
عبدالقیوم کراچی
س : میں طویل عرصے سے پریشانیوں میں مبتلا ہوں۔ یہ پریشانیاں کب ختم ہوں گی اور ان تمام پریشانیوں کی وجہ کیا ہے ؟
ج : آپ پر نحوست سیار گان کے اثرات ہیں ‘ جس کی وجہ سے کاروبار و آمدنی و ملازمت ملنے میں رکاوٹیں ہیں ‘ ذہنی دبائو اور مزاج میں چڑ چڑا پن ہورہا ہے۔ نحوست سیار گان ٢٠٠٢ ء میں دور ہورہی ہے ‘ اس کے بعد ہی مستقل روزگار کا امکان ہے۔
(آپ پوچھیں ہم بتائیں ‘ سنڈے میگزین ص ٩٢‘ روز نامہ جنگ)
کسی مخلوق سے غیب کے متعلق سوال کرنا اور کسی مخلوق کا غیب کے متعلق پوچھے گئے سوالات کا جواب دینا اسلام میں جائز نہیں ہے۔ قرآن مجید اور سنت صحیحہ میں اس کا جواز اور گنجائش نہیں ہے۔ اس لئے جو شخص مسلمان ہے اور قرآن اور سنت پر اس کا صحیح ایمان ہے اس کو یہ سلسلہ ترک کردینا چاہیے۔ علم جفر و ی سے ہی نظری اور پیچیدہ ہے اور اس کے قائلین کے نزدیک بھی اس سے ہر شخص استفادہ نہیں کرسکتا۔ اس کا ثبوت محض بعض صوفیاء کی بعض مبہم اور مشکل عبارات سے ہے اور ہم قرآن ‘ سنت اور اجماع پر اعتقاد رکھنے اور ان پر عمل کرنے کے پابند ہیں ‘ اور جب قرآن اور سنت میں یہ واضح تصریح ہے کہ عام لوگوں کو غیب کا علم نہیں دیا جاتا تو ہمیں عام لوگوں سے غیب کے متعلق سوال نہیں کرنے چاہئیں اور نہ عام لوگوں کو غیب کی باتیں بتانے کی جرأت کرنی چاہیے ‘ یہ درست ہے کہ اولیاء اللہ کو الہام کے ذریعہ غیب کا علم دیا جاتا ہے لیکن اولیاء اللہ کا یہ طریقہ نہیں ہے۔ اولیاء اللہ نحوست سیار گان کے اثرات کے قائل نہیں ہوتے۔ اسلام میں کوئی چیز نجس اور نامبارک نہیں ہے ‘ اور بد فالی نکالنا اسلام میں منع ہے اور جو شخص سیاروں کی تاثیرات کا قائل ہو وہ ولی اللہ تو کیا ہوگا ‘ مسلمان بھی نہیں ہے۔
حساب و کتاب اور سائنسی آلات کے ذریعہ پیش گوئیوں کا شرعی حکم
رہا حسب کتاب کے ذریعہ اور آلات کی مدد سے پیش گوئی کرنا یہ ہمارے نزدیک جائز ہے جیسے چاند گرہن اور سورج گرہن کے متعلق پیش گوئی کی جاتی ہے اور وہ بالعموم درست نکلتی ہے۔ اسی طرح محکمہ موسمیات کی پیش گوئیوں کو بھی ظن کے درجہ میں مان لیناصحیح ہے۔ موسمی پیش گوئیاں بالعموم صحیح ہوتی ہیں اور بعض اوقات غلط بھی نکلتی ہیں۔ اسی طرح الٹرا سائونڈ کے ذریعہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ نر ہے یا مادہ ہے ‘ بچہ صحت مند ہے یا بیمار ہے ‘ سو ایسی تمام چیزیں جن کو سائنسی آلات اور حساب و کتاب کے ذریعہ معلوم کرلیا جائے ان کا پیشگی علم اسلام کے کسی اصول سے متصادم نہیں ہے۔ اس لئے ان پیش گوئیوں کو ظن کیددرجہ میں مان لینا صحیح ہے۔ البتہ ہاتھ کی لکیروں سے ‘ علم نجوم سے یا علم جفر کے ذریعہ سے غیب دانی کا دعوی کرنا اور ان مدعیان علم غیب سے غیب کے متعلق سوال کرنا اسلام میں جائز نہیں ہے۔
چاند نظر آنے کی سائنسی اور تکنیکی وجوہ
عموماً چاند کی پہلی تاریخ سے چند روز پہلے محکمہ موسمیات (سپار کو) والے اعلان کردیتے ہیں کہ فلاں انگزیزی تاریخ کو چاند نظر آئے گا اور اکثر و بیشتر یہ پیش گوئی صحیح ہوتی ہے اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی دلائل شرعیہ کی بنیاد پر جو رویت ہلال کا فیصلہ کرتی ہے وہ بھی زیادہ تر اس کے مطابق ہوتا ہے ‘ ہم نے ” سپارکو “ کو رویت ہلال کی سائنسی اور تکنیکی وجوہ معلوم کرنے کے لیے چند سوالات ارسال کئے ہمارے سوالات اور ان کے جوابات درج ذیل ہیں۔
PAKISTAN UPPER ATMOSPHERE RESEARCH COMMISSION
نئے چاند کے نظر آنے سے متعلق مورخہ ٢٠٠٢۔ ٣۔ ٢ کو آپ کا خط ملا ‘ بڑی خوشی ہوئی۔ خط میں موجود سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
سوال نمبر ١ : چاند کی ” پیدائش “ سے کیا مراد ہے ؟
جواب : چاند سورج کی روشنی کے سبب چمکتا ہے۔ زمین کے گرد گردش کے دوران ‘ جب چاند ‘ زمین اور سورج کے درمیان آجاتا ہے ‘ تو چاند کے تاریک نصف کرہ کا رخ زمین کی طرف ہوجاتا ہے ‘ یہی وہ صورت ہوتی ہے جب زمین پر ہمیں چاند نظر نہیں آتا ہے۔ قمری مہینے کی اٹھائیسویں تاریخ گذرنے کے بعد جو نہی تینوں فلکی اجسام (سورج ‘ زمین اور چاند) ایک ہی لائن میں آجاتے ہیں تو اس وقت کو اصطلاحاً Conjunctiontime کہتے ہیں اور اس کی مکمل وضاحت مندرجہ ذیل تصویر میں کی گئی ہے۔
A View Of The Moon Conjunction
اتصالی وقت کا ایک منظر
اس تصویر سے چاند کے مدار کی وضاحت ہو رہی ہے۔ A Plane (سمت A) سے چاند کا مدار فرض کیا گیا ہے جبکہ سمت B سے مراد سورج اور زمین ہیں۔ سمت B‘ سمت۔ کے ساتھ عمودی زاویہ بنارہی ہے۔ نقطہ F سے پورا چاند اور نقطہ N سے نیا چاند مراد ہے۔ جب سورج A Plane اور B Plane کے نقطئہ انقطاع پر ہوتا ہے تو گرہن ظہور پذیر ہوتا ہے۔ (چاند نقطہ N پر ہوگا تو سورج گرہن ہوگا اور جب چاند نقطہ F پر ہوگا تو چاند گرہن ہوگا) چاند کی زمین کے گرد گردش تیر کے نشان سے ظاہر کی گئی ہے۔ N سے پہلے پرانا ہلال (صبح کے وقت) اور N کے بعد نیا ہلال (شام کے وقت) رونما ہوتا ہے۔
نئے چاند کی پیدائش Conjunction Time سے شروع ہوتی ہے اور اس وقت چاند کی عمر۔ گھنٹہ ہوتی ہے۔
چاند کی پیدائش کے تقریباً ایک دن بعد چاند ہمیں آسمان کے مغربی حصہ پر شام کے وقت نظر آتا ہے۔
سوال نمبر ٢ : چاند کا واضح نظر آنا کب متصور ہوتا ہے ؟ یعنی واضح طور پر نظر آنے کے لیے چاند کی عمر اور اس کی بلندی کیا ہونی چاہیے ؟
جواب : چاند کی پیدائش کے بعد اس کی عمر اور بلندی بڑھتی رہتی ہے۔ بہر حال زمین کے مشرق کی جانب گردش کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چاند افق سے نیچے کی طرف جارہا ہے اور آخر کار چاند ڈوبتا ہوا نظر آتا ہے۔ بعد غروب آفتاب چاند کا نظر آنا مندرجہ ذیل زمینی حقائق پر منحصر ہے۔
(١) چاند کی عمر ٠٢ گھنٹے سے زیادہ ہو۔
(٢) چاند کی افق سے بلندی کا زاویہ کم سے کم دس ڈگری سے زیادہ ہو۔
(٣) غروب آفتاب کے بعد چاند کے غروب ہونے کا درمیانی وقت کم ازکم ٠٤ منٹ ہو۔
(٤) مطلع صاف ہو۔
سوال نمبر ٣ : یہ دعویٰ کب کیا جاسکتا ہے کہ چاند کے نظر آنے اور نہ آنے کے امکانات یکساں ہیں ؟
جواب : چاند کا نظر آنا غروب آفتاب کے بعد اس کی عمر اور بلندی پر منحصر ہے۔ چاند (ہلال) تب دکھائی دیتا ہے جب بعد غروب آفتاب اندھیرا پھیلنے سے پہلے اس کی بلندی حسب ضرورت ہوجائے۔ چاند نظر آنے کے امکانات (نظر آنے اور نہ نظر آنے کے یکساں مواقع) مندرجہ ذیل زمینی حقائق پر منحصر ہیں۔
(١) چاند کی عمر ٠٢ گھنٹے سے کم ہو۔
(٢) چاند کی افق سے بلندی دس ڈگری سے کم ہو۔
(٣) سورج اور چاند کے غروب ہونے کا درمیانی وقفہ ٠٤ منٹ ہو۔
سوال نمبر ٤ : یہ دعویٰ کب کیا جاسکتا ہے کہ چاند کی پیدائش تو ہوچکی لیکن اس کے دیکھے جان کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں ؟
جواب : چاند کی عمر Conjunction Time کے وقت صفر ہوتی ہے۔ چاند زمین کے گرد اپنا چکر ساڑھے انتیس دن میں مکمل کرتے ہوئے گردش کرتا ہے اور ہر روز افق پر تقریباً ٣١ ڈگری کی شرح سے بلندی ہوتا جاتا ہے۔ نیا چاند (ہلال) صرف اسی صورت میں نظر آسکتا ہے جب غروب آفتاب کے بعد اس کی بلندی افق پر مناسب ہو۔ نیا چاند مندرجہ ذیل صورتوں میں نظر نہیں آسکتا ہے۔
(١) چاند کی عمر ٠٢ گھنٹے سے کم ہو۔
(٢) چاند کی بلندی جب ٨ ئ ٧ ڈگری سے کم ہو۔
(٣) غروب آفتاب اور ماہتاب کے درمیان وقت ٥٣ منٹ ہے کم ہو۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 221
[…] تفسیر […]
[…] تفسیر […]
جناب یہ کس کی تحریر ہے یہ تو بتا دیں برائے مہربانی
جی محترم یہ تبیان القرآن سے ہے علامہ غلام رسول سعیدی نور اللہ مرقدہ