أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حَتّٰٓى اِذَاۤ اَتَوۡا عَلٰى وَادِ النَّمۡلِۙ قَالَتۡ نَمۡلَةٌ يّٰۤاَيُّهَا النَّمۡلُ ادۡخُلُوۡا مَسٰكِنَكُمۡ‌ۚ لَا يَحۡطِمَنَّكُمۡ سُلَيۡمٰنُ وَجُنُوۡدُهٗۙ وَهُمۡ لَا يَشۡعُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

حتی کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا : اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو ‘ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں روند نہ ڈالے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : حتیٰ کہ جب وہ چیونٹیوں کی وادی میں پہنچے تو ایک چیونٹی نے کہا اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو ‘ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں روند نہ ڈالے۔ اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے اور دعا کی اے میرے رب ! تو نے مجھے اور میرے والد کو جو نعمتیں عطا کی ہیں ‘ مجھے ان کا شکر ادا کرتے رہنے پر قائم رکھ اور مجھے ان نیک اعمال پر قائم رکھ جس سے تو راضی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے۔ (النمل : ۱۹۔ ۱۸)

وادی کا معنی 

اس آیت میں وادی کا لفظ ہے ‘ قرآن مجید میں ہے انک بالواد المقدس (طہ : ٢١) آپ مقدس وادی میں ہیں۔

اصل میں وادی اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے پانی بہہ کر آرہاہو ‘ اسی وجہ سے دو پہاڑیوں کے درمیان جو گھاٹی یا راستہ ہوتا ہے اس کو وادی کہا جاتا ہے ‘ اسی طرح قرآن مجید میں ہے۔

الم ترانہم فی کل واد یھیمون۔ (الشعراء : ٥٢٢) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ وہ (شعرائ) ہر وادی میں بھٹکتے پھر رہے ہیں۔

یعنی وہ کلام کے ہر قسم کے اسلوب میں طبع آزمائی کرتے پھرتے ہیں کبھی کسی کی مدح کرتے ہیں ‘ کبھی ہجو کرتے ہیں کبھی جدل کہتے ہیں کبھی غزل کہتے ہیں (جدل سے مراد ہے جنگ پر ابھارنے والے اشعار ‘ اور غزل سے مراد ہے محبوب کے متعلق اشعار) اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

لو کان لابن آدم و ادیان من ذھب لا بتغی الیھما ثالثا۔ اگر ابن آدم کے پاس سونے کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کو تلاش کرے گی۔ (صحیح مسلم الزکاۃ : ٧١١‘ رقم الحدیث : ٨٤٠١‘ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ ‘ المفرداتج ٢ ص ١٧٦)

نملۃ کا معنی 

نیز اس آیت میں ہے : قالت نملۃ یا یھا النمل (النمل : ۱۸)

نملۃ کا معنی ہے چیونٹی ‘ پہلو میں چیونٹی کی شکل کے مشابہ ایک پھنسی ہوجاتی ہے اس کو بھی نملۃ کہتے ہیں ‘ جس طرح چیونٹی آہستہ آہستہ جسم پر رینگتی ہے اور کاٹتی ہے اسی طرح چغلی کی تکلیف بھی انسان کو آہستہ آہستہ ڈنک مارتی رہتی ہے ‘ اور چغلی کرنے والے کو نمال اور نمام کہتے ہیں اور انملۃ انگلی کی پور کو کہتے ہیں اس کو جمع انامل ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٦٥٦‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

امام محمد بن ابوبکر رازی متوفی ٠٦٦ ھ نے لکھا ہے : نملۃ واحد ہے اور النمل جمع ہے۔

(مختار الصحاح ص ١٩٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٨١٤١ ھ ‘ الصحاح للجوہری ج ٥ ص ٦٣٨١)

جس چیونٹی نے حضرت سلیمان کے لشکر سے ڈرایا تھا وہ مذکر تھی یا مؤنث 

علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣١١ ھ لکھتے ہیں :

یہ چیونٹی لنگڑی تھی ‘ اس کے دو بازو تھے ‘ یہ چیونٹیوں کی ملکیہ تھی ‘ تورات میں لکھا ہے کہ اس کا نام منذرہ یا طاخیہ یا جرمی ‘ تھا ‘ اور بعض صحائف میں لکھا ہے کہ اس کا نام اللہ تعالیٰ نے رکھا تھا ‘ حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے پہلے بھی انبیاء (علیہم السلام) اس کو پہچانتے تھے ‘ چونکہ یہ باتیں کرتی تھی اس لیے اس کا نام رکھا گیا ورنہ چیونٹیوں کے نام نہیں رکھے جاتے ‘ اور نملۃ مؤنث حقیقی ہے کیونکہ قرآن مجید میں ہے قالب نملۃ اور فعل کے ساتھ تا اس وقت لائی جاتی ہے جب اس کا فاعل مؤنث حقیقی ہو ‘ کیونکہ نملۃ کا مذکر اور مؤنث دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے ‘ پس جب اس کو ممیز اور ممتاز کرنیکا ارادہ کیا جائے گا تو کسی ممیز خارجی کی ضرورت ہوگی مثلاً کہا جائے گا مذکر نملۃ اور مؤنث نملۃ ‘ اسی طرح حمامۃ اور یمامۃ کے الفاظ ہیں۔

بیان کیا جاتا ہے کہ قتادہ کوفہ میں گئے تو لوگ ان کے پاس جمع ہوگئے۔ انہوں نے لوگوں سے کہا جو پوچھنا چاہو پوچھو ‘ اس وقت امام ابوحنیفہ کم عمر لڑکے تھے ‘ انہوں نے لوگوں سے کہا ان سے پوچھو کہ جس چیونٹی نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے کلام کیا تھا وہ مذکر تھی یا مؤنث ؟ لوگوں نے سوال کیا تو قتادہ خاموش ہوگئے اور ان کو کوئی جواب نہ آیا ‘ تب امام ابوحنیفہ نے کہا وہ مؤنث تھی ‘ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو یہ کیسے معلوم ہوا ؟ انہوں نے کہا قرآن سے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے قالت نملۃ اگر وہ چیونٹی مذکر ہوتی تو اللہ تعالیٰ فرماتا قال نملۃ اس کی وجہ یہ ہے کہ حمامۃ (کبوتر) اور شاۃ (بکری) کی طرح ‘ نملۃ کا اطلاق بھی مذکر اور مؤنث دونوں پر ہوتا ہے اور ان کو ممیز اور ممتاز کرنے کے لیے مذکر یا مؤنث کی ضمیریں لائی جاتی ہیں مثلا کہا جاتا ہے ھوشاۃ (وہ بکرا ہے) یاھی شاۃ (وہ بکری ہے) اور جو فی نفسہ مذکر ہو اور اس میں لفظی تانیث ہو اس کے لیے مؤنث فعل یا مؤنث ضمیر نہیں لائی جاتی ‘ مثلاً یہ نہیں کہا جاتا کہ قالت طلحۃ یا قالت حمزۃ ‘ سو اگر یہ چیونٹی مذکر ہوتی اور اس میں صرف لفظی تانیث ہوتی تو قال نملۃ کہا جاتا اور قالت نملۃ نہ فرمایا جاتا اور قالت نملۃ فرمانا اس کی دلیل ہے کہ یہ چیونٹی مؤنث تھی۔ (روح البیان ج ٦ ص ٨٢٤۔ ٧٢٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

قتادہ اور امام اعظم کا یہ قصہ ان کتابوں میں بھی ہے : الکشاف ج ٣ ص ١٦٣‘ تفسیر کبیر ج ٨ ص ٨٤٥‘ شیخ زادہ علی البیضاوی ج ٦ ص ٥٨٣۔ قتادہ بن دعامہ سدوسی تابعی ہیں۔ انہوں نے حضرت انس بن مالک (رض) سے احادیث روایت کی ہیں اور یہ بدیل بن میسرہ العقیلی کے معاصر ہیں۔ صحاح ستہ کے تمام مصنفین ان سے احادیث روایت کرتے ہیں۔ امام محمد بن سعد نے ان کو اہل بصرہ کے طبقہ ثالثہ میں شمار کیا ہے۔ بکر بن عبداللہ المزنی نے کہا وہ اپنے زمانہ کے سب سے قوی حافظ تھے ‘ ابو عوانہ نے کہا میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں تیس سال سے فتوے دے رہا ہوں لیکن میں نے کوئی فتوی اپنی رائے سے نہیں لکھا یہ ستاون سال کی عمر میں واسط کے طاعون میں فوت ہوگئے تھے۔ ان کا سن وفات ٧١١ ھ ہے۔ (تہذیب الکمال ج ٥١ ص ٣٣٢۔ ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٤١٤١ ھ)

علامہ محمد بن یوسف ابو الحیان اندلسی متوفی ٤٥٧ ھ لکھتے ہیں :

فعل (قالت) کے مؤنث ہونے کی وجہ سے نملۃ مؤنث ہو (جیسا کہ امام اعظم کی تقریر میں ہے) نحویوں کا کلام اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ خبر دینے کے سوا نملۃ کا مؤنث ہونا معلوم نہیں ہوسکتا ‘ اور علامہ زمخشری نے النملۃ کو الحمامۃ اور الشاۃ کے ساتھ جو تشبیہ دی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے درمیان ایک قدر مشترک ہے اور وہ یہ ہے کہ ان دونوں کا مذکر اور مؤنث دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے ‘ اور ان میں ایک فرق بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ الحمامۃ اور الشاۃ کے مذکر اور مؤنث میں صفت کے ساتھ تمیز حاصل ہوجاتی ہے مثلاً کہا جاتا ہے مذکر حمامۃ اور نملۃ اور قملۃ میں مذکر اور مؤنث کی تمیز صرف خبر کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ‘ اور اس کا حکم وہ ہے جو ذوالعقول میں سے مؤنث بالتاء کا حکم ہوتا ہے جیسے المرأۃ یا غیر ذوی العقول میں سے مؤنث بالتاء کا حکم ہوتا ہے (اس لیے اس کے ساتھ مؤنث کے صیغے لائے جاتے ہیں) ہاں اگر فعل اور فاعل کے درمیان فصل ہوجائے تو پھر جائز ہے کہ فعل کے ساتھ تانیث کی علامت لائی جائے یا نہ لائی جائے جیسا کہ نحویوں نے علم مؤنث کا حکم بیان کیا ہے۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٠٢٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٢١٤١ ھ)

علامہ سلیمان الجمل المتوفی ٤٠٢١ ھ لکھتے ہیں :

زمخشری نے جو امام ابوحنیفہ کا قول نقل کیا ہے ‘ شیخ نے اس کو رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ قالت کے ساتھ تاء تانیت کا لگنا اس کی دلیل نہیں ہے کہ نملۃ مؤنث ہے ‘ بلکہ نملۃ مذکر کے ساتھ بھی قالت کہنا درست ہے ‘ کیونکہ نملۃ میں مذکر اور مؤنث کی تمیز فعل کی تذکیر اور تانیث سے نہیں ہوتی بلکہ خبر سے حاصل ہوتی ہے۔ (سمین) (حاشیۃ الجمل علی الجلا لین ج ٣ ص ٦٠٣۔ ٥٠٣‘ مطبوعہ المکتبۃ التجاریہ مصر)

علامہ احمد بن محمد الصاوی المالکی المتوفی ١٤٢١ ھ لکھتے ہیں :

امام ابوحنیفہ کے استدلال پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ فعل (قالت) کے ساتھ تا کالاحق ہونا نملۃ کے مؤنث ہونے پر دلالت نہیں کرتا ‘ کیونکہ نملۃ میں تاوحدت کے لیے ہے تانیث کے لیے نہیں ہے ‘ لہٰذا امام ابوحنیفہ کی دلیل مفید ظن ہے نہ کہ مفید تحقیق۔ ( حاثیۃ الصاوی علی الجلالین ج ٤ ص ٨٨٤١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

نواب صدیق بن حسن بن علی قنوجی متوفی ٧٠٣١ ھ نے ‘ امام اعظم اور قتادہ دعامہ کا مکالمہ نقل کر کے اس پر علامہ ابو الحیان اندلسی کی بحث لکھی ہے ‘ پھر کہا ہے کہ یہ جھوٹا قصہ ہے ‘ اس طرح اس چیونٹی کے نام کے متعلق جو اقوال نقل کیے گئے ہیں ان کو بھی جھوٹا قراردیا ہے اور کہا ہے کہ ان ابحاث میں مشغول ہونا بےفائدہ ہے۔ (فتح البیان ج ٥ ص ٣٢١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :

ابن المنیر نے کہا اگر یہ قصہ واقعی ثابت ہو تو مجھے امام ابوحنیفہ پر تعجب ہوگا ‘ اس لیے کہ نملۃ کا حمامۃ اور شاۃ کی طرح مذکر اور مؤنث پر اطلاق کیا جاتا ہے ‘ کیونکہ یہ اسم جنس ہے اس لیے مذکر نملہ اور مؤنث نملہ کہا جاتا ہے جیسے مذکر حمامۃ اور مذکر شاۃ اور مؤنث حمامہ اور مؤنث شاۃ کہا جاتا ہے پس یہ لفظاً مؤنث ہے اور اس کا معنی اس کے لفظ کی وجہ سے مؤنث بھی ہوسکتا ہے خواہ اس کا اطلاق مذکر پر ہو ‘ بلکہ وہی فصیح اور مستعمل ہے ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے :

لایضحی بعوراء ولا عمیاء ولا عجفائ۔ کانی بکری ‘ اندھی بکری اور بہت لاغر بکری کی قربانی نہ کی جائے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مؤنث بکریوں کی یہ صفات بیان کی ہیں ‘ جبکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ نہ ایسی بکریوں کی قربانی کی جائے نہ ایسے بکروں کی ‘ لہٰذا قرآن مجید میں جو قالت نملۃ ہے اس میں تانیث لفظی کی رعایت کرتے ہوئے قالت فرمایا ہے اور معنی کے اعتبار سے وہ چیونٹی مذکر بھی ہوسکتی ہے اور مؤنث بھی ‘ پس یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امام ابوحنیفہ (رض) نے اس چیونٹی کے مذکر یا مؤنث ہونے کا سوال کیا ہو اور قتادہ بن دعامہ سدوسی جیسے عظیم عالم کو سالت کردیا ہو ‘ اور حق کے مشابہ بات یہ ہے کہ یہ قصہ صحیح نہیں ہے۔

ابن حاجب نے امام اعظم کے استدلال پر یہ اعتراض کیا ہے کہ نملۃ کے ساتھ مؤنث فعل قالت لانے سے یہ لازم نہیں آتا کہ نملۃ مؤنث ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مذکر چیونٹی کا نام نملۃ رکھ دیا ہو اور اس میں تالفظاً تانیث کے لیے ہو اور اس صورت میں تانیث لفظی کی وجہ سے فعل مؤنث لا یا گیا ہو جیسے جائت الظلمۃ میں ہے ‘ بعض احناف نے امام اعظم کی طرف سے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اس طرح پھر جاءت طلحۃ کہنا بھی جائز ہونا چاہیے کیونکہ اس میں بھی ثانیث لفظی ہے ‘ اور یہ مذکر کا نام ہے ‘ لیکن اس جواب پر یہ اعتراض ہے کہ اسماء اعلام کی تانیث کا یہ حکم نہیں ہے کیونکہ ان میں لفظ کا نہیں صرف معنی کا اعتبار ہوتا ہے اور طلحۃ اسماء اعلام میں سے ہے۔ لیکن ابن حاجب کا یہ اعتراض اس لیے مدفوع ہے کہ انہوں نے خود اپنی کتاب کے شروع میں لکھا ہے کہ جب مؤنث لفظی کے ساتھ کسی مذکر کا نام رکھا جائے ترشرط یہ ہے کہ وہ مؤنث لفظی تین حرف سے زائد ہو اور نملۃ کا مادہ نمل تین حرف سے زائد نہیں ہے۔

(میں کہتا ہوں کہ ابن حاجب نے مطلقا مذکر کا نام رکھنے کی یہ شرط بیان نہیں کی بلکہ غیر منصرف کا سبب بننے کے لیے یہ شرط رکھی ہے اسی لیے انہوں نے کہا ہے کہ قدم مؤنث لفظی ہے کیونکہ اس کے مقابلہ میں نر جاندار نہیں ہے لیکن جب کسی مذکر کا نام قدم رکھ دیا جائے تو وہ منصرف رہے گا اس لیے کہ قدم تین حرف سے زائد نہیں ہے۔ لہٰذا ابن حاجب کا اعتراض صحیح ہے۔ (سعیدی غفرلہ)

علامہ آلوسی مزید لکھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ جب تم شاۃ اور بقرۃ سے مذکر کا ارادہ کرو تو کہتے ہو ھذا شاۃ اور ھذا بقرۃ یعنی جب بکر اور بیل مراد ہو اور جب اس سے مؤنث کا ارادہ کرو تو کہتے ہو ھذہ شاہ اور ھذہ بقرۃ ‘ علامہ طیبی نے بھی اس جواب کو پسند کیا ہے اور کہا ہے کہ صحیح وہی ہے جو امام ابوحنیفہ نے کہا ہے۔

الکشف میں مذکور ہے کہ نملۃ میں تاوحدت کے لیے ہے سو یہ مؤنث لفظی کے حکم میں ہے ‘ اس کا تقاضا یہ ہے کہ نملۃ سے مراد مذکر بھی ہوسکتا ہے اور اس کے ساتھ جو مؤنث فعل (قالت) لایا گیا ہے ہوسکتا ہے اس وجہ سے ہو کر نملۃ سے مراد مؤنث حقیقی ہو یا وہ مذکر ہو اور فعل مؤنث اس وجہ سے لایا گیا ہو کہ تاء وحدت لفظاً مؤنث کے مشابہ ہے یا جمعیت کے قصد کی وجہ سے فعل مؤنث لایا گیا ہے یعنی نملۃ سے مراد نمل کی جماعت ہو ‘ اور جب تانیث اور شبہ تانیث کا معنی باقی نہ رہے تو پھر اس کے فعل کے ساتھ علامت تانیث لانے کی کوئی وجہ نہیں رہے گی۔ خلاصہ یہ ہے کہ نملۃ کے ساتھ مؤنث فعل (قالت) لانے کا لازماً مطلب یہ نہیں ہے کہ نملۃ مؤنث ہے کیونکہ نملۃ سے مراد مذکر چیونٹی بھی مراد ہوسکتی ہے اور اس صورت میں فعل کا مؤنث ہونا تانیث لفظی کی جہ سے ہوگا اور یا اس وجہ سے کہ نملۃ میں تاوحدت کے لیے ہے اور قالت مؤنث کا صیغہ اس لیے ہے کہ تاء وحدت تانیث کے مشابہ ہے اور یا اس لیے کہ اس سے جماعت نمل مراد ہے ‘ اور محتاط قول یہ ہے کہ یہ حکایت صحیح نہیں ہے ‘ کیونکہ امام ابوحنیفہ (رض) کے مقام کو تو تم پہچانتے ہو خواہ وہ اس وقت نو عمر لڑکے تھے ‘ اور قتادہ بن دعامہ سدوسی کے متعلق علم رجال کے ماہرین کا اجماع ہے کہ وہ عربی زبان پر خوب بصیرت رکھنے والے تھے ‘ اس لیے ان کے متعلق جس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے اس کا ان سے صادر ہونا مکمل بعید ہے۔ (روح المعانی ج ٩١ ص ٥٦٢۔ ٤٦٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

انبیاء علیم السلام کا معصوم ہونا اور ان کے اصحاب کا محفوظ ہونا 

اس چیونٹی نے کہا ‘ اے چیونٹیو ! اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو ‘ کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں روند نہ ڈالے۔

امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ جو شخص کسی سڑک پر جارہا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے آپ کو ٹریفک کے حادثات سے بچانے کے لیے پیچھے سے آنے والے تیز رفتار رش کی زد میں انے سے محفوظ رکھے اور اس کے لیے ہر ممکن تدبیر کو اختیار کرے ‘ کیونکہ ابھی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا لشکر تین میل دور تھا تو چیونٹیوں کی ملکہ نے چیونٹیوں کو حکم دیا کہ وہ اپنے بلوں میں گھس جائیں۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص ٩٤٥ )

امام رازی کا یہ قول چیونیٹوں کے بارے میں درست ہے لیکن اس آیت کا انسانوں پر اطلاق کرنا درست نہیں ہے ‘ بلکہ پیچھے سے آنے والی گاڑیوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی حدرفتار کو قابو میں رکھیں اور ڈرائیرو اس قدر تیزرفتاری سے گاڑیاں نہ چلائیں کہ وہ بےقابو ہو کر آگے جانے والے کسی شخص کو ٹکر مار کر ہلاک کردیں اور جس شخص کی تیز رفتار گاڑی کی زد میں آکر کوئی مسلمان ہلاک ہوگیا تو اس کو اس ہلاک ہونے والے مسلمان کے ورثاء کو دیت ادا کرنی ہوگی اور کفارے میں دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے ہوں گے جیسا کہ النساء ٢٩ کا تقاضا ہے۔

اس آیت سے جو دوسرا مسئلہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) معصوم ہیں اور ان کے اصحاب محفوط ہیں کیونکہ اس چیونٹی نے یہ کہا : کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں روند نہ ڈالے اس کا مطلب یہ ہے کہ اس چیونٹی کا یہ اعتقاد تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب دانستہ اور عمداً چیونٹیوں کے پائوں تلے نہیں روندیں گے البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ بیخبر ی میں وہ ان کے پائوں تلے کچلی جائیں اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کے اصحاب عمداً چیونٹیوں پر بھی ظلم نہیں کرتے تو وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کر کے اپنے نفسوں پر کیسے ظلم کریں گے اور نبی کے اصحاب مسلمانوں پر کیسے ظلم کریں گے ‘ اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) صغیرہ اور کبیرہ گناہوں سے بری ہونے پر قطعی دلائل قائم ہیں اور ان کے اصحاب کے کبیرہ گناہوں سے محفوظ ہونے ضر ظنی دلائل قائم ہیں ‘ اور اگر ان کے اصحاب سے بشری تقاضے سے کوئی کبیرہ سرزد ہوجاتا تو وہ اس پر تو بہ کرلیتے تھے ‘ صحابہ کرام سے صغائر سر زد ہوجاتے تھے۔

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر عرض کیا مدینہ کے ایک کنارے میں ‘ میں ایک عورت کے ساتھ بغل گیر ہوا ‘ اور میں نے مباشرت کے سوا اس سے سب کچھ کرلیا اور اب میں حاضر ہوں ‘ آپ میرے متعلق جو چاہیں فیصلہ فرمائیں۔ حضرت عمر نے کہا اللہ تعالیٰ نے تم پر پردہ رکھا تھا ‘ کاش تم بھی اپنا پردہ رکھتے ! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص کو کوئی جواب نہیں دیا ‘ وہ شخص اٹھ کر چلا گیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک آدمی بھیج کر اس شخص کو بلوایا پھر آپ نے اس کے سامنے یہ آیت تلاوت فرمائی :

اقم الصلوۃ طرفی النھار وزلفا من الیل ط ان الحسنت یذھبن السیات ط ذلک ذکری للذکرین۔ (ھود : ٤١١) دن کے دونوں کناروں میں نماز پڑھیے اور رات کے قریب بھی ‘ بیشک نیکیاں گناہوں کو دور کردیتی ہیں ‘ یہ نصیحت ہے ‘ نصیحت حاصل کرنے والوں کے لیے۔

مسلمانوں میں سے ایک شخص نے اٹھ کر کہا : کیا یہ حکم اس شخص کے ساتھ مخصوص ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تمام لوگوں کے لیے عام ہے۔

امام بخاری اور امام مسلم کی روایت میں ہے اس شخص نے اس عورت کا صرف بوسہ لیا تھا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٨٦٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٦٧٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١١٣‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٦٤٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٩٣١‘ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٩٢٨٣١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٩٤٤‘ ٥٤٤‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٣١٣‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٠٣٧١‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٤٣٥‘ سنن کبری للبیہقی ج ٨ ص ١٤٢ )

اسی طرح بعض صحابہ کرام سے کبائر بھی صادر ہوئے جن پر حدود جاری ہوئیں :

حضرًت نعیمان یا ابن النعیمان نشے میں پکڑے گئے اور ان پر شراب کی حد جاری ہوئی ‘(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٧٦)

حضرت عبد اللہ (ان کا لقب حماد تھا بار بار شراب پیتے تھے اور اس پر حد لگائی جاتی تھی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٨٧٦)

قریش کی ایک معزز خاتون نے چوری کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٨٧٧)

حضرت علی نے فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ایک خاتون کو رجم کیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٨٦)

حضرت ماعزاسلمی (رض) شادی شدہ شخص تھے ‘ ان سے زنا کا فعل سرزد ہوگیا۔ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر چار مرتبہ زنا کا اعتراف کیا تو آپ نے ان کو رجم کردیا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤١٨٦‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٩١٤٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٢٤١ )

حضرت حسان بن ثابت ‘ حضرت مسطح بن اثاثہ اور حضرت حمنۃ بنت حجش (رض) سے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت لگانے کا فعل سرزد ہوگیا تو ان پر حد قذف جاری کی گئی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٥٧٤٤ )

ان صحابہ سے کبائر سرزد ہوگئے لیکن اللہ تعالیٰ نے وفات سے پہلے ان کو توبہ کی توفیق دے دی ‘ ان پر حدود جاری کی گئیں اور انہوں نے توبہ کرلی سو وہ گناہوں سے پاک ہوگئے ‘ ان کے علاوہ اور جن صحابہ سیکبائر کا صدور ہوا ان پر بھی حد جاری کی گئی اور انہوں نے توبہ کرلی اور اگر ان جرائم پر حد نہیں تھی اور انہوں نے ویسے ہی توبہ کرلی تو وہ پاک اور صاف ہوگئے ‘ غرض یہ کہ بعض صحابہ سے بشری تقاضے سے کبیرہ سرز ہوئے ان پر حد جاری کی گئی یا انہوں نے توبہ کرلی اور وہ ان گناہوں سے پاک اور صاف ہوگئے ‘ اور ان صحابہ کے گناہ بھی درجہ میں ہماری نیکیوں سے بڑھ کر کیونکہ ان کے گناہوں کی وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات مبارکہ میں حد جاری ہونے کا اسوہ اور نمونہ متحقق ہوا ‘ اور اسی وجہ سے کئی آیات نازل ہوئیں اور بہت سے شرعی احکام اور مسائل معلوم ہوئے۔

مسافت بعیدہ سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کا چیونٹی کو کیسے شعور ہوا اور آپ نے اس کا کلام کیسے سن لیا 

امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٦١٥ ھ لکھتے ہیں :

جب چیونٹیوں کی ملکہ نے کہا : اے چیونٹیو اپنے اپنے بلوں میں گھس جائو کہیں سلیمان اور ان کا لشکر بیخبر ی میں تمہیں روند نہ ڈالے ‘ تو حضرت سلیمان نے ان کی یہ بات سن لی ‘ اور اللہ کی مخلوق میں سے جو بھی کوئی بات کرتی تھی تو ہوا اس بات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے کانوں میں پہنچا دیتی تھی۔

مقاتل نے کہا حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کی بات کو تین میل کی مسافت سے سن لیا تھا ‘ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اور ان کا لشکر تو تخت پر تھا اور ہوا ان کو اڑا کرلے جارہی تھی ‘ اور جب وہ فضا میں تھے تو ان سے چیونٹیوں کو روندنا کس طرح متصور ہوسکتا تھا حتیٰ کہ چیو نٹیوں کی ملکہ کو ان سے ڈرانے کی ضرورت پیش آتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صرف حضرت سلیمان (علیہ السلام) تخت پر ہوا میں پرواز کررہے تھے اور ان کا لشکر سواروں اور پیادوں پر مشتمل تھا ‘ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ واقعہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کے مسخر کرنے سے پہلے پیش آیا ہو۔ بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت سلیمان علیہ اسلام وادی نمل میں پہنچے تو آپ نے اپنے لشکر کو روک لیا حتیٰ کہ چیونٹیاں اپنے اپنے بلوں میں داخل ہوگئیں۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٥٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :

اس چیونٹی کا کلام حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا معجزہ تھا ‘ جیسے گوہ اور بکری کے گوشت کا کلام کرنا ہمارے رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معجزہ تھا ‘ مقاتل نے کہا حضرت سلیمان نے تین میل کی مسافت سے چیونٹی کا کلام سن لیا تھا ‘ اور اس سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ چیونٹی کو بھی اتنے فاصلے سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کے آنیکا پتا چل گیا تھا۔ حضرت سلیمان کا اتنے فاصلہ سے چیونٹی کی بات کو سن لینا بعید نہیں ہے ‘ کیونکہ جیسا کہ آثار میں ہے ہوا نے ان تک یہ بات پہنچا دی تھی ‘ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی قوت قدسیہ عطا کی تھی جس سے انہوں نے یہ بات سن لی تھی ‘ لیکن چیونٹی کا اتنی مسافت سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لشکر کو محسوس کرلینا بعید ہے اور عربوں میں مشہور ہے کہ چچڑی بھی دور دراز سے محسوس کرلیتی ہے ‘ اور تم کو معلوم ہے کہ اس خبر کی صحت کا انکار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کوئی آواز مطلقاً نہیں سنی تھی۔ چیونٹی کے دل میں جو بات تھی اللہ تعالیٰ نے اس کا ان کے دل میں الہام کردیا تھا۔

اس بحث کے آخر میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں : تم کو معلوم ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں ان تاویلات کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور جو شخص چیونٹی کے احوال میں غور و فکر کرے گا اس کے نزدیک چیونٹی کے لیے نفس نا طقہ ہونا بعید نہیں ہے ‘ کیونکہ وہ سردیوں کے لیے گرمیوں میں اپنی خوراک کا ذخیرہ جمع کرلیتی ہے ‘ اور شیخاشراف نے اس پر دلائل قائم کیے ہیں کہ تمام حیوانات کے لیے نفس نا طقہ ثابت ہے ‘ اس لیے یہکہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ جائز ہے کہ اس وقت اللہ تعالیٰ نی اس چیونٹی میں نطق پیدا کردیا تھا اور باقی چیونٹیوں میں عقل اور فہم پیدا کردی تھی ‘ اور آج کل چیونٹیوں میں ایسا نہیں ہوتا۔

پھر ظاہر یہ ہے کہ یہ سمجھنا چاہیے کہ چیونٹی کو جو علم ہوا تھا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اپنے لشکر کے ساتھ آرہے ہیں ‘ اس کا اللہ عزوجل نے اس کو الہام کیا تھا ‘ جیسے اس گوہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا علم ہوگیا تھا اور اس نے کلام کیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت کی شہادت دی ‘ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ وہ چیونٹی اپنی جسامت میں عام چیونٹیوں کی طرح تھی۔

بعض روایات میں ہے کہ وہ چیونٹی لنگڑی تھی اور اس کا نام طاحیہ یا جرمی تھا ‘ علامہ ابوالحیان اندلسی نے البحر المحیط میں اس کا رد کیا ہے اور کہا اس چیونٹی کا یہ نام کسی نے رکھا ‘ اور نام رکھنا تو بنو آدم کے ساتھ مختص ہے ‘ علامہ آلوسی ان سے اختلاف کرتے ہوئے لکھتے ہیں جب حیوانات کے لیے نفوس ناطقہ ثابت ہیں تو پھر انکے نام بھی ہوسکتے ہیں ‘ اور یہ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو ان ناموں سے پکارتے ہوں ‘ لیکن ان ناموں کے الفاظ ہمارے ناموں کے الفاظ کی طرح نہیں ہوں گے بلکہ وہ ان کی مخصوص آوازیں ہوں گی جن مخصوص آوازوں سیوہ اپنے مفاہیم اور مطالب سمجھتے ہوں گے ‘ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم جو غیر مانوس اور اجنبی زبان سنتے ہیں وہ ہمیں جانوروں کی بولیاں معلوم ہوتی ہیں (مثلاً ہم چینی ‘ جاپانی یا بلتسانی زبان میں لوگوں کو باتیں کرتے سنیں) تو وہ ہمیں محض چڑیوں کی چوں چوں معلوم ہوتی ہیں لیکن جب کوئی مترجم ہمیں ان کا ترجمہ کرکے سنائے اور ہمیں ان کا مفہوم معلوم ہوجائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بامعنی الفاظ ہیں۔(روح المعانی جز ٩١ ص ٤٦٢۔ ٢٦٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

تبسم ‘ ضحک اور قہقہہ کے معانی اور وجوہ استعمال 

اس کے بعد فرمایا : اس کی بات سے سلیمان مسکرا کر ہنس دیئے۔

اس آیت میں تبسم اور ضحک کے الفاظ ہیں ‘ تبسم کا معنی ہے مسکرانا جبکہ اس میں دانت ظاہر نہ ہوں اور ضحک کا معنی ہے انسان اس طرح مسکرائے جس سے سامنے کے دانت ظاہر ہوں ‘ اس وجہ سے سامنے کے دانتوں کو ضواحک کہتے ہیں۔ ضحک اور قہقہہ میں یہ فرق ہے کہ ضحک میں ہنسی کی آواز سنائی نہیں دیتی اور قہقہہ میں ہنسی کی آواز دوسرے سن لیتے ہیں۔

ضحک (ہنسنا) کبھی خوشی کی وجہ سے ہوتا ہے اور کبھی تعجب کی وجہ سے اور کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کے لیے خوشی کی وجہ سے ضحک کے اطلاق کی مثال قرآن مجید کی یہ آیتیں ہیں :

فلیضحکوا قلیلا ولیبکوا کثیرا ج جزآء بما کانوا یکسبون۔ (التوبۃ : ٢٨ )

اپنے کاموں کے نتیجہ میں ان کو چاہیے کہ وہ ہنسیں کم اور روئیں زیادہ۔

وجوہ یو مئذ منسفرۃ۔ ضاحکۃ منستبشرۃ۔ (عبس : ٩٣۔ ٨٣)

اس دن بہت سے چہرے روشن ہوں گے۔ جو ہنستے ہوئے خوش و خرم ہوں گے۔

تعجب کی وجہ سے ضحک کے اطلاق کی مثال یہ آیتیں ہیں :

وامر اتہ قآئمۃ فضحکت فبشر نھا باسحاق لا ومن ورآء اسحاق یعقوب۔ قالت یویلتیء الدوانا عجوز وھذا بعلی شیخا ط ان ھذا لشیء عجیب۔ (ھود : ٢٧۔ ١٧) ابراہیم کی بیوی کھڑی ہوئی تھیں سو وہ ہنسنے لگیں تو ہم نے ان کو اسحاق کی بشارت دی اور اسحاق کے بعد یعقوب کی بشارت دی۔ اس نے کہا اے ہے ! کیا میں بچہ جنوں گی حالانکہ میں بڑھیا ہوں اور میرا یہ شوہر بھی بوڑھا ہے ‘ بیشک یہ بہت عجیب بات ہے۔

اور مذاق اڑانے کے لیے ضحک کے اطلاق کی مثال یہ آیات ہیں :

فاتخذ تموھم سخریا حتی انسوکم ذکری وکنتم منھم تضحکون۔ (المو منون : ٠١١)

سو (اے کافرو ! ) تم ان (نیک بندوں) کا مذاق ہی اڑاتے رہے ‘ حتیٰ کہ ان چیزوں نے تم کو میری یاد (بھی) بھلا دی اور تم ان پر ہنستے ہی رہے۔

ان الذین اجرموا کانو امن الذین امنوا یضحکون۔ (المطففین : ٩٢)

بے شک کفار ‘ مومنوں پر ہنسا کرتے تھے۔

فالیوم الذین امنوا من الکفار یضحکون۔ (المطففین : ٤٣ )

سو آج مومنین ان کافروں پر ہنسیں گے۔

(المفردات ج ٢ ص ١٨٣‘ محصلا۔ ‘ مطبوعہ مکتہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ)

ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مسکرانے اور ہنسنے کے متعلق احادیث 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کبھی اس طرح ہنستے ہوئے نہیں دیکھا کہ آپ کے منہ کا اندرونی حصہ حلق تک نظر آئے آپ صرف مسکرایا کرتے تھے۔ (یعنی اکثر اوقات)(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٠٩٢، صحیح مسلم رقم الدیث : ٨٩٩، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٠٩٨ مسند احمد ج ٦ ص ٦٦ شرح السنتہ رقم الحدیث : ٣٥٨٥)

حضرت عبد اللہ بن حارث بن جزء بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک میں اس شخص کو ضرور جانتا ہوں جو سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا اور میں اس شخص کو ضرور جانتا ہوں جو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا، ایک شخص کو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیشک رو اور اس سے اس گناہ کا انکار نہیں کرے گا اور وہ اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا، پھر کہا جائے گا اس کے ہر گناہ کے بدلہ میں اس کو نیکی دے دو ، وہ کہے گا میرے تو اور بھی گناہ ہیں جن کو میں اس وقت یہاں نہیں دیکھ رہا، حضرت ابوذر نے کہا پھر میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قدر ہنستے ہوئے دیکھا کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔(صحیح مسلم الایمان : ١٩٠ رقم الحدیث : ٣١٥-٣١٤ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٨٦ مسند احمد ج ٥ ص ١٧٥، ١٧٠ السنن الکبری للبیہقی ج ١٠ ص ١٩٠ شرح السنتہ رقم الحدیث : ٤٣٦٠ )

اس حدیث میں جو فرمایا ہے جو شخص سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا اس سے مراد ہے جو شخص گناہگار مسلمانوں میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہوگا ورنہ علی الاطلاق سب سے پہلے جنت میں ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) داخل ہوں گے اور یجو شخص سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا یہ وہ شخص ہے جس کا حضرت ابن مسعود کی روایت (بخاری : ٦٥٧١) میں ذکر آ رہا ہے اور اس حدیث میں جو اس کو دوزخ میں سب سے آخر نکالے جانے والے کا ذکر ہے یہ صرف ترمذی میں ہے اور یہ امام ترمذی کا تسامح ہے، ورنہ صحیح مسلم میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ (جمع الوسائل ج ٢٠ ص ٢١ )

حضرت جریر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے اوجھل نہیں ہوئے اور آپ جب بھی مجھے دیکھتے تھے ہنستے تھے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٣٦-٣٠٥٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٧٥، سنن ترمذیر قم الحدیث : ٣٨٢٠ مسند احمد ج ٤ ص ٣٥٨ مسند الحمیدی رقم الحدیث ٨٠٠ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٢١٩، شرح السنتۃ ٣٣٤٩ )

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس شخص کو پہچانتا ہوں جس کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا، وہ سرین کے بل گھسٹتا ہوا دوزخ سے نکلے گا، اس سے کہا جائے گا جا جنت میں داخل ہوجا، وہ جنت میں داخل ہونے کے لئے جائے گا تو دیکھے گا کہ سب نے اپنے اپنے ٹھکانے بنا لئے ہیں، اس سے کہا جائے گا کیا تم کو وہ وقت یاد ہے جب تم دوزخ میں تھے ؟ وہ کہے گا جی ہاں ! پھر اس سے کہا جائے گا تمنا کرو پس وہ تمنا کرے گا، پھر اس سے کہا جائے گا جو تم نے تمنا کی ہے وہ بھی اور اس سے دنیا کا دس گنا زائد لے اور وہ کہے گا کیا تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو حالانکہ تم فرشتے ہوچ حضرت عبداللہ نے کہا میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں ظاہر ہوگئیں۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٧١، ٧٥١١ صحیح مسلم الایمان : ١٨٦ رقم الحدیث : ٣٠٩، ٣٠٨ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩٥ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٣٣٩، مسند حمد ج ١ ص ٣٧٩، ٣٧٨ مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٥١٣٩ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٣٣٩، شعب الایمان رقم الحدیث : ٣١٤، شرح السنتۃ رقم الحدیث : ٤٣٥٦ )

علی بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ میں اس موقع پر حاضر تھا جب حضرت علی (رض) کے سوار ہونے کے لئے ان کے پاس سواری لائی گئی جب انہوں نے اپنا پیر رکاب میں رکھا تو کہا بسم اللہ اور جب سواری کی پشت پر سیدھے ہو کر بیٹھ گئے تو کہا الحمد للہ، پھر کہا : سبحان الذی سخرلنا ھذا وما کنالہ مقرنین وانا الی ربنا لمنقلبون (الزخرف : ١٣) پھر تین دفعہ کہا الحمد للہ اور تین دفعہ کہا للہ اکبر، سبحانک انی ظلمت نفسی فاغفرلی فانہ لایغفرالذنوب الا انت، پھر ہسنے، میں نے ان سے پوچھا آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں اے امیر المومنین ؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے جس طرح میں نے کہا، پھر آپ ہنسے، میں نے پوچھا : یا رسول اللہ ! آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : بیشک تمہارا رب اپنے بندے سے اس وقت خوش ہوتا ہے جب وہ دعا کرتا ہے رب اغفرلی ذنوبی ” اے میرے رب میرے گناہ بخش دے “ کیونکہ بندے کو یقین ہوتا ہے کہ اس کے سوا اور کوئی اس کے گناہوں کو نہیں بخشے گا۔(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦٠٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٤٦، مسند احمد ج ١ ص ٩٧ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٤٨٠ مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٣٢٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٣٨٠، کتاب الدعاء للطبرانی رقم الحدیث : ٧٨٧، ٧٨١ المستدرک ج ٢ ص ٩٩ سنن کبری للبیہقی ج ٥ ص ٢٥٢ الاسماء و الصفات ص ٤٧١، شرح السنتہ رقم الحدیث : ١٣٤٣-١٣٤٢ )

انسان کے والدین کی نعمتوں کا بھی اس کے حق میں نعمت ہونا 

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور (سلیمان نے) دعا کی اے میرے رب ! تو نے مجھے اور میرے والد کو نعمتیں عطا کی ہیں، مجھے ان کا شکر ادا کرتے رہنے پر قائم رکھ اور مجھے ان نیک اعمال پر قائم رکھ جس سے تو راضی ہے اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرلے۔ (النحمل : ١٩)

وزع کا معنی ہے تقسیم کرنا اور اوزعنی کا معنی ہے میری قسمت میں کر دے، مجھے تو فیق عطا فرما، مجھیقائم رکھ اور جماد نے مجھے الہام فرما۔ (المفرداتْ ٢ ص ٦٧٦)

جب حضرت سلیمان علیہ ال سلام نے چیونٹی کا کلام سنا اور اپنے لشکر کو دیکھا تو اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور یہ دعا کی کہ مجھے شکر ادا کرنے پر قائم رکھ اور اس پر جما دے، حضرت عمر بن عبدالعزیز نے کہا نعمت وحشیہ ہے اور بھاگ جانے والی ہے اس کو ادائیگی، شکر کے ساتھ باندھ کر رکھو۔ (رسائل ابن ابی الدنیا شکر : ١٣) حضرت سلیمان کو علم، نبوت، ملک، عدل اور پرندوں کے کلام کی فہم کی نعمت عطا کی تھی، اور ان کے والد حضرت دائود کو نبوت، پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح کی فہم اور ل ہے سے زرہ بننے کی نعمت عطا کی تھی۔ حضرت سلیمان نے اپنی نعمتوں کے ساتھ اپنے والد کی نعمتوں کا ھی شکر ادا کیا کیونکہ انسان کے والد کی نعمتیں بھی اس کے حق میں نعمتیں ہوتی ہیں اس لئے انہوں نے اپنی اور اپنے والد کی دونوں کی نعمتوں کا شکر ادا کیا اور یہ دعا کی کہ تو اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل کرلے۔ صالح بندوں سے مراد انبیاء (علیہم السلام) ہیں اور وہ لوگ جو انبیاء علیہوم السلام کے متبعین ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) پر اپنی نعمتوں کا ذکر کرنے کے بعد یہ حکم دیا تھا۔

(السبا : ١٣) اے آل دائود (ان نعمتوں کا) شکر ادا کرو، اور میرے بندوں میں سے شکر ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔

سو حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اس حکم پر عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔

ادائیگی شکر کا طریقہ 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو کہا مجھے ان (نعمتوں) کا شکر ادا کرتے رہنے پر قائم رکھ اس سے ان کی مراد دل اور زبان سے شکر ادا کرنا ہے اور انہوں نے جو فرمایا اور مجھے ان نیک اعمال پر قائم رکھ اس سے مراد جسم کے باقی اعضاء ظاہرہ سے شکر ادا کرنا ہے، تاکہ شکر کامل ہوجائے، کیونکہ شکر کا معنی ہے دل، زبان اور اعضاء ظاہرہ سے نعمت دینے والے کی تعظیم کرنا، بعض علماء نے کہا حضرت سلیمان نے اپنی دعا میں پہلے ایک خاص چیز کا سوال کیا کہ وہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں، پھر عام چیز کا سوال کی وہ نیک عمل کریں، پھر اعمال صالحہ کے ساتھ یہ قید بھی لگائی کہ وہ ایسے اعمال صالحہ ہوں، جن سے تو راضی ہو اور رضا سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان اعمال صالحہ کو قبول فرمائے، کیونکہ اعمال صالحہ کے لئییہ ضروری نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو قبول بھی فرمائے۔ قرآن مجید میں ہے :

(المائدۃ : ٢٧) اور ان کو آدم کے دو بیٹوں کا واقعہ حق کے ساتھ سنائیں جب ان دونوں قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول کی گئی اور دوسرے کی قربانی قبول نہیں کی گئی۔

ہابیل اور قابیل دونوں نیق ربانی کی تھی۔ ہابیل کی قربانی قبول کرلی گئی اور قابیل کی قربانی قبول نہیں کی گئی، حالانکہ دونوں کے عمل صالح تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) نیک عمل کرنے کے بعد اس کے قبول ہونے کی دعا کرتے تھے، قرآن مجید میں ہے۔

(البقرہ : ١٢٧) اور جب ابراہیم اور اسمعیل کعبہ کی بنیاندیں اٹھا رہے تھے اور دیواریں بنلد کر رہے تھے ( تو یہ دعا کرتے تھے) اے ہمارے رب ! تو ہم سے (اس عمل کو) قبول فرما، بیشک تو ہی بہت سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔

حضرت سلیمان کا اپنے جد کریم کی اتباع میں جنت اور بعد از وفات ثناء جمیل کی دعا کرتا 

علامہ زمخرشی متوفی ٥٣٨ ھ نے کہا حضرت سلیمان نے دعا میں جو یہ کہا اپنی رحمت سے مجھے اپنے نیک بندوں میں شامل کرنے اس کا معنی ہے مجھے اہل جنت سے کر دے (الکشاف ج ٣ ص ٣٦٢، دار احیاء التراث العربی، ١٤١٧ ھ) اور علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے کہا یہاں مفعول مقدر ہے یعنی اپنی رحمت سے مجھے جنت میں داخل کر دے اور ان دونوں توجیہات کی وجہ یہ ہے کہ حضرت سلیمان نے جب دعا میں یہ کہا کہ مجھے اعمال صالحہ کی توفیق دے تو پھر یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل کرلے، کیونکہ جو اعمال صالحہ کرے گا وہ صالح بندہ ہی ہوگا۔ اس کا علامہ زمخرشی نے یہ جواب دیا کہ اس کا معنی یہ یہ کہ مجھے اہل جنت سے کر دے تاکہ اس آیت میں تکرار لازم نہ آئے اور جب اعمال صالحہ کی طلب کے بعد جنت کی طلب کی تو گویا اعمال صالحہ پر دوام کو طلب کیا کیونکہ صرف اعمال صالحہ سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہو اعمال صالحہ دائمی بھی ہوں۔

نیز اعمال صالحہ کے بعد جنت کی دعا کر کے یہ بتایا کسی شخص کا اعمال صالحہ سے متصف ہونا اس کے جنتی ہونے کو مستلزم نہیں ہے اور نہ جنتی ہونے کے لئے کافی ہے کیونکہ جنت تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل سے ملتی ہے، حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی شخص کو اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا، آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو بھی نہیں ! آپ نے فرمایا : اور نہ مجھے، سوا اس کے کہ اللہ مجھے اپنی رحمت سے ڈھانپ لے۔(صحیح مسلم رقم الحدیث بلا تکرار : ٢٨١٦ الرقم المسلسل : ١٩٨٠، صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٧٣ مسند احمد ج ٢ ص ٢٦٤ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٥٦، کنز العمال رقم الحدیث : ٥٣١٥، ١٠٤٠٨ تحاف ج ٩ ص ٩٦)

اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو دعا میں جہا اپنی رحمت سے مجھے داخل کر دے اس میں بھی اس طرف اشارہ ہے، قرآن مجید کی بعض آیتوں میں ہے اور ثتموھا بما کنتم تعملون (الاعراف : ٤٣، الزخرف : ٧٢) تمہیں اپنے عملوں کی وجہ سے جنتوں کا وارث بنایا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جنت میں دخول کا ظاہری سبب نیک اعمال ہیں اور حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اگر اللہ تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو انسان نیک عمل نہیں کرسکتا۔ ان آیات میں دخول جنت کے ظاہری سبب کا ذکر فرمایا ہے اور حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس دعا میں اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس حدیث میں دخول جنت کے حقیقی سبب کا ذکر فرمایا ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو دخول جنت کی دعا کی ہے اس میں اپنے جد کریم حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے طریقہ پر عمل کیا ہے کیونکہ آپ نے بھی دخول جنت کی دعا کی تھی :

(الشعرائ : ٨٥) اور مجھے نعمت والی جنتوں کے وارثوں میں سے بنا دے۔

نیز حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جو دعا کی ہے ” مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیک بندوں میں اخل فرما دے “ یعنی جب ان نیک بندوں کا ذکر کیا جائے تو میرا بھی ذکر کیا جائے، گویا مجھے ایسے اعمال صالحہ عطا فرما کہ ان اعمال صالحہ کی بنا پر بعد کے لوگ میرا شمار الحین میں کریں کیونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر عمل صالح کرنے والے کا شمار صالحین میں کیا جائے، ہزاروں لوگ نیک عمل کرتے ہیں لیکن ان کا شمار صالحین میں نہیں کیا جاتا۔ مقصد یہ تھا کہ بعد میں بھی آپ کی ثناء جمیل اور تحسین ہوتی رہے اور اس دعا میں بھی آپ نے اپنے جد کریم کی اتباع کی ہے کیونکہ حضرت ابراہیم نے اپنی دعا میں کہا تھا : 

(الشعرائ : ٨٤) اور میرا ذکر خیر بعد کے لوگوں میں باقی رکھ۔

انبیاء (علیہم السلام) اپنے صالح ہونے کی دعا کیوں کرتے تھے 

ایک اعتراض یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے درجات اولیاء اور صالحین کے درجات سے بنلد ہوتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) صالحین کے زمرہ اور ان کی جماعت میں دخول کی دعا کرتے تھے، حضرت یوسف (علیہ السلام) نے دعا کی :

(یوسف : ١٠١) مجھے اسلام پر وفات دینا اور صالحین کے ساتھ ملا دینا۔

(النمل : ١٩) اور اپنی رحمت سے مجھے اپنے صالح بندوں میں داخل فرما لے۔

علامہ القمولی متوفی ٧٢٧ ھ نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ صالح کامل وہ شخص ہے جو نہ معصیت کرے اور نہ معصیت کا ” ھم “ کرے، (ھم سے مراد ہے عزم سے کم درجہ کا ارادہ جس میں غالب جانب فعل کرنے کی ہو اور مغلوب جانب فعل نہ کرنے کی ہو) اور یہ بہت بلند درجہ ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٥٤٩ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ اور علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے بھی اسی جواب کا ذکر کیا ہے۔ (البحر المحیط ج ٨ ص ٢٢٢، روح البیان ج ٦ ص ٤٣١)

اس جواب پر یہ اعتراض نہ کیا جائے انبیاء (علیہم السلام) نے جو صلاح کامل کے بنلد درجہ کی دعا کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو یہ درجہ حاصل نہیں تھا، کیونکہ اس دعا سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کو یہ درجہ حاصل نہ ہو جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نماز میں دعا کی ادھنا الصراط المستقیم (الفاتحہ : ٥) ” ہم کو سیدھے راستہ پر چلا “ حالانکہ آپ سدیھے راستہ پر ہی چل انبیاء علیہم ال سلام صلاح کامل کو طلب کرتے ہیں تو ان کا مقصود صلاح کامل کے درجہ میں دوام اور ثبات کو طلب کرنا ہوتا ہے اور اس میں مزید ترقی کو طلب کرنا ہوتا ہے، اور انبیاء علیہم ال سلام کے علاوہ جو اولیاء اور صالحین ہوتے ہیں وہ انبیاء علہیم السلام کے صلاح کامل کے درجہ پر فازء نہیں ہوتے بلکہ اس سے کم درجہ پر ہوتے ہیں، یعنی وہ بالعموم معصیت تو نہیں کرتے لیکن معصیت کے ” ھم “ سے محفوظ اور مامون نہیں ہوتے، سو انبیاء (علیہم السلام) نے صلاح کامل کے درجہ کی دعا کی ہے اور یہ دیگر اولیاء اور صالحین کی صالحیت سے بلند درجہ ہے جس کو علامہ القمولی وغیرہ نے صلاح کامل سے تعبیر فرمایا ہے۔

اور علامہ شہاب الدین احمد بن محمد خفا جی حنفی متوفی ١٠٦٩ ھ نے اس اعترضا کے جواب میں کہا ہے کہ ہرچند کہ انبیاء (علیہم السلام) کا درجہ اولیاء اور صالحین سے بہت بلند ہوتا ہے لیکن انبیاء (علیہم السلام) نے جو یہ داع کی کہ ہم کو صالحین کی جماعت میں داخل کر دے تو یہ ان کی تواضح اور ان کا انکسار ہے۔ (عنایۃ القاضی ج ٧ ص ٢٣٥، مطبعوہ دارالکتب العمیۃ بیروت، ١٤١٧ ھ)

اور علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے یہ کہا کہ حضرت سلیمان علہی السلام نے پہلے دعا میں کہا : تو نے مجھے اور میرے والد کو جو نعمتیں عطا کی ہیں مجھے ان کا شکر ادا کرتے رہنے پر قائم رکھ اور مجھے ان نیک اعمال پر قائم رکھ جن سے تو راضی ہے، دعا کے اس حصہ میں یہ طلب کیا کہ مجھے حقوق اللہ کی ادائیگی کی توفیق دے اور جب کہا مجھے اپنی رحمت سے صالح بندوں میں داخل کر دے تو یہ طلب کیا کہ مجھے حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق دے، کیونکہ صالحیت دونوں حقوق کی ادائیگی سے حاصل ہوتی ہے، سو یہ تخصیص کے بعد تعمیم ہے۔ (روح المعانی ج ١١ ص ٢٧١، موضحاً مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

شیخ اور امام یا امیر کی معرفت اور اس کی بیعت اور اطاعت کا ضروری ہونا 

صوفیاء کرام نے کہا ہے کہ جو شخص ہوائے عشق کے پرندوں میں سے ہو اگ، وہی پرندوں کی زبانوں کو سمجھے گا اور جو شخص اپنے وقت کے سلیمان کو نہیں دیکھے گا وہ ان آوازوں کے معانی کو کیسے سمجھ سکے گا اور سلیمان سے مراد مرشد کامل ہے جس کے ہاتھ میں حقیقت کی انگوٹھی ہوتی ہے جس سے وہ دلوں کی مملکتوں کی حفاظت کرتا ہے اور غیوب کے اسرار پر مطلع ہوتا ہے، پھر ہر چیز اس کی خوشی یا ناخوشی سے اطاعت کرتی ہے جو ناخوشی سے اطاعت کرتے ہیں وہ بہ منزلہ، شیاطین ہیں، پس مسلمان کے لئے ضرویر ہے کہ وہ امام عصر کی معرفت حاصل کرے اور وہ اس کی بیعت اور اطاعت کرے اس سلسلہ میں یہ احادیث ہیں :

حضرت حذیفہ بن یمان (رض) کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خیر کے متعق سوال کرتے تھے اور میں آپ سے شر کے متعلق سوال کرتا تھا، مبادا میں کسی شر میں مبتلا نہ ہو جائوں، میں نے عرض کیا : یا رسولا لہ ! ہم زمانہ جاہلیت میں شر میں تھے، پھر اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اس خیر کو لے آیا، آیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! میں نے پوچھا آیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں : آیا اس خیر کے بعد پھر شر ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! میں نے پوچھا آیا اس شر کے بعد پھر خیر ہوگی ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! لیکن اس خیر میں کچھ کدورت ہوگی، میں نے عرض کیا وہ کدورت کیسی ہوگی ؟ آپ نے فرمایا لوگ میری سنت کی اتباع نہیں کریں گے اور میری ہدایت کے خلاف عمل کریں گے، ان میں اچھی اور بری دونوں باتیں ہوں گی، میں نے پوچھا آیا اس خیر کے بعد پھر کوئی شر ہوگا ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! کچھ لوگ دوزخ کے دروازوں پ رک ھڑے ہوں گے اور لوگوں کو بلائیں گے جو ان کے پاس چلا جائے گا وہ اس کو دوزخ میں ڈال دیں گے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ ہمیں ان لوگوں کے اوصاف بیان کیجیے، آپ نے فرمایا ان لوگوں کا رنگ ہماری طرح ہوگا اور وہ ہماری زبانوں میں بات کریں گے، میں نے عرض کیا : یا رسولا للہچ اگر میں ان کا زمانہ پائوں تو میرے لئے کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا تم مسلمانوں کے امام اور ان کی جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا، میں نے عرض کیا اگر اس وقت مسلمانوں کی جماعت اور ان کا امام نہ ہوڈ آپ نے فرمایا تم ان تمام فرقوں سے الگ رہنا خواہ تم کو تاحیات درختوں کی جڑیں چبانی پڑیں، اور اسی حال میں نہیں موت آجائے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٠٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٧، سنن ابن ماجہ رقا الحدیث : ٣٩٧٩)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص (حاکم کی) اطاعت سے نکل جائے اور جماعت کو چھوڑ دے تو وہ جاہلیت کی موت مراد اور جو شخص اندھی تقلید میں کسی کے جھنڈے تلے جنگ کرے یا کسی عصبیت کی بنا پر غضبناک ہو یا عصبیت کی دعوے دے یا عصبیت کی خاطر جنگ کرے اور مارا جائے تو وہ شخص جاہلیت کی موت مرے گا اور جس شخص نے میری امت کے خلاف خروج کیا اور اچھوں اور بروں سب کو قتل کیا، کسی مومن کا لحاظ کیا نہ کسی سے کیا ہوا عہد پورا کیا وہ میرے دین پر نہیں ہے اور نہ اس سے میرا کوئی تعلق ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٤٨ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٣٥٧٩)

نافع بیان کرتے ہیں کہ یزید بن معاویہ کے دور حکومت میں جب واقعہ حرہ ہوا تو حضرت عبداللہ بن عمر (رض) عبداللہ بن مطیع کے پاس گئے۔ ابن مطعی نے کہا حضرت ابوعبدالرحمٰن (یہ حضرت ابن عمر کی کنیت تھی) کے لئے غالیچہ بچھائوا حضرت ابن عمر نے فرمایا : میں تمہارے پاس بیٹھنے کے لئے نہیں آیا میں تمہارے پاس صرف اس لئے آیا ہوں کہ تم کو ایک حدیث سنائوں جس کو میں نے خود رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے (امام کی) اطاعت سے ہاتھ نکال لیا وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اس کے حق میں کوئی حجت نہیں ہوگی اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس کی گردن میں کسی کی بیعت نہیں تھی وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ (صحیح مسلم الاعارۃ 58 رقم الحدیث بلا تکرار : ١٨٥١ رقم الحدیث المسلسل : ٤٧١١)

حضرت عامر بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ جو شخص اس حال میں مرگیا کہ اس کے اوپر کسی امام کی اطاعت نہیں وہ جاہلیت کی موت مرا۔(مسند احمد ج ٣ ص ٤٦٦، مسند البزار رقم الحدیث : ١٣٣٦ مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٧٢٠١ المعجم الکبیر ج ١٩ ص ٣٨٨، ٣٣٤، المستدرک ج ١ ص ٧٧ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٣١١٤، ٢٣١١٦، کنزل العمال رقم الحدیث : ١٤٨٦١ )

نیز حدیث میں سے جو شخص اس حال میں مرا کہ وہ اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا تھا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ (سلستہ الاحادیث الضعیفہ للالبانی رقم الحدیث : ٣٥٠ )

نوٹ :۔ یہ حدیث مجھ کو کسی مستند حدیث کی کتاب میں نہیں ملی، البتہ بعض مفسرین اور متکلمین نے اس کو بغیر کس سند اور حوالے کے ذکر کیا ہے اور شیخ البانی نے اس کو احادیث ضعیفہ میں منددرج کیا ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی دعا میں ہمارے لئے تنبیہ اور نصیحت 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے شکری کی ادائیگی اور صالحیت پر قائم رہنے کی دعا کی اور آخر میں یہ اپنے آباء کرام کے طریقہ کے مطابق جنت میں دخول کی دعا کی اور یہ دعائیں ان کے معصوم ہونے کے منافی نہیں ہیں بلکہ اس پر تنبیہ کرنے کے لئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی جلال ذات سے ڈرتے رہنا چاہیے اور امت کے لئے یہ ہدایت ہے کہ ہو احسن طریقہ سے شریعت کی اتباع کر تیر ہے اور طریقت کے پسندیدہ حال پر قائم رہے، تاکہ حقیقت کے بلند مقام پر فائز ہو، حرام اور مکروہ کاموں سے حتی الوسع مجتنب رہے اور فرائض، واجبات، سنن اور مستحبات پر ہمیشہ عامل رہے یہ شریعت کی پابندی ہے، مشائخ کے بتائے ہوئے معمولات یا پھر نفلی عبادات کو انجام دیتا رہے یہ طریقت پر عمل کرنا ہے اور اپنے دل میں معصیت کے زنگ کو لگنے نہ دے اور ہر قسم کے برے افکار سے اپنے دل و دمغا کو صاف اور پاک رکھے حتیٰ کہ اس کا آئینہ دل صیقل ہوجائے اور الوہی تجلیات کے منعکس اور منطبع ہونے کے قابل ہوجائے یہ حقیقت ہے اور جو شخص شریعت پر عمل نہیں کرتا اور اپنے باطن کو پاک اور صاف نہیں کرتا وہ ہلاک ہوجاتا ہے، ہم اللہ سبحانہ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے پندسدیہ اعمال اور مرغوب احوال کی توفیق دے اور ہم کو زہد اور تقویٰ اور دیگرمستحسن امور سے مزین کر دے، بیشک وہی ہماری دعائوں کو قبول کرنے والا ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 18