يٰمُوۡسٰۤى اِنَّـهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُۙ ۞- سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 9
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يٰمُوۡسٰۤى اِنَّـهٗۤ اَنَا اللّٰهُ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُۙ ۞
ترجمہ:
اے موسیٰ ! سنو بات یہ ہے کہ میں ہی اللہ ہوں بہت غالب بڑی حکمت والا
تفسیر:
اللہ کا کلام سننے کی کیفیت
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے موسیٰ ! سنو بات یہی ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ‘ بہت غالب ‘ بڑی حکمت والا (النمل : ٩)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : پھر جب وہ اس جگہ پہنچے تو ان ندا کی گئی کہ جو آگ (کی تجلی) میں ہے اور جو اس کے آس پاس ہے ‘ وہ برکت والا ہے اور اللہ سبحان ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے۔
بعض عارفین نے کہا ” جو آگ میں ہے “ اس سے اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات مقدسہ کا ارادہ فرمایا ‘ اور وہ ‘ وہی ہے جس نے حضرت موسیٰ پر اپنے مشاہدہ کی برکت کا فیضان فرمایا اور اللہ تعالیٰ اس پر قادر ہے وہ نار ‘ نور ‘ درخت اور پہاڑ طور میں سے کسی بھی چیز میں اپنا جلوہ دکھائے ‘ اس کے باوجود کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کسی جہت ‘ سمت اور جانب میں ہونے سے منزہ اور پاک ہے۔
اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ” میں اللہ ہوں “ اس کو حضرت موسیٰ نے درخت سے سنا اور یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کے کلام کے حادث ہونے پر دلالت کرتا ہے کیونکہ کسی چیز کا کسی جہت اور کسی جانب میں ہونا اس چیز کے حدوث پر دلالت کرتا ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح ہم اللہ تعالیٰ کی ذات کو جہت ‘ جانب اور جگہ میں ہونے سے منزہ اور پاک مانتے ہیں اسی طرح ہم اللہ تعالیٰ کے کلام کو بھی جہت اور جگہ سے پاک مانتے ہیں اور حضرت موسیٰ کو یہ کلام درخت کی کسی ایک جانب سے نہیں بلکہ درخت کی ہر جانب سے سنائی دے رہا تھا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت موسیٰ نے بغیر حروف اور آواز کے اور بغیر کسی سمت کے یہ کلام کیسے سن لیا ؟ ہم اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ جس طرح بغیر کسی رنگ کے اور بغیر کسی جہت میں ہونے کے اللہ تعالیٰ کی ذات دکھائی دے سکتی ہے۔ اسی طرح بغیر کسی آواز کے اور بغیر کسی جہت میں ہونے کے اللہ تعالیٰ کا کلام سنائی دے سکتا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا جائز نہیں ہے۔ مثلاً یہ کہنا جائز نہیں ہے کہ بغیر کسی جسم کے یا جوہر اور عرض کے اللہ تعالیٰ کی ذات کس طرح متحقق ہے ‘ اور بغیر کسب اور حصول کے اس کا علم کس طرح متحقق ہے ‘ اور بغیر صلاحیت کے اس کی قدرت کس طرح ہے اور کسی چیز کے شوق اور آرزو کے بغیر اس کا ارادہ کیسے ہے ‘ اور بغیر آواز ‘ الفاظ اور حروف کے وہ کلام کیسے کرتا ہے ‘ اور کسی چیز کے مقابل ہوئے بغیر وہ دیکھتا کیسے ہے۔ زمان اور مکان اور وقت اور جگہ کے بغیر وہ کیوں کر ہے۔
اور اگر یہ سوال ہو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ کا کلام کیسے سن لیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ہر طرف اور ہر جہت سے یہ کلام سنا ان کو یہ آواز اوپر ‘ نیچے ‘ دائیں ‘ بائیں آگے اور پیچھے ہر جانب سے آرہی تھی اور ان کا ہر عضو یہ کلام سن رہا تھا۔ ان کا پورا جسم مجسم سماعت ہوگیا تھا اور آخرت میں بھی مومنوں کی یہی صفت ہوگی اور کاملین اور واصلین کے لیے دنیا بھی آخرت کے حکم میں ہوتی ہے۔
حضرت موسیٰ نے درخت سے آواز سن کر کیسے یقین کرلیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے اس باب میں امام رازی کی تحقیق
فرمایا : سنو ! بات یہی ہے کہ میں ہی اللہ ہوں ‘ بہت غالب ‘ بڑی حکمت والا (النمل : ٩)
یہ اس کی تمہید ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ کے ہاتھ پر ایک عظیم معجزہ ظاہر کرنے والا ہے اور وہ ایسی چیزوں کو ظہور میں لانے پر قادر ہے جو انسان کی فکر اور اس کے وہم سے بھی ہبت دور ہوتی ہیں ‘ جیسے لاٹھی کا اژدھا بن جانا۔
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جب حضرت موسیٰ کو یہ آواز آئی کہ میں ہی اللہ ہوں تو انہوں نے کیسے یہ یقین کرلیا کہ یہ اللہ کا ارشاد ہے۔ یہ بھی تو ہوسکتا تھا کہ ابلیس یا کسی جن نے یہ آوازدی ہو ! اس کے جواب میں امام رازی لکھتے ہیں : اہل سنت کے نزدیک اس سوال کے دو جواب ہیں :
(١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایسا کلام سنا جو آواز اور حروف کی مشابہت سے منزہ اور پاک تھا ‘ تو انہوں نے بداھۃ جان لیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔
(٢) ائمہ ماوراء النہر (دریائے آمور کے پار ‘ وسطی ایشیا کی ریاستوں ‘ مثلاً بلخ ‘ بخارا ‘ تاشقند ‘ سمر قند ‘ تاجکستان ‘ ازبکستان ‘ قازقستان اور ترکمانستان کے اکابر علمائ) کا قول یہ ہے کہ موسیٰ (علیہ السلام) نے درخت سے آواز سنی تو انہوں نے حسب ذیل وجوہ سے یہ جان لیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
(١) جب انہوں نے دیکھا کہ ایک درخت سے اور آگ سے آواز آرہی ہے تو انہوں نے جان لیا کہ اس پر اللہ کے سوا اور کوئی قادر نہیں ہوسکتا تو یہ ضرور اللہ کا کلام ہے ‘ لیکن یہ وجہ ضعیف ہے کیونکہ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ شیطان آگ میں یا درخت میں داخل ہوگیا تھا اور اس نے حضرت موسیٰ کو آواز دی تھی۔
(ب) وہ آواز اس قدر عظیم تھی کہ اس سے موسیٰ (علیہ السلام) نے جان لیا کہ یہ معجزہ ہے اور یہ ضرور اللہ کا کلام ہے۔ یہ وجہ تھی ضعیف ہے کیونکہ ہمیں فرشتوں اور جنات اور شیاطین کی آوازوں کا اندازہ اور علم نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں سے کسی کی آواز اس قدر عظیم ہو آخر حضرت جبریل کی ایک چیخ سے بستیاں الٹ جاتی تھیں۔
(ج) اس ندا کے ساتھ کوئی معجزہ بھی تھا جس سے حضرت موسیٰ کو یہ یقین ہوگیا کہ یہ اللہ کا کلام ہے ‘ اور ایک ہرے بھرے اور سر سبزدرخت میں سے آگ کے شعلے بھڑکتے ہوئے نکل رہے تھے اس کے باوجود وہ درخت جوں کا توں اور صحیح وسالم تھا ‘ اور ذرا بھی نہیں جلا اور یہ بھی معجزہ تھا اور اس یقین کے لیے کافی تھا ‘ کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔
(تفسیر کبیر ج ٨ ص ٥٤٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)
نبی کیسے جان لیتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ‘ اس باب میں مصنف کی تحقیق
ہمارے نزدیک تحقیق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسی قوت ادراک عطا کی ہے جس کی وجہ سے ہم پہچان لیتے ہیں کہ یہ انسان کی آواز ہے یہ کسی چرندے کی آواز ہے ‘ یہ کسی درندہ کی آواز ہے اور یہ کسی پرندہ کی آواز ہے ‘ پھر انسانوں کی آواز میں بھی ہم جان لیتے ہیں یہ فلاں انسان کی آواز ہے اور یہ فلاں انسان کی آواز ہے۔ اسی طرح چرندوں میں بھی ہم کو معلوم ہوتا ہے یہ گائے کی آواز ہے ‘ یہ بکرے کی آواز ہے ‘ اسی طرح درندوں اور پرندوں میں بھی ہم کو ان کا باہمی امتیاز معلوم ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم کو صرف عالم شہادت اور ظاہر کی آوازوں کے ادراک کی قوت دی ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کو اس سے زائد عالم غیب اور باطن کے ادراک کی قوت عطا کی ہے وہ فرشتوں کے کلام کو سنتے ہیں۔ جنات کے کلام کو سنتے ہیں ‘ شیاطین کے کلام کو سنتے ہیں اور ان کے کلام کے باہمی فرق کو پہچانتے ہیں اس لیے جب ان کے پاس پہلی بار فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو ان کو اس میں بالکل تردد نہیں ہوتا کہ یہ فرشتہ کا کلام ہے جس طرح ہمیں کسی انسان کا کلام سن کر اس کے انسان کے کلام ہونے میں بالکل شک نہیں ہوتا اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت عطا فرمائی تھی کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کا کلام سنا۔
اسی سے ملتی جلتی بات سید ابو الاعلی ٰمودودی متوفی ٩٩٣١ ھ نے بھی کہی ہے۔
سورۃ قصص میں ہے کہ ندا کی درخت سے آرہی تھی فی البقعۃ المبارکۃ من الشجرۃ اس سے جو صورت معاملہ سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وادی کے کنارے ایک خطے میں آگ سی لگی ہوئی تھی ‘ مگر نہ کچھ جل رہا تھا نہ کوئی دھواں اٹھ رہا تھا اور اس آگ کے اندر ایک ہرا بھرا درخت کھڑا تھا جس پر سے یکایک یہ ندا آنی شروع ہوئی۔
یہ ایک عجیب معاملہ ہے جو انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ پیش آتا ہے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب پہلی مرتبہ نبوت سے سرفراز کیے گئے تو غار حرا کی تنہائی میں یکایک ایک فرشتہ آیا اور اس نے اللہ کا پیغام پہنچانا شروع کردیا۔ حضرت موسیٰ کے ساتھ بھی یہی صورت پیش آئی کہ ایک شخص سفر کرتا ہوا ایک جگہ ٹھہرا ہے ‘ دور سے آگ دیکھ کر راستہ پوچھنے یا انگارا چننے کی غرض سے آتا ہے اور یکلخت اللہ رب العالمین کی ہر قیاس و گمان سے بالا ذات اس سے مخاطب ہوجاتی ہے۔ ان مواقع پر درحقیقت ایک ایسی غیر معمولی کیفیت خارج میں بھی اور انبیاء (علیہم السلام) کے نفس میں بھی موجود ہوتی ہے جس کی بنا پر انہیں اس امرکا یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ یہ کسی جن یا شیطان یا خود ان کے اپنے ذہن کا کوئی کرشمہ نہیں ہے ‘ نہ ان کے حواس کوئی دھوکا کھا رہے ہیں ‘ بلکہ فی والواقع یہ خداوند عالم یا اس کا فرشتہ ہی ہے جو ان سے ہم کلام ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص ٨٥٥‘ مطبوعہ ترجمان القرآن ‘ لاہور ‘ ٣٨٩١ ئ)
اس عبارت میں سید مودودی نے یہ تصریح کردی ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے نفوس میں ایک ایسی غیر معمولی قول ہوتی ہے جس سے انہیں یہ قین ہوجاتا ہے کہ فی الواقع یہ خداوند عالم یا اس کا فرشتہ ہی جو ان سے ہم کلام ہے ‘ اور اسی چیز کو علماء سلف اور ہم یوں تعبیر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو عقل اور نطق کے علاوہ ایک اور قوت مدر کہ عطا فرماتا ہے جس سے وہ غیب کا ادراک کرلیتے ہیں۔
امام محمد بن محمد غزالی متوفی ٥٠٥ ھ فرماتے ہیں :
ووراء العقل طور اخر تنفتح فیہ عین اخری یبصر بھا الغیب وما سیکون فی الغیب وامورا اخر العقل معزول عنھا کعزل قوۃ التمییز عن ادراک المعقولات و کعزل قوۃ الحس عن مدرکات التمییز وکما ان الممیز لوعرضت علیہ مدرکات العقل لا باھا واستبعد ھا فکذلک بعض العقلاء ابوامدر کات النبوۃ واستبعدوھا ‘ و ذلک عین الجھل۔
اور عقل کے ماوراء ایک اور عالم ہے جس میں ادراک کی ایک اور آنکھ کھلتی ہے جس سے انسان غیب کا ادراک کرتا ہے اور مستقبل میں ہونے والے امور غیبیہ اور بہت سے امور کو جان لیتا ہے ‘ جن تک عقل کی رسائی نہیں ہے۔ جیسے قوت تمیز ‘ معقولات کا ادراک نہیں کرسکتی اور جس طرح حواس قوت تمییز کے مدرکات نہیں پاسکتے۔ (اسی طرح عقل ‘ قوت ادراک غیب کے مدرکات کو نہیں پاسکتی) اور جس طرح صاحب تمیز کے سامنے عقل کے مدرکات پیش کیے جائیں تو وہ ان کو بعید سمجھ کر ان کا انکار کرتا ہے اسی طرح بعض عقل والوں کے سامنے نبوت کے مدرکات پیش کیے گئے تو انہوں نے ان کا انکار کردیا اور یہ خالص جہالت ہے۔
امام غزالی نے اس عبارت میں یہ واضح کردیا ہے کہ جس طرح حواس کے بعد تمییز کا مرتبہ ہے اور تمییز کے بعد عقل کا مرتبہ ہے ‘ اسی طرح عقل کے بعد نبوت کا مرتبہ ہے اور جس طرح قوت عقلیہ سے معقولات کا ادراک ہوتا ہے اسی طرح نبوت کی قوت سے مغیات کا ادراک ہوتا ہے اور جس طرح عام حیوانات کو اللہ تعالیٰ نے حواس کی قوت عطا کی ہے اور انسان کو اس سے ایک زائد قوت عطا کی ہے اور وہ عقل اور تمییز ہے اسی طرح نبی کو اللہ تعالیٰ نے ان قوتوں سے زائد ایک قوت عطا کی ہے جس قوت سے وہ غیب کا ادراک کرتا ہے اور جس طرح انسان عالم محسوسات میں ظاہری چیزوں کو دیکھتا ہے اور ان کی آوازیں سنتا ہے ‘ حیوانات اور انسانوں کو دیکھتا ہے اور ان کی آوازیں سنتا ہے اسی طرح نبی غیب کی مخفی چیزوں کو دیکھتا ہے فرشتوں اور جنات کو دیکھتا ہے ان کی آوازیں سنتا ہے اور ان سے ہم کلام ہوتا ہے۔ اور اس سے یہ واضح ہوگیا کہ نبی اپنی حقیقت میں عام بشر اور انسان سے ممتاز ہوتا ہے اور جس طرح انسان عام حیوانوں سے خاص ہے نبی عام انسانوں سے خاص ہوتا ہے۔ (المنقد من الضلال ص ٤٥‘ مطبوعہ ھیئۃ ‘ الاوقاف لاہور ‘ ١٧٩١ ئ)
نبی کو ابتداء نبوت میں اپنے نبی ہونے کا علم ہوتا ہے یا نہیں ‘ اس باب میں سید مودودی کا نظریہ اور اس پر مصنف کا تبصرہ
تفہیم القرآن میں سید مودودی نے یہ تصریح کی ہے کہ جب نبی کے پاس فرشتہ وحی لے کر آتا ہے تو اس کو اس کے فرشتہ ہونے اور وحی کے کلام الہٰی ہونے کا یقین ہوتا ہے اور اس پر شرح صدر ہوتا ہے لیکن ان کی آخری کتاب سیرت سرور عالم ہے اور اس میں انہوں نے اس کے خلاف لکھا ہے ‘ سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جب غار حرا کی تنہائی میں فرشتہ آیا اور آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی اور سورة العلق کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے اور نزول وحی کی اس روایت کا تجزیہ کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں :
نزول وحی کی کیفیت کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے پہلے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اچانک اس صورت حال سے سابقہ پیش آیا تھا۔ آپ کو اس سے پہلے کبھی یہ گمان بھی نہ گزرا تھا کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ نہ اس کی کوئی خواہش آپ کے دل کے کسی گوشے میں موجود تھی۔ نہ اس کے لیے کوئی تیاری آپ پہلے سے کررہے تھے اور نہ اس کے متوقع تھے کہ ایک فرشتہ اوپر سے پیغام لے کر آئے گا۔ آپ خلوت میں بیٹھ بیٹھ کر مراقبہ اور عبادت ضرور فرماتے تھے لیکن نبی بنائے جانے کا کوئی تصور آپ کے حاشیہ خیال میں بھی نہ تھا۔ اس حالت میں جب یکایک غار حرا کی اس تنہائی میں فرشتہ آیاتو آپ کے اوپر اس پہلے عظیم اور غیر معمولی تجربے سے وہی گھبراہٹ طاری ہوئی جو لا محالہ ایسے حالات میں ایک بشر پر طاری ہونی چاہیے ‘ قطع نظر اس سے کہ وہ کیسا ہی عظیم الشان بشر ہو۔ یہ گھبراہٹ بسیط نہیں بلکہ مرکب نوعیت کی تھی۔ طرح طرح کے سوالات حضور کے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے جنہوں نے طبع مبارک کو سخت خلجان میں مبتلا کردیا تھا۔ کیا واقعی میں نبی ہی بنایا گیا ہوں ؟ کہیں مجھے کسی سخت آزمائش میں تو نہیں ڈال دیا گیا۔ یہ بار عظیم آخر میں کیسے اٹھائوں گا ؟
اس عبارت کی وضاحت کرتے ہوئے سید مودودی نے اس کے حاشیہ میں لکھا ہے :
بے نظیر شخصیت کے مالک ہونے پر بھی وہ ذات عجب و خود پسندی سے اس درجہ خالی تھی کہ جب آپ نبوت کے منصب عظیم پر یکایک مامور کردیئے گئے اس وقت بھی کافی دیر تک آپ کو یہ اطمینان نہ ہوتا تھا کہ دنیا کے کروڑوں انسانوں میں سے تنہا ایک میں ہی اس قابل ہوں کہ اس منصب کے لیے رب کائنات کی نگاہ انتخاب میرے اوپر پڑے۔
اور اپنی عبارت کا تسلسل قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
یہ بار عظیم آخر میں کیسے اٹھائوں گا ؟ لوگوں سے کیسے کہوں کہ میں تمہاری طرف نبی مقرر ہوا ہوں ؟ لوگ میری بات کیسے مان لیں گے ؟ آج تک جس معاشرے میں عزت کے ساتھ رہا ہوں۔ اب اسی معاشرے کے لوگ میرا مذاق اڑائیں گے اور مجھے دیوانہ کہیں گے اس جاہلیت کے ماحول سے آخر میں کیسے لڑسکوں گا ؟ غرض اس طرح کے نہ معلوم کتنے سوالات ہوں گے جو آپ کو پریشان کررہے ہوں گے۔
اسی وجہ سے جب آپ گھر پہنچے تو کا نپ رہے تھے۔ جاتے ہی فرمایا کہ ” مجھے اڑھا دو ‘ مجھے اڑھادو۔ “ گھر والوں نے آپ کو اڑھا دیا۔ کچھ دیر کے بعد جب ذرادل ٹھہرا تو سیدہ خدیجہ کو سارا واقعہ سنایا اور فرمایا :
لقد حشیت علی نفسی ” مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے “ (سیرت سرور عالم ج ص ٦٣١‘ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور ‘ ٩٨٩١ ئ)
اس عبارت کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتہ کے وحی لانے سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نبی ہونے کا معاملہ یا مبعوث ہونے کا علم تو الگ رہا ‘ سورة علق کی ابتدائی پانچ آیتوں کے نازل ہونے کے بعد بھی حضور کو جبریل کا علم ہوا نہ وحی اور قرآن کا نہ اپنے نبی اور صاحب کتاب ہونے کا !
سوال یہ ہے کہ جب حضور کی نبوت کی پہلی بنیاد ہی شک پر رکھی گئی تو بعد میں جا کر کون سی ایسی نئی چیز سامنے آئی تھی جس کے سبب سے یہ شک یقین سے بدل گیا جو جبریل پہلی باروحی لے کر آیا وہی جبریل اخیر وقت تک وحی لاتا رہا جس قسم کے کلام کو اس نے پہلی بار پیش کیا اسی قسم کا کلام اخیر وقت تک پیش کرتارہا ‘ کوئی نئی چیز اس دوران رونما نہیں ہوئی۔ وہی حضور تھے ‘ وہی جبریل اور وہی قرآن ! پھر کیا سبب ہے کہ پہلی پانچ آیتوں کا قرآن ہونا حضور کے نزدیک مشکوک ہو اور باقی آیتوں کا قرآن ہونا یقینی ہو ‘ پہلی مرتبہ جبریل کو اللہ کا فرستادہ یقین نہ کیا ہو ‘ پھر کرلیا ہو ‘ پہلے اپنے نبی ہونے کا یقین نہ وہ پھر کرلیا ہو ؟۔۔۔۔۔ !
پھر ایسے میں کوئی شخص یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ جس شخص پر قرآن نازل ہوا جب اس کو ہی ابتداء میں اس کلام کے وہی الہٰی ہونے کا یقین نہیں تھا تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم اس کلام کو کلام خداوندی اور اس شخص کو صاحب کتاب نبی مانیں۔ یاد رکھیے اگر ایک منٹ کے لیے بھی یہ تسلیم کرلیا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو وحی کے بارے میں شک ہوسکتا ہے تو تمام وحی مشکوک ہوجائے گی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت ‘ قرآن اور اسلام ان میں سے کوئی چیز بھی یقینی نہیں رہے گی۔۔
نزول قرآن سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی نہ تھے اور نہ ہی آ پکو بعثت کا علم تھا ‘ اس پر استدلال کرتے ہوئے مودودی صاحب لکھتے ہیں :
وما کنت ترجوآ ان یلقی الیک الکتب۔ (القصص : ٦٨) اور تم ہرگز اس کے امیدوار نہ تھے کہ تم پر کتاب نازل کی جائے۔
ماکنت تدری مالکتب ولا الایمان۔ (الشوریٰ : ٢٥) تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہوتا ہے۔
یہ آیات اس بات میں بالکل قطعی الثبوت ہیں کہ نبوت کے منصب پر سرفراز ہونے سے پہلے آپ اس بات سے بالکل بیخبر تھے کہ آپ نبی بنائے جانے والے ہیں۔ (سیرت سرور عالم ج ٢ ص ٨٠١‘ مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور ‘ ٩٨٩١ ئ)
آیات تو تمام قرآن کی قطعی الثبوت ہیں۔ غالباً سید مودودی صاحب قطعی الد لالۃ کہنا چاہتے تھے یعنی یہ آیات اس بات پر قطعی دلالت کرتی ہیں کہ نزول قرآن سے پہلے حضور کو نبوت کا علم نہیں تھا لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے چناچہ پہلی آیت کریمہ وماکنت ترجوا کی تفسیر میں حبرالامت حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں ‘ اس آیت میں بظاہر خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن مراد آپ کی امت ہے ‘ یعنی آپ کی امت کو یہ توقع نہ تھی کہ انکو یہ کتاب عطا کی جائے گی ‘ حضرت ابن عباس کی یہ روایت علامہ خازن نے ذکر کی ہے ‘ فرماتے ہیں :
قال ابن عباس الخطاب فی الظاھر للنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) والمرادبہ اھل دینہ۔ (تفسیر خازن ج ٣ ص ٤٤٤) حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کہ یہ خطاب بظاہر حضور کو ہے اس سے مراد آپ کی امت ہیں۔
علامہ ابو البرکات نفسی حنفی نے بھی اس روایت کو اپنی تفسیر مدارک التنزیل (علی ھامش الخازن ج ٣ ص ٤٤٤) میں اسی مقام پر ذکر کیا ہے۔
حضرت ابن عباس کی اس روایت سے بہر حال یہ ثابت ہوگیا کہ یہ آیت قطعی الد لالۃ نہیں ہے اور اس روایت سے قطع نظر کر کے اس بات پر اصرار کیا جائیکہ یہ خطاب حضور ہی سے ہے۔ تب بھی مودودی صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا۔
کیونکہ مودودی صاحب نے آیت کا ایک اہم حصہ چھوڑ دیا جس سے پوری بات صاف ہوجاتی ہے ‘ پوری آیت اس طرح ہے۔
وماکنت ترجوآ ان یلقی الیک الکتب الا رحمۃ من ربک۔ (القصص : ٦٨) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سوا آپ اور کسی سبب سے کتاب ملنے کی امید نہیں رکھتے تھے۔
کانہ قیل وما القی الیک الکتاب الا رحمۃ من ربک ویمکن ایضا اجزاء ہ علی ظاھرہ ای وما کنت تر جوا الا ان یرحمک اللہ برحمتہ فینعم علیک بذلک ای ما کنت ترجوا الا علی ھذا۔ (تفسیر کبیر ج ٦ ص ٢٦٤‘ طبع قدیم)
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا کہ آپ پر کتاب صرف اللہ کی رحمت سے نازل ہوئی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ آیت کا ظاہری معنی مراد ہو ‘ یعنی آپ کو صرف اللہ کی رحمت سے توقع تھی کہ وہ آپ پر یہ کتاب نازل فرمائے گا۔
پس ثابت ہوا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کتاب ملنے کی امید تھی لیکن یہ امید صرف اللہ کی رحمت سے وابستہ تھی کیونکہ نہ تو حضرت ہارون (علیہ السلام) کی طرح آپ کو کسی کی دعا سے نبوت ملی نہ حضرت یحییٰ و سلیمان (علیہما السلام) کی طرح بطور میراث نبوت حاصل ہوئی۔ خلاصہ یہ کہ آپ کی نبوت پر کوئی ظاہری قرینہ یا کوئی دنیاوی سبب نہ تھا صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رحمت سے آپ کو نبوت حاصل ہوئی۔
قرآن کریم کی جس دوسری آیت سے سید مودودی صاحب نے استدلال کیا ہے وہ یہ ہے :
ماکنت تدری مالکتب ولا الایمان۔ (الشوریٰ : ٢٥) تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہوتا ہے۔
سید مودودی صاحب کے کہنے کے مطابق اس آیت کو اگر ظاہری معنی پر محمول کیا جائے تو لازم آئے گا کہ نزول قرآن سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معاذ اللہ صاحب ایمان بھی نہ تھے ‘ کیونکہ جب آپ کو ایمان کا علم ہی نہ تو آپ مومن کیسے ہوسکتے تھے اور یہ بار گاہ نبوت میں بیادبی کی ایسی جسارت ہیجس سے مومن کا قلب لرز جاتا ہے نیز اہل علم نے اس آیت کو ظاہری معنی پر محمول نہیں کیا ‘ علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ اس بات پر اجماع ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) بعثت سے پہلے مومن ہوتے تھے اور محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جبریل کے وحی لانے سے پہلے قرآن کریم کا اجمالی علم حاصل تھا۔ (روح المعانی جز ٥٢ ص ٨٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)
اس آیت کے علماء نے بہت سے جوابات ذکر کیے ہیں لیکن بہترین جواب یہ ہے کہ اس آیت میں درایت کی نفی کی گئی ہے اور درایت کہتے ہیں قیاس اور اندازہ سے کسی چیز کے جاننے کو ‘ اس لحاظ سے آیت کا مطلب یہ ہے کہ نزول قرآن سے پہلے آپ ایمان اور کتاب کو قیاس اور اندازہ سے نہیں جانتے تھے ‘ یعنی آپ کو جو کچھ اس بارے میں علم تھا وہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا علم تھا ‘ قیاس اور انداہ نہیں تھا ‘ رہا یہ کہ آپ پہلے سے نبی تھے یا چالیس سال بعد نبی بنے تھے ‘ اس بارے میں علامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو پیدا ہوتے ہی نبوت عطا ہوئی اور حضرت یحییٰ دو تین سال کی عمر میں نبوت عطا فرمائی یحییٰ خذ الکتاب بقوۃ واتینہ الحکم صبیا ” اے یحییٰ ! پوری قوت کے ساتھ کتاب لے لو اور ہم نے انہیں بچپن میں ہی نبوت دی۔ “ تو جب حضرت یحییٰ کو کم سنی میں اور حضرت عیسیٰ کو پیدا ہوتے ہی نبوت مل سکتی ہے تو وہ کیونکر پیدائش کے وقت نبوت سے محروم ہوں گے جو اللہ کے محبوب ہیں اور جن کے صدقہ سے اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو نبوت عطا فرمائی ہے۔ (روح المعانی جز ٥٢ ص ٠٦)
اور امام ترمذی نے اپنی صحیح سند کے ساتھ یہ حدیث بیان کی ہے :
عن ابی ہریرہ قال قالوا یارسول اللہ متی وجبت لک النبوۃ قال وادم بین الروح والجسد۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کو نبوت کب ملی تھی ‘ فرمایا جب آدم روح اور جسم کے درمیان تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٩٠٦٣‘ المستدرک ج ٢ ص ٩٠٦‘ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٠٣١)
شیخ اشرف علی تھانوی صاحب نے بھی نشر الطیب کی ابتداء میں یہ ثابت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت آدم (علیہ السلام) کی پیدائش سے پہلے وصف نبوت بلکہ ختم نبوت کا مرتبہ حاصل ہوچکا تھا ‘ البتہ نبوت کا ظہور حضور کی جسمانی پیدائش کے چالیس سال بعد ہوا ہے۔
شیخ تھانوی لکھتے ہیں :
اور اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس وقت (عالم ارواح میں۔ سعیدی غفرلہ) ختم نبوت کے ثبوت کے بلکہ خود نبوت ہی کے ثبوت کے کیا معنی کیونکہ نبوت آپ کو چالیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور چونکہ آپ سب انبیاء کے بعد میں مبعوث ہوئے ‘ اس لیے ختم نبوت کا حکم کیا گیا ‘ سو یہ وصف تو خود تاخر کو مقتضی ہے ‘ جواب یہ ہے کہ یہ تاخر مرتبہ ظہور میں ہے ‘ مرتبہ ثبوت میں نہیں جیسے کسی کو تحصیل داری کا عہدہ آج مل جائے اور تنخواہ بھی آج ہی سے چڑھنے لگے مگر ظہور ہوگا کسی تحصیل میں بھیجے جانے کے بعد۔ ٢١ (نشرالطیب ص ٧ )
اس بحث کے اخیر میں ہم بڑے رنج اور کرب کے ساتھ ابتدائے وحی کی حدیث کی تشریح میں نبوت کے بارے سید مودودی کی یہ عبارت پیش کررہے ہیں :
اگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پہلے سے نبی بننی کی فکر میں ہوتے ‘ اپنے متعلق یہ سوچ رہے ہوتے کہ مجھ جیسے آدمی کو نبی ہونا چاہیے ‘ اور اس انتظار میں مراقبے کر کر کے اپنے ذہن پر زور ڈال رہے ہوتے کہ کب کوئی فرشتہ آتا ہے اور میرے پاس پیغام لاتا ہے ‘ تو غار حرا والا معاملہ پیش آتے ہی آپ خوشی سے اچھل پڑتے اور بڑے دم دعوے کے ساتھ پہاڑ سے اتر کر سیدھے اپنی قوم کے سامنے پہنچتے اور اپنی نبوت کا اعلان کردیتے لیکن اس کے برعکس یہاں حالت یہ ہے کہ جو کچھ دیکھا تھا اس پر ششدر رہ جاتے ہیں ‘ کا پنتے اور لرزتے ہوئے گھر پہنچتے ہیں ‘ لحاف اوڑھ کر لیٹ جاتے ہیں ‘ ذرا دل ٹھہرتا ہے تو بیوی کو چپکے سے بتاتے ہیں کہ آج غار حرا کی تنہائی میں مجھ پر یہ حادثہ گزرا ہے ‘ معلوم نہیں کیا ہونے والا ہے ‘ مجھے اپنی جان کی خیر نظر نہیں آتی۔ یہ کیفیت نبوت کے کسی امیدوار کی کیفیت سے کس قدر مختلف ہے ؟
پھر بیوی سے بڑھ کر شوہر کی زندگی ‘ اس کے حالات اور اس کے خیالات کو کون جان سکتا ہے ؟ اگر ان کے تجربے میں پہلے سے یہ بات آتی ہوئی ہوتی کہ میاں نبوت کے امیدوار ہیں اور ہر وقت فرشتے کے آنے کا انتظار کررہے ہیں تو ان کا جواب ہرگز وہ نہ ہوتا جو حضرت خدیجہ نے دیا۔ وہ کہتیں کہ میاں گھبراتے کیوں ہو ‘ جس چیز کی مدتوں سے تمنا تھی وہ مل گئی ‘ چلو اب پیری کی دکان چمکائو ‘ میں بھی نذرانے سنبھالنے کی تیاری کرتی ہوں۔ (سیرت سرور عالم ج ٢ ص ٧٣١‘ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
نبی بنائے جانے کا پہلے علم ہو یا نہ ہو ‘ اس عبارت کے مطابق سید ابو اعلیٰ کے نزدیک نبوت تو بہر حال پیری کی دکان چمکانے اور نذرانے سنبھالنے سے عبارت ہے۔ العیاذ باللہ۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 9
[…] ج ٢ ص ٩٠١۔ ٨٠١‘ ج ٢ ص ٨٣١۔ ٦٣١ میں بھی لکھی ہے ‘ ہم نے النمل : ٩ میں اس مکمل عبارت کو نقل کیا ہے اور اس پر سیر حاصل بحث […]