وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡهُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُـكُمۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ لَا نَبۡتَغِى الۡجٰهِلِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 55
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاِذَا سَمِعُوا اللَّغۡوَ اَعۡرَضُوۡا عَنۡهُ وَقَالُوۡا لَنَاۤ اَعۡمَالُنَا وَلَـكُمۡ اَعۡمَالُـكُمۡ سَلٰمٌ عَلَيۡكُمۡ لَا نَبۡتَغِى الۡجٰهِلِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ‘ تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں ‘ ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں ‘ تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔ بیشک آپ جس کو پسند کریں اس کو ہدایت یافتہ نہیں بنا سکتے ‘ لیکن اللہ جس کو چاہے اس کو ہدایت یافتہ بنا دیتا ہے ‘ اور وہ ہدایت پانے والوں کو خوب جانتا ہے۔ القصص : ۵۶۔ ٥٥ )
کفار کی لغو اور بےہودہ باتیں
اور وہ اہل کتاب جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت سے پہلے اور قرآن مجید کی نزول سے پہلے یہ عزم رکھتے تھے کہ جب آپ کی بعثت ہوگی اور قرآن مجید نازل ہوگا تو وہ آپ پر اور قرآن کریم پر ایمان لے آئیں گے ‘ جب یہودیوں سے کوئی بےہودہ اور لغو بات سنتے ہیں تو ان سے اعراض کرتے ہیں اور اسلام کرکے ان سے رخصت ہوجاتے ہیں۔
مجاہد اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ جو یہودی اسلام لا چکے تھے جب ان کے پاس سے دوسرے یہودی گزرتے تو ان کو سب وشتم کرتے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ان آیات کو نازل کیا۔
زیدبن اسلم اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ یہودی اپنے ہاتھوں سے تورات میں کچھ لکھ لیتے تھے پھر کہتے تھے کہ یہ آیت اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے تو جو اہل کتاب اسلام لانے کا عزم رکھتے تھے جب ان کے پاس سے گزرتے اور ان کی محرف آیات کو سنتے تو ان سے اعراض کرتے تھے اور یہ اس وقت کی بات ہے جب وہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان نہیں لائے تھے ‘ سہ اس وقت حضر عیسیٰ (علیہ السلام) کے دین پر تھے ‘ کیونکہ انہوں نے کہا تھا انا کنا من قبلہ مسلمین ( القصص : ٣٥) ہم تو اس سے پہلے ہی مسلمان ہوچکے تھے اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت ہوئی تو وہ پھر آپ پر ایمان لے آئے اور ان کے لیے دگنا اَجر ہے کیونکہ انہوں نے پہلی بار صبر کا ے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اسلام میں داخل ہوگئے ،
ضحاک اور مکحول نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ جب وہ مشرکین سے شرکیہ کلمات سنتے تو ان سے اعراض کرتے۔(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٩ ص ٣٩٩٢۔ ٢٩٩٢‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ‘ ٧١٤١ ھ)
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٠١٣ ھ اپنے سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
مجاہد نے کہا بعض ایل کتاب مسلمان ہوگئے تو مشرکین ان کو ایزاء پہنچاتے تھے وہ ان سے درگزر کرتے ہوئے یہ کہتے تھے تمہیں سلام ہو ‘ ہم جاہلوں سے الجھنا نہیں چاہتے۔
وہ ان سے اعراض کرتے تھے ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ وہ ان کی باتوں کو غور سے نہیں سنتے تھے ‘ اور ان کو ملائمت سے یہ جواب دیتے تھے کہ تمہارے لیے تمہارے اعمال اور ہمارے لیے ہمارے اعمال ہیں : یعنی ہم وہ عمل کرتے ہیں جو ہم کو پسند ہیں اور تم وہ عمل کرتے ہو جو تم کو پسند ہیں ‘ سلام علیکم ! یعنی ہماری طرف سے تم امن اور سلامتی میں ہو ‘ ہم تم کو سب وشتم نہیں کریں گے ‘ کیا کبھی تم نے ہم سے کوئی ناگوار یا ناشائستہ بات سنی ہے ؟ ہم جاہلوں سے الجھنا اور جھگڑنا نہیں چاہتے۔ (جامع البیان جز ٠٢ ص ٢١١‘ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)
سلام کی دو قسمیں سلام متارکہ اور سلام تحیت ‘ اور علامہ آلوسی کی غلط نقل اور اس کا رد
اس آیت میں فرمایا تمہیں سلام ہو۔
علامہ ابوالحیان اندلسی متوفی ٤٥٧ ھ نے فرمایا یہ سلام متارکہ ہے ‘ سلام تحیت نہیں ہے ‘ یعنی یہ کسی کی تعظیم کرنے کے لیے سلام نہیں ہے ‘ بلکہ اس سے تعلق منقطع کرنے کے لیے سلام ہے۔ (البحر الحیط ج ٨ ص ٥١٣‘ دارالفکر بیرت ‘ ٢١٤١ ھ)
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ نے امام ابوبکر جصاص کی طرف سے منسوب کیا ہے کہ انہوں نے اس آیت سے کافروں کو ابتداء سلام کرنے کو جواز پر استدلال کیھا ہے حالانکہ امام ابوبکر جصاص نے اس نظریہ کا رد کا ے ہے۔ ہم پہلے علامہ آلوسی کی عبارت نقل کریں گے اس کے بعد امام جص اس کی عبارت نقل کریں گے۔
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ٠٧٢١ ھ لکھتے ہیں :
اسلام لانے والے اہل کتاب نے جو یہودیوں کو سلام علیکم کہا یہ سلام تودیع ہے ‘ سلام تحیت نہیں ہے ‘ یا یہ سلام متارکہ ہے ‘ جیسا کی الفرقان : ٣٦ میں ہے ‘ اور جو بھی ہو اس آیت میں کافر کو ابتداء سلام کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے جیسا کہ جصاص نے کہا ہے ‘ کیونکہ اس سلام سے غرض صرف متارکہ یا تودیع ہے۔ ( روح المعانی ج ٠٢ ص ٢٤١‘ دارالفکر بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)
میں نے جب روح المعانی میں یہ پڑھا تو میں حیران ہوا کی امام ابوبکر جصاص بہت بڑے حنفی عالم ہیں اور رتبہ اجتہاد کو پہنچتے ہیں ‘ وہ صریح حدیث کے خلاف کیسے لکھ سکتے ہیں ؟ پھر میں نے امام جصاص کی تفسیر کو دیکھا تو انہوں نے علامہ آلوسی کی نقل کردہ عبارت کے بالکل خلاف اور الٹ لکھا ہوا ہے۔
امام ابوبکر احمد بن علی الرازی الجصاص الحنفی المتوفی ٠٧٣ ھ لکھتے ہیں :
مجاہد نے کہا کہ بعض اہل کتاب مسلمان ہوگئے ان کو مشرکین نے اذیت پہنچائی تو انہوں نے درگزر کیا اور کہا تم کو سلام ہو ‘ ہم جاہلوں سے بحث کرنا نہیں چاہتے۔
امام ابوبکر نے کہا یہ سلام متارکہ ہے ‘ یہ سلام تحیت نہیں ہے۔ یہ آیت کی مثل ہے : واذاخاطبھم الجاھلون قالو اسلاما۔ اور اس کی مثل ہے : واھجرنی ملیا۔ (مریم : ٦٤) جا ایک لمبی مدت تک مجھ سے الگ رہ۔
اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا :
قال سلم علیک ج سا ستغفر لک ربی ط۔ (مریم : ۴۷) ابراہیم نے کہا ‘ تم پر سلام ہو ‘ میں اپنے رب سے تمہاری مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔
اور بعض لوگوں نے اس آیت سے یہ گمان کیا ہے کہ کافر کو ابتداء سلام کرنا ے جائز ہے ‘ حالانکہ اس طرح نہیں ہے ‘ کیونکہ سلام کے دو معنی ہیں ایک مسالمہ ہے یعنی کسی کو ترک کرنے اور اس کو چھوڑنے کے لیے سلام کرنا اور دوسرا سلام تحیت ہے یعنی کسی کی تعظیم کے لیے سلام کرنا ‘ اور اس کے لیے امن اور سلامتی کی دعا کرنا ‘ جیسے مسلمان ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر چھ حق ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب اس سے ملاقات ہو تو اس کو سلام کرے۔ ( اس حدیث کی تخریج حسب ذیل ہے)
حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک مسلمان کے لیے دوسرے مسلمان پر چھ نیکیاں ہیں :
(١) جب اس سے ملاقات ہو تو اس کو سلام کرے۔
(٢) جب وہ دعوت دے تو اس کی دعوت کو قبول کرے۔
(٣) جب اس کو چھینک آئے تو اس کی چھینک کا جواب دے۔ ( جب وہ الحمدللہ کہے تو کہے یرحمک اللہ)
(٤) جب وہ بیمار ہو تو اس کی عیادت کرے۔
(٥) جب وہ مرجائے تو اس کے جنازہ میں جائے۔
(٦) اس کے لیے اسی چیز کو پسند کرے جس کو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔
(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٤١‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٣ ص ٥٣٢‘ مسند احمد ج ١ ص ٩٨۔ ٨٨‘ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٦٣٦٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٣٧٢‘ مسند البز اور رقم الحدیث : ٠٥٨‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٥٣٤‘ سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للا لبانی رقم الحدیث : ٣٧)
اور حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہود و نصاریٰ کو ابتداء سلام نہ کرو۔ ( الحدیث) صحیح مسلم رقم الحدیث :: ٧٦١٢‘ سنن ابی داؤد رقم الحدیث : ٥٠٢٥‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠٦١ )(احکام القرآن ج ٣ ص ٩٤٣‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور ‘ ٠٠٤١ ھ)
اس اقتباس سے معلوم ہوا کہ علامہ آلوسی نے امام جصاص کی طرف منسوب کرکے جو لکھا ہے کہ وہ اس آیت سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ کفارکو ابتداء سلام کرنا جائز ہے ‘ ان کی یہ نقل صحیح نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 55