وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)

ترجمۂ  کنزالایمان: اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ پر ہواس پر زور کا پانی پڑا تو دُونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینھ اسے نہ پہنچے تو اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

ترجمۂ  کنزالعرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہواس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

{اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ: جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔} اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہے۔جو خالصتاً رضائے الہٰی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالٰی اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے نہ کہ فقط مال کی مقدار ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالٰی تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))